https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 7 October 2021

شیخ عبدالوہاب نجدی سے متعلق غلط فہمیاں

 عراق میں متعدد علماء پر شیخ محمد بن عبدالوہابؒ کی دعوت کا اثر ہوا. عراقی عالم عبدالعزیز بک الشادی جب حج کے لئے تشریف لے گئے تو سعود خاندان کے قائدین سے ملاقات کی. عراق کو واپس ہوتے ہوئے الدرعیہ سے گزرے، آپ شیخ ؒ کی دعوت کے قائل ہوگئے اور عراق واپسی پر شیخ کی دعوت کے ایک فعال مبلغ بن گئے. کافی سالوں تک وہ بے شمار لوگوں کو اسلام کے صحیح عقائد کی تعلیم دیتے رہے ۔

علی بن محمد بن سعید السویدی البغدادی ایک محدث اور مؤرخ تھے، آپ بغداد میں پیدا ہوئے اور 1232 ؁ ھ میں دمشق میں وفات پائی. آپ نے شیخ محمد بن عبدالوہاب ؒ کی دعوت قبول کرلی اور گورنر بغداد سلیمان پاشا الصغیر کو اس دعوت پر قائل کرنے کی کوشش کی. آپ کا طریقۂ کار وہی تھا جو شیخ محمد بن عبدالوہابؒ کا تھا .

انہوں نے اپنے شاگردشہاب الدین الآلوسی ؒ (1802 ؁ء ۔1854 ؁ء)کو شیخ محمد ؒ کی تعلیمات پر راغب کیا اور آلوسیؒ کے علم دوست خاندان کو شیخ محمدؒ کی دعوت کی مدافعت پر مامور کیا .

غالباً آلوسی خاندان عراق میں شیخ محمد ؒ کی تعلیمات اور آپ کی دعوت کی نشر واشاعت میں سب سے زیادہ مؤثر رہا، علامہ محمود الآلوسی (متوفی 1835 ؁ء) نے مشہور قرآنی تفسیر لکھی، نعمان (متوفی 1899 ؁ء) شیخ ابن تیمیہؒ کے پُرجوش حمایتی تھے .محمود شکری ؒ(1857 ؁ء۔1924 ؁ء) شیخ محمدؒ کے عظیم حمایتی او رمتبع تھے آپ نے تاریخ نجد لکھی اور شیخ محمد ؒ کی کتاب (المسائل الجاہلیۃ) پر شرح لکھی اور آپ ؒ کے مخالفین کے دلائل کے رد میں (ابن جرجیس اور النبہانی کے رد میں)دو کتابیں لکھیں .

یہ کہنا کہ شیخ عبدالوہاب نجدی نے کربلا میں یاعراق کے کسی اور علاقہ میں آل سعود کے ساتھ مل کر جنگ کی بالکل غلط ہے. 

شیخ نے بدعات وخرافات کے خلاف آواز اٹھائی لیکن باقاعد ہ کسی سے جنگ نہیں کی. 

شیخ محمد ؒ کے دور میں سرزمین نجد سلطنت عثمانیہ کے زیر اقتدار نہ تھی بلکہ وہ ایک آزاد ریاست تھی جس کے ہر چھوٹے شہر یا بدو قبیلہ کا اپنا اپنا حاکم ووالی ہوا کرتا تھا. چنانچہ جب شیخ ؒ نے عیینہ میں قیام پذیر ہوکر اپنی دعوت کا آغاز کیا تو آپ نے وہاں کے مقامی حاکم کے ساتھ معاہدہ کیا اور اس کا تعاون حاصل کیا. اسی طرح جب آپ درعیہ منتقل ہوئے تو اس کے امیر محمد بن سعود کے ساتھ بھی آپ نے معاہدہ کیا جو تقریباً بیس سال رہا.

یہ بات بالکل واضح ہے کہ شیخ ؒ نے کسی بھی لمحہ مقامی حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کیا، اور چونکہ سرزمین نجد کبھی بھی شیخ  کے زمانے  میں  سلطنت عثمانیہ کے ماتحت نہ رہی لہذا آپ نے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت بھی نہ کی.یہ مسئلہ اتنا کچھ واضح ہونے کے باوجود ابن افالق لکھتا ہے کہ’’تمہاری توحید میں چونکہ مسلم حکمرانوں کے خلاف بغاوت شامل ہے،اور یہ کفر ہے توحید نہیں۔

اور جیساکہ پہلے عرض ہوچکا، ابن عابدین نے بھی ’’وہابیوں‘‘ کے باغی ہونے کا دعویٰ کیا، اسی طرح کے دعوے دحلان، الأمالی اور دیگر لوگوں نے بھی کئے ہیں ۔

اس مقام پر شیخ ؒ نے اپنے عقائد کو واضح طور پر بیان کیا ہے کہ یہ وہی عقائد ہیں جو اہل سنت وجماعت کے ہمیشہ سے رہے ہیں. چنانچہ آپ نے اپنے ایک مکتوب میں القصیم کے لوگوں کو لکھا:

