https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 2 May 2020

چلی ہے رسم کہ نہ کوئی سر اٹھا کے چلے

نئی دہلی-2 مئی( اردو لیکس)دہلی پولیس نے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا ہے۔ ظفر الاسلام خان پر سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز تبصرے کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ دہلی اسپیشل پولیس کے جوائنٹ سی پی ایل نیرج ٹھاکر نے بتایا کہ یہ معاملہ دہلی کے وسنت کنج علاقے کے ایک شخص کے ذریعہ دہلی پولیس میں درج شکایت کے تحت آئی پی سی کے سیکشن 124 اے اور 153 اے کے تحت درج کیا گیا ہے۔ وسنت کنج کے رہائشی نے پولیس سے شکایت کی ہے کہ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ، ظفر الاسلام خان کی 28 اپریل کو ٹویٹر اور فیس بک پر شائع ہونے والی پوسٹ فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔اس معاملہ کے ظفر الاسلام خان نے سوشل میڈیا پر شائع کی گئی پوسٹ کے لئے معذرت کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے باوجود پولیس نے ان کے خلاف کارروائی کی ہے اسی دوران ظفر الاسلام خان نے کہا کہ وہ ایف آئی آر کی کاپی ملنے کے بعد ہی اس معاملے پر تبصرہ کریں گے ۔

Friday 1 May 2020

ہندوستان میں مذہبی آزادی

لندن۔ 30 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) امریکی حکومت کے ایک ادارہ نے زور دیا ہے کہ انڈیا کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کی پاداش میں بلیک لسٹ کیا جائے کیونکہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت میں مذہبی آزادی بری طرح انحطاط پذیر ہے۔ امریکی پیانل کی سفارش پر نئی دہلی نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی سفارش ضرور کرسکتا ہے لیکن وہ پالیسی طئے نہیں کرتا اور ضروری نہیں کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اس کی تجویز یا سفارش پر عمل کرے۔ ہندوستان بلاشبہ امریکی حلیف ہے اور دونوں ملکوں کے تعلقات میں حالیہ عرصہ میں گہرائی آئی ہے۔ دو پارٹیوں پر مشتمل پیانل نے سالانہ رپورٹ میں کہا کہ ہندوستان کو تشویش و فکرمندی والے ممالک کی صفوں میں شامل کیا جانا چاہئے۔ اگر وہ اپنے ٹریک ریکارڈ میں بہتری نہیں لاتے ہیں تو ان پر تحدیدات عائد کرنا چاہئے۔ 2019ء میں امریکی پیانل کی رپورٹ کے مطابق انڈیا میں مذہبی آزادی کی صورتحال میں انحطاط آیا اور مذہبی اقلیتوں کو لگاتار حملوں کا نشانہ بنایا جانے لگا ہے۔ پیانل نے امریکہ سے تعزیری اقدامات لاگو کرنے پر زور دیا ہے جیسے ویزا پر پابندی اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کیلئے ذمہ دار سمجھے جانے والے ہندوستانی عہدیداروں کے امریکہ میں داخلے کو روکنا، ایسے سیول سوسائٹی گروپس کیلئے فنڈس کو بھی روکنا جو نفرت پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔ کمیشن نے کہا کہ مودی کی ہندو قوم پرست حکومت جسے 2019ء میں اکثریت حاصل ہوئی، وہ پارلیمنٹ میں اپنی عددی طاقت کا غلط استعمال کرتی پائی گئی ہے۔ کمیشن نے کہا کہ مودی حکومت نے اقلیتوں کے خلاف تشدد پر خاموشی اختیار کی اور ان کی عبادت گاہوں پر نشانہ بنانے پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ برسراقتدار قائدین نے نفرت انگیز تقاریر کے ذریعہ عوام کو تشدد پر اُکسایا ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کے تبصروں کی نشاندہی بھی کی گئی جنہوں نے زیادہ تر مسلم تارکین وطن کو دیمک کہا تھا۔ کمیشن نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کا ذکر بھی کیا جس پر ملک گیر احتجاج چھڑ گئے۔ کشمیر کی خودمختاری کی تنسیخ کو بھی اُجاگر کیا گیا۔ جموں و کشمیر، ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست تھی لیکن دستور کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرتے ہوئے اسے تقسیم کردیا گیا اور اب وہ ریاست نہیں بلکہ مرکزی علاقہ ہے۔ رواں سال فروری میں دہلی پولیس نے شمال مشرقی دہلی میں فسادات کے دوران اکثریتی غنڈوں کے تشدد پر آنکھیں بند رکھیں۔ ہندوستانی حکومت جو طویل عرصہ سے امریکی کمیشن کے تبصروں سے پریشان ہے، اس نے اس رپورٹ کو فوری مسترد کردیا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو نے کہا کہ یہ ہندوستان کے خلاف جانبدارانہ تاثرات ہیں اور کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن اس موقع پر کمیشن غلط باتوں کو پیش کرنے کی نئی سطح تک پہنچ گیا ہے۔سریواستو نے کہا کہ حکومت اس ادارہ کو مخصوص نوعیت کا پیانل سمجھتی ہے اور اسی کے مطابق اس پر توجہ دی جائے گی۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے معاملے پر 9 ممالک چین، ایرٹریا، ایران ، میانمار ، نارتھ کوریا ، پاکستان ، سعودی عرب ، تاجکستان اور ترکمینستان کو نامزد کیا ہے۔

