https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 9 October 2021

ایک حدیث کی تشریح

 

لایؤمن أحدکم حتی یکون ہواہ تبعا لماجئت بہ. رواہ البیہقی فی شعب  الایمان. 

یعنی 

کوئی بھی انسان اس وقت تک کامل الایمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ ان تمام باتوں کو پسند نہ کرنے لگے اور ان پر عمل پیرا نہ ہوجائے جنہیں رسول ﷺ لے کر آئے ہیں اور جن باتوں سے آپ ﷺ نے منع فرمایا ہے ان سے نفرت نہ کرنے لگے اور ان سے اجتناب نہ کرنے لگے۔ وہ جب بھی کوئی عمل کرنے کا ارادہ کرے اسے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کے سنت کی کسوٹی پر پرکھے۔ اگر وہ کتاب و سنت کے موافق ہو تو اسے کر لے اور اگر اس میں کوئی ایسی بات ہو جس سے منع کیا گیا ہو تو اس سے اجتناب اور کنارہ کشی کرے۔ جس شخص کی خواہشِ نفس محمد ﷺ کے لائے ہوئے احکام کے تابع ہو جاتی ہے اس کی حقیقت تو یہی ہوتی ہے :’’ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ‘‘۔. ترجمہ:’’ اور تمہیں جو کچھ رسول دیں لے لو اور جس سے روکے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے واﻻ ہے‘‘۔  

یہ حدیث اسناد کے اعتبار سے ضعیف ہے لیکن معنا  صحیح ہے .اس کی تائید متعدد قرآنی آیات سے بھی ہوتی ہے. 

اے ایم یو :راجہ مہندرپرتاب کے ذریعہ لیز پردی گئ زمین کی انکوائری

 اترپردیش حکومت نے راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی طرف سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو 1929 میں لیز پر دی گئی زمین کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ علی گڑھ ڈویژن کے کمشنر کو اس کی انکوائری کرنے کو کہا گیا ہے۔ علی گڑھ کے ضلع مجسٹریٹ سے بھی رپورٹ طلب کی گئی ہے۔

علی گڑھ ڈویژن کے کمشنر گورو دیال نے کہا کہ اس سلسلے میں ایک خط ایڈیشنل چیف سکریٹری ایس پی گوئل سے موصول ہوا ہے۔تفتیش کا معاملہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی طرف سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو 90 سال کے لیے لیز پر دی گئی زمین سے متعلق ہے۔لیز کی مدت ختم ہوچکی ہے ، اس لیے علی گڑھ کے ضلع مجسٹریٹ سے رپورٹ طلب کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ مرحوم راجہ مہندر پرتاپ سنگھ ایک مشہور مجاہد آزادی، سماجی مصلح اور ماہر تعلیم تھے۔انہوں نے 1929 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اپنی زمین 90 سال کے لیے لیز پر دی۔ لیز کی مدت ختم ہوچکی ہے ، لیکن وزیراعلیٰ آفس میں درج شکایت کے مطابق مذکورہ اراضی قانونی ورثاء کو واپس نہیں کی گئی۔

علی گڑھ کی ایک سماجی تنظیم 'اہوتی' کے اشوک چودھری نے شکایت درج کرائی ہے۔ وزیراعلیٰ آفس نے علی گڑھ ڈویژن کے کمشنر کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرےاور سٹی سکول علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلاتی ہے۔

راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے قانونی وارثوں نے اے ایم یو کو تجویز دی تھی کہ وہ زمین جس پر تکونا پارک کھڑا ہے حوالے کر دیا جائے۔

اے ایم یو کے زیر انتظام سٹی اسکول کا نام راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے نام پر رکھا جانا چاہیے۔ اے ایم یو ایگزیکٹو کونسل کی طرف سے وائس چانسلر کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے تاکہ اس سلسلے میں تجویز پرغور کیا جائے۔

اے ایم یو کے ترجمان پروفیسر شافع قدوائی سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تسلیم کیا کہ راجہ مہندر پرتاپ کے قانونی وارثوں کی تجویز پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی غور کر رہی ہے۔ تاہم ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ایگزیکٹو کونسل اس زمین کو واپس دینے کے لیے تیار ہے جس پر تکونا پارک واقع ہے۔

ایگزیکٹو کمیٹی نے مزید کہا کہ یہ قابل قبول ہے کہ بقیہ زمین پراے ایم یو کے زیر انتظام سٹی اسکول کا نام اے ایم یو کے سابق طالب علم راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے نام پر رکھا جائے گا۔ اس زمین کی لیز میں توسیع کی جائے گی۔

پچھلے مہینے وزیر اعظم نریندر مودی نے علی گڑھ کے قریب راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے نام سے منسوب ایک یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔

علی گڑھ ڈویژن کے 396 ڈگری کالج اس آنے والی یونیورسٹی سے وابستہ ہونے والے ہیں۔

مفتئ اعظم کشمیر نے کی معصوم شہریوں کے قتل کی مذمت

 سری نگر : کشمیر کے عظیم مفتی ناصر الاسلام نے کشمیر میں معصوم شہریوں کے قتل پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔ کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ اقلیتی برادریوں کے ارکان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے لوگوں سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارے کو برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔

مفتی نے شہریوں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی مذہب معصوم شہریوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ اس سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔ پچھلے ایک ہفتے میں مسلح دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

سری نگر میں گزشتہ چند دنوں میں ہلاک ہونے والے تمام افراد کے اہل خانہ کے ساتھ مفتی نے کہا کہ کسی کو بھی کشمیر کے فرقہ وارانہ تانے بانے کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اظہار یکجہتی اور ہمدردی۔ کہا کہ اسلام کسی غیر مسلح شخص پر حملہ کرنے سے منع کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر کی مسلم برادری غم اور صدمے کی اس گھڑی میں سوگوار خاندانوں کے ساتھ کھڑی ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ :جمہوریت میں علی الاعلان ظلم وعدوان

 آج سے ٹھیک ایک ہفتے قبل انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش کے نیمچ ضلع میں ہندوؤں کے ایک ہجوم نے ایک درگاہ کے مجاور اور ایک خاتون سمیت بعض عقیدت مندوں پر رات میں حملہ کر دیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق انھیں رات بھر زد و کوب کیا گیا اور جانے سے پہلے درگاہ کے ایک حصے کو دھماکے سےاڑا دیا۔

اس واقعے سے ڈیڑھ مہینے پہلے اجین ضلع کے سیکلی گاؤں میں کئی نوجوان ہندوؤں نے ایک مسلم کباڑی والے عبدالرشید کو بری طرح پیٹا اور انھیں دھمکی دی کہ یہ ہندوؤں کا گاؤں ہے، وہ یہاں دوبارہ نہ دکھائی دے۔

اس واقعے کے بعد رشید بہت ڈر گئے ہیں اور انھوں نے گاؤں جانا بند کر دیا ہے جس کی وجہ سے ان کا کام کافی متاثر ہوا ہے۔

عبدالرشید نے بی بی سی کو بتایا: 'میں بیس سال سے یہاں کام کر رہا ہوں۔ ہم سبھی آس پاس کے گاؤں جاتے ہیں۔ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے روکا ہو۔ مجھے کئی نوجوانوں نے مارا۔ میرا سامان پھینک دیا۔ مجھ سے جے شری رام کا نعرہ لگوایا اور کہا کہ میں دوبارہ یہاں نہ آؤں۔'

اجین ضلع کے ایک بااثر شخص نے بی بی سی کو اپنی شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس علاقے میں مسلم کباڑیوں پر حملے کافی عرصے سے ہو رہے ہیں لیکن ان کے بارے میں کوئی جانتا نہیں تھا۔

'عبدالرشید پر حملے کی ویڈیو خود حملہ آوروں نے بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی تھی جو وائرل ہو گئی جس سے اس واقعہ کا پتا چلا اور رپورٹ درج کرائی گئی۔ یہاں اب لوگوں کی سوچ بدل رہی ہے۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔'

اس کے علاوہ چھ روز قبل بنگلور میں انجینئرنگ کے ایک مسلمان طالبعلم کے جسم کے ٹکڑے کر کے ریلوے ٹریک پر پھینک دیا گیا تھا۔ اس مسلمام طالبعلم کے ایک ہندو لڑکی سے مبینہ روابط تھے۔

ایک مقامی سخت گیر ہندو تنظیم نے دونوں کے درمیان رشتے ختم کرنے کا ایک باقاعدہ معاہدہ کروایا۔ اس کے باوجود لڑکے کو قتل کر دیا گیا۔ اس واقعے میں ہندو تنظیم کے کئی ارکان کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ان تین واقعات کے علاوہ حالیہ دنوں میں مدھیہ پردیش، اتر پردیش، اترا کھنڈ، ہری انھ، کرناٹک اور کئی دیگر ریاستوں میں چھوٹے چھوٹے مسلم کاروباری افراد پر اس طرح کے مذہبی نفرت پر مبنی حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اب کئی مسلمان موجودہ ماحول میں نہ صرف غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں بلکہ ملک کا جمہوری نظام بھی رفتہ سخت گیر ہندو سوچ کے زیر اثر آتا جا رہا ہے۔

اس طرح کے نفرت انگیز تشدد کے واقعات کا سلسلہ 2017 میں راجستھان کے الور ضلع کی شاہراہ پر دن دہاڑے ایک مسلمان شخص کے قتل سے شروع ہوا تھا جنھیں گائے کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ہندوؤں کی ایک تنظیم کے ارکان نے سڑک پر مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

پہلو خان ہری انھ کے نواحی علاقے کے ڈیری فارمر تھے اور واقعے والے روز وہ وہاں کی ایک منڈی سے گائے خرید کر لا رہے تھے۔

پہلو خان کے قتل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک مقامی صحافی محمد زبیر خان نے بی بی سی کو بتایا: 'پہلو خان کے واقعے سے یہاں کے لوگوں کے ذہن میں ایک خوف بیٹھ گیا ہے۔

'ہم الور سے آ رہے ہوں، ریواڑی سے آرہے ہوں، پلول سے آ رہے ہوں، گڑگاؤں یا فریدآباد سے آ رہے ہوں، بس ڈر یہ ہوتا ہے کہ کہیں کوئی پہلو خان جیسا واقعہ نہ پیش آ جائے۔ یہاں زندگی بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔'

معروف تجزیہ کار عارفہ خانم کہتی ہیں 'چند حملے منظم طریقے سے منصوبہ بندی کے تحت اور چند انفرادی طور پر، دونوں شکلوں میں ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک مہم چل رہی ہے۔ پڑوسی کو پڑوسی کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کوشش ہو رہی ہے کہ ملک کا ڈی این اے تبدیل کر دیا جائے۔'

گذشتہ مہینے انتہائی دائیں بازو کی ہندو جماعت آر ایس ایس کی ایک اہم میٹنگ میں یہ اہم موضوع تھا کا اتراکھنڈ میں مسلمانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

جب عارفہ سے یہ سوال کیا گیا کہ حالیہ دنوں میں ایسے واقعات نظر آئے ہیں کہ سوشل میڈیا پر لوگوں کو 'بیدار' کیا جا رہا ہے کہ سبزی فروشوں میں ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے اور کیا یہ چھوٹے چھوٹے مسلمانوں کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش ہے؟

