https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 13 May 2023

حج کے موقع پرحاجی عیدالاضحیٰ کی قربانی بھی کرے یانہ کرے

حجِ قران یا حجِ تمتع کرنے کی صورت میں دمِ شکر کے طور پر ایک حصہ قربانی کرنا یا ایک دنبہ، یا بھیڑ، یا بکری حرم کی حدود میں ذبح کرنا لازم ہوتا ہے، یہ اس قربانی کے علاوہ ہے جو ہر سال اپنے وطن میں کی جاتی ہے، دونوں الگ الگ ہیں،عید والی قربانی کا حج والی قربانی سے کوئی تعلق نہیں۔ حاجی کے لیے عید والی قربانی واجب ہونے یا نہ ہونے کا ضابطہ یہ ہے کہ اگر حاجی شرعی مسافر ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں، البتہ اگر مسافر حاجی بھی اپنی خوشی سے عید والی قربانی کرے گا تو اس پر ثواب ملے گا، لیکن لازم نہیں ہے۔ اور اگر حاجی مقیم ہے اور اس کے پاس حج کے اخراجات کے علاوہ نصاب کے برابر زائد رقم موجود ہے تو اس پر قربانی کرنا واجب ہوگی۔ نوٹ: اگر حاجی ایام حج میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ مکہ میں قیام کی نیت سے ٹھہرے اور 8 ذی الحجہ کو منیٰ روانہ ہونے سے پہلے پندرہ دن مکمل ہو رہے ہوں تو یہ حاجی عید کے دنوں میں مقیم شمار ہوگا، اور صاحبِ استطاعت ہونے کی صورت میں اس پر دمِ شکر کے علاوہ عید کی قربانی بھی واجب ہوگی۔ لیکن اگر منیٰ روانہ ہونے سے پہلے مکہ میں پندرہ دن پورے نہ ہورہے ہوں تو اقامت کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا، لہٰذا یہ حاجی مقیم نہیں کہلائے گا ، بلکہ مسافر شمار ہوگا، چنانچہ اس حاجی پر دمِ شکر کے علاوہ عید کی قربانی واجب نہیں ہوگی۔ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 174) '' قال أصحابنا: إنه دم نسك وجب شكراً ؛ لما وفق للجمع بين النسكين بسفر واحد''۔ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 63) ''ومنها: الإقامة فلا تجب على المسافر؛ لأنها لا تتأدى بكل مال ولا في كل زمان، بل بحيوان مخصوص في وقت مخصوص، والمسافر لا يظفر به في كل مكان في وقت الأضحية، فلو أوجبنا عليه لاحتاج إلى حمله مع نفسه، وفيه من الحرج ما لا يخفى، أو احتاج إلى ترك السفر، وفيه ضرر، فدعت الضرورة إلى امتناع الوجوب، بخلاف الزكاة؛ لأن الزكاة لا يتعلق وجوبها بوقت مخصوص بل جميع العمر وقتها، فكان جميع الأوقات وقتاً لأدائها، فإن لم يكن في يده شيء للحال يؤديها إذا وصل إلى المال، وكذا تتأدى بكل مال، فإيجابها عليه لا يوقعه في الحرج، وكذلك صدقة الفطر ؛ لأنها تجب وجوباً موسعاً كالزكاة، وهو الصحيح. وعند بعضهم وإن كانت تتوقف بيوم الفطر لكنها تتأدى بكل مال، فلا يكون في الوجوب عليه حرج، وذكر في الأصل وقال: ولا تجب الأضحية على الحاج؛ وأراد بالحاج المسافر، فأما أهل مكة فتجب عليهم الأضحية وإن حجوا''۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 125) ''(فيقصر إن نوى) الإقامة (في أقل منه) أي في نصف شهر، (أو) نوى (فيه لكن في غير صالح) أو كنحو جزيرة، أو نوى فيه لكن (بموضعين مستقلين كمكة ومنى)، فلو دخل الحاج مكة أيام العشر لم تصح نيته؛ لأنه يخرج إلى منى وعرفة فصار كنية الإقامة في غير موضعها، وبعد عوده من منى تصح، كما لو نوى مبيته بأحدهما أو كان أحدهما تبعاً للآخر بحيث تجب الجمعة على ساكنه؛ للاتحاد حكماً''۔ الفتاوى الهندية (1/ 139) ''ولا يزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوماً أو أكثر، كذا في الهداية. ۔۔۔ ونية الإقامة إنما تؤثر بخمس شرائط: ترك السير، حتى لو نوى الإقامة وهو يسير لم يصح، وصلاحية الموضع، حتى لو نوى الإقامة في بر أو بحر أو جزيرة لم يصح، واتحاد الموضع والمدة، والاستقلال بالرأي، هكذا في معراج الدراية. ۔۔۔ وإن نوى الإقامة أقل من خمسة عشر يوماً قصر، هكذا في الهداية''

Friday 12 May 2023

حضرت علی بن مدینی کاواقعہ

حضرت علی بن مدینیؒ جلیل القدر محدث اور امام بخاریؒ جیسے محدثین کے استاذ ہیں۔ انہیں علم حدیث میں امام مانا جاتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور میں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے حافظ قرآن تھا۔ میرا یہ معمول تھا کہ میں روزانہ والد صاحب کی قبر پر جاتا اور تلاوت قرآن کریم کر کے انہیں ایصال ثواب کرتا۔ ایک مرتبہ رمضان شریف کا مہینہ تھا، ستائیسویں شب تھی، سحری کھا کر فجر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد حسب معمول میں فجر کے بعد والد صاحب کی قبر پر جا کر تلاوت کرنے لگا تو اچانک برابر والی قبر سے مجھے ہائے ہائے کرنے کی آواز آنے لگی۔ جب پہلی مرتبہ یہ آواز آئی تو میں خوف زدہ ہو گیا۔ میں اِھر اُدھر دیکھنے لگا تو اندھیرے کی وجہ سے مجھے کوئی نظر نہیں آیا۔ جب میں نے آواز کی طرف کان لگائے اور غور کیا تو پتہ چلا کہ یہ آواز کسی قریب والی قبر سے آ رہی ہے اور ایسا لگا کہ میت کو قبر میں بہت خوفناک عذاب ہو رہا ہے اور اس عذاب کی تکلیف سے میت ہائے ہائے کر رہی ہے۔ بس پھر کیا تھا میں پڑھنا پڑھانا تو بھول گیا اور خوف کی وجہ سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور میں اسی قبر کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گیا، پھر جوں جوں دن کی روشنی پھیلنے لگی تو آواز بھی مدھم ہونے لگے، پھر اچھی طرح دن نکلنے کے بعد آواز بالکل بند ہو گئی۔ جب لوگوں نے آنا جانا شروع کیا تو ایک آدمی سے میں نے پوچھا کہ یہ قبر کس کی ہے ؟ اس نے ایک ایسے شخص کا نام لیا، جس کو میں بھی جانتا تھا۔ کیونکہ وہ شخص ہمارے محلے کا تھا اور بہت پکا نمازی تھا۔ پانچ وقت کی نماز باجماعت صف اول میں ادا کرتا تھا اور انتہائی کم گو اورنہایت شریف آدمی تھا۔ کسی کے معاملے میں دخل نہیں دیتا تھا۔ جب بھی کسی سے ملتا تو اچھے اخلاق سے ملتا، ورنہ زیادہ تر وہ ذکر وتسبیح میں مشغول رہتا۔ جب میں اس کو پہچان گیا تو مجھ پر یہ بات بہت گراں گزری کہ اتنا نیک آدمی اور اس پر یہ عذاب !! میں نے سوچا کہ اس کی تحقیق کرنی چاہئے کہ اس نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے، جس کی وجہ سے اس کو یہ عذاب ہو رہا ہے ؟ چنانچہ میں محلے میں گیا اور اس کے ہم عصر لوگوں سے پوچھا کہ فلاں شخص بڑا نیک اور عابد و زاہد آدمی تھا، لیکن میں نے اس کو عذاب کے اندر مبتلا دیکھا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ویسے تو وہ بڑا نیک اور عبادت گزار تھا، اس کی اولاد بھی نہیں تھی۔ ہاں اس کا کاروبار بہت وسیع تھا، جب وہ بوڑھا ہو گیا اور اس کے اندر کاروبار کرنے کی طاقت نہ رہی اور کوئی دوسرا اس کے کاروبار کو چلانے والا نہیں تھا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور خود بھی سوچا کہ میں اب ذریعہ معاش کیلئے کیا طریقہ اختیار کروں ؟ اس کے نفس نے اس کو یہ تدبیر سمجھائی کہ تو اپنا سارا کاروبار ختم کر اور جو کچھ پیسے آئیں، اس کو سود پر دے دے۔ اس نے سارا حلال کاروبار ختم کیا اور جو رقم آئی، اس کو سود پر لگا دیا۔ چنانچہ کاروبار سے فارغ ہو گیا تھا، اس لئے ہر وقت مسجد میں رہتا۔ اشراق، چاشت، تہجد اوابین وغیرہ تمام نوافل پڑھتا اور پانچوں نمازیں امام کے پیچھے باجماعت صف اول میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھتا اور رات دن ذکر و تسبیح میں مشغول رہتا۔ ادھر لوگوں سے اسے ہر مہینے سود کی معقول رقم مل جاتی تھی، جس کے ذریعے مہینے بھر کا سارا گزارہ چلاتا۔ علی بن مدینیؒ فرماتے ہیں کہ بس یہ سن کر میں سمجھ گیا کہ اس کو جو شدید عذاب ہو رہا تھا، وہ اسی سود خوری کے گناہ کا وبال تھا۔ حق تعالیٰ مسلمانوں کو حرام کھانے اور حرام پہننے سے بچائے۔ آمین۔ (بے مثال واقعات)

