https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 23 April 2022

کلمات کفر

کفریہ کلمات متعین اور محدود نہیں ہیں کہ ان سب کو بیان کیا جاسکے، البتہ اصولی جواب یہ ہے کہ ’’وہ کلمات جو اسلامی ضروری عقائد کے خلاف ہیں، اور ان میں درست و واقعی تاویل کا احتمال نہ ہو، انہیں جان بوجھ کر کہنے سے آدمی اسلام سے نکل جاتا ہے اور مسلمان عورت سے اس کا نکاح بھی ختم ہوجاتا ہے‘‘۔ اس موضوع کے حوالے سے درج ذیل کتاب کا مطالعہ مفید رہے گا: ’’کفریہ الفاظ اور ان کے احکامات‘‘ (مولانا عبد الشکور قاسمی) الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 222): "وفي الفتح: من هزل بلفظ كفر ارتد وإن لم يعتقده للاستخفاف فهو ككفر العناد. (قوله: من هزل بلفظ كفر) أي تكلم به باختياره غير قاصد معناه، وهذا لاينافي ما مر من أن الإيمان هو التصديق فقط أو مع الإقرار لأن التصديق، وإن كان موجوداً حقيقةً لكنه زائل حكماً؛ لأن الشارع جعل بعض المعاصي أمارة على عدم وجوده كالهزل المذكور، وكما لو سجد لصنم أو وضع مصحفاً في قاذورة فإنه يكفر، وإن كان مصدقاً لأن ذلك في حكم التكذيب، كما أفاده في شرح العقائد، وأشار إلى ذلك بقوله: للاستخفاف، فإن فعل ذلك استخفافاً واستهانةً بالدين فهو أمارة عدم التصديق، ولذا قال في المسايرة: وبالجملة فقد ضم إلى التصديق بالقلب، أو بالقلب واللسان في تحقيق الإيمان أمور الإخلال بها إخلال بالإيمان اتفاقا، كترك السجود لصنم، وقتل نبي والاستخفاف به، وبالمصحف والكعبة. وكذا مخالفة أو إنكار ما أجمع عليه بعد العلم به لأن ذلك دليل على أن التصديق مفقود، ثم حقق أن عدم الإخلال بهذه الأمور أحد أجزاء مفهوم الإيمان فهو حينئذ التصديق والإقرار وعدم الإخلال بما ذكر بدليل أن بعض هذه الأمور، تكون مع تحقق التصديق والإقرار، ثم قال ولاعتبار التعظيم المنافي للاستخفاف كفر الحنفية بألفاظ كثيرة، وأفعال تصدر من المنتهكين لدلالتها على الاستخفاف بالدين كالصلاة بلا وضوء عمدا بل بالمواظبة على ترك سنة استخفافا بها بسبب أنه فعلها النبي صلى الله عليه وسلم زيادة أو استقباحها كمن استقبح من آخر جعل بعض العمامة تحت حلقه أو إحفاء شاربه اهـ. قلت: ويظهر من هذا أن ما كان دليل الاستخفاف يكفر به، وإن لم يقصد الاستخفاف لأنه لو توقف على قصده لما احتاج إلى زيادة عدم الإخلال بما مر لأن قصد الاستخفاف مناف للتصديق (قوله: فهو ككفر العناد) أي ككفر من صدق بقلبه وامتنع عن الإقرار بالشهادتين عنادا ومخالفة فإنه أمارة عدم التصديق". الفتاوى الهندية (2/ 283): "رجل كفر بلسانه طائعاً، وقلبه مطمئن بالإيمان يكون كافراً، ولايكون عند الله مؤمناً، كذا في فتاوى قاضي خان"

عیدین کی نماز کاطریقہ مسائل و احکام

عیدین (عید الفطر اور عید الاضحیٰ) کی نماز دین کے شعائر میں سے ہے،اورعیدین کی نماز سے مقصود مسلمانوں کی شان و شوکت اور قوت کا اظہار ہے، یہی وجہ ہے کہ عیدین کی نماز عید گاہ میں پڑھنا مسنون ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمان ایک جماعت میں شریک ہوسکیں۔ شہر، فنائے شہر اور بڑا گاؤں جہاں جمعہ قائم کرنے کی شرائط پائی جاتی ہیں وہاں عید کی نماز پڑھنا واجب ہے، تاہم جمعہ اور عید کی نماز کی شرائط میں فرق یہ ہے کہ جمعہ کے درست ہونے کے لیے خطبہ شرط ہے ، جب کہ عید کی نماز کے لیے خطبہ شرط نہیں، سنت ہے،اسی طرح عید کی نماز کے لیے اذنِ عام کا ہونا بھی شرط نہیں،جمعہ اور عید کی نمازوں کے لیے جماعت کا ہونا شرط ہے، انفرادی طور پر جمعہ یا عید کی نماز ادا کرنا درست نہیں، جماعت کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے، لیکن جمعہ اور عید کی جماعت کے لیے کتنے افراد ضروری ہیں؟ اس میں فرق ہے، جمعہ کی نماز درست ہونے کے لیے امام کے علاوہ تین مردوں کا ہونا ضروری ہے اور عید کی نماز کے لیے امام کے علاوہ ایک مرد کا ہونا کافی ہے۔ عید کی نماز کا طریقہ: عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز کا طریقہ ایک ہی ہے۔عید کی نماز کے لیے اذان اور اقامت نہیں، جب نماز کھڑی کی جائے تو عید کی نماز چھ زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھنے کی نیت کرے، اس کے بعد تکبیر کہہ کر ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے اور ثناء پڑھے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، دو تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے اور تیسری تکبیر پر ہاتھ اٹھا کر ناف کے نیچے باندھ لے، اس کے بعد امام اونچی آواز میں قراءت کرے، قراءت مکمل ہونے کے بعد بقیہ رکعت (رکوع اور سجدہ وغیرہ) دیگر نمازوں کی طرح ادا کرے۔ پھر دوسری رکعت کے شروع میں امام اونچی آواز میں قراءت کرے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، تینوں تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے، پھر ہاتھ اٹھائے بغیر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور پھر دیگر نمازوں کی طرح دو سجدوں کے بعد التحیات، درود اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے، پھرنماز مکمل کرنے کے بعد امام دو خطبے دے، دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی دیر بیٹھے۔ اگر خطبے پڑھنا بھی مشکل ہوں تو دونوں خطبوں میں حمد و صلاۃ اور چند آیات پڑھ لینا بھی کافی ہوگا، نیز عیدین کے خطبوں کی ابتدا و انتہا اور درمیان میں تکبیرات پڑھنے کا بھی اہتمام کرنا چاہیے اور عید الفطر کے مقابلے میں عید الاضحیٰ کے خطبوں میں تکبیرات زیادہ کہنا چاہئے. عیدین کی نماز واجب ہے مگر سب پر نہیں بلکہ انھيں پر جن پر جمعہ واجب ہے اور اس کی ادا کی وہی شرطیں ہیں جو جمعہ کے ليے ہیں صرف اتنا فرق ہے کہ جمعہ میں خطبہ شرط ہے اور عیدین میں سنت، اگر جمعہ میں خطبہ نہ پڑھا تو جمعہ نہ ہوا اور اس میں نہ پڑھا تو نماز ہوگئی مگر بُرا کیا۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ جمعہ کا خطبہ قبل نماز ہے اور عیدین کا بعد نماز، اگر پہلے پڑھ لیا تو بُرا کیا، مگر نماز ہوگئی لوٹائی نہیں جائے گی اور خطبہ کا بھی اعادہ نہیں اور عیدین میں نہ اذان ہے نہ اقامت، صرف دوبار اتنا کہنے کی اجازت ہے۔ اَلصَّلٰوۃُ جَامِعَۃٌ ؕ۔[1] (عالمگیری، درمختار وغیرہما) بلاوجہ عيد کی نماز چھوڑنا گمراہی و بدعت ہے۔[2] (جوہرہ نيرہ) مسئلہ ۱: گاؤں میں عیدین کی نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔[3] (درمختار) مسئلہ ۸: امام نے چھ تکبیروں سے زیادہ کہیں تو مقتدی بھی امام کی پیروی کرے مگر تیرہ سے زیادہ میں امام کی پیروی نہیں۔[5] (ردالمحتار) مسئلہ ۹: پہلی رکعت میں امام کے تکبیر کہنے کے بعد مقتدی شامل ہوا تو اسی وقت تین تکبیریں کہہ لے اگرچہ امام نے قراء ت شروع کر دی ہو اور تین ہی کہے، اگرچہ امام نے تین سے زیادہ کہی ہوں اور اگراس نے تکبیریں نہ کہیں کہ امام رکوع میں چلا گیا تو کھڑے کھڑے نہ کہے بلکہ امام کے ساتھ رکوع میں جائے اور رکوع میں تکبیر کہہ لے اور اگر امام کو رکوع میں پایا اور غالب گمان ہے کہ تکبیریں کہہ کر امام کو رکوع میں پا لے گا تو کھڑے کھڑے تکبیریں کہے پھر رکوع میں جائے ورنہ اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں جائے اور رکوع میں تکبیریں کہے پھر اگر اس نے رکوع میں تکبیریں پوری نہ کی تھیں کہ امام نے سر اٹھا لیا تو باقی ساقط ہوگئیں اور اگر امام کے رکوع سے اٹھنے کے بعد شامل ہوا تو اب تکبیریں نہ کہے بلکہ جب اپنی پڑھے اس وقت کہے اور رکوع میں جہاں تکبیر کہنا بتایا گیا، اس میں ہاتھ نہ اٹھائے اور اگر دوسری رکعت میں شامل ہوا تو پہلی رکعت کی تکبیریں اب نہ کہے بلکہ جب اپنی فوت شدہ پڑھنے کھڑا ہو اس وقت کہے اور دوسری رکعت کی تکبیریں اگر امام کے ساتھ پا جائے، فبہا ورنہ اس میں بھی وہی تفصیل ہے جو پہلی رکعت کے بارہ میں مذکور ہوئی۔ [6] (عالمگیری، درمختار وغیرہما) مسئلہ ۱۰: جو شخص امام کے ساتھ شامل ہوا پھر سو گیا یا اس کا وضو جاتا رہا، اب جو پڑھے تو تکبیریں اتنی کہے جتنی امام نے کہیں، اگرچہ اس کے مذہب میں اتنی نہ تھیں۔ [7] (عالمگیری) مسئلہ ۱۱: امام تکبیر کہنا بھول گیا اور رکوع میں چلا گیا تو قیام کی طرف نہ لوٹے نہ رکوع میں تکبیر کہے۔ [8] (ردالمحتار) مسئلہ ۱۲: پہلی رکعت میں امام تکبیریں بھول گیا اور قراء ت شروع کر دی تو قراء ت کے بعد کہہ لے يا رکوع ميں اور قراء ت کا اعادہ نہ کرے۔[9] (غنیہ، عالمگیری) مسئلہ ۱۳: امام نے تکبیراتِ زوائد میں ہاتھ نہ اٹھائے تو مقتدی اس کی پیروی نہ کرے بلکہ ہاتھ اٹھائے۔ [10] (عالمگیری وغيرہ) مسئلہ ۱۴: نماز کے بعد امام دو خطبے پڑھے اور خطبۂ جمعہ میں جو چیزیں سنت ہیں اس میں بھی سنت ہیں اور جو وہاں مکروہ یہاں بھی مکروہ صرف دو باتوں میں فرق ہے ایک یہ کہ جمعہ کے پہلے خطبہ سے پیشتر خطیب کا بیٹھنا سنت تھا اور اس میں نہ بیٹھنا سنت ہے دوسرے یہ کہ اس میں پہلے خطبہ سے پیشتر نو بار اور دوسرے کے پہلے سات بار اور منبر سے اترنے کے پہلے چودہ باراللہ اکبر کہنا سنت ہے اور جمعہ میں نہیں۔ [11] (عالمگیری درمختار وغیرہما) مسئلہ ۱۵: عیدالفطر کے خطبہ میں صدقۂ فطر کے احکام کی تعلیم کرے، وہ پانچ باتيں ہیں: (۱) کس پر واجب ہے؟ (۲) اور کس کے ليے؟ (۳) اور کب؟ (۴) اور کتنا؟ (۵) اور کس چیز سے؟۔ بلکہ مناسب یہ ہے کہ عید سے پہلے جو جمعہ پڑھے اس میں بھی یہ احکام بتا ديے جائیں کہ پیشتر سے لوگ واقف ہو جائیں اور عيداضحی کے خطبہ میں قربانی کے احکام اور تکبیرات تشریق کی تعلیم کی جائے۔[12] (درمختار، عالمگیری) مسئلہ ۱۶: امام نے نماز پڑھ لی اور کوئی شخص باقی رہ گیا خواہ وہ شامل ہی نہ ہوا تھا یا شامل تو ہوا مگر اس کی نماز فاسد ہوگئی تو اگر دوسری جگہ مل جائے پڑھ لے ورنہ نہیں پڑھ سکتا، ہاں بہتر یہ ہے کہ یہ شخص چار رکعت چاشت کی نماز پڑھے۔[13] (درمختار) کے سبب عید کے دن نماز نہ ہو سکی (مثلاً سخت بارش ہوئی یا ابر کے سبب چاند نہیں دیکھا گیا اور گواہی ایسے وقت گزری کہ نماز نہ ہو سکی یا ابر تھا اور نماز ایسے وقت ختم ہوئی کہ زوال ہو چکا تھا) تو دوسرے دن پڑھی جائے اور دوسرے دن بھی نہ ہوئی تو عیدالفطر کی نماز تیسرے دن نہیں ہو سکتی اور دوسرے دن بھی نماز کا وہی وقت ہے جو پہلے دن تھا یعنی ایک نیزہ آفتاب بلند ہونے سے نصف النہار شرعی تک اور بلاعذر عیدالفطر کی نماز پہلے دن نہ پڑھی تو دوسرے دن نہیں پڑھ سکتے۔ [14] (عالمگیری، درمختار وغیرہما) مسئلہ ۱۸: عيداضحی تمام احکام میں عیدالفطر کی طرح ہے صرف بعض باتوں میں فرق ہے، اس میں مستحب یہ ہے کہ نماز سے پہلے کچھ نہ کھائے اگرچہ قربانی نہ کرے اور کھا لیا تو کراہت نہیں اور راستہ میں بلند آواز سے تکبیر کہتا جائے اور عيداضحی کی نماز عذر کی وجہ سے بارہویں تک بلا کراہت مؤخر کر سکتے ہیں، بارہویں کے بعد پھر نہیں ہو سکتی اور بلاعذر دسویں کے بعد مکروہ ہے۔