اس بارے میں عارفہ کہتی ہیں 'مسلمان پہلے ہی غربت اور اقلیت ہونے کے سبب معاشرے کے حاشیے پر ہیں۔ اب انھیں اقتصادی طور پر مزید الگ تھلگ کرنے کی کو شش کی جا رہی ہے۔'

'موجودہ ماحول میں انڈیا کے مسلمانوں کی اکثریت غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اکثریتی برادری کا ایک طبقہ مذہبی انتہا پسندی کی طرف مائل ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کتنا بڑا طبقہ مذہبی طور پر سخت گیر ہوا ہے لیکن اکثریتی برادری کے رویے میں شدت پسندی کسی بھی ملک میں بہت خطرناک ہوتی ہے۔'

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان واقعات کا مقصد مسلمانوں میں خوف پیدا کرنا ہے اور اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ حملہ آوروں کو یقین ہوتا ہے کہ حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی، جبکہ کئی ایسے واقعات ہیں جہاں حملے کا شکار ہونے والے کے خلاف ہی قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔

معروف مبصر رجنی بخشی اخبار انڈین ایکپریس میں شائع اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں: 'مسلمانوں کے خلاف اس قسم کے تشدد کو ہندوؤں کے لیے انصاف کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کے معاملے میں انتظامیہ اپنی آنکھیں بند رکھے گی۔'

ان واقعات نے مسلمانوں میں عدم تحفظ کے احساس کو بڑھا دیا ہے۔ دلی کی ایک طالبہ فرحین سیفی کہتی ہیں: 'جب ہم ان واقعات کو سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں تو دل میں ایک ڈر پیدا ہو جاتا ہے کہ کہیں ایسا ہمارے ساتھ نہ ہو جائے۔'

جھارکھنڈ سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم احمد انصاری کا خیال ہے کہ 'اس طرح کے عوامی تشدد کے واقعات کے خلاف سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام ان سے محفوظ رہ سکیں۔'

یہ بھی پڑھیے

دوسری جانب، اتر پردیش سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ نرگس خاتون کو بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش ضرور ہے لیکن وہ کہتی ہیں انھیں ابھی تک ایسے کسی ناگوار تجربے سے گزرنا نہیں پڑا۔

'مجھے سفر کر کے آنا ہوتا ہے۔ میں حجاب کا استعمال کرتی ہوں لیکن ابھی تک مجھے کوئی برا تجربہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کسی تفریق کا سامنا ہوا ہے۔ مجھے لگتا ہے ابھی بھی لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کی عزت ہے۔'

لیکن دلی کی سماجی کارکن ایمن رضوی کے تجربات مختلف ہیں۔ وہ عبایہ پہنتی ہیں اور حجاب بھی کرتی ہیں۔

'جب یہ لوگ کوئی داڑھی والا کوئی ٹوپی والا، کوئی برقعے والی لڑکی دیکھتے ہیں تو یہ ہمارے مذہب پر طعنے کستے ہیں۔ ہمیں کٹھ ملا تو کبھی ملا کہہ کر بلاتے ہیں۔ مجھے تو ٹنٹ ہاؤس والی کہا جاتا ہے کیونکہ میں اسی طرح عبایہ اور حجاب میں رہتی ہوں۔'

ان واقعات پر حکومتی رد عمل کیا ہے؟

حکومت نے اس طرح کے واقعات پر کئی بار تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا جس کے سبب سخت گیر عناصر کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔

البتہ مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی کہتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات حکومت کے لیے تکلیف اور تشویس کا باعث ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا: 'ایسے واقعات انسانیت کو شرمسار کرتے ہیں لیکن ان واقعات کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی وہ کم خطرناک نہیں ہے۔ ان واقعات کو مذہبی رنگ دینا نہ تو سماج کے مفاد میں ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے مفاد میں ہے۔ انتخابات کے آتے ہی ووٹ کی سیاست کرنے والے باہر آ جاتے ہیں اور اسی طرح کا بھرم پیدا کرتے ہیں۔ مسلمان برادری 75 سالوں میں ووٹ کے سوداگروں کے دیے ہوئے 75 زخموں سے گھائل ہے لیکن اب ان کے حربوں کو سمجھ چکی ہے اور وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔'

عباس نقوی کا مزید کہنا ہے کہ ان پرتشدد واقعات کا شکار صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دوسرے لوگ بھی ہورہے ہیں۔

'لنچنگ کو اگر صحیح معنوں میں دیکھنا ہے تو ہمارے پڑوس میں دیکھ لیجیے۔ وہاں پر خواتین کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جا رہا ہے، کیا بے حرمتی ان کی کی جا رہی ہے۔ ہندوستان آئین سے چلتا ہے، لیکن جو ممالک شریعت سے چل رہے آپ جا کر دیکھ لیجیے وہاں کی حالت۔'مسٹرنقوی  کویہ معلوم ہوناچاہئے  کہ جن ممالک میں شریعت نافذہے وہاں لنچنگ نہیں. 

 کچھ دن پہلےبیرسٹر اسدالدین اویسی کی سرکاری رہائش گاہ پر دھار دار ہتھیاروں سے حملہ کرنے والوں کو دو ہفتہ بعد ہی ضمانت دے دینا اور جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر ملک مخالف قانون کے تحت جیلوں میں ڈالے رکھنا انصاف کے ساتھ مذاق ہے۔ مقننہ، انتظامیہ اور میڈیا کے بعد اب عدلیہ میں بھی مسلمانوں کے ساتھ تعصب برتا جارہا ہے۔ اُن ججوں کا تبادلہ کردیا جاتا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ انصاف کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہارکل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر کلیم الحفیظ نے پریس کو جاری ایک بیان میں کیا۔ صدر مجلس نے کہا کہ کسی ممبر پارلیمنٹ کے گھر پرجان لینے کے ارادے سے حملہ کوئی معمولی جرم نہیں ہے لیکن پولس نے ان مجرموں کے خلاف معمولی دفعات میں مقدمہ قائم کرکے ان کی ضمانت کی راہیں پہلے ہی آسان کردی تھیں۔ اول تو پولس ان کے خلاف ایف آئی آر کرنے کے موقف میں ہی نہیں تھی، مجلس کارکنان کے دباؤ میں آکر ایف آئی آر ہوئی تھی،اس کے باوجود پولس نے ان کے خلاف بہت معمولی دفعات لگائیں۔ اس کے برعکس مسلم نوجوانوں کے خلاف پولس کا رویہ بالکل دوسرا ہوتا ہے،دہلی فسادات میں اپنا دفاع کرنے والے اور تماشا دیکھنے والے نوجوانوں تک پر یوپی اے کے تحت ایف آئی آر کی گئی ہے اسی طرح سی اے اے اور این آرسی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جے این یو کے طلبہ پر ملک کی مخالفت اور غداری کے الزامات لگائے گئے ہیں اور وہ بچے ابھی تک جیلوں میں ہیں،ان کا مستقبل تباہ کردیا گیا ہے

جب مسلم ایم پی کے ساتھ یہ ہوسکتا ہے توعوام کیا پوچھنا. 

آنے والے کچھ عرصے میں انڈیا کی کئی اہم ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات میں مزید اضافہ ہو گا۔

تجزیہ کار عارفہ خانم کہتی ہیں کہ 'ملک کے لیے جمہوری نظام برسوں کی آزادی کی جدوجہد کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ اب ہم اس پوری عمارت کی اینٹ اینٹ کو بکھرتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ ریزہ، ریزہ ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ اسے صرف انتخابی طریقے سے اور جمہوری اداروں کو ٹوٹنے سے بچا کر روکا جا سکتا ہے۔'

source: bbc.com/urdu

ہندوستان میں ایک نئے جہاد کی دریافت

 نئی دہلی (ایجنسی):ملک میں جہاد کا لفظ مختلف مواقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اب مارکس کے تناظر میں اس لفظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ کروڑی مل کالج، دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر نے ایسا گھٹیا ریمارکس دیا ہے، جس پر این ایس یو آئی کے طلبا نے احتجاج کیا ہے۔ آر ایس ایس نظریہ کو فروغ دینے والےپروفیسر راکیش پانڈے نے گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پوسٹ میں کیرالہ کے طلبا کے ذریعہ 100 فیصد نمبر حاصل کیے جانے پر اسے'مارکس جہاد'قرار دیا تھا۔ انھوں نے کیرالہ کے طلبا کے دہلی یونیورسٹی میں زیادہ درخواست دینے پر اسے سازش بتایا تھا۔ پروفیسر پانڈے کے ایسے تبصرے سے این ایس یو آئی کے ناراض طلبا نے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے اور کالج کے پرنسپل سے مل کر ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے اور عرض داشت بھی پیش کی ہے۔ واضح رہے کہ این ایس یو آئی کارکنان نے پروفیسر راکیش پانڈے کے خلاف ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے ان کی تصویر کو نذرِ آتش بھی کیا۔ اس موقع پر این ایس یو آئی کے قومی سکریٹری اور دہلی انچارج نتیش گوڑ، قومی سکریٹری لوکیش چگ، قومی سکریٹری ونود جھاکر وغیرہ بھی موجود تھے۔ این ایس یو آئی ریاستی صدر کنال سہراوت نے اس موقع پر کہا کہ ''ہم نے آج احتجاجی مظاہرہ کے ذریعہ دہلی یونیورسٹی انتظامیہ کو سخت تنبیہ دی ہے، اور فوراً آر ایس ایس نظریہ کے حامل پروفیسر کو برخاست کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی مطالبہ کیا ہے کہ پروفیسر راکیش پانڈے اپنے تبصرہ کے لیے پورے ملک سے معافی مانگیں۔''واضح رہے کہ گذشہ برس جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا کے یوپی ایس میں شان دار کامیابی پر بھی ایک ٹیوی اینکر ایسا نا زیبا تبصرہ کیا تھا، جس پر اس نے معافی مانگی تھی۔

یوروپ کی سب سے بڑی مسجد کو تباہ کرنے دھمکی

 پیرس: فرانس میں زیر تعمیر یورپ کی سب سے بڑی مسجد کی انتظامیہ کو ایک خط موصول ہوا ہے جس میں مسجد پر حملے اور تباہ کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔

فرانس کے شہر اسٹراسبرگ میں ترکی جانب سے تعمیر کی جانے والی یورپ کی سب سے بڑی مسجد ''آئپ سلطان مسجد'' کو اعلان جنگ کے عنوان سے دھمکی آمیز خط موصول ہوا ہے۔

خط میں مسجد کی تعمیر کرنے والی اسلامی تنظیم کی چیئرپرسن کو قتل اور زیر تعمیر مسجد پر بمباری کی دھمکی دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اچھی طرح سے تیاری کرو، بدلہ شروع ہوتا ہے۔ ہم مساجد کے خلاف ہیں اور انھیں بڑے حملوں سے نشانہ بنائیں گے۔

گمنام خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فرانس میں اسلام کے لیے کوئی جگہ نہیں اور ملک میں رہائش پزیر مسلمانوں کو اپنے مذہب یا فرانس میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا اور ہمیں یقین ہے اکثریت اسلام کا انتخاب کرے گی۔

پھر کیوں آپ لوگ فرانس میں رہ رہے ہیں؟ واضح رہے کہ فرانس میں زیر تعمیر سلطان مسجد سال کے آخر تک مکمل ہوجائے گی۔ مسجد کے اندرونی حصے کی گنجائش ڈھائی ہزار افراد کی ہے جب کہ بیرونی حصے میں مزید ڈھائی ہزار نمازی عبادت کرسکتے ہیں اس کے علاوہ مسجد کے احاطے میں میوزیم، لائبریری اور ریسٹورینٹ بھی ہوں گے۔

Friday 8 October 2021

ISIS, the international hooligans group

 So called Islamic State carried out suicide explosion in Afghanistan's Shiite mosque during Friday prayer.Its horrific tragedy indeed. The ISIS is the enemy of all human beings ,it has been destroyed Syria and Iraq, now it is active in Afghanistan. 