مسجد میں نماز جنازہ ادا کرناجائزہےکہ نہیں

مسجد میں نمازِ جنازہ کی تین صورتیں ہیں، اور حنفیہ کے نزدیک علی الترتیب تینوں مکروہ ہیں : ایک یہ کہ جنازہ مسجد میں ہو اور امام و مقتدی بھی مسجد میں ہوں۔ دوم یہ کہ جنازہ باہر ہو اور امام و مقتدی مسجد میں ہوں۔ سوم یہ کہ جنازہ امام اور کچھ مقتدی مسجد سے باہر ہوں اور کچھ مقتدی مسجد کے اندر ہوں۔ اگر کسی عذر صحیح (مثلًا شدید بارش) کی وجہ سے مسجد میں جنازہ پڑھا تو جائز ہے۔(مستفاد از آپ کے مسائل اور ان کا حل) لہذا اگر واقعتًا مسجد کے قریب ایسی کوئی جگہ میسر نہیں ہے جہاں نمازِ جنازہ ادا کی جاسکے، بلکہ ایک کلو میٹر کے فاصلہ پر ہی ایسی جگہ ہے، تو مسجد کے اندر نمازِ جنازہ ادا کرنے کی گنجائش ہوگی، تاہم اس کے لیے تیسری صورت ہی اختیار کی جائے، یعنی جنازہ ،امام اور کچھ مقتدی محراب سے آگے جو مسجد کے باہر کا حصہ ہے، وہاں کھڑے ہوں۔ نیز اہلِ علاقہ کو چاہیے کہ وہ مسجد کے علاوہ، جنازہ کے لیے کسی جگہ کا انتظام کریں، اگر مستقل جنازہ گاہ کی گنجائش نہ ہو تو کسی بھی کشادہ جگہ پر نمازِ جنازہ ادا کی جاسکتی ہے، مثلًا: کسی کمیونٹی ہال یا کھیل کے میدان وغیرہ میں۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کا مستقل معمول کھلے میدان (عیدگاہ/ جنازہ گاہ) میں نمازِ جنازہ ادا کرنے کا تھا، اس لیے سنت طریقہ یہ ہے کہ جنازہ مسجد سے باہر ادا کیا جائے۔ صاحبِ مظاہر حق شرح مشکاۃ المصابیح علامہ قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : "مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا مسئلہ مختلف فیہ ہے ۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک تو اس حدیث کے پیش نظر جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھی جا سکتی ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مسجد میں نماز جنازہ مکروہ ہے۔ حضرت امام اعظم کی دلیل بھی یہی حدیث ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کہنے پر صحابہ نے اس بات سے انکار کر دیا کہ سعد ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ مسجد میں لایا جائے؛ کیوں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول نہیں تھا کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھتے ہوں، بلکہ مسجد ہی کے قریب ایک جگہ مقرر تھی جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ پڑھا کرتے تھے۔ پھر یہ کہ اس کے علاوہ ابوداؤد میں ایک حدیث بھی بایں مضمون منقول ہے کہ جو شخص مسجد میں نماز جنازہ پڑھے گا اسے ثواب نہیں ملے گا۔ جہاں تک حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس ارشاد کا تعلق ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں سہیل اور ان کے بھائی کی نماز جنازہ پڑھی ہے تو اس کے بارہ میں علماء لکھتے ہیں کہ ایسا آپ نے عذر کی وجہ سے کیا کہ اس وقت یا تو بارش ہو رہی تھی یا یہ کہ آپ اعتکاف میں تھے؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ہی میں نماز جنازہ ادا فرمائی، چنانچہ ایک روایت میں اس کی صراحت بھی کی گئی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم چوں کہ اعتکاف میں تھے؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں نماز جنازہ پڑھی۔" الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 225) "(واختلف في الخارجة) عن المسجد وحده أو مع بعض القوم (والمختار الكراهة) مطلقًا خلاصة، بناء على أن المسجد إنما بني للمكتوبة، وتوابعها كنافلة وذكر وتدريس علم، وهو الموافق لإطلاق حديث أبي داود «من صلى على ميت في المسجد فلا صلاة له» أن الصلاة على الميت فعل لا أثر له فى المفعول وإنما يقوم بالمصلي، فقوله من صلى على ميت في مسجد يقتضي كون المصلي في المسجد سواء كان الميت فيه أو لا، فيكره ذلك أخذا من منطوق الحديث، ويؤيده ما ذكره العلامة قاسم في رسالته من أنه روي «أن النبي صلى الله عليه وسلم لما نعى النجاشي إلى أصحابه خرج فصلى عليه في المصلى» قال: ولو جازت في المسجد لم يكن للخروج معنى اهـ مع أن الميت كان خارج المسجد. وبقي ما إذا كان المصلي خارجه والميت فيه، وليس في الحديث دلالة على عدم كراهته لأن المفهوم عندنا غير معتبر في غير ذلك، بل قد يستدل على الكراهة بدلالة النص، لأنه إذا كرهت الصلاة عليه في المسجد وإن لم يكن هو فيه مع أن الصلاة ذكر ودعاء يكره إدخاله فيه بالأولى لأنه عبث محض ولا سيما على كون علة كراهة الصلاة خشيت تلويث المسجد. وبهذا التقرير ظهر أن الحديث مؤيد للقول المختار من إطلاق الكراهة الذي هو ظاهر الرواية كما قدمناه، فاغتنم هذا التحرير الفريد فإنه مما فتح به المولى على أضعف خلقه، والحمد لله على ذلك." الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 224): "(وكرهت تحريمًا) وقيل: (تنزيهًا في مسجد جماعة هو) أي الميت (فيه) وحده أو مع القوم. (واختلف في الخارجة) عن المسجد وحده أو مع بعض القوم (والمختار الكراهة) مطلقا خلاصة." وفی الرد: "(قوله: مطلقًا) أي في جميع الصور المتقدمة كما في الفتح عن الخلاصة." الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 226): "إنما تكره في المسجد بلا عذر، فإن كان فلا، ومن الأعذار المطر كما في الخانية." الفتاوى الهندية (1/ 165): "والصلاة على الجنازة في الجبانة والأمكنة والدور سواء، كذا في المحيط وصلاة الجنازة في المسجد الذي تقام فيه الجماعة مكروهة سواء كان الميت والقوم في المسجد أو كان الميت خارج المسجد والقوم في المسجد أو كان الإمام مع بعض القوم خارج المسجد والقوم الباقي في المسجد أو الميت في المسجد والإمام والقوم خارج المسجد هو المختار، كذا في الخلاصة."

