https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 3 April 2021

حادثۂ فاجعہ

امیر شریعت حضرت مولانا ولی رحمانی  رحمہ اللہ نے آج دن میں تقریباڈھائی بجے وفات پائی اناللہ واناالیہ راجعون.موت توبہرحال ایک نہ ایک دن آنی ہی تھی لیکن موجودہ حالات میں آپ کی موت ہندوستانی مسلمانوں کے لئے  ایک جانکاہ حادثہ ہے جس کی تلافی فی الحال بظاہرمشکل سی بات ہے.ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل سے ان کی وابستگی لازمی درجہ کی تھی.امت مسلمہ کی فکر,اس کادرد اس کی ترقی وعروج کے ذرایع ووسائل کی کھوج ,مسلمانوں  کی زبوں حالی اور انحطاط کاسدباب اس کی فکراورسبھی درپیش مسائل کاحل آپ کے فکروعمل کا محور تھااسی میں آپ کی عمر صرف ہوئی بلکہ آپ کاپوراخاندان امت مسلمہ کی فکراس کی ترقی وعروج کے لئے فکرمندرہا.آپ کے والد گرامی حضرت مولانامنت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ یکے از بانیان آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ, علامہ انورشاہ کشمیری کے شاگرد رشید اورمجاہد آزادی تھے.ان کے والد یعنی مولاناولی رحمانی کے دادا مولانا محمد علی مونگیری ندوۃ العلماء کے بانی تھے. آپ کاخاندان موضع محی الدین پور ضلع مظفرنگریوپی سے پہلے کانپور پھر مونگیر بہار میں مقیم ہوگیاتھا وہیں مولانامنت اللہ رحمانی,مولاناولی رحمانی پیداہوئے وہیں ان کی خانقاہ اور مدرسہ جامعہ رحمانی ہے. مولاناولی رحمانی کی مختصرسوانح حسب ذیل ہے.



Sunday 28 March 2021

مولانامحمد رفیق قاسمی رحمہ اللہ

  حضرت مولانامحمد رفیق قاسمی صاحب موضع اڈبر ضلع گوڑگانوں حالیہ ضلع نوح میوات ہریانہ میں پیداہوئے.افسوس آج بروزاتوار14شعبان المعظم 1442ھ /28مارچ2021ء بوقت عصروفات پائی اناللہ واناالیہ راجعون.آپ نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعدعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے.پی ایچ ڈی عربی زبان میں کیا. اے ایم یو سٹی اسکول میں دینیات کے سابق استاد تھے ریٹائر منٹ کے بعد سے ہی عرصہ دراز سے ڈپریشن کے مرض میں مبتلا تھےسادہ مزاج بے تکلف خوشگفتار اور ملنسار طبیعت کے مالک تھے .تقریباایک سال قبل آپ کی اہلیہ محترمہ نے وفات پائی تھی کہ آج شب برات کو تقریبادس بجے علی نگر علی گڑھ کے قبرستان میں آپ کو بھی سپرد خاک کردیاگیا.اللہ تعالی مرحوم کوجنت الفردوس میں جگہ دے اور پسماندگان کوصبرجمیل عطافرمائے.آپ مدرسہ معین الاسلام نوح میں  میرے والد  صاحب مرحوم کے ہمدرس تھے.راقم الحروف پر ان کی خاص شفقت وعنایات تھیں انہوں نے سینکڑوں طلباء وطالبات کوگھرجاکربلامعاوضہ عربی زبان ,دینیات اور قرآن مجید کی تعلیم دی.

مرحوم طویل وقت سے صاحب فراش تھےمسلسل علالت نے بالکل نحیف وناتواں کردیاتھا بالآخر عصر کے وقت فرشتۂ اجل کولبیک کہا:

کون جینے کے لئے مرتاہے

لوسنبھالواپنی دنیا ہم چلے

قرآن پر ہاتھ رکھ کر گناہ نہ کرنے کی قسم کھائی پھر وہی گناہ کرلیا توکیا کفارہ ہوا

 محض قرآن پر ہاتھ رکھنے سے قسم منعقد نہیں ہوتی جب تک کے قسم کھانے والا زبان سے الفاظ ادا نہ کرے کہ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں یا میں قرآن کی قسم کھاتاہوں  کہ فلاں کام نہیں کروں گا؛ لہذا اگر اس نے ان الفاظ کے ساتھ قسم کھائی تھی تو اس کو قسم کے توڑنے کا کفارہ دینا ہوگا اور اگر ان الفاظ کے ساتھ قسم نہیں کھائی تھی، بلکہ صرف قرآنِ مجید پر ہاتھ رکھ کر یہ کہا تھا کہ میں یہ کام نہیں کروں گا تو ایسی صورت میں اس پر کفارہ نہیں ہے، لیکن آئندہ پوری کوشش کرے کہ مذکورہ گناہ اس سے صادر نہ ہو۔اگر دو مرتبہ قسم کھا کرتوڑی ہے دو کفارے دینا لازم ہیں۔ 

قسم کا کفارہ یہ ہے کہ اگر مالی استطاعت ہے تو دس غریبوں کو کپڑوں کا جوڑا دے، یا دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کے برابر رقم دے دے، یا ایک ہی مسکین کو دس دن تک دو وقت کھانا کھلائے یا اسے دس دن تک روزانہ ایک ایک صدقہ فطر کی رقم دیتارہے، اور اگر اتنی استطاعت نہ ہو تو پھر لگاتار دین دن روزے رکھے۔ فقط واللہ اعلم