https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday, 19 June 2025

مذی کاحکم

 فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"(الجواب )  مذی ایسی نجاست غلیظہ ہے جو بہنے والی ہے اور وہ نجاست غلیظہ جو بہنے والی ہو وہ مساحت کف یعنی ہتھیلی کے گڑھے کے برابر ( ایک روپیہ کے سکہ کے برابر ) معاف ہے، لہذا مذی مساحت کف کے بقدر یا اس سے کم ہو تو اسے کم مقدار کہا جائے گا اور اگر مساحت کف سے زیادہ ہو تو اسے کثیر مقدار کہا جائے گا، اس لئے کہ اگر مذی کپڑے پر لگی ہو اور پھیلاؤ میں مساحت کف سے کم ہے اور کسی وجہ سے اس کے ساتھ نماز پڑھ لی تو نماز ہو جائے گی، اعادہ ( دہرانے ) کی ضرورت نہیں۔ مراقی الفلاح میں ہے و عفی قدر الدرهم وزنا في المتجسدة وهو عشرون قیر اطاو مساحة في المائعة وهو قدر مقعر الكف فذاك عفو من النجاسة المغلظة (مرقى الفلاح مع طحطاوي باب الانجاس والطهارة عنها ص: ۸۳) اور معافی کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ساتھ نماز پڑھ لی اور بعد میں اس قلیل نجاست کا علم ہوا تو نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے اور نماز کے دوران اس نجاست کا علم ہوا اور نماز توڑنے میں جماعت فوت ہونے کا خوف ہو تو نماز نہ توڑے، اور اگر جماعت فوت ہونے کا خوف نہ ہو یا تنہا نماز پڑھ رہا ہو اور قضاء ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو افضل یہ ہے کہ نماز توڑ دے اور نجاست زائل کر کے نماز پڑھے، قضا ہونے کا اندیشہ ہو تو نماز نہ توڑے، معافی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دھونے کو ضروری نہ سمجھے بلکہ اولین فرصت میں اسے دھو لینا چاہئے۔

طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

(قوله وعفى قدر الدرهم) أى عفا الشارع عن ذلك والمراد عفا عن الفساد به والا فكراهة التحريم باقية اجماعاً أن بلغت الدرهم وتنويها ان لم تبلغ وفرعوا على ذلك ما لو علم قليل نجاسة عليه وهو في الصلاة ففى الدرهم يجب قطع الصلوة وغسلها ولو خاف فوت الجماعة وفى الثانى يكون ذلك افضل مالم يخف فوت الجماعة بان لا یدرك جماعة اخرى والا مضى على صلوته لان الجماعة اقوى كما يمضى في المسئلتين اذا خاف فوت الوقت لان التفويت حرام ولا مهرب من الكراهة الى الحرام افاده الحلبي وغيره (طحطاوی علی مراقی الفلاح ص ۸۴ حوالہ بالا ) فقط والله اعلم بالصواب."

( کتاب الطهارات، رفیق نجاست غلیظہ کی مقدار عفو اور معافی کا مطلب، ٤ / ٥٤ - ٥٥، ط: دار الاشاعت )

مذی سے غسل واجب ہوتا ہے کہ نہیں

 میاں بیوی کے باہم بوس و کنار کے دوران عورت کی شرم گاہ سے جو پانی نکلتا ہے ، وہ عموماً مذی ہوتی ہے،  اور مذی کا حکم یہ ہے کہ اُس کے نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا، صرف وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

مذی کی تعریف یہ  ہے کہ  مذی ، پتلی سفیدی مائل (پانی کی رنگت کی طرح) ہوتی ہے اور  بعض اوقات اس کے نکلنے کا احساس بھی نہیں ہوتا، اس کے نکلنے پر شہوت قائم رہتی ہے اور جوش کم نہیں ہوتا، بلکہ شہوت میں  مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔  اور یہ مردوں سے زیادہ عورتوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کے خروج سے غسل فرض نہیں ہوتا، البتہ اس کے خروج سے وضو ٹوٹ جاتاہے، اور  نماز و دیگر عبادات، جیسے قرآن مجید کی تلاوت وغیرہ کے لیے وضو کرنا ضروری ہوتا ہے۔ 

اور اگر مذی کپڑے پر لگ جائے تو اس کا  حکم یہ ہے کہ اگر یہ ایک درہم (5.94 مربع سینٹی میٹر پھیلاؤ)سے کم مقدارمیں کپڑے پرلگی ہو تو  (اگرچہ اس مقدار کو بھی دھولیناچاہیے  تاہم ) وہ معاف ہے، یعنی  ایسے کپڑے میں نمازکراہت کے ساتھ ہوجائے گی، اوراگرایک درہم کی مقدارسےزائد لگی ہو  تو ایسے کپڑے میں نمازنہیں ہوگی۔

اور  مذی کپڑے کے جس حصے میں لگی ہو، اُس حصے کو پاک کرنے کے لیے بہتے پانی یا زیادہ پانی سے اتنا دھولیا جائے کہ تسلی ہوجائے کہ اس نجاست کا اثر زائل ہوگیا ہے۔ اگر کسی کو  اطمینان نہ ہو تو اُسے چاہیے کہ ناپاک کپڑے کو تین مرتبہ اچھی طرح دھوئے اور ہر مرتبہ دھونے کے بعد اچھی طرح نچوڑ دے کہ پانی کے قطرے ٹپکنا بند ہوجائیں، اس طرح تین مرتبہ دھونے سے وہ پاک ہوجائے گا۔

البحر الرائق میں ہے:

"وهو ماء أبيض رقيق يخرج عند شهوة لا بشهوة ولا دفق ولا يعقبه فتور وربما ‌لا ‌يحس ‌بخروجه، وهو أغلب في النساء من الرجال ... وأجمع العلماء أنه لا يجب الغسل بخروج المذي والودي كذا في شرح المهذب. وإذا لم يجب بهما الغسل وجب بهما الوضوء وفي المذي حديث علي المشهور الصحيح الثابت في البخاري ومسلم وغيرهما."