[15](عالمگیری وغيرہ) مسئلہ ۱۹: قربانی کرنی ہو تو مستحب یہ ہے کہ پہلی سے دسویں ذی الحجہ تک نہ حجامت بنوائے، نہ ناخن ترشوائے۔[16] (ردالمحتار) مسئلہ ۲۰: عرفہ کے دن یعنی نویں ذی الحجہ کو لوگوں کا کسی جگہ جمع ہو کر حاجیوں کی طرح وقوف کرنا اور ذکر و دُعا میں مشغول رہنا صحیح يہ ہے کہ کچھ مضایقہ نہیں جبکہ لازم و واجب نہ جانے اور اگر کسی دوسری غرض سے جمع ہوئے، مثلاً نماز استسقا پڑھنی ہے، جب تو بلا اختلاف جائز ہے اصلاً حرج نہیں۔[17] (درمختار وغیرہ) مسئلہ ۲۲: نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک ہر نماز فرض پنجگانہ کے بعد جو جماعت مستحبہ کے ساتھ ادا کی گئی ایک بار تکبیر بلند آواز سے کہنا واجب ہے اور تین بار افضل اسے تکبیر تشریق کہتے ہیں، وہ یہ ہے: اللہُ اکبراللہُ اکبر لَآ اِلٰـہَ اِلَّااللہ ُوَاللہُ اکبراللہُ اکبر وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ ؕ[21] (تنویر الابصار وغیرہ) مسئلہ ۲۳: تکبیر تشریق سلام پھیرنے کے بعد فوراً واجب ہے یعنی جب تک کوئی ایسا فعل نہ کیا ہو کہ اس نماز پر بنا نہ کر سکے، اگر مسجد سے باہر ہوگیا یا قصداً وضو توڑ دیا یا کلام کیا اگرچہ سہواً تو تکبیر ساقط ہوگئی اور بلا قصد وضو ٹوٹ گیا تو کہہ لے۔ [22] (درمختار، ردالمحتار) مسئلہ ۲۴: تکبیر تشریق اس پر واجب ہے جو شہر میں مقیم ہو یا جس نے اس کی اقتدا کی اگرچہ عورت یا مسافر یا گاؤں کا رہنے والا اور اگر اس کی اقتدا نہ کریں تو ان پر واجب نہیں۔ [23] (درمختار) مسئلہ ۲۵: نفل پڑھنے والے نے فرض والے کی اقتدا کی تو امام کی پیروی ميں اس مقتدی پر بھی واجب ہے اگرچہ امام کے ساتھ اس نے فرض نہ پڑھے اور مقیم نے مسافر کی اقتدا کی تو مقیم پر واجب ہے اگرچہ امام پر واجب نہیں۔ [24] (درمختار، ردالمحتار) مسئلہ ۲۶: غلام پر تکبیر تشریق واجب ہے اور عورتوں پر واجب نہیں اگرچہ جماعت سے نماز پڑھی، ہاں اگر مرد کے پیچھے عورت نے پڑھی اور امام نے اس کے امام ہونے کی نیت کی تو عورت پر بھی واجب ہے مگر آہستہ کہے۔ يوہيں جن لوگوں نے برہنہ نماز پڑھی ان پر بھی واجب نہیں، اگرچہ جماعت کریں کہ ان کی جماعت جماعتِ مستحبہ نہیں۔ [25] (درمختار، جوہرہ وغیرہما) مسئلہ ۲۷: نفل و سنت و وتر کے بعد تکبیر واجب نہیں اور جمعہ کے بعد واجب ہے اور نماز عید کے بعد بھی کہہ لے۔ [26] (درمختار) مسئلہ ۲۸: مسبوق و لاحق پر تکبیر واجب ہے، مگر جب خود سلام پھیریں اس وقت کہیں اور امام کے ساتھ کہہ لی تو نماز فاسد نہ ہوئی اور نماز ختم کرنے کے بعد تکبیر کا اعادہ بھی نہیں۔ [27] (ردالمحتار) مسئلہ ۲۹: اور دِنوں میں نماز قضا ہوگئی تھی ایّام تشریق میں اس کی قضا پڑھی تو تکبیر واجب نہیں۔ يوہيں ان دنوں کی نمازیں اور دنوں میں پڑھیں جب بھی واجب نہیں۔ يوہيں سال گذشتہ کے ایّام تشریق کی قضا نمازیں اس سال کے ایّام تشریق میں پڑھے جب بھی واجب نہیں، ہاں اگر اسی سال کے ایّام تشریق کی قضا نمازیں اسی سال کے انھيں دنوں میں جماعت سے پڑھے تو واجب ہے۔[28](ردالمحتار) مسئلہ ۳۰: منفرد[29] پر تکبیر واجب نہیں۔[30] (جوہرہ نیرہ) مگر منفرد بھی کہہ لے کہ صاحبین [31] کے نزدیک اس پر بھی واجب ہے۔ مسئلہ ۳۱: امام نے تکبیر نہ کہی جب بھی مقتدی پر کہنا واجب ہے اگرچہ مقتدی مسافر یا دیہاتی یا عورت ہو۔ [32] درمختار،ردالمحتار) مسئلہ ۳۲: ان تاریخوں میں اگر عام لوگ بازاروں میں باعلان تکبیریں کہيں تو انہيں منع نہ کیا جائے۔ [33] (درمختار [1] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السابع عشر في صلاۃ العيدين، ج۱، ص۱۵۰.