The UNO and US should make a Unanimouslly approved planning to clean up this poisonous group .Otherwise it will continue in the killing of humanity. 

اسرائیل میں 2700پرانالگزری بیت الخلاء دریافت

 تل ابیب : اسرائیل میں ایک قدیم شاہی محل کی باقیات کی کھدائی کے دوران 2700 سال پرانا لکژری بیت الخلا دریافت ہوا ہے۔اسرائیل کی اینٹیکس اتھارٹی (آئی اے اے) کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ دارالحکومت یروشلم میں ایک شاہی محل کی باقیات کی کھدائی کے دوران 7 ویں صدی قبل مسیح کا بیت الخلا دریافت ہوا ہے۔آئی اے اے کے مطابق دریافت ہونے والا بیت الخلا یہودا (حضرت یعقوبؑ کے بیٹے) کے دور تک استعمال ہوتا رہا۔اسرائیلی اتھارٹی کے مطابق پتھروں سے مہارت کے ساتھ تراشے ہوئے مستطیل شکل میں بنے بیت الخلا کے درمیان میں ایک سوراخ کے ساتھ بیٹھنے کی آرام دہ جگہ بھی بنائی گئی تھی جس کے ساتھ انسانی فضلے کے جمع ہونے کے لیے ایک گہرا ٹینک بھی موجود تھا۔

اسدالدین اویسی کابیان حقیقت پر مبنی ہے

 نئی دہلی : بیرسٹر اسدالدین اویسی کی سرکاری رہائش گاہ پر دھار دار ہتھیاروں سے حملہ کرنے والوں کو دو ہفتہ بعد ہی ضمانت دے دینا اور جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر ملک مخالف قانون کے تحت جیلوں میں ڈالے رکھنا انصاف کے ساتھ مذاق ہے۔ مقننہ، انتظامیہ اور میڈیا کے بعد اب عدلیہ میں بھی مسلمانوں کے ساتھ تعصب برتا جارہا ہے۔ اُن ججوں کا تبادلہ کردیا جاتا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ انصاف کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہارکل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر کلیم الحفیظ نے پریس کو جاری ایک بیان میں کیا۔ صدر مجلس نے کہا کہ کسی ممبر پارلیمنٹ کے گھر پرجان لینے کے ارادے سے حملہ کوئی معمولی جرم نہیں ہے لیکن پولس نے ان مجرموں کے خلاف معمولی دفعات میں مقدمہ قائم کرکے ان کی ضمانت کی راہیں پہلے ہی آسان کردی تھیں۔ اول تو پولس ان کے خلاف ایف آئی آر کرنے کے موقف میں ہی نہیں تھی، مجلس کارکنان کے دباؤ میں آکر ایف آئی آر ہوئی تھی،اس کے باوجود پولس نے ان کے خلاف بہت معمولی دفعات لگائیں۔ اس کے برعکس مسلم نوجوانوں کے خلاف پولس کا رویہ بالکل دوسرا ہوتا ہے،دہلی فسادات میں اپنا دفاع کرنے والے اور تماشا دیکھنے والے نوجوانوں تک پر یوپی اے کے تحت ایف آئی آر کی گئی ہے اسی طرح سی اے اے اور این آرسی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جے این یو کے طلبہ پر ملک کی مخالفت اور غداری کے الزامات لگائے گئے ہیں اور وہ بچے ابھی تک جیلوں میں ہیں،ان کا مستقبل تباہ کردیا گیا ہے۔

قرآنی آیات میسج کرنااورمٹادینا جائز ہے یا نہیں

 ضرورت پر واٹس اپ کے ذریعے کسی دوست یا ساتھی کو قرآنی آیت بھیجنا قرآن کریم کی بے ادبی نہیں ہے اور ضرورت پر قرآنی آیت ڈلیٹ کردینا بھی درست ہے، یہ قیامت کی علامات سے نہیں ہے؛ البتہ واٹس اپ عام طور پر لوگ جاندار کی تصویریں ؛ بلکہ بعض لوگ فحش تصاویر رکھتے ہیں یا ویڈیو کلپ ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں؛ اس لیے قرآنی آیت، حدیث پاک یا مسئلہ مسائل کی چیزیں صرف ان لوگوں کو بھیجنی چاہیے جو اپنے موبائل میں جاندار کی کوئی تصویر وغیرہ نہ رکھتے ہوں، ہر کس وناکس کو یہ چیزیں نہیں بھیجنی چاہیے۔ ولو کان فیہ اسم اللہ تعالی أو اسم النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یجوز محوہ لیلف فیہ شییٴ کذا فی القنیة، ولو محا لوحا کتب فیہ القرآن واستعملہ فی أمر الدنیا یجوز،… کذا فی الغرائب(الفتاوی الھندیة ،کتاب الکراھیة، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما کتب فیہ شییٴ من القرآن نحو الدراھم والقرطاس أو کتب فیہ اسم اللہ تعالی، ۵: ۳۲۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔


Thursday 7 October 2021

شیخ عبدالوہاب نجدی سے متعلق غلط فہمیاں

 عراق میں متعدد علماء پر شیخ محمد بن عبدالوہابؒ کی دعوت کا اثر ہوا. عراقی عالم عبدالعزیز بک الشادی جب حج کے لئے تشریف لے گئے تو سعود خاندان کے قائدین سے ملاقات کی. عراق کو واپس ہوتے ہوئے الدرعیہ سے گزرے، آپ شیخ ؒ کی دعوت کے قائل ہوگئے اور عراق واپسی پر شیخ کی دعوت کے ایک فعال مبلغ بن گئے. کافی سالوں تک وہ بے شمار لوگوں کو اسلام کے صحیح عقائد کی تعلیم دیتے رہے ۔

علی بن محمد بن سعید السویدی البغدادی ایک محدث اور مؤرخ تھے، آپ بغداد میں پیدا ہوئے اور 1232 ؁ ھ میں دمشق میں وفات پائی. آپ نے شیخ محمد بن عبدالوہاب ؒ کی دعوت قبول کرلی اور گورنر بغداد سلیمان پاشا الصغیر کو اس دعوت پر قائل کرنے کی کوشش کی. آپ کا طریقۂ کار وہی تھا جو شیخ محمد بن عبدالوہابؒ کا تھا .

انہوں نے اپنے شاگردشہاب الدین الآلوسی ؒ (1802 ؁ء ۔1854 ؁ء)کو شیخ محمد ؒ کی تعلیمات پر راغب کیا اور آلوسیؒ کے علم دوست خاندان کو شیخ محمدؒ کی دعوت کی مدافعت پر مامور کیا .

غالباً آلوسی خاندان عراق میں شیخ محمد ؒ کی تعلیمات اور آپ کی دعوت کی نشر واشاعت میں سب سے زیادہ مؤثر رہا، علامہ محمود الآلوسی (متوفی 1835 ؁ء) نے مشہور قرآنی تفسیر لکھی، نعمان (متوفی 1899 ؁ء) شیخ ابن تیمیہؒ کے پُرجوش حمایتی تھے .محمود شکری ؒ(1857 ؁ء۔1924 ؁ء) شیخ محمدؒ کے عظیم حمایتی او رمتبع تھے آپ نے تاریخ نجد لکھی اور شیخ محمد ؒ کی کتاب (المسائل الجاہلیۃ) پر شرح لکھی اور آپ ؒ کے مخالفین کے دلائل کے رد میں (ابن جرجیس اور النبہانی کے رد میں)دو کتابیں لکھیں .

یہ کہنا کہ شیخ عبدالوہاب نجدی نے کربلا میں یاعراق کے کسی اور علاقہ میں آل سعود کے ساتھ مل کر جنگ کی بالکل غلط ہے. 

شیخ نے بدعات وخرافات کے خلاف آواز اٹھائی لیکن باقاعد ہ کسی سے جنگ نہیں کی. 

شیخ محمد ؒ کے دور میں سرزمین نجد سلطنت عثمانیہ کے زیر اقتدار نہ تھی بلکہ وہ ایک آزاد ریاست تھی جس کے ہر چھوٹے شہر یا بدو قبیلہ کا اپنا اپنا حاکم ووالی ہوا کرتا تھا. چنانچہ جب شیخ ؒ نے عیینہ میں قیام پذیر ہوکر اپنی دعوت کا آغاز کیا تو آپ نے وہاں کے مقامی حاکم کے ساتھ معاہدہ کیا اور اس کا تعاون حاصل کیا. اسی طرح جب آپ درعیہ منتقل ہوئے تو اس کے امیر محمد بن سعود کے ساتھ بھی آپ نے معاہدہ کیا جو تقریباً بیس سال رہا.

یہ بات بالکل واضح ہے کہ شیخ ؒ نے کسی بھی لمحہ مقامی حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کیا، اور چونکہ سرزمین نجد کبھی بھی شیخ  کے زمانے  میں  سلطنت عثمانیہ کے ماتحت نہ رہی لہذا آپ نے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت بھی نہ کی.یہ مسئلہ اتنا کچھ واضح ہونے کے باوجود ابن افالق لکھتا ہے کہ’’تمہاری توحید میں چونکہ مسلم حکمرانوں کے خلاف بغاوت شامل ہے،اور یہ کفر ہے توحید نہیں۔

اور جیساکہ پہلے عرض ہوچکا، ابن عابدین نے بھی ’’وہابیوں‘‘ کے باغی ہونے کا دعویٰ کیا، اسی طرح کے دعوے دحلان، الأمالی اور دیگر لوگوں نے بھی کئے ہیں ۔

اس مقام پر شیخ ؒ نے اپنے عقائد کو واضح طور پر بیان کیا ہے کہ یہ وہی عقائد ہیں جو اہل سنت وجماعت کے ہمیشہ سے رہے ہیں. چنانچہ آپ نے اپنے ایک مکتوب میں القصیم کے لوگوں کو لکھا:

’’میں اس پر ایمان رکھتا ہوں کہ مجھ پر واجب ہے کہ میں مسلمان حکمرانوں کی سمع واطاعت کروں ، چاہے وہ نیک ہوں یا بد، تاوقتیکہ وہ اللہ کی معصیت کا حکم نہ دیں، یہ فرمانبرداری ہر اس شخص کے لئے ہے جو خلیفہ ہواور جس کے تقرر پر تمام لوگ متفق ہوں اور راضی ہوں حتی کہ اگر وہ بزور قوت خلیفہ بنا تو بھی واجب ہے کہ اس کی فرمانبرداری کی جائے اور اس کے خلاف بغاوت جائز نہیں ۔ ‘‘