(باب موجبات الغسل، ١ / ٦٥ . ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وعفا) الشارع (عن قدر درهم) وإن كره تحريما، فيجب غسله، وما دونه تنزيها فيسن، وفوقه مبطل ... (وهو مثقال) عشرون قيراطا (في) نجس (كثيف) له جرم (وعرض مقعر الكف) وهو داخل مفاصل أصابع اليد (في رقيق من مغلظة كعذرة) آدمي، وكذا كل ما خرج منه موجبا لوضوء أو غسل مغلظ."

(كتاب الطهارة، ‌‌باب الأنجاس، ١ / ١٣٦ ط: سعيد)

Monday, 16 June 2025

مردوں کا پاؤں میں مہندی لگانا

 ہاتھوں اور پیروں پر مہندی لگانا عام حالات میں خواتین کے ساتھ خاص ہے، جب کہ مردوں کے لیے خواتین کی مشابہت اختیار کرنا اور ہاتھ پیر میں مہندی لگانا مکروہ ہے۔البتہ مجبوری کی صورت میں (مثلاً بطورِ علاج) مرد کے لیے   پاوٴں كے تلوے  میں مہندی لگانے کی اجازت ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

" قوله ( خضاب شعره ولحيته ) لا يديه ورجليه فإنه مكروه للتشبه بالنساء ".

(ج:6،ص:422،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولا ينبغي أن يخضب يدي الصبي الذكر ورجله إلا عند الحاجة ويجوز ذلك للنساء كذا في الينابيع ".

(ج:5،ص؛359،ط:رشیدیہ)

فتاوی رشیدیہ میں ہے :

"حنا کو لگانے میں تشابہ عورت کے ساتھ ہوتاہے، لہذا درست نہیں ، دوسرا علاج کرے اور پھوڑے پر رکھنا موجب مشابہت نہیں"۔

(مردوں کا مہندی لگانا ، ص:589،ط:عالمی مجلس تحفظ اسلام کراچی)

Sunday, 15 June 2025

کون والی مہندی کاحکم

 ہر قسم کی مہندی لگانا جائز ہے بشرطیکہ  مہندی میں کوئی ناپاک شے ملی ہوئی نہ ہو، مہندی لگانے کے بعد وضو اور غسل وغیرہ کا حکم یہ ہے کہ مہندی لگانے یا رنگنے سے جو رنگ لگا رہ جائے اس سے وضو اور غسل وغیرہ میں خلل نہیں آتا، البتہ اگر جمی ہوئی مہندی ہاتھ پر جمی رہ گئی تو اس پر وضو صحیح نہیں ہوگا، کیوں کہ وہ جسم پر پانی پہنچنے سے مانع ہوتی ہے۔

موجودہ دور میں بعض مہندیاں ایسی ہیں کہ لگانے کے بعد جب ہاتھ دھولیتے ہیں تو رنگ باقی رہتاہے، لیکن بعد میں جب رنگ اترنے لگتا ہے تو جھلی نما باریک تہہ چھلکا بن کر الگ ہوجاتی ہے، ایسی مہندی لگاکر وضو کرنے سے وضو ہوجائے گا؛  کیوں کہ وہ جسم تک پانی پہنچنے سے مانع نہیں ہوتی ہے بشرطیکہ نفسِ مہندی کو دھو کر زائل کرلیا ہو اور صرف رنگ باقی رہ گیا ہو۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 154):

"(ولا يمنع) الطهارة (ونيم) أي خرء ذباب وبرغوث لم يصل الماء تحته (وحناء) ولو جرمه، به يفتى.

(قوله: به يفتى) صرح به في المنية عن الذخيرة في مسألة الحناء والطين والدرن معللاً بالضرورة. قال في شرحها: ولأن الماء ينفذه لتخلله وعدم لزوجته وصلابته، والمعتبر في جميع ذلك نفوذ الماء ووصوله إلى البدن".

الفتاوى الهندية (1/ 4):

"في فتاوى ما وراء النهر: إن بقي من موضع الوضوء قدر رأس إبرة أو لزق بأصل ظفره طين يابس أو رطب لم يجز وإن تلطخ يده بخمير أو حناء جاز.

وفي الجامع الصغير: سئل أبو القاسم عن وافر الظفر الذي يبقى في أظفاره الدرن أو الذي يعمل عمل الطين أو المرأة التي صبغت أصبعها بالحناء، أو الصرام، أو الصباغ؟ قال: كل ذلك سواء يجزيهم وضوءهم إذ لايستطاع الامتناع عنه إلا بحرج، والفتوى على الجواز من غير فصل بين المدني والقروي، كذا في الذخيرة. وكذا الخباز إذا كان وافر الأظفار، كذا في الزاهدي ناقلاً عن الجامع الأصغر.

والخضاب إذا تجسد ويبس يمنع تمام الوضوء والغسل، كذا في السراج الوهاج ناقلاً عن الوجيز"