و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۵۱، وغيرہما . [2] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوہرۃ النيرۃ''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ص۱۱۹. [3] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۵۲. [4] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۶۱، وغيرہ . [5] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: أمر الخليفۃ... إلخ، ج۳، ص۶۳. [6] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السابع عشر في صلاۃ العيدين، ج۱، ص۱۵۱. و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۶۴ ۔ ۶۶، وغيرہما . [7] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السابع عشر في صلاۃ العيدين، ج۱، ص۱۵۱. [8] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: أمر الخليفۃ... إلخ، ج۳، ص۶۵. [9] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السابع عشر في صلاۃ العيدين، ج۱، ص۱۵۱. [10] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق. [11] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۱۵۰، و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۶۷، وغيرہما . [12] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق. [13] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۶۷. [14] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السابع عشر في صلاۃ العيدين، ج۱، ص۱۵۱،۱۵۲. و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۶۸، وغيرہما . [15] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السابع عشر في صلاۃ العيدين، ج۱، ص۱۵۲، وغيرہ . [16] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين مطلب في إزالۃ الشعر... إلخ، ج۳، ص۷۷. [17] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۷۰، وغيرہ . [18] ۔۔۔۔۔۔ یعنی ہاتھ ملانا۔ [19] ۔۔۔۔۔۔ یعنی گلے ملنا۔ [20]'، ج۸، ص۶۰۱. [21] ۔۔۔۔۔۔ ''تنوير الأبصار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۷۱، ۷۴، وغيرہ . [22] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: المختار أن الذبيح إسماعيل، ج۳، ص۷۳. [23] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۷۴. [24] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: المختار أن الذبيح إسماعيل، ج۳، ص۷۴. [25] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۷۴. و ''الجوہرۃ النيرۃ''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ العيدين، ص۱۲۲، وغيرہما . [26] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: المختار أن الذبيح إسماعيل، ج۳، ص۷۳. [27] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: کلمۃ لابأس قدتستعمل في المندوب، ج۳، ص۷۶. [28] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: المختار أن الذبيح إسماعيل، ج۳، ص۷۴. [29] ۔۔۔۔۔۔ يعنی تنہا نماز پڑھنے والے۔ [30] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوہرۃ النيرۃ''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ العيدين، ص۱۲۲. [31] ۔۔۔۔۔۔ فقۂ حنفی ميں امام ابو يوسف اور امام محمد رَحْمَۃُاللہ ِتَعَالیٰ عَلَيْہِمَا کو صاحبين کہتے ہيں۔ [32] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: کلمۃ لابأس قدتستعمل في المندوب، ج۳، ص۷۶. [33] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۷۵.