شیخ محمد ؒ اور عثمانی حکمرانوں کے مابین جو کچھ معاملہ ہواتھا محمد نسیب الرفاعی نے اس کو واضح کیا ہے جو کافی حد تک صحیح معلوم ہوتا ہے .چنانچہ انہوں نے لکھا کہ : ’’شیخ محمد بن عبدالوہاب نے کبھی مسلم خلافت کا تختہ الٹنے کے بارے میں نہیں سوچا، تاہم جو خلیفہ کے اردگرد تھے اور صوفی سلسلوں سے تعلق رکھنے والے تھے انہوں نے خلیفہ کو ’’وہابیوں‘‘ کے خلاف اکسانے کے لئے غلط خبریں پھیلائیں، انہوں نے یہ تاثر پھیلایا کہ یہ تحریک خلافت کی مخالف ہے جس کی کوشش یہ ہے کہ خلافت دوبارہ عربوں میں واپس آجائے.جب کہ شیخ ؒ کے عقائد عین اسلام کے مطابق ہیں، جس کی رو سے ایک حکمران کے خلاف بغاوت جائز نہیں جب تک کہ وہ واضح کفر کا مرتکب نہ ہو، شیخ ؒ کو خلیفہ میں ایسی کوئی بات نظر نہ آئی جس کی بنا پروہ خلیفہ کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے یہاں تک کہ اگر خلیفہ فاسق بھی ہو مگر خالص اور واضح کفر کی حد تک نہ پہنچا ہو تو ایسی صورت حال میں بھی اس کے خلاف بغاوت یا اس کی حکومت کو ہٹانے کی کوشش جائز نہیں ‘‘۔

شیخ عبدالوہاب نجدی نے جنگ میں حصہ کبھی نہیں لیا. شاہ سعود اور ان کے خاندان نے نجد پرحکمراں خاندانوں سےیقیناً جنگیں کیں اس وقت عرب کااکثرعلاقہ یادولت عثمانیہ کے زیر اقتدار تھا یا اپنی اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کرلی گئیں تھیں ان کے خلاف شیخ کی کوئی جنگ نہیں  ہوئی البتہ دولت عثمانیہ اور آل سعود میں جنگیں ہوئیں .دولت عثمانیہ کی طرف سے محمد علی پاشا اور ان کے بیٹے ابراہیم پاشا نے یقیناً آل سعود سے جنگیں کیں. لیکن ان جنگوں کا شیخ عبدالوہاب نجدی کی ذات سے کوئی تعلق نہیں. 

محمد علی نے پہلے ہی اپنی فوج میں یورپی نظم و ضبط کو متعارف کرانا شروع کر دیا تھا اور ابراہیم نے شاید کچھ تربیت حاصل کی تھی ، لیکن اس کی پہلی مہم اس کے بعد کے آپریشنوں کے مقابلے میں پرانے ایشیاٹک انداز میں زیادہ چلائی گئی تھی۔ یہ مہم دو سال تک جاری رہی اور ایک سیاسی طاقت کے طور پر سعودی ریاست کی تباہی پر ختم ہوئی۔ محمد علی 1813 کو مدینہ کی بندرگاہ ینبع پہنچے۔ سعودیوں سے یہ مقدس شہر بازیافت ہوچکے تھے اور ابراہیم کا کام ان کے پیچھے صحرا نجد میں جانا تھا اور ان کے قلعوں کو تباہ کرنا تھا۔ اس طرح کی تربیت جیسا کہ مصری فوجیوں نے حاصل کی تھی اور ان کے توپ خانے نے انہیں کھلے میدان میں نمایاں برتری عطا کی تھی۔ لیکن صحرا نے سعودیوں کے مضبوط گڑھ درعیہ تک جانے میں دشواری نے ، مدینہ سے تقریبا 400 میل دور مشرق کو فتح کرنا بہت مشکل بنا دیا۔ ابراہیم نے اپنی فوج کی تمام مشکلات کو بانٹتے ہوئے بڑی طاقت کا مظاہرہ کیا اور کبھی بھی ناکامی کی وجہ سے اس نے حوصلہ نہیں چھوڑا تھا۔ ستمبر 1818 کے آخر تک ، اس نے سعودی رہنما کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا تھا اور درعیہ کو بھی لے لیا تھا ، جسے اس نے برطرف کر دیا تھا۔


کھڑگے :تعلیم سمیت سبھی معاملوں میں سنگھ دراندازی کررہا ہے.

 بنگلور:راجیہ سبھا میں قائد حزب اختلاف ملکاارجن کھڑگے نے کہا کہ آر ایس ایس تعلیم سمیت تمام شعبوں میں دراندازی کر رہی ہے۔ کھڑگے نے کہا کہ تنظیم کے خلاف ان کی طویل لڑائی کی وجہ سے انہیں 2019 کے پارلیمانی انتخابات کے دوران اپنی لوک سبھا سیٹ سے محروم ہونا پڑا ۔ایک سوال کے جواب میں کھڑگے نے کہا کہ وہ (آر ایس ایس) ہر جگہ دراندازی کر رہے ہیں، یہاں تک کہ تعلیمی میدان میں بھی۔ بہت سے لوگ براہ راست افسران بھرتی کر رہے ہیں، قواعد میں ترمیم کر رہے ہیں جبکہ بہت سے لوگ ریزرویشن سے محروم ہیں۔ بنگلور میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ 15-16 سال کی عمر سے آر ایس ایس اور اس کے نظریات کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ یہ لڑائی گلبرگہ سیٹ سے 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں ان کی شکست کی ایک وجہ ہے۔ کھڑگے نے کہاکہ ہم آر ایس ایس کے خلاف لڑ رہے ہیں، ہم اسے چھپانا نہیں چاہتے، ہم لڑیں گے اور اسی وجہ سے میں اپنا الیکشن بھی ہار گیا۔ آر ایس ایس غریب نواز نہیں ہے، یہ سماجی انصاف کیلئے نہیں ہے۔ وہ منواسمرتی پر یقین رکھتے ہیں۔ آر ایس ایس کے دوسرے سرسنگھ چالک گولوالکر گروجی کو پڑھیں۔کھڑگے جے ڈی (ایس) لیڈر ایچ ڈی کمار سوامی کے بیان پر ایک سوال کا جواب دے رہے تھے جس میں انہوں نے ایک کتاب کا حوالہ دیا تھا کہ آر ایس ایس نے اپنے پوشیدہ ایجنڈے کے ایک حصے کے طور پر اس ملک میں بیوروکریٹس کی ایک ٹیم تشکیل دی ہے، جنہیں اب مختلف محکموں میں رکھا گیا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ نے منگل کو دعویٰ کیا تھا کہ کتاب میں کہا گیا ہے کہ اس ملک میں تقریبا 4000 آئی اے ایس، آئی پی ایس افسران آر ایس ایس کے کارکنان ہیں۔ انہیں امتحانات لکھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ایک سال میں اس کے زیر تربیت 676 افراد کو صرف 2016 میں منتخب کیا گیا۔

فیس بک کابھانڈا پھوڑ. آرایس ایس سے گٹھ جوڑ کاانکشاف

 نئی دہلی(ایجنسی): فیس بک کی سابق ملازمہ اور ہب سیلب لور فرانسس ہوگن نے حال ہی میں کمپنی کے طرز عمل اور اس کی سنگین خامیوں کے بارے میں کئی چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔ اس نے اس سلسلے میں یو ایس سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی) میں شکایت درج کرائی ہے اور کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہوگن نے اپنے شکایتی خط کے ساتھ جو شواہد منسلک کیے ہیں ان میں ہندوستان سے متعلق فیس بک کے غلط استعمال کی ایک لمبی فہرست اور خاص طور پر دائیں بازو کی تنظیموں اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے نام شامل ہیں۔

ہوگن نے بیان کیا ہے کہ کس طرح خوف کا ماحول پیدا کرنے والا مواد صارفین ، گروہوں اور آر ایس ایس سے وابستہ پیج کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے۔ ہیگن نے کمپنی کی داخلی دستاویزات کا حوالہ دیا،تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ فیس بک کس طرح'عالمی تقسیم اور نسلی تشدد'کو فروغ دے رہا ہے اور'سیاسی حساسیت'کے نام پر ایسے گروہوں (ممکنہ طور پر آر ایس ایس سے وابستہ) کے خلاف کافی کارروائی نہیں کی گئی۔

فرانسس ہوگن ایک ڈیٹا سائنسدان ہیںجنہوں نے مئی 2021 تک فیس بک کے ساتھ کام کیا۔ کیمبرج اینالیٹیکا کے بعد یہ دوسرا بڑا نکشاف ہے جس نے ایک بار پھر فیس بک کو مشکل میں ڈال دیا ہے اور وہ اپنی شبیہ برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ہیگناس معاملے کے حوالے سے امریکی پارلیمنٹ کے سامنے بھی پیش ہونے والی ہے۔غیر منافع بخش قانونی تنظیم نے ہوگن کی جانب سے ایس ای سی میں شکایت درج کی ہےجسے گزشتہ پیر کی رات سی بی ایس نیوز نے عام کیا۔اگر ہم اس معاملے کی جامع تصویر دیکھیں تو یہ شکایات فیس بک کی خوفناک تصویر بناتی ہیں اوراس کی وجہ سے پورا جمہوری ماحول متاثر ہو رہا ہے۔

فرانسس ہیگن کے مطابق فیس بک کے ایگزیکٹیوز کمپنی کی ادارہ جاتی کوتاہیوں سے پوری طرح آگاہ ہیں، جو اپنے پلیٹ فارم پر نفرت انگیز تقریراور خطرناک سیاسی بیان بازی کو ہوا دے رہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق فیس بک بھارت کو ‘ٹائر -0’ کے زمرے میں رکھتا ہے۔ ایسے ممالک کو اس زمرے میں رکھا گیا ہے جو اہم انتخابات کے دوران زیادہ توجہ حاصل کرتے ہیں۔ ہندوستان کے علاوہ اس زمرے میں صرف دو اور ممالک برازیل اور امریکہ ہیں۔کیونکہ ٹیر 2 اور ٹیر 3 ممالک میں فیس بک انتخابات کے دوران کوئی خاص مانیٹرنگ نہیں کرتا۔

تاہم اگر ہم اسے دوسری طرف سے دیکھیں تو اس طرح کی درجہ بندی بہت کم اہمیت رکھتی ہے،کیونکہ'جعلی خبروں'کے 87 فیصد وسائل امریکہ کے لیے اور باقی دنیا کے لیے صرف 13فیصد ہیں۔یہ صورتحال اور بھی تشویشناک ہے کیونکہ امریکہ اور کینیڈا کے ساتھ مل کر فیس بک کے صرف 10 فیصد فعال صارفین ہیں،لیکن یہاں زیادہ وسائل خرچ کیے جا رہے ہیں۔بات صرف یہیں تک نہیں۔ اس انکشاف میں سب سے حیران کن بات یہ سامنے آئی ہے کہ فیس بک صرف تین سے پانچ فیصد نفرت انگیز تقاریر اور صرف 0.2 فیصد ‘تشدد پر اکسانے والے مواد’ پر کارروائی کرنے کے قابل ہے۔ ہوگن کے مطابق فیس بک اس بات سے پوری طرح آگاہ ہے کہ ہندوستان میں آر ایس ایس کے حمایت یافتہ صارفین یا گروپس کے ذریعہ کس طرح مسلم مخالف چیزیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ایک دستاویز میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی بہت سی غیرانسانی پوسٹیں لکھی جا رہی ہیں جہاں مسلمانوں کا موازنہ'خنزیر'اور'کتوں'سے کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن کے بارے میں افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں کہ یہ مردوں کو اپنےگھر کی عورتوں کے ساتھ زیادتی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کمپنی ایسی پوسٹس کا پتہ لگانے اور ان پرکارروائی کرنے کی تکنیکی صلاحیت نہیں رکھتی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے پیچھے بنیادی وجہ یہ ہے کہ کمپنی کا نظام ہندییا بنگالی زبان میں اس طرح کے مواد کو پکڑنے کے قابل نہیں ہے۔