Sunday 7 May 2023

قاعدۂ اولی بھول گیا لقمہ دینے پر تشہد کے لئے لوٹ آیا

اگر امام قعدہ اولی چھوڑ کر اٹھنے لگا اور مقتدیوں کے لقمہ دینے سے واپس بیٹھ گیا تو اگر امام کے گھٹنے سیدھے نہیں ہوئے تھے یعنی وہ بیٹھنے کے قریب تھا اور پھر لوٹ آیا تو نماز ہوگئی اور سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہے، اور اگر اس کے گھٹنے سیدھے ہوگئے تھے یعنی وہ کھڑے ہونے کے قریب تھا تو اس کو کھڑا ہی رہنا چاہیے تھا ، دوبارہ لوٹ کر نہیں آنا چاہیے تھا، اور اس پر سجدہ سہو بھی واجب ہوگیا تھا، تاہم اگر واپس لوٹ آیا تو راجح قول کے مطابق نمازفاسد نہیں ہوگی، اور سجدہ سہو لازم ہونے کی صورت میں اگر سجدہ سہو نہیں کیا تو اس نماز کا وقت کے اندر اعادہ واجب تھا، وقت گزرنے کے بعد اعادہ کا وجوب ختم ہوگیا ہے۔ '' فتاوی شامی'' میں ہے: ''(سها عن القعود الأول من الفرض) ولو عملياً، أما النفل فيعود ما لم يقيد بالسجدة (ثم تذكره عاد إليه) وتشهد، ولا سهو عليه في الأصح (ما لم يستقم قائماً) في ظاهر المذهب، وهو الأصح فتح (وإلا) أي وإن استقام قائماً (لا) يعود لاشتغاله بفرض القيام (وسجد للسهو) لترك الواجب (فلو عاد إلى القعود) بعد ذلك (تفسد صلاته) لرفض الفرض لما ليس بفرض، وصححه الزيلعي (وقيل: لا) تفسد، لكنه يكون مسيئاً ويسجد لتأخير الواجب (وهو الأشبه)، كما حققه الكمال، وهو الحق، بحر''۔ (2/ 83، کتاب الصلوٰۃ ، باب سجود السہو