https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 27 May 2022

حضرت عبید بن عمیر کا قصہ

عُبید بن عُمیر ، بن قتادہ اللیثی رحمہُ اللہ پہلے درجے کے تابعین میں سے تھے ، کنیت ابو عاصم تھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُور مُبارک میں ہی پیدا ہو چکے تھے ، تاریخ وفات سن اَڑسٹھ 68ہجری ہے ، اھل مکہ کے قاضی اور اُن میں سے سب سے بہترین اندازء خطاب والے خطیب تھے ، یعنی اِس طرح وعظ و نصیحت اور خطاب فرماتے تھے جیسا کہ کوئی آنکھوں دیکھا قصہ بیان کیا جا رہا ہو ،بلکہ کچھِ اس طرح گویا کہ بیان کرنے والا اُس قصے کے کرداروں کے تاثرات اور اُس قصے کے واقعات کے اثرات خود پر پا رہا ہو، حق گوئی کے ساتھ ایسا اندازء بیان اللہ کسی کسی کو ہی نصیب فرماتا ہے ، عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے مُسلمانوں میں سب سے پہلے یہ انداز خطابت دُوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المومنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہما کے دور خلافت میں پیش کیا ، اپنے دیگر تابعین بھائیوں رحمہم اللہ کی طرح اِیمان ، عِلم ء نافع ، عمل ء صالح اور ز ُھد و تقویٰ کی عظیم الشان مثال تھے، اپنے زمانے کے """ مُستجاب الدعوات """ لوگوں میں سے مانے جاتے تھے یعنی جن کی دُعا ءقُبول ہوتی تھی ، إمام مجاھد رحمہ ُ اللہ کہا کرتے تھے """ہم اپنے فقیہ اور اپنے قاضی پر فخر کرتے ہیں ، ہمارے فقیہ تو ہیں عبداللہ ابن عباس ( رضی اللہ عنہما ) اور ہمارے قاضی ہیں عُبید بن عُمیر( رحمہُ اللہ)، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اللہ کے دِین کو جِس کا ایک حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّتء مُبارکہ پر مشتمل ہے ، اُس دِین کی جُزئیات کواِنتہائی اِمانت ، صداقت ، احتیاط ،ذمہ داری اور خوب چھان بین کےساتھ اپنے دِلوں میں محفوظ کیا ، زندگی بھر اُس پر عمل پیرا رہے ، اور اِسی طرح دُوسروں کو سِکھایا ، قصہ مختصر ایک عورت کو اللہ نے بہت حُسن دیا تھا کہ گویا اُس کا حُسن توبہ شکن تھا ، ایک دِن اُس عورت نے اپنا چہرہ آئینے میں دیکھا تو اُس نے اپنے خاوند سے کہا """کیا تُم یہ سوچ سکتے ہو کہ کوئی شخص میرا چہرہ دیکھ کر میرے حُسن کا شِکار ہوئے بغیر رہ سکتا ہے ؟ """ اُس کے خاوند نے کہا """ ہاں """ بیوی نے کہا """ ایسا کون ہو سکتا ہے ؟ """ خاوند نے کہا """ عُبید بن عُمیر """ بیوی نے کہا """ مجھے اُس کے پاس جانے کی اِجازت دو ، میں اُسے ضرور فتنے میں ڈال کر رہوں گی """ خاوند نے کہا """ جاؤ ، اِجازت ہے """ بیوی نے تیاری کی اور عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ کے پاس فتویٰ حاصل کرنے کے بہانے سے پہنچی ، اور علیحدگی میں بات کرنے کے لیے عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ کو مسجد الحرام کے ایک گوشے میں لیے چلی ، جب وہ دونوں لوگوں کی نظروں سے کافی دُور ہو گئے تو اُس عورت نے اپنے چہرے سے پردہ ہٹا دیا ، گویا کہ چمکتے دمکتے چاند کاایک ٹکڑا زمین پر اُتر آیا ہو ، عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ اے اللہ کی بندی ، اللہ کا خوف کرو اور اپنا چہرہ چھپائے رکھو """ عورت نے کہا """ میں آپ کی مُحبت میں مُبتلا کر دِی گئی ہوں ، میرے معاملے میں غور فرمایے """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ میں تُم سے کچھ پوچھتا ہوں ، اگر تُم نے ہاں میں جواب دیا تو پھر میں تمہارے اُس معاملے میں کی طرف توجہ کروں گا """ عورت نے کہا """ آپ جو بھی پوچھیں گے میں اُس میں آپ کی ہاں میں ہاں ہی ملاوں گی """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ مجھے یہ بتاؤ کہ جب ملک الموت تُمہاری رُوح قبض کرنے کے لیے آئے گا تو کیا تمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تُمہاری یہ ضرورت پُوری کی ہو ؟ """ عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ، نہیں """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """، اور پوچھا """ جب تمہیں قبر میں داخل کر دیا جائے گا اور پھر تمہیں سوال وجواب کے لیے بٹھایا جائے گا تو کیاتمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ """ عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ، نہیں """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """، اور پھر پوچھا """ جب لوگوں کو اُن کے اعمال نامے دیے جائیں گے ، اور تم جانتی نہیں ہو گی کہ تمہار ا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا یا بائیں ہاتھ میں ،تو کیا تمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ """ عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ، نہیں """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """، اور پوچھا """ اور جب تم پل صراط سے گذرنے لگو گی اور تم نہ جانتی ہوگی کہ تم لڑکھڑاؤ گی یا ثابت قدمی سے گذر جاؤ گی ، تو کیاتمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ """ عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ، نہیں """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """، اور پوچھا """ اور جب اعمال تولنے کے لیے ترازو پر لائے جائیں گے اور تم نہ جانتی ہو گی کہ تمہارے نیک کاموں کا پلڑا بھاری ہو گا یا ہلکا ، تو کیا تمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ """ عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ، نہیں """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """، اور پوچھا """ اور جب تُم سوال و جواب کے لیے اللہ کے سامنے پیش کی جاؤ گی ، تو کیاتمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ """ عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ، نہیں """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """، اورفرمایا """ اے اللہ کی بندی ، اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے بچو ، اُس نے تُمہیں اپنی نعمتیں عطاء کی ہیں ، اور تمہارے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے """ یہ سب سن کر وہ عورت اپنے خاوند کے پاس واپس پہنچی تو اُس نے پوچھا """ کیا کر کے آئی ہو؟ """ عورت نے کہا """ تم بے کار و بے ہودہ ہو ، ہم سب ہی بے کار و بےہودہ ہیں """ اور وہ عورت نماز ،روزےاور عِبادات کی طرف پلٹ پڑی ، اِس واقعے کے بعد اُس کا خاوند کہا کرتا تھا """ میرے اور عُبید بن عُمیر کے درمیان کیا دشمنی تھی کہ اِس نے میری بیوی کو میرے لیے خراب کر دیا ، پہلے میں ہر رات دُولہا ہوتا تھا اور اب اِس نے میری بیوی کو راھبہ بنا دیا ہے """