Friday 22 April 2022

مویشیوں میں زکوۃ کانصاب

تین قسم کے جانوروں پر زکاۃ فرض ہے جب کہ سائمہ ہوں: ۱۔ اونٹ ۲۔ گائے ۳۔ بکری سائمہ وہ جانور ہے جو سال کے اکثر حصہ میں خود چر کر گزرکرتا ہو اور اس سے مقصود صرف دودھ لینا یا نسل بڑھانا یا شوقیہ پرورش و فربہ کرنا ہو اور اگر گھر میں گھاس لا کر کھلاتے ہوں یا مقصود بوجھ لادنا یا ہل وغیر کسی کام میں لانا یا سواری لینا ہے تومویشی خواہ چر کر گزر کرتا ہو وہ سائمہ نہیں اور اس کی زکاۃ واجب نہیں۔ اونٹ کا نصاب: اگر کسی کے پاس اونٹ ہوں تو اونٹ کا نصاب پانچ اونٹ ہیں یعنی پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ واجب نہیں، پانچ اونٹوں پر ایک سالہ ایک بکری دینا واجب ہے، دس پر دو، پندرہ پر تین، بیس پر چار، پھر جب ان کی تعداد 25 تک پہنچ جائے تو 25 سے 35 تک میں ایک سالہ اونٹنی ہے اور 36 سے 45 تک ایک دو سالہ اونٹنی ہے، 46 سے 60 تک ایک 3 سالہ اونٹنی ہے، 61 سے 75 تک ایک چار سالہ اونٹنی ہے ۔۔۔ الخ گائے بیل کا نصاب: گائے بیل کا نصاب تیس گائے ہے، یعنی اگر کسی کے پاس تیس سے کم گائے بیل ہوں تو اس پر زکاۃ واجب نہیں، پھر جب تیس ہوں تو اس پر ایک، ایک سالہ گائے واجب ہے، یہ حکم 39 تک کے لیے ہے، پھر جب 40 ہوں تو اس میں ایک، دو سالہ گائےیا بیل واجب ہے، یہ حکم 59 تک کے لیے ہے، پھر جب 60 ہوں تو اس میں دو ایک سالہ گائے یا بیل واجب ہے اور یہ حکم 69 تک کے لیے ہے۔ جب 70 ہوں تو ایک ایک سالہ گائے اور ایک دو سالہ گائے واجب ہوگی۔۔۔ الخ بکروں کا نصاب: جب بکرے، بکری، بھیڑ، دنبہ کی تعداد چالیس کو پہنچ جائے تو 40 سے 120 تک میں ایک بکری واجب ہے اور 121سے 200 تک دو بکریاں ہیں اور 201 سے 399 میں 3 بکریاں ہیں۔ 400 پر چار بکریاں ہیں، پھر ہر100 پر ایک بکری ہے۔ اور اگر ان چرنے والی بکریوں کی تعداد 40 سے کم ہو تو ان میں کچھ بھی نہیں ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ تینوں قسم کے جانوروں پر زکاۃ واجب ہونے کے کا نصاب احادیثِ مبارکہ میں موجود ہے، نیز اس نصاب کے تحقق اور اس پر واجب ہونے والے جانوروں اور مقدار کے اعتبار سے بھی تفصیلی احکام ہیں

مسجد میں مفت دینی وعصری تعلیم دینا

مسجد میں مفت عصری ودینی تعلیم دینا درجِ ذیل شرائط کی پابندی کرتے ہوئے جائز ہے : 1۔واقعی سخت ضرورت ہوجیسے دوسری جگہ دستیاب نہ ہویادوسری جگہ پر سخت گرمی یا سردی یادیگردقتیں وغیرہ ہوں ۲:۔ بچے ہوشیار اور عقل مند ہوں ،جو مسجد کا پورا احترام کرتے ہوں ، مسجد کو گندا اور ناپاک نہ کریں ۔ ۳:۔ اساتذہ کی نیت صرف خدمت قوم اور تعلیم دینے کی ہو، محض پیشہ اورحصول تنخواہ نہ ہو۔ 4۔ اعتکاف کی نیت سے بیٹھتے ہوں ۔ ۔ حوالہ جات الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 445) مراعاة غرض الواقفين واجبة. وفی الدر المختار : ویحرم ادخال صبیان ومجانین حیث غلب تنجیسھم و الا فیکرہ . حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 656) (قوله ويحرم إلخ) لما أخرجه المنذري " مرفوعا «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم، وبيعكم وشراءكم، ورفع أصواتكم، وسل سيوفكم، وإقامة حدودكم، وجمروها في الجمع، واجعلوا على أبوابها المطاهر» " بحر...... والمراد بالحرمة كراهة التحريم لظنية الدليل. وأما قوله تعالى - {أن طهرا بيتي للطائفين} [البقرة: 125]- الآية فيحتمل الطهارة من أعمال أهل الشرك تأمل؛ وعليه فقوله وإلا فيكره أي تنزيها تأمل. و فی البحر الرائق ،ج :۲، ص:۳۵ أما ھؤلاء المکتبون الذین یجتمع عندھم الصبیان و اللغط فلا و لو لم یکن لغط لأنھم فی صناعۃ لاعبادۃ اذ ھم یقصدون الاجارۃ لیس ھو للّٰہ بل للارتزاق ومعلم الصبیان القرآن کالکتاب ان کان لأجر لا وحسبۃ لا بأس بہ .