Thursday 30 April 2020

Who invented the concept of lockdown

Narrated `Abdullah bin 'Amir:
`Umar went to Sham and when he reached Sarah, he got the news that an epidemic or pandemic had broken out in Sham. `Abdur-Rahman bin `Auf told him that Allah's Messenger (ﷺ) said, "If you hear that it (pandemic ) has broken out in a land, do not go to it; but if it breaks out in a land where you are present, do not go out escaping from it."
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّ عُمَرَ، خَرَجَ إِلَى الشَّأْمِ، فَلَمَّا كَانَ بِسَرْغَ بَلَغَهُ أَنَّ الْوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّأْمِ، فَأَخْبَرَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ "‏ إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَقْدَمُوا عَلَيْهِ وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ ‏"‏‏.‏
Reference
: Sahih al-Bukhari 5728
In-book reference
: Book 76, Hadith 43
USC-MSA web (English) reference
: Vol. 7, Book 71, Hadith 624
(deprecated numbering scheme)

Wednesday 29 April 2020

حکومت کی بے حسی

15 دن پہلے اتر پردیش کے انصاف علی نے شراوستی ضلع میں اپنے گھر پہنچنے کے لیے ممبئی سے پیدل چلنا شروع کیا تھا۔ ممبئی کے وسئی میں رہنے والے مزدور انصاف علی نے راستے میں کھانے اور پانی کے لیے کافی جدوجہد کی، لیکن انھوں نے چلنا جاری رکھا اور تقریباً 1500 کلو میٹر پیدل چل کر اپنے گاؤں بھی پہنچ گیا۔ وہ پیر کے روز اپنے گاؤں کے باہری علاقے میں پہنچا اور اسے فوراً ضلع کے ملہی پور پولس اسٹیشن کے تحت مٹکھنوا میں ایک کوارنٹائن سنٹر میں لے جایا گیا۔
کچھ گھنٹے بعد پانی کی کمی اور تھکاوٹ کی وجہ سے انصاف علی کی موت ہو گئی۔ شراوستی کے پولس سپرنٹنڈنٹ انوپ کمار سنگھ کا اس معاملے میں کہنا ہے کہ علی صبح 7 بجے کے قریب مٹکھنوا پہنچے اور مقامی اسکول میں شروعاتی جانچ کرنے کے بعد انھیں چھوڑ دیا گیا۔ انوپ سنگھ مزید بتاتے ہیں کہ "انھیں ایک مناسب ناشتہ بھی دیا گیا جس کے بعد انھوں نے آرام کیا۔ لیکن پانچ گھنٹے کے بعد انھیں پیٹ کے اوپری حصے میں درد کی شکایت شروع ہوئی اور تین بار الٹی بھی ہوئی۔" وہ بتاتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ ڈاکٹر کو بلایا جاتا، انصاف علی کی موت ہو گئی۔
چیف میڈیکل افسر اے پی بھارگو کا کہنا ہے کہ انھوں نے انصاف علی کے نمونے لیے تھے اور لکھنؤ میں ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اسپتال میں کورونا وائرس ٹیسٹ کے لیے بھیج دیا تھا۔ چیف میڈیکل افسر کا کہنا ہے کہ "رپورٹ سامنے آنے کے بعد ہی ہم انصاف علی کی موت کے صحیح اسباب کا پتہ لگانے کے لیے اس کی لاش کا پوسٹ مارٹم کریں گے۔" حالانکہ انھوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کے ذریعہ کیے گئے شروعاتی جانچ کے دوران کورونا وائرس کی کوئی علامت دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔
مٹکھنوا کے گرام پردھان اگیارام کا کہنا ہے کہ علی 14 اپریل کو شراوستی پہنچے تھے اور تقریباً 10 کلو میٹر دور اپنی سسرال میں رکے۔ انھوں نے کہا کہ "پیر کو وہ مٹکھنوا گاؤں میں اپنے گھر کے لیے نکلے اور ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔" بہر حال، انصاف علی کافی مشقت سے اپنے گاؤں پہنچے تھے اور پھر اپنے رشتہ داروں کے ساتھ وقت گزارے بغیر دنیا سے کوچ کر گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ انصاف علی اپنے پیچھے بیوی سلمہ بیگم اور 6 سالہ بیٹے کو چھوڑ گئے ہیں۔