فیس بک نے حال ہی میں کہا کہ چار ہندوستانی زبانیںہندی،بنگالی،اردو اور تامل کمپنی کے سسٹم میں شامل کیے گئے ہیں جو نفرت انگیز تقریروں کا پتہ لگانے کے لیے مفید ہوں گی۔ ہوگن کے وکیل کی جانب سے دائر شکایت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح'جعلی خبریں'سوشل میڈیا پر تیزی سے شیئر کی جا رہی ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔ایک خفیہ دستاویز کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ' انڈیا،انڈونیشیا اور فلپائن کو فی گھنٹہ ایک ملین سے ڈیڑھ ملین جعلی خبروں کے تاثرات (لائکس ، شیئرز یا کمنٹس) موصول ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ فیس بک کا ایک تصور'ڈیپ ری شیئر'ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی پوسٹ کئی بار شیئر کی جارہیہے تو اس میں سنسنی خیز،نقصان دہ یا اشتعال انگیز مواد ہونے کا امکان ہے۔ اس سلسلے میں شکایت میں مغربی بنگال کا ایک نمونہ سروے پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی بنگال میں 40 فیصد سب سے زیادہ شیئر شدہ مواد غیر تصدیق شدہ/جعلی ہے۔ اس کے ساتھ فرانسس ہوگن نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ فیس بک'ایک صارف کے متعدد اکاؤنٹس'کے مسئلے کو حل کرنےکے قابل بھی نہیں ہے۔اس سلسلے میں بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کمپنی'ڈبلیکیٹ'اکاؤنٹس کو بند کرنے کی کوئی حقیقی کوشش کر رہی ہے یا اسے خدشہ ہے کہ ان اکاؤنٹس کو بند کرنے سے اس کے پلیٹ فارم کی'مصروفیت'کم ہو جائے گی۔

'لوٹس محل'کے عنوان سے بننے والی دستاویز کی بنیاد پر ہیگن نے کہا کہ فیس بک کے ایگزیکٹو اس بات سے پوری طرح واقف ہیں کہ بی جے پی آئی ٹی سیل بیانیہ کو تبدیل کرنے کے لیے ایک صارف کے متعدد اکاؤنٹس کا استعمال کیسے کرتا ہے۔ معلوم ہو ہے کہ یہ پہلاموقع نہیں ہے کہ فیس بک پر اس طرح کے الزامات لگائے گئے ہوں۔امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی جانب سے زشتہ ماہ حاصل کی گئیں خفیہ دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ فیس بک نے کراس چیک کے نام سے ایک پروگرام تیار کیا ےجو مشہور شخصیات،سیاستدانوں اور صحافیوں جیسے ہائی پروفائل لوگوں کو قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

اس سے قبل وال اسٹریٹ جرنل نے خود ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ کس طرح فیس بک انڈیا نےناراضگی کے خوف سے بی جے پی لیڈر کی مسلم مخالف پوسٹ پر کوئی کارروائی نہیں کی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں جنوبی اور وسطی ایشیا کے انچارج فیس بک کی پالیسی ڈائریکٹر آنکھی داس نے بی جے پی لیڈر ٹی راجہ سنگھ کے خلاف فیس بک کے نفرت انگیزتقاریر کے قوانین کے نفاذ کی مخالفت کی تھی،اس خوف سے کہ اس سے کمپنی کے تعلقات متاثر ہوں گے۔اسی طرح'دی گارجین'نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ فیس بک نے ہندوستان میں جعلی اکاؤنٹ کو ہٹانے کا منصوبہ بنایا تھا،لیکن جیسے ہی یہ معلوم ہوا کہ اس میں ایک بی جے پی رکن اسمبلی کا بھی نام ہے وہ پیچھے ہٹ گیا۔

Wednesday 6 October 2021

فتنوں کی سرزمین احادیث میں

 حدیث نمبر 1 : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘اَللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا، اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي یَمَنِنَا’، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! وَفِي نَجْدِنَا ؟ قَالَ : ‘اَللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا، اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي یَمَنِنَا’، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! وَفِي نَجْدِنَا ؟ فَأَظُنُّہ، قَالَ فِي الثَّالِثَۃِ : ‘ھُنَاکَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَبِھَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .

”اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے شام کو بابرکت بنا دے، اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے یمن کو بابرکت بنا دے۔ صحابہ کرام نے عرض کی : اللہ کے رسول! اور ہمارے نجد میں؟ فرمایا : اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے شام اور یمن میں برکت دے۔صحابہ کرام نے پھر عرض کی : اے اللہ کے رسول! اور ہمارے نجد میں بھی؟ میرے خیال میں تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے۔شیطان کا سینگ بھی وہیں طلوع ہو گا۔” (مسند الإمام أحمد : 118/2، صحیح البخاري : 1051/2، ح : 7094، سنن الترمذي : 3953)
حدیث نمبر 2 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے روایت ہے :
إِنَّہ، سَمِعَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَھُوَ مُسْتَقْبِلُ الْمَشْرِقِ، یَقُولُ : ‘أَلَا إِنَّ الْفِتْنَۃَ ھَاھُنَا، مِنْ حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا،آپ مشرق کی طرف رُخ کیے ہوئے فرما رہے تھے : آگاہ رہو، فتنہ یہیں سے رونما ہو گا، یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(صحیح البخاري : 1050/2، ح : 7093، صحیح مسلم : 394/2، ح : 2905)
حدیث نمبر 3 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی راوی ہیں :
إِنَّہ، قَامَ إِلٰی جَنْبِ الْمِنْبَرِ، فَقَالَ : ‘الْفِتْنَۃُ ھَاھُنَا، الْفِتْنَۃُ ھَاھُنَا، مِنْ حَیْثُ یَطْلُع قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر کی ایک جانب کھڑے ہوئے اور فرمایا : فتنہ یہیں سے ابھرے گا،فتنہ یہیں سے ابھرے گا اور یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(صحیح البخاري : 1050/2، ح : 7092، صحیح مسلم : 394/2، ح : 2905[47])
صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ یہ ہیں : إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ، وَھُوَ مُسْتَقْبِلَ الْمَشْرِقِ، : ‘ھَا ! إِنَّ الْفِتْنَۃَ ھَاھُنَا، ھَا ! إِنَّ الْفِتْنَۃَ ھَاھُنَا، مِنْ حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف رُخ کیے ہوئے فرمایا : خبردار! فتنے یہاں سے رونما ہوں گے اور شیطان کا سینگ بھی یہیں سے طلوع ہو گا۔”
حدیث نمبر 4 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے :
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُشِیرُ إِلَی الْمَشْرِقِ، فَقَالَ : ‘ھَا ! إِنَّ الْفِتْنَۃَ ھَاھُنَا، إِنَّ الْفِتْنَۃَ ھَاھُنَا، مِنْ حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔آپ نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : یاد رکھو! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا اور شیطان کا سینگ بھی یہیں سے طلوع ہو گا۔”
(المؤطّأ للإمام مالک : 975/2، صحیح البخاري : 463/1، ح : 3279)
حدیث نمبر 5 : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَوْمَأَ بِیَدِہٖ نَحْوَ الْمَشْرِقِ، : ‘ھَاھُنَا الْفِتْنَۃُ، ھَاھُنَا الْفِتْنَۃُ، حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرق کی طرف اشارہ کر کے یہ فرماتے ہوئے سنا: فتنے یہیں سے نمودار ہوں گے اور یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(مسند الإمام أحمد : 111/2، وسندہ، حسنٌ)
ۤحدیث نمبر 6 : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘رَأْسُ الْکُفْرِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ’ .
”کفر کا مبنع مشرق کی جانب ہے۔”
(صحیح البخاري : 466/1، ح : 3301، صحیح مسلم : 53/1، ح : 52)
صحیح احادیث کی تفسیر صحیح احادیث سے
قارئین کرام ! آپ نے ان چھ صحیح احادیث کا مطالعہ کر لیا ہے۔اب ان میں نجد مشرق سے کیا مراد ہے ؟ ہم یہ مراد بھی صحیح احادیث ہی سے واضح کرتے ہیں :
حدیث نمبر 1 : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُشِیرُ بِیَدِہٖ، یَؤُمُّ الْعَرَاقَ، ‘ھَا ! إِنَّ الْفِتْنَۃَ ھَاھُنَا، ھَا إِنَّ الْفِتْنَۃَ ھَاھُنَا، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، مِنْ حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ . ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔آپ اپنے ہاتھ مبارک کے ساتھ عراق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے : خبردار! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا، خبردار! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا، خبردار! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا اور یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”(مسند الإمام أحمد : 143/2، ح : 6302، وسندہ، صحیحٌ)
حدیث نمبر 2 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی کا بیان ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ‘اَللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي مَدِینَتِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي مَکَّتِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي یَمَنِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَمُدِّنَا’، فَقَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! وَفِي عِرَاقِنَا، فَأَعْرَضَ عَنْہُ، فَقَالَ : ‘فِیھَا الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَبِھَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”یااللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ کو بابرکت بنا دے،ہمارے لیے ہمارے مکہ کو بابرکت بنا دے،ہمارے لیے ہمارے یمن کو بابرکت بنا دے،ہمارے صاع (قریباً099.2 کلوگرام کا پیمانہ)اور مد(قریباً 88.524گرام کاپیمانہ)میں برکت دے۔ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول! ہمارے عراق کے بارے میں بھی دُعا فرمائیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف التفات نہ کرتے ہوئے فرمایا : وہاں تو زلزلے اور فتنے بپا ہوں گے۔وہیں پر شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(مسند الشامیّین للطبراني : 1276، المعرفۃ والتاریخ للحافظ یعقوب بن سفیان الفسوي : 747/2، 748، المخلّصیّات : 196/2، ح : 1341، حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبھاني : 133/6، تاریخ ابن عساکر : 131/1، وسندہ، صحیحٌ)
حدیث نمبر 3 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘اَللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا، وَفِي مُدِّنَا’ فَرَدَّدَھَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَالَ الرَّجُلُ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! وَلِعِرَاقِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ‘بِھَا الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَمِنْھَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے صاع اور مد میں برکت دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی۔ ایک شخص نے کہا : ہمارے عراق کے لیے بھی دُعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ تو زلزلوں اور فتنوں کی سرزمین ہے اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(المعجم الکبیر للطبراني : 384/12، ح : 13422، المعرفۃ والتاریخ للفسوي : 747/2، مسند البزّار : 5881، حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبہاني : 133/6، وسندہ، صحیحٌ)
حدیث نمبر 4 : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
صَلَّی النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃَ الْفَجْرِ، فَأَقْبَلَ عَلَی الْقَوْمِ، فَقَالَ : ‘اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي مَدِینَتِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي مُدِّنَا وَصَاعِنَا، اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا وَیَمَنِنَا’، فَقَالَ رَجُلٌ : وَالْعِرَاقَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! فَسَکَتَ، ثُمَّ قَالَ : ‘اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي مَدِینَتِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي مُدِّنَا وَصَاعِنَا، اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي حَرَمِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا وَیَمَنِنَا’، فَقَالَ رَجُلٌ : وَالْعِرَاقَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! قَالَ : ‘مِنْ ثَمَّ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ، وَتَھِیجُ الْفِتَنُ’ .
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد لوگوں کی طرف رُخ مبارک کیا اور فرمایا: اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ کو بابرکت بنا دے، ہمارے مد اور صاع میں برکت دے،ہمارے شام اور یمن کو بابرکت بنا۔ایک آدمی نے کہا : اللہ کے رسول! عراق کے لیے بھی دُعا کیجیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے،پھر فرمایا : اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ کو بابرکت بنا دے، ہمارے مد اور صاع میں برکت دے،اے اللہ! ہمارے حرم کو برکت والا بنا اور شام اور یمن کو بھی بابرکت بنا۔آدمی نے پھر کہا : اللہ کے رسول! عراق کے لیے بھی دُعا کیجیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہاں سے تو شیطان کا سینگ طلوع ہو گا اور فتنے رونما ہوں گے۔”(المعجم الأوسط للطبراني : 4098، فضائل الشأم ودمشق لأبي الحسن الربعي، ص : 11، ح : 20، تاریخ الرقۃ لأبي علي القشیري، ص : 95، ح : 145، تاریخ دمشق لابن عساکر : 132/1، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کے راویوں کے بارے میں حافظ ہیثمی(807-735ھ)فرماتے ہیں :
رِجَالُہ، ثِقَاتٌ . ”اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔”
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد : 305/3)
اس کے راوی زیاد بن بیان کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ)نے ”صدوق عابد” قرار دیا ہے۔(تقریب التھذیب : 2057)
اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748-673ھ)فرماتے ہیں :
صَدُوقٌ، قَانِتٌ . ”یہ سچا اور نیک شخص ہے۔”(الکاشف : 275/1، الرقم : 1687)
امام نسائی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا ہے : لَیْسَ بِہٖ بَأْسٌ .
”اس میں کوئی حرج نہیں۔”
(میزان الاعتدال للذھبي : 87/2، تھذیب التھذیب لابن حجر : 256/3)
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب ”الثقات(247/8)”میں ذکر کر کے فرمایا ہے :
کَانَ شَیْخًا صَالِحًا . ”یہ نیک شیخ تھا۔”
شیخ ابو ملیح حسن بن عمر رقّی نے ان کی تعریف کی ہے۔
(التاریخ الکبیر للبخاري : 346/3، وسندہ، صحیحٌ)
علامہ ابن خلفون نے اسے اپنی کتاب ”الثقات” میں ذکر کیا ہے۔
(إکمال تھذیب الکمال للمغلطائي : 97/5)
ایسے راوی کی روایت ”حسن” درجے سے کم نہیں ہوتی۔
حدیث نمبر 5 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا، اللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي یَمَنِنَا’، فَقَالَھَا مِرَارًا، فَلَمَّا کَانَ فِي الثَّالِثَۃِ أَوِ الرَّابِعَۃِ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! وَفِي عِرَاقِنَا، قَالَ : ‘[إِنَّ] بِھَا الزَّلَازِلَ وَالْفِتَنَ، وَبِھَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’
”اے اللہ! ہمارے شام کو بابرکت بنا دے،اللہ! ہمارے یمن کو بابرکت بنا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کئی مرتبہ فرمائی۔جب تیسری یا چوتھی مرتبہ ہوئی تو لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول! ہمارے عراق کے لیے بھی دُعا فرمائیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عراق تو زلزلوں اور فتنوں کی سرزمین ہے۔یہیں پر شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(المعجم الکبیر للطبراني : 293/12، ح : 13422، مسند البزّار : 5880، وسندہ، حسنٌ)
حدیث نمبر 6 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے :
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمِ قَالَ : ‘اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا وَیَمَنِنَا’، مَرَّتَیْنِ، فَقَالَ الرَّجُلُ : وَفِي مَشْرِقِنَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ‘مِنْ ھُنَالِکَ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ، وَبِھَا تِسْعَۃُ أَعْشَارِ الشَّرِّ’ . ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے اللہ! ہمارے شام اور یمن میں خیروبرکت فرما۔یہ دُعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمائی۔ایک نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے مشرق کے بارے میں بھی دُعا فرمائیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا اور دنیا کا نوے فی صد شر وہیں پر ہے۔”
(مسند الإمام أحمد : 90/2، وسندہ، حسنٌ)
اس کے راوی عبیداللہ بن میمون کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مَعْرُوفُ الْحَدِیثِ . ”اس کی حدیث معروف ہے۔”
(التاریخ الکبیر : 388/3، ت : 1247)
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : صَالِحُ الْحَدِیثِ .
”اس کی حدیث حسن ہے۔” (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 322/5)
حدیث نمبر 7 : نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یوں دُعا فرمائی: [اَللّٰہُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا وَیَمَنِنَا]، قَالَ : قَالُوا : وَفِي نَجْدِنَا، فَقَالَ : قَالَ : [اللّٰہُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا وَفِي یَمَنِنَا]، قَالَ : قَالُوا : وَفِي نَجْدِنَا، قَالَ : قَالَ : [ھُنَاکَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَبِھَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ] . ”اے اللہ!ہمارے شام اوریمن میں برکت فرما۔کچھ لوگوں نے کہا : ہمارے نجد کے بارے میں بھی دُعا فرمائیے۔انہوںنے فرمایا: اے اللہ!ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما۔لوگوں نے پھر کہا : ہمارے نجد کے بارے میں بھی دُعا فرمائیے۔ انہوں نے فرمایا : وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہیں پر شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(صحیح البخاري : 141/1، ح : 1037)
صحیح بخاری کی ایک حدیث ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ اس میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یہ الفاظ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں۔اس روایت میں اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں، لیکن یہ بھی حکماً مرفوع ہے۔
اس بارے میں شارحِ بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ) لکھتے ہیں :
ھٰکَذَا وَقَعَ فِي ھٰذِہِ الرِّوَایَاتِ الَّتِي اتَّصَلَتْ لَنَا بِصُورَۃِ الْمَوْقُوفِ عَنِ ابْنِ عُمَر، قَالَ : [اللّٰھُمَّ بَارِکْ ۔۔۔]، لَمْ یَذْکُرِ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ الْقَابِسِيُّ : سَقَطَ ذِکْرُ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ النُّسْخَۃِ، وَلَا بُدَّ مِنْہُ، لِأَنَّ مِثْلَہ، لَا یُقَالُ بِالرَّأْيِ . ”جو روایات ہمارے پاس سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما پر موقوف صورت میں پہنچی ہیں،ان میں اسی طرح ہے کہ انہوں نے خود یہ دُعا کی ہے،اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا۔قابسی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر صحیح بخاری کے نسخے سے گر گیا ہے۔یہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ضروری ہے،کیونکہ ایسی بات کوئی صحابی اپنے قیاس سے نہیں کہہ سکتا۔”(فتح الباري : 522/2)
