https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday, 16 November 2024

نجاست غلیظہ اور خفیفہ کی مقدار کتنی معاف ہے

  اگر بدن یاکپڑےپر لگنے والی نجاست غلیظہ ہواور نجاست غلیظہ پتلی اور بہنے والی نجاست ہو، جیسے: آدمی کا پیشاب وغیرہ،تو ایسی صورتِ میں پھیلاؤ کا اعتبار ہے، لہذا اگر پھیلاؤ میں ہتھیلی کی گہرائی کے برابر ہے،اوروہ ایک درہم کی مقدار  (یعنی ہاتھ کی ہتھیلی کے گڑھے) سے کم یا ایک درہم کے برابر  ہو تو اگرچہ اس مقدارمیں بھی نجاست کو دھولینا چاہیے، تاہم  اگرکسی کےجسم پراس سےزیادہ ناپاکی لگی ہواوراسےعلم ہوتوناپاکی کی حالت میں نماز پڑھنا مکروہ ہے،لیکن اگراسےناپاکی کاعلم نہ تھااورنماز پڑھ لی توبلاکراہت نماز درست ہوگی،اوراگرایک درہم کی مقدار سے زائد ہوتو   نماز نہیں ہوگی،اگر نجاست غلیظہ گاڑھی ہے، جیسے: پاخانہ وغیرہ تو وزن کا اعتبار ہوگا، لہذا اگر وزن میں ساڑھے چار ماشہ یا اس سے کم ہو، تو معاف ہے، اگر اس مقدار سے زائد ہو، تو معاف نہیں ہے  اور اگربدن یاکپڑےپرلگنےوالی نجاست ِ خفیفہ ہو،جیسے:حرام پرندوں کی بیٹ وغیرہ،تو  بدن یاکپڑےکےجس حصے میں لگی ہو اگر اس حصے کے چوتھائی  سے کم ہو تو معاف ہے،یعنی لاعلمی میں نماز پڑھنے کی صورت میں نماز ہوجاۓ گی، ورنہ جان بوجھ کر پڑھنا مکروہ ہےاور اگر  چوتھائی یا اس سے زیادہ ہو تو معاف نہیں ، نماز توڑ کر نجاست کودھو کرنمازادا کرناواجب ہے،اور اگر اسی طرح نماز پڑھ لی تو  نماز واجب الاعادہ  ہوگی۔ 

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وهي نوعان (الأول) المغلظة وعفي منها قدر الدرهم واختلفت الروايات فيه والصحيح أن يعتبر بالوزن في النجاسة المتجسدة وهو أن يكون وزنه قدر الدرهم الكبير المثقال وبالمساحة في غيرها وهو قدر عرض الكف . هكذا في التبيين والكافي وأكثر الفتاوى والمثقال وزنه عشرون قيراطا وعن شمس الأئمة يعتبر في كل زمان بدرهمه والصحيح الأول. هكذا في السراج الوهاج ناقلا."

(كتاب الطهارة، الفصل الثاني في الأعيان النجسة، ج:1، ص:45، ط: دار الفكر بيروت)

Friday, 15 November 2024

اسلام میں لڑکی کی شادی کی عمر کیا ہے

  اسلام میں لڑکے یا لڑکی کے لیے شادی کی کوئی خاص عمر متعین و مقرر  نہیں کی گئی ہے، کسی بھی عمر میں شادی کرائی جاسکتی ہے، البتہ بلوغت سے پہلے لڑکے/ لڑکی خود سے شادی نہیں کرسکتے،  بلکہ  ولی  کو ان کی شادی کرانے کا حق ہوتا ہے، چناں چہ  قرآن پاک میں ہے: 

{وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ}

 اس آیت میں ان لڑکیوں کی عدت طلاق تین ماہ بیان  کی  گئی  ہے، جن کو ابھی تک حیض نہیں  آیا، ظاہر ہے کہ  عدت کا سوال طلاق کے بعد ہی  ہوسکتا ہے، اور   جب تک  نکاح  صحیح  نہ  ہو  طلاق کا کوئی احتمال ہی نہیں، اس لیے اس آیت  نے نابالغ لڑکیوں کے نکاح کو واضح طور پر جائز قرار دیا ہے، اسی طرح حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی(نکاح) چھ سال کی عمر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوئی، ہاں  مباشرت کے حوالے سے اسلام میں یہ قید لگائی گئی ہے اگر لڑکی جماع کی متحمل نہ ہو تو شوہر کو اس سے صحبت کرنے کی اجازت نہیں ہوگی،  اور اگر وہ جماع کی متحمل ہو نیز کسی مرض کا اندیشہ بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں شوہر کو اس سے صحبت کرنے  کی اجازت  ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں لڑکی کی شادی اٹھارہ سال سے کم عمر میں کرانا جائز ہے، البتہ صحبت کے حوالے سے دیکھا جائے  گا کہ اگر وہ جماع کی متحمل ہے تو پھر اس سے جسمانی صحبت  بھی جائز ہوگی۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن عائشة، قالت: تزوجني النبي صلى الله عليه و سلم و أنا بنت ست سنين، و بنى بي و أنا بنت تسع سنين."

(کتاب النکاح، ص:456، ج:1، ط:قدیمی)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و اختلفوا في وقت الدخول بالصغيرة فقيل: لايدخل بها ما لم تبلغ، و قيل: يدخل بها إذا بلغت تسع سنين، كذا في البحر الرائق. و أكثر المشايخ على أنه لا عبرة للسن في هذا الباب وإنما العبرة للطاقة إن كانت ضخمة سمينة تطيق الرجال و لايخاف عليها المرض من ذلك؛ كان للزوج أن يدخل بها، و إن لم تبلغ تسع سنين، و إن كانت نحيفةً مهزولةً لاتطيق الجماع و يخاف عليها المرض لايحلّ للزوج أن يدخل بها، و إن كبر سنّها و هو الصحيح."

(کتاب النکاح، الباب الرابع فی الأولیاء فی النکاح، ص:287، ج:1، ط:رشیدیه)