’’میں اس پر ایمان رکھتا ہوں کہ مجھ پر واجب ہے کہ میں مسلمان حکمرانوں کی سمع واطاعت کروں ، چاہے وہ نیک ہوں یا بد، تاوقتیکہ وہ اللہ کی معصیت کا حکم نہ دیں، یہ فرمانبرداری ہر اس شخص کے لئے ہے جو خلیفہ ہواور جس کے تقرر پر تمام لوگ متفق ہوں اور راضی ہوں حتی کہ اگر وہ بزور قوت خلیفہ بنا تو بھی واجب ہے کہ اس کی فرمانبرداری کی جائے اور اس کے خلاف بغاوت جائز نہیں ۔ ‘‘

شیخ محمد ؒ اور عثمانی حکمرانوں کے مابین جو کچھ معاملہ ہواتھا محمد نسیب الرفاعی نے اس کو واضح کیا ہے جو کافی حد تک صحیح معلوم ہوتا ہے .چنانچہ انہوں نے لکھا کہ : ’’شیخ محمد بن عبدالوہاب نے کبھی مسلم خلافت کا تختہ الٹنے کے بارے میں نہیں سوچا، تاہم جو خلیفہ کے اردگرد تھے اور صوفی سلسلوں سے تعلق رکھنے والے تھے انہوں نے خلیفہ کو ’’وہابیوں‘‘ کے خلاف اکسانے کے لئے غلط خبریں پھیلائیں، انہوں نے یہ تاثر پھیلایا کہ یہ تحریک خلافت کی مخالف ہے جس کی کوشش یہ ہے کہ خلافت دوبارہ عربوں میں واپس آجائے.جب کہ شیخ ؒ کے عقائد عین اسلام کے مطابق ہیں، جس کی رو سے ایک حکمران کے خلاف بغاوت جائز نہیں جب تک کہ وہ واضح کفر کا مرتکب نہ ہو، شیخ ؒ کو خلیفہ میں ایسی کوئی بات نظر نہ آئی جس کی بنا پروہ خلیفہ کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے یہاں تک کہ اگر خلیفہ فاسق بھی ہو مگر خالص اور واضح کفر کی حد تک نہ پہنچا ہو تو ایسی صورت حال میں بھی اس کے خلاف بغاوت یا اس کی حکومت کو ہٹانے کی کوشش جائز نہیں ‘‘۔

شیخ عبدالوہاب نجدی نے جنگ میں حصہ کبھی نہیں لیا. شاہ سعود اور ان کے خاندان نے نجد پرحکمراں خاندانوں سےیقیناً جنگیں کیں اس وقت عرب کااکثرعلاقہ یادولت عثمانیہ کے زیر اقتدار تھا یا اپنی اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کرلی گئیں تھیں ان کے خلاف شیخ کی کوئی جنگ نہیں  ہوئی البتہ دولت عثمانیہ اور آل سعود میں جنگیں ہوئیں .دولت عثمانیہ کی طرف سے محمد علی پاشا اور ان کے بیٹے ابراہیم پاشا نے یقیناً آل سعود سے جنگیں کیں. لیکن ان جنگوں کا شیخ عبدالوہاب نجدی کی ذات سے کوئی تعلق نہیں. 

محمد علی نے پہلے ہی اپنی فوج میں یورپی نظم و ضبط کو متعارف کرانا شروع کر دیا تھا اور ابراہیم نے شاید کچھ تربیت حاصل کی تھی ، لیکن اس کی پہلی مہم اس کے بعد کے آپریشنوں کے مقابلے میں پرانے ایشیاٹک انداز میں زیادہ چلائی گئی تھی۔ یہ مہم دو سال تک جاری رہی اور ایک سیاسی طاقت کے طور پر سعودی ریاست کی تباہی پر ختم ہوئی۔ محمد علی 1813 کو مدینہ کی بندرگاہ ینبع پہنچے۔ سعودیوں سے یہ مقدس شہر بازیافت ہوچکے تھے اور ابراہیم کا کام ان کے پیچھے صحرا نجد میں جانا تھا اور ان کے قلعوں کو تباہ کرنا تھا۔ اس طرح کی تربیت جیسا کہ مصری فوجیوں نے حاصل کی تھی اور ان کے توپ خانے نے انہیں کھلے میدان میں نمایاں برتری عطا کی تھی۔ لیکن صحرا نے سعودیوں کے مضبوط گڑھ درعیہ تک جانے میں دشواری نے ، مدینہ سے تقریبا 400 میل دور مشرق کو فتح کرنا بہت مشکل بنا دیا۔ ابراہیم نے اپنی فوج کی تمام مشکلات کو بانٹتے ہوئے بڑی طاقت کا مظاہرہ کیا اور کبھی بھی ناکامی کی وجہ سے اس نے حوصلہ نہیں چھوڑا تھا۔ ستمبر 1818 کے آخر تک ، اس نے سعودی رہنما کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا تھا اور درعیہ کو بھی لے لیا تھا ، جسے اس نے برطرف کر دیا تھا۔


3 comments:

  1. اللہ تمام اہل بدعت کو حدایت دے اور شیخ کی دعوت توحید کو سمجھنے کی توفیق دے

    ReplyDelete