Tuesday 24 May 2022

فسخ اورطلاق میں فرق

خاوند اور بيوى ميں عليحدگى یا تو طلاق کے ذریعے ہوتی ہے یاخلع کے ذریعہ (خلع بھی طلاق ہی کی ایک قسم ہے) يا پھر فسخ نكاح كے ذريعہ. طلاق اورفسخ ميں فرق يہ ہے كہ خاوند كى جانب سے ازدواجى تعلق كو ختم كرنا طلاق كہلاتا ہے، اس كے كچھ مخصوص اور معروف الفاظ ہيں. رہا فسخ نكاح تو يہ عقد نكاح كو توڑنا اور ازدواجى ارتباط كو بالكل اصلا ختم كرنے كا نام ہے گويا كہ يہ ارتباط تھا ہى نہيں، اور يہ قاضى يا شرعى حكم كے ذريعہ ہوگا. اور ان دونوں ميں درج ذيل فرق پايا جاتا ہے: 1 ـ طلاق صرف خاوند كے الفاظ اور اس كے اختيار و رضا سے ہوتى ہے، ليكن فسخ نكاح خاوند كے الفاظ كے بغير بھى ہو جاتا ہے، اور اس ميں خاوند كى رضا اور اختيار كى شرط نہيں. امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں: " ہر وہ جس سے تفريق اور عليحدگى كا فيصلہ كيا جائے اور خاوند اس كے الفاظ نہ بولے، اور اسے نہ چاہے... تو يہ عليحدگى طلاق نہيں كہلائيگى " انتہى ديكھيں: الام ( 5 / 128 ) 2 ـ طلاق كے كئى ايك اسباب ہيں، اور بعض اوقات بغير كسى سبب كے بھى ہو سكتى ہے، بلكہ طلاق تو صرف خاوند كا اپنى بيوى كو چھوڑنے كى رغبت سے ہوگى. ليكن فسخ نكاح كے ليے سبب كا ہونا ضرورى ہے جو فسخ كو واجب يا مباح كرے. فسخ نكاح ثابت ہونے والے اسباب كى مثاليں: ٭. خاوند اور بيوى كے مابين منافرت یاشقاق کاہونا كفؤ و مناسبت نہ ہونا ـ. ٭. جب خاوند يا بيوى ميں سے كوئى ايك اسلام سے مرتد ہو جائے، اور دين اسلام ميں واپس نہ آئے. ٭. جب خاوند اسلام قبول كر لے اور بيوى اسلام قبول كرنے سے انكار كر دے، اور وہ مشركہ ہو اور اہل كتاب سے تعلق نہ ركھتى ہو. ٭. خاوند اور بيوى ميں لعان ہو جائے. ٭. خاوند كا نفقہ و اخراجات کی ادائیگی سے تنگ اور عاجز ہو جانا،یاموسرہونے کے باوجود نفقہ ادانہ کرنا, حقوق زوجیت ادانہ کرنا,عنین,مجبوب,مجنون,مبروص ہونا . . ٭. خاوند يا بيوى ميں سے كسى ايك ميں ايسا عيب پايا جائے جو استمتاع ميں مانع ہو، يا پھر دونوں ميں نفرت پيدا كرنے كا باعث بنے. خاوندکامتعنت ہونا, نفقہ یاحقوق زوجیت ادانہ کرنا. وغیرہ وغیرہ. 3 ـ فسخ نكاح كے بعد خاوند كو رجوع كا حق حاصل نہيں اس ليے وہ اسے نئے عقد نكاح اور عورت كى رضامندى سے ہى واپس لا سكتا ہے. ليكن طلاق رجعى كى عدت ميں وہ اسكى بيوى ہے، اور اسے پہلى اور دوسرى طلاق كے بعد اسے رجوع كرنے كا حق حاصل ہے، چاہے بيوى راضى ہو يا راضى نہ ہو. ٭. فسخ نكاح ميں مرد جن طلاقوں كى تعداد كا مالك ہے اسے شمار نہيں كيا جاتا. امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں: " اور خاوند اور بيوى كے مابين جو فسخ نكاح ہو تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوتى، نہ تو ايك اور نہ ہى اس كے بعد " انتہى ديكھيں: كتاب الام ( 5 / 199 ) ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں: " فسخ نكاح اور طلاق ميں فرق يہ ہے كہ اگرچہ ہر ايك سے خاوند اور بيوى ميں عليحدگى اور تفريق ہو جاتى ہے: فسخ يہ ہے كہ جب اس كے بعد خاوند اور بيوى دوبارہ نكاح كريں تو وہ پہلى عصمت پر ہيں، اور عورت اپنے خاوند كے پاس تين طلاق پر ہو گى ( يعنى خاوند كو تين طلاق كا حق ہوگا ) اور اگر اس نے فسخ نكاح سے قبل طلاق دى اور رجوع كر ليا تو اس كے پاس دو طلاقيں ہونگى " انتہى ديكھيں: الاستذكار ( 6 / 181 ) 5 ـ طلاق خاوند كا حق ہے، اس ميں قاضى كے فيصلہ كى شرط نہيں، اور بعض اوقات خاوند اور بيوى دونوں كى رضامندى سے ہوتى ہے. ليكن فسخ نكاح شرعى حكم يا پھر قاضى كے فيصلہ سے ہو گا، اور فسخ نكاح صرف خاوند اور بيوى كى رضامندى سے نہيں ہو سكتا، الا يہ كہ خلع كى صورت ميں. ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں: " دونوں ( يعنى خاوند اور بيوى ) كو بغير عوض ( يعنى خلع ) كے فسخ نكاح پر راضى ہونے كا حق حاصل نہيں، اس پر اتفاق ہے " انتہى ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 598 ). 6 ـ دخول سے قبل فسخ نكاح عورت كے ليے كوئى مہر واجب نہيں كرتا، ليكن دخول سے قبل طلاق ميں مقرر كردہ مہر كا نصف مہر واجب ہوتا ہے. ليكن خلع يہ ہے كہ عورت اپنے خاوند سے مطالبہ كرے كہ وہ مالى عوض يا پھر مہر سے دستبردار ہونے كے مقابلہ ميں اس سے عليحدگى اختيار كر لے.

Sunday 22 May 2022

کیکڑاکھاناکیساہے

حنفی مسلک کے اعتبار سے کیکڑا کھانا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ مچھلی کے قبیل سے نہیں ہے، اور پانی کے جانوروں میں سے صرف مچھلی کا کھانا حلال ہے، جہاں تک اس کی بیع کی بات ہے تو کسی نفع کی غرض سے کیکڑے کی خریدو فروخت کر سکتے ہیں۔ ”ولا یحل حیوان مائي إلا السمک“ (الدر المختارمع الشامی: ۹/۴۴۴، ط: زکریا) احناف کے یہاں سمندری جانوروں میں سے صرف مچھلی کھانا حلال ہے۔ کیکڑا چوں کہ مچھلی کی کسی قسم میں شامل نہیں، بلکہ کیکڑے کا شمار ہ دریائی کیڑوں میں ہوتا ہے،اس لیے کیکڑا کھانا مکروہِ تحریمی ہے، قرآنِ حکیم میں جہاں اللہ تعالیٰ نے سمندری مخلوق کا ذکر فرمایا ہے وہ آیت یہ ہے: أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ[المائدۃ، 96] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سمندر کے شکار کو کھانے کی اجازت دی ہے، لیکن احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں اس آیت میں شکار سے مراد صرف مچھلی ہے، لہذا کیکڑے کے حلال ہونے کے لیے اس آیت کو پیش کرنا درست نہیں۔ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 35): {ويحرم عليهم الخبائث} [الأعراف: 157] والضفدع والسرطان والحية ونحوها من الخبائث