وکذا فی الأشباہ والنظائر ،ص:۲۴۱۔فتاوی عثمانی 2/746 ’’ أما المعلم الذی یعلم الصبیان بأجر إذا جلس في المسجد یعلم الصبیان لضرورۃ الحر و غیرہ لا یکرہ ‘‘( خلاصۃ الفتاوی: ۱/۲۲۹ ، الفتاوی الھندیۃ : ۱/۱۵۷ ، از جدید فقہی مسائل . و أما المعلم الذی یعلم الصبیان بأجر اذا جلس فی المسجد یعلم الصبیان لضرورۃ الحر أو غیرہ لا یکرہ وفی نسخۃ القاضی الامام و فی اقرار العیون جعل المسئلۃ المعلم کمسئلۃ الکاتب والخیاط فانکان یعلم حسبۃ لا بأس بہ وان کا بأجرہ یکرہ الا اذا وقع ضرورۃ ۔ وکذا فی الھندیۃ ،ج:۱،ص:۱۱۰ و فتح القدیر ،ج:۱،ص:۳۶۹ والفتاویٰ الخانیۃ ،ج:۱،ص:۶۵ و الأشباہ والنظائر ،ج:۲،ص:۲۳۱ . الفتاوى الهندية (5/ 321) ولو جلس المعلم في المسجد والوراق يكتب، فإن كان المعلم يعلم للحسبة والوراق يكتب لنفسه فلا بأس به؛ لأنه قربة، وإن كان بالأجرة يكره إلا أن يقع لهما الضرورة، كذا في محيط السرخسي.

Wednesday 20 April 2022

فسخ نکاح قرآن و حدیث کی روشنی میں

اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی بیویوں پر ظلم کرتے۔ نہ بیوی بناکر عزت سے ان کو بساتے، نہ طلاق دے کر ان کو قیدِ نکاح سے آزاد کرتے۔ پوچھا جاتا کہ ان کو اپنے ساتھ بساتے کیوں نہیں؟ جواب دیتے: ہم نے طلاق دے دی ہے۔ پوچھا جاتا کہ پھر ان کو دوسری جگہ پسند کی شادی کیوں نہیں کرنے دیتے؟ جواب ہوتا: ہم نے عدت کے اندر رجوع کرلیا تھا، لہٰذا نکاح بحال رہا۔ عمر بھر یہی ظلم روا رکھتے۔ زمانہ جاہلیت کی طرح آج بعض مسلمان کہلانے والے ببانگ دہل کہتے ہیں کہ ’’نہ رکھیں گے اور نہ چھوڑیں گے‘‘۔ یہ عورت پر بدترین ظلم ہے۔ قرآن کریم نے سورۃ البقرہ کی آیات 229 تا 231 میں واضح انداز میں اس کا خاتمہ کیا اور طلاق کی حد مقرر کردی۔ اگر کوئی ایک طلاق دے دے تو عدت کے اندر نیک نیتی سے رجوع کرلے اور اگر دو طلاقیں دی ہیں تو تجدید نکاح کرلے اور آئندہ بیوی کو تنگ نہ کرے، بیوی بناکر پاس رکھے یا مدت گزرنے دے تاکہ عورت اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرے۔ اگر کسی نے تیسری طلاق دے دی تو اب رجوع نہیں کرسکتا جب تک وہ عورت کسی اور سے شادی و قربت نہ کرلے۔ br> تنسیخ نکاح تنسیخ نکاح کے جواز کے اسباب یہ ہیں: مرد قوت مردانگی سے محروم ہے (نامرد ہے) نان نفقہ و سکنیٰ نہیں دیتا ظلم و زیادتی کرتا ہے چار سال سے مفقود الخبرہے، معلوم نہیں کہاں ہے؟ زندہ ہے یا مرگیا ہے؟ ان صورتوں میں عورت کو اسلام یہ حق دیتا ہے کہ وہ بذریعہ عدالت تنسیخ نکاح کروالے۔ عدالت تحقیق و ثبوت کے بعد تنسیخ کرسکتی ہے۔ تنسیخ کے چار ماہ دس دن بعد وہ جہاں چاہے مرضی سے شرعی نکاح کرسکتی ہے۔ یہ تو وہ صورت ہے جہاں تنسیخ ضروری ہوگیا تھا۔ اگر ان وجوہات کے بغیر کوئی عدالت بلاوجہ تنسیخ نکاح کرے تو وہ تنسیخ غلط ہے اور غیر قانونی ہے۔ جب عورت کو اس کے حقوق سے محروم کیا جائے۔ شوہر ظلم کرے، نہ بیوی بناکر رکھے اور نہ طلاق دے تو پھر کوئی طریقہ تو ہو جو اس کو ظلم کی چکی میں پسنے سے بچائے۔ پس اس صورت میں حکومت اور اس کی قائم کردہ عدلیہ کا فرض ہے کہ اس عورت کو انصاف دلائے۔ چنانچہ مظلوم عورت عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔ عدالت کا فرض ہے کہ پوری تحقیق کے بعد اگر یہ ظلم ثابت ہوجائے لیکن خاوند پھر بھی عدل و انصاف کا راستہ نہ اپنائے اور عورت کو طلاق بھی نہ دے تو قاضی یعنی عدالت فوراً یا طلاق دلوائے یا تنسیخ نکاح کردے تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو۔ یہ اسلام ہے اور یہی عدل و انصاف۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کی: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں ثابت بن قیس کے دین یا اخلاق پر کوئی اعتراض نہیں کرتی، نہ عیب لگاتی ہوں لیکن مجھے اسلام میں رہ کر کفرانِ نعمت پسند نہیں۔ (یعنی خاوند پسند نہیں) رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اتردین علیه حدیقه؟ اس سے جو باغ تم نے حق مہر میں لیا ہے وہ اسے واپس کردوگی؟ بولیں جی حضور، رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے خاوند سے فرمایا: اپنا باغ قبول کرو اور اسے ایک طلاق دے دو. بخاری، الصحیح، 5: 2021، رقم: 4971 دور جاہلیت میں خاوند اپنی بیوی کو طلاق دے کر عدت کے اندر رجوع کرلیتا۔ چاہے ہزار بار طلاق دیتا، اسے رجوع کرنے کا اختیار حاصل ہوتا۔ ایک عورت نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے پاس شکایت کی کہ اس کا خاوند اسے طلاق دیتا اور عدت گزرنے سے پہلے رجوع کرکے اسے ایذاء دیتا ہے۔ سیدہ سلام اللہ علیہا نے اس کا ذکر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کردیا تو سورۃ البقرۃ کی آیت 229 نازل ہوئی کہ اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌم بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌمبِاِحْسَانٍ ط وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْئًا اِلآَّ اَنْ یَّخَافَآ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اﷲِط فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اﷲِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْهمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ط تِلْکَ حُدُوْدُ اﷲِ فَلاَ تَعْتَدُوْهاج وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اﷲِ فَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔ طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے، پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے، اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ جو چیزیں تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لو سوائے اس کے کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ (اب رشتہء زوجیت برقرار رکھتے ہوئے) دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے، یہ اﷲ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں، پس تم ان سے آگے مت بڑھو اور جو لوگ اﷲ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں سو وہی لوگ ظالم ہیں۔ طلاق کی حد دوبار تک ہے۔ پھر ’فامساک بمعروف او تسریح باحسان‘ یا تو صلح کرکے بیوی کو روک لو، یا عدت گزرنے دو اور اسے بھلائی سے آزاد کرد۔ الرازی، تفسیر کبیر، 6: 96 فقہائے اُمت کے اقوال: قرآن و سنت کی رو سے کوئی انسان دوسری کسی بھی مخلوق کو ایذاء دینے کا مجاز نہیں۔ عورت کو بیوی بناکر نہ رکھنا اور طلاق دے کر بھی نہ چھوڑنا ظلم ہے، جس کی اسلