https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 4 August 2024

قزع

 سر کے کچھ بال کاٹنا اور کچھ چھوڑدینا منع ہے، اسے حدیث میں ’’قزع‘‘ سے تعبیر کرکے اس کی ممانعت کی گئی ہے، اور "قزع" کی مختلف صورتیں ہیں، حاصل ان کا یہی ہے کہ سر کے بال کہیں سے کاٹے جائیں اور کہیں سے چھوڑدیے جائیں، اس طرح کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

سر کے بالوں کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ یا تو سر کے پورے بال رکھے جائیں یا پورے کاٹے جائیں ۔

البتہ  بالوں کی تحدید کے لیے گدی سے بال کاٹے جائیں یا حلق کیا جائے تو یہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہے، اسی طرح کان کے اطراف کے بال جو کان پر لگ رہے ہوں، انہیں برابر کرنے کے لیے اطراف سے معمولی بال کاٹ لینا جیسا کہ عام طور پر اس کا معمول ہے کہ سر کے بالوں کو متعین کرنے اور اس کو دوسرے سے جدا کرنے کے لیے کان کے اوپر بلیڈ لگاتے ہیں تو اس کی گنجائش ہے۔ تاہم یہ خیال رہے کہ زیادہ اوپر سے بلیڈ نہ لگایا جائے ورنہ ”قزع“ میں داخل ہوگا، حاصل یہ ہے کہ سر کے اطراف کے بال اگر اس طرح کاٹے جائیں کہ ان کی وجہ سے سر کے اس حصہ کے بال کم اور باقی سر کے بال بڑے ہوں تو یہ درست نہیں ہے، اور اگر سر کے تمام بالوں برابر ہوں اور اطراف سے تحدید کے لیے انہیں برابر کیا جائے تو یہ جائز ہے۔

 سنن ابی داؤد  میں ہے:

"عن ابن عمر: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- رأى صبيا قد حلق بعض شعره، وترك بعضه، فنهاهم عن ذلك، وقال: احلقوا كله أو اتركوا كله."

(کتاب الترجل، باب في الذؤابة،ج:6،ص:261،ط:الرسالة العالمیة)

ترجمہ:" حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نےایک بچہ کو دیکھا کہ اس کے سر کے بعض حصے کے بال مونڈے ہوئے اور بعض حصے میں بال چھوڑ دیے گئے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ،اور  ارشاد فرمایا کہ  ؛"(اگر بال مونڈنا ہو تو) پورے سر کے بال مونڈو ( اور اگر بال رکھنے ہوں تو) پورے سر پر بال رکھو۔"

بذل المجھود میں ہے:

"عن ابن عمر: أن النبي - صلى الله عليه وسلم - نهى عن القزع) ثم فسر ذلك (وهو أن يحلق رأس الصبي، ويترك له) من شعره (ذؤابة). قلت: وليس هذا مختصا بالصبي، بل إذا فعله كبير يكره (3) له ذلك، فذكر الصبي باعتبار العادة الغالبة."

(كتاب الترجل، باب في الصبي له ذؤابة،ج:12،ص:220،ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية،الهند

No comments:

Post a Comment