حدیث نمبر 8 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے سالم رحمہ اللہ نے عراق والوں کو مخاطب کر کے فرمایا: یَا أَھْلَ الْعِرَاقِ ! مَا أَسْأَلَکُمْ عَنِ الصَّغِیرَۃِ وَأَرْکَبَکُمْ لِلْکَبِیرَۃِ ! سَمِعْتُ أَبِي عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ یَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : ‘إِنَّ الْفِتْنَۃَ تَجِيءُ مِنْ ھٰھُنَا، ـــ وَأَوْمَأَ بِیَدِہٖ نَحْوَ الْمَشْرِقِ ـــ مِنْ حَیْثُ یَطلُعُ قَرْنَا الشَّیْطَانِ’ .
”عراق کے باشندو! تعجب خیز بات ہے کہ ایک طرف تم چھوٹے چھوٹے مسائل بہت پوچھتے ہو اور دوسری طرف کبیرہ گناہوں کے ارتکاب میں اتنے دلیر ہو !میں نے اپنے والد سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا : فتنہ یہاں سے آئے گا اور یہیں سے شیطان کے سینگ طلوع ہوں گے، ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک کے ساتھ مشرق کی طرف اشارہ فرمایا۔”
(صحیح مسلم : 394/2، ح : 2905[50])
حدیث نمبر 9 : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے :
خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بَیْتِ عَائِشَۃَ، فَقَالَ : ‘رَأْسُ الْکُفْرِ مِنْ ھٰھُنَا، مِنْ حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ، یَعْنِي الْمَشْرِقَ’ .
”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکلے تو فرمایا : مشرق کفر کا سرچشمہ ہے،وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔” (صحیح مسلم : 394/2، ح : 2905[48])
حدیث نمبر 0 : بدری صحابی سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
‘مِنْ ھٰھُنَا جَاءَ تِ الْفِتَنُ، نَحْوَ الْمَشْرِقِ’ .
”فتنے مشرق ہی کی طرف سے آئیں گے۔”(صحیح البخاري : 496/1، ح : 3498)
تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ .(یہ پوری دس دلیلیں ہیں)
صحیح احادیث کی تفسیر اہل علم سے
لغوی طور پر ”نجد” بلند علاقے کو کہتے ہیں۔اس لحاظ سے دنیا میں بہت سارے نجد ہیں،لیکن مذکورہ احادیث میں ”نجد” کی تشریح ”مشرق” اور ”عراق” سے ہوئی ہے۔ثابت ہوا کہ جو نجدفتنوں کی آماجگاہ ہے اور جہاں سے شیطان کا سینگ نمودار ہو گا،وہ مشرق کی سمت ہے اور اس سے مراد عراق ہی ہے۔صحیح احادیث ِنبویہ پکار پکار کر یہی بتا رہی ہیں۔ صحابہ و تابعین کا بھی یہی خیال تھا۔اسی بارے میں مشہور لغوی ابن منظور افریقی(711-630ھ)لکھتے ہیں:
مَا ارْتَفَعَ مِنْ تِھَامَۃَ إِلٰی أَرْضِ الْعِرَاقِ، فَھُوَ نَجْدٌ .
”تہامہ کی حدود سے لے کر عراق تک جو بلند جگہ ہے،وہ نجد ہے۔”(لسان العرب : 413/3)
احادیث ِنبویہ کا لغوی حل کرنے والے مشہور لغوی ابن اثیر(606-544ھ)لکھتے ہیں :
وَالنَّجْدُ : مَا ارْتَفَعَ مِنَ الْـأَرْضِ، وَھُوَ اسْمٌ خَاصٌّ لِّمَا دُونَ الْحِجَازِ، مِمَّا یَلِي الْعِرَاقَ . ”نجد بلند زمین کو کہتے ہیں۔یہ حجاز کے باہر عراق سے ملحقہ علاقے کا خاص نام ہے۔”(النھایۃ في غریب الحدیث والأثر : 19/5)
علامہ خطابی رحمہ اللہ (388-319ھ) ”نجد” کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَمَنْ کَانَ بِالْمَدِینَۃِ کَانَ نَجْدُہ، بَادِیَۃَ الْعِرَاقِ وَنَوَاحِیَھَا، وَھِيَ مَشْرِقُ أَھْلِھَا، وَأَصْلُ النَّجْدِ مَا ارْتَفَعَ مِنَ الْـأَرْضِ، وَالْغَوْرُ مَا انْخَفَضَ مِنْھَا، وَتِھَامَۃُ کُلُّھَا مِنَ الْغَوْرِ، وَمِنْھَا مَکَّۃُ، وَالْفِتْنَۃُ تَبْدُو مِنَ الْمَشْرِقِ، وَمِنْ نَّاحِیَتِھَا یَخْرُجُ یَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَالدَّجَّالُ، فِي أَکْثَرِ مَا یُرْوٰی مِنَ الْـأَخْبَارِ .
”مدینہ والوں کا نجد عراق اور اس کے نواح کا علاقہ ہے۔یہ مدینہ والوں کے مشرق میں واقع ہے۔نجد کا اصلی معنیٰ بلند زمین ہے۔نشیبی علاقے کو غَور کہتے ہیں۔تہامہ کا سارا علاقہ غَور ہے۔مکہ بھی اسی غَور میں واقع ہے۔اکثر روایات کے مطابق فتنے کا ظہور مشرق سے ہو گا،اسی جانب سے یاجوج ماجوج نکلےں گے اور یہیں سے دجال رونما ہو گا۔”
(إعلام الحدیث للخطابي : 1274/2ـــ ط ـــ المغربیّۃ)
امام اندلس حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (463-368ھ)لکھتے ہیں :
إِشَارَۃُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ـــ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ ـــ إِلٰی نَاحِیَۃِ الْمَشْرِقِ بِالْفِتْنَۃِ لِأَنَّ الْفِتْنَۃَ الْکُبْرَی الَّتِي کَانَتْ مِفْتَاحَ فَسَادِ ذَاتِ الْبَیْنِ، ھِيَ قَتْلُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَھِيَ کَانَتْ سَبَبَ وَقْعَۃِ الْجَمَلِ، وَحُرُوبِ صِفِّینَ، کَانَتْ فِي نَاحِیَۃِ الْمَشْرِقِ، ثُمَّ ظُھُورُ الْخَوَارِجِ فِي أَرْضِ نَجْدٍ وَّالْعِرَاقِ وَمَا وَرَاءَ ھَا مِنَ الْمَشْرِقِ .
”واللہ اعلم! رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فتنے کے حوالے سے اشارہ مشرق کی طرف اس لیے تھا کہ سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا سبب بنا،وہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت تھی، یہی واقعہ جنگ جمل اور جنگ صفین کا سبب بنا۔یہ سارے معاملات مشرق کی جانب سے رونما ہوئے۔پھر خوارج کا ظہور بھی نجد کی زمین ،یعنی عراق اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوا۔”
(الاستذکار : 519/8)
علامہ ابو الحسن علی بن خلف بن عبد الملک العروف بہ ابن بطال(م : 449ھ)لکھتے ہیں :
قَالَ الْخَطَّابِيُّ : الْقَرْنُ فِي الْحَیَوَانِ یُضْرَبُ بِہِ الْمَثَلُ فِیمَا لَا یُحْمَدُ مِنَ الْـأُمُورِ، کَقَوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَۃِ وَطُلُوعِھَا مِنْ نَّاحِیَۃِ الْمَشْرِقِ : ‘وَمِنْہُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’، وَقَالَ فِي الشَّمْسِ : إِنَّھَا تَطْلُعُ بَیْنَ قَرْنَيِ الشَّیْطَانِ، وَالْقَرْنُ : الْـأُمَّۃُ مِنَ النَّاسِ یُحْدَثُونَ بَعْدَ فَنَاءِ آخَرِینَ، قَالَ الشَّاعِرُ :
مَضَی الْقَرْنُ الَّذِي أَنْتَ مِنْھُمْ ۔۔۔۔۔۔ وَخَلَفْتَ فِي قَرْنٍ فَأَنْتَ غَرِیب،
وَقَالَ غَیْرُہ، : کَانَ أَھْلُ الْمَشْرِقِ یَوْمَئِذٍ أَھْلَ کُفْرٍ، فَأَخْبَرَہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْفِتْنَۃَ تَکُونُ مِنْ تِلْکَ النَّاحِیَۃِ، وَکَذٰلِکَ کَانَتِ الْفِتْنَۃُ الْکُبْرَی الَّتِي کَانَتْ مِفْتَاحَ فَسَادِ ذَاتِ الْبَیْنِ، وَھِيَ مَقْتَلُ عُثْمَانَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَکَانَتْ سَبَبَ وَقْعَۃِ الْجَمَلِ وَصِفِّینَ، ثُمَّ ظُھُورُ الْخَوَارِجِ فِي أَرْضِ نَجْدٍ وَّالْعِرَاقِ وَمَا وَرَاءَ ھَا مِنَ الْمَشْرِقِ، وَمَعْلُومٌ أَنَّ الْبِدَعَ إِنَّمَا ابْتَدَأَتْ مِنَ الْمَشْرِقِ، وَإِنَّ الَّذِینَ اقْتَتَلُوا بِالْجَمَلِ وَصِفِّینَ، بَیْنَھُمْ کَثِیرٌ مِّن أَھْلِ الشَّامِ وَالْحِجَازِ، فَإِنَّ الْفِتْنَۃَ وَقَعَتْ فِي نَاحِیَۃِ الْمَشْرِقِ، وَکَانَ سَبَبًا إِلَی افْتِرَاقِ کَلِمَۃِ الْمُسْلِمِینَ، وَفَسَادِ نِیَّاتِ کَثِیرٍ مِّنْھُمْ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ یُحَذِّرُ مِنْ ذٰلِکَ وَیُعْلِمُہ، قَبْلَ وُقُوعِہٖ، وَذٰلِکَ دَلِیلٌ عَلٰی نَبُوَّتِہٖ .
”حیوان کے سینگ کی مثال قبیح امور میں دی جاتی ہے،جیسا کہ مشرق کی جانب سے فتنے کے رونما ہونے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اسی طرف سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے بارے میں فرمایا کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔سینگ سے مراد لوگوں کی وہ جماعت ہے جو ایک نسل کے گزر جانے کے بعد آتے ہیں۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ جب تیرے ہم عصر لوگ فوت ہو جائیں اور تُو رَہ جائے تو اس وقت تُو اجنبی ہے۔ایک اہل علم کا کہنا ہے کہ مشرق والے اس دور میں کافر تھے۔اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی کہ فتنہ اسی سمت سے اٹھے گا۔ بالکل ایسے ہی ہوا کہ سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا باعث بنا ،وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت والا واقعہ تھا۔یہی واقعہ بعد میں جنگ جمل اور صفین کا باعث بنا۔پھر خوارج کا ظہور بھی نجد،عراق اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوا۔یہ سارے علاقے مشرق میں ہیں۔سب کو یہ بھی معلوم ہے کہ بدعات کا آغاز بھی مشرق ہی سے ہوا۔جنگ جمل اور صفین میں جن لوگوں نے شرکت کی تھی،ان کی بڑی تعداد شام اور حجاز سے تھی،لہٰذا یہ فتنہ بھی مشرق ہی میں رونما ہوا۔یہ سانحات قیامت تک مسلمانوں کے افتراق اور ان کے ایک بڑے گروہ کے نفاق کا باعث بن گئے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فساد کے وقوع سے پہلے ہی اس بارے میں آگاہی دے کر اس سے متنبہ کر دیا۔یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی بہت بڑی نشانی ہے۔”
(شرح صحیح البخاري : 44/10)
حافظ ابن الجوزی(597-508ھ)لکھتے ہیں : أَمَّا تَخْصِیصُ الْفِتَنِ بِالْمَشْرِقِ، فَلِأَنَّ الدَّجَّالَ یَخْرُجُ مِنْ تِلْکَ النَّاحِیَۃِِِ، وَکَذٰلِکَ یَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ، وَأَمَّا ذِکْرُ قَرْنِ الشَّیْطَانِ، فَعَلٰی سَبِیلِ الْمَثَلِ، کَأَنَّ إِبْلِیسَ یَطْلُعُ رَأْسُہ، بِالْفِتَنِ مِنْ تِلْکَ النَّوَاحِي .
”مشرق کے ساتھ فتنوں کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دجال اور یاجوج ماجوج کا ظہور اسی سمت سے ہو گا۔رہی بات شیطان کے سینگ کی تو یہ بطور مثال ہے، گویا کہ شیطان فتنوں کی صورت میں اس سمت سے اپنا سر اٹھائے گا۔”
(کشف المشکل علی الصحیحین : 493/2)
شارحِ بخاری،علامہ کرمانی ”نجد”اور ”غَور” کا معنیٰ واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وَمَنْ کَانَ بِالْمَدِینَۃِ الطَّیِّبَۃِ ــــ صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی سَاکِنِھَا ــــ کَانَ نَجْدُہ، بَادِیَۃَ الْعِرَاقِ وَنَوَاحِیَھَا، وَھِيَ مَشْرِقُ أَھْلِھَا، وَلَعَلَّ الْمُرَادَ مِنَ الزَّلَازِلِ وَالِاضْطِرَابَاتِ الَّتِي بَیْنَ النَّاسِ مِنَ الْبَلَایَا، لِیُنَاسِبَ الْفِتَنَ مَعَ احْتِمَالِ إِرَادَۃِ حَقِیقَتِھَا، قِیلَ : إِنَّ أَھْلَ الْمَشْرِقِ کَانُوا حِینَئِذٍ أَھْلَ الْکُفْرِ، فَأَخْبَرَ أَنَّ الْفِتْنَۃَ تَکُونُ مِنْ نَّاحِیَتِھِمْ، کَمَا أَنَّ وَقْعَۃَ الْجَمَلِ وَصِفِّینَ وَظُہُورَ الْخَوَارِجِ مِنْ أَھْلِ نَجْدٍ وَّالْعِرَاقِ وَمَا وَالَاھَا کَانَتْ مِنَ الْمَشْرِقِ، وَکَذٰلِکَ یَکُونُ خُرُوجُ الدَّجَّالِ وَیَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِنْھَا، وَقِیلَ : الْقَرْنُ فِي الْحَیَوَانِ یُضْرَبُ بِہِ الْمَثَلُ فِیمَا لَا یُحْمَدُ مِنَ الْـأُمُورِ . ”مدینہ طیبہ کے باسیوں کا نجد عراق اور اس کا نواحی علاقہ ہے۔یہی اہل مدینہ کے مشرق میں واقع ہے۔عراق میں زلزلوں اور فسادات سے مراد شاید وہ جنگیں ہیں جو لوگوں کے درمیان ہوئیں۔یہی بات فتنوں کے حسب ِحال ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حقیقی زلزلے مراد ہوں۔ایک قول یہ ہے کہ اہل مشرق اس وقت کافر تھے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ فتنے اسی طرف سے کھڑے ہوں گے۔پھر ایسا ہی ہوا کہ جنگ جمل اور صفین اور خوارج کے ظہور والے واقعات نجد وعراق اور اس کے نواحی علاقے کے لوگوں کے سبب ہی پیش آئے۔ یہ تمام مشرقی علاقے ہیں۔اسی طرح دجال اور یاجوج وماجوج کا ظہور بھی اسی علاقے سے ہو گا۔اس حدیث میں مذکور سینگ کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ جانور کا سینگ بطور مثال قبیح امور کے لیے مستعمل ہے۔”
(شرح الکرماني للبخاري : 168/24)
شارحِ بخاری،علامہ عینی حنفی(859-762ھ)امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ‘الْفِتْنَۃُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ’ کے تحت لکھتے ہیں :
مُطَابَقَتُہ، لِلتَّرْجِمَۃِ فِي قَوْلِہٖ : ‘وَہُنَاکَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَبِہَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’، وَأَشَارَ بِقَوْلِہٖ : ‘ہُنَاکَ’ نَجْدٌ، وَنَجْدٌ مِّنَ الْمَشْرِقِ، قَالَ الْخَطَّابِيُّ : نَجْدٌ مِّنْ جِہَۃِ الْمَشْرِقِ، وَمَنْ کَانَ بِالْمَدِینَۃِ کَانَ نَجْدُہ، بَادِیَۃَ الْعِرَاقِ وَنَوَاحِیَہَا، وَہِيَ مَشْرِقُ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ، وَأَصْلُ النَّجْدِ مَا ارْتَفَعَ مِنَ الْـأَرْضِ، وَہُوَ خِلَافُ الْغَوْرِ، فَإِنَّہ، مَا انْخَفَضَ مِنْہَا، وَتِہَامَۃُ کُلُّہَا مِنَ الْغَوْرِ، وَمَکَّۃُ مِنْ تِہَامَۃِ الْیَمَنِ، وَالْفِتَنُ تَبْدُو مِنَ الْمَشْرِقِ، وَمَنْ نَّاحِیَتِہَا یَخْرُجُ یَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَالدَّجَّالُ، وَقَالَ کَعْبٌ : بِہَا الدَّاءُ الْعُضَّالُ، وَہُوَ الْہَلَاکُ فِي الدِّینِ، وَقَالَ الْمُہَلَّبُ : إِنَّمَا تَرَکَ الدُّعَاءَ لِأَہْلِ الْمَشْرِقِ، لِیَضْعُفُوا عَنِ الشَّرِّ الَّذِي ہُوَ مَوْضُوعٌ فِي جِہَتِہِمْ لِاسْتِیلَاءِ الشَّیْطَانِ بِالْفِتَنِ .
”اس حدیث کی امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب سے مطابقت اس طرح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کہہ کر نجد کی طرف اشارہ فرمایااور نجد مشرق ہی میں واقع ہے۔فتنوں کا آغاز مشرق ہی سے ہوتا ہے۔اسی طرف سے یاجوج و ماجوج اور دجال کا ظہور ہو گا۔کعب کہتے ہیں : مشرق میں مہلک بیماری ہو گی اور وہ بیماری دین سے بیزاری ہے۔ مہلب کہتے ہیں:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مشرق کے لیے دُعا اس لیے نہیں کی کہ وہ اس شر سے باز آ جائیں جو شیطان کے فتنوں کی صورت میں ان کی سمت میں موجود ہے۔”
(عمدۃ القاري في شرح صحیح البخاري : 200/24)
نیز لکھتے ہیں : وَإِنَمَا أَشَارَ إِلَی الْمَشْرِقِ لِأَنَّ أَہْلَہ، یَوْمَئِذٍ کَانُوا أَہْلَ کُفْرٍ، فَأَخْبَرَ أَنَّ الْفِتْنَۃَ تَکُونُ مِنْ تِلْکَ النَّاحِیَۃِ، وَکَذٰلِکَ کَانَتْ، وَہِيَ وَقْعَۃُ الْجَمَلِ وَوَقْعَۃُ صِفِّینَ، ثُمَّ ظُہُورُ الْخَوَارِجِ فِي أَرْضِ نَجْدٍ وَّالْعِرَاقِ وَمَا وَرَائَہَا مِنَ الْمَشْرِقِ، وَکَانَتِ الْفِتْنَۃُ الْکُبْرَی الَّتِي کَانَتْ مِفْتَاحَ فَسَادِ ذَاتِ الْبَیْنِ قَتْلَ عُثْمَانَ رَضِيَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، وَکَانَ یُحَذِّرُ مِنْ ذٰلِکَ وَیُعْلِمُ بِہٖ قَبْلَ وُقُوعِہٖ، وَذٰلِکَ مِنْ دَلَالَاتِ نَبُوَّتِہٖ .
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ اس لیے فرمایا کہ اہل مشرق اس دور میں کافر تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ فتنے اس طرف سے سر اٹھائیں گے۔بالکل ایسے ہی ہوا۔ جنگ جمل وصفین اور خوارج کا ظہور نجدوعراق اور اس کے نواحی علاقوں ہی میں ہوا تھا۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی صورت میں سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا سبب بنا،وہ بھی اسی سمت سے آیا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان فتنوں کے واقع ہونے سے قبل ہی اس سمت سے خبردار اور متنبہ فرماتے تھے۔یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک بہت بڑی نشانی تھی۔”
(عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري : 199/24)

چرچ میں توڑ پھوڑ کے بعد متاثرین کے خلاف ہی مقدمہ

 ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاست اتر اکھنڈ کے علاقے روڑکی میں ایک چرچ پرتین اکتوبر کو 200 سے زائد شر پسندوں نے حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی تھی۔ یہ حملہ مبینہ طورپر ہندو انتہا پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے کیا تھا۔ اس حملے میں کم از کم پانچ افراد زخمی ہو گئے تھے۔ مشتعل ہجوم نے فرنیچر، تصویریں اور موسیقی کے آلات وغیرہ بھی توڑ دیے تھے۔ انہوں نے 'وندے ماترم' اور 'بھارت ماتا کی جے' کے نعرے بھی لگائے تھے۔

بھارت کے لیے بدنامی کا سبب

آل انڈیا کیتھولک یونین کے ترجمان جان دیال نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اتر اکھنڈ اور مرکز میں بی جے پی حکومتوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اس طرح کے واقعات دنیا بھر میں بھارت کے لیے بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔

چرچ کی منتظم سادھنا لانس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی شکایت کے باوجود پولیس نے اب تک کسی حملہ آور کو گرفتار نہیں کیا بلکہ الٹا ان کے اور نو دیگر افراد کے خلاف کیس درج کر دیا۔ ان سب پر ایک خاتون کو دھمکی دینے اور حملہ کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ لانس کا کہنا تھا، "ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اتر اکھنڈ پولیس سیاسی دباؤ میں ہے کیونکہ اس نے اب تک کسی کو گرفتار نہیں کیا ہے۔ الٹا خود ہمارے ہی خلاف کیس درج کر لیا۔ یہ سیاسی اغراض پر مبنی ہے۔"

اتراکھنڈ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے میڈیا سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا کہ لانس کے خلاف درج کیس بظاہر مشکوک دکھائی دیتا ہے۔

''آج ہماری ٹیم نے چرچ کے قریب واقع ایک گھر کے پاس لگے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج حاصل کر لی ہے۔ متاثرین کے خلاف درج کرایا گیا کیس بظاہر جھوٹا نظر آتا ہے اور ہم اسے وقت آنے پر منسوخ کر دیں گے۔'' انہوں نے مزید کہا کہ چرچ پر حملے کے معاملے میں جن لوگوں کے خلاف کیس درج کرایا گیا ہے، ان کا ٹھکانہ معلوم ہو گیا ہے اور وہ جلد ہی گرفتار کر لیے جائیں گے۔

مذہب تبدیل کرانے کا الزام

بھارت میں کسی مسجد یا چرچ پر حملے کو بالعموم تبدیلی مذہب کے الزام سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر مدن کوشک نے ایک بیان میں کہا کہ اس چرچ کا استعمال ہندوؤں کا مذہب تبدیل کرانے کے لیے ہو رہا تھا۔ "اس واقعے میں جو لوگ ملوث ہیں، وہ دراصل اسی کالونی کے رہنے والے تھے اور چرچ کو مذہب کی تبدیلی کے لیے استعمال کیے جانے کی وجہ سے ناراض تھے۔"

سادھنا لانس اس الزام کی تردید کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، "میں ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر تھی اور ریٹائرمنٹ کے بعد چرچ میں خدمت انجام دے رہی ہوں۔ میں سب کچھ اپنی جمع کردہ رقم اور پینشن کے پیسوں سے کرتی ہوں۔ مذہب تبدیل کرانے کا الزام اس لیے لگایا جا رہا ہے کہ الیکشن قریب ہیں۔"

مسیحیوں پر حملوں کے واقعات

بھارت میں مسیحیوں اور ان کی عبادت گاہوں پر شدت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے حملے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ مسیحیوں کا تاہم کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد ان حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔

گزشتہ ماہ ہی مسیحی مذہبی رہنماؤں نے بھارتی صدر کو ایک خط لکھ کر ان سے ملک میں مسیحیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں مداخلت کی اپیل کی تھی۔ اس خط کی نقل مدھیہ پردیش کے بی جے پی کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان اور گورنر منگو بھائی پٹیل کو بھی پیش کی گئی تھی۔

مسیحی رہنماؤں نے اپنے اس خط میں لکھا تھا کہ وشو ہندو پریشد کے ارکان ہونے کا دعویٰ کرنے والے افراد مدھیہ پردیش کے جھابوا ضلع میں تمام مسیحی عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔

عالمی اداروں کی رپورٹیں

امریکا کے مذہبی آزادیوں سے متعلق کمیشن نے سن 2021 کی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں حکومت کے ذریعے ہندو قوم پرستانہ پالیسیوں کو فروغ دیے جانے کے نتیجے میں مذہبی آزادی کی منظم اور سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔

بھارت میں مسیحیوں کی ایک تنظیم یونائیٹڈ کرسچن فورم (یو سی ایف) کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف مارچ2020 میں ایک مہینے کے دوران بھارت کی دس ریاستوں میں مسیحیوں کے خلاف تشدد کے کم از کم 27 واقعات درج کیے گئے تھے۔ ان میں سے سب سے زیادہ یعنی چھ واقعات صرف اتر پردیش میں پیش آئے تھے۔

جولائی 2021 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی کم از کم 17 تنظیموں نے بھی امریکی حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ بھارت میں مسیحیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی زیادتیاں رکوانے کے لیے کارروائی کرے۔

آل انڈیا کیتھولک یونین کے رہنما جان دیال نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "مسیحیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافے کی وجہ یہ بھی ہے کہ متاثرین کے خلاف ہی جھوٹی رپورٹیں درج کرا دی جاتی ہیں، انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں جبکہ دوسری طرف سنگھ پریوار کے لوگوں کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ جو جی میں آئے کریں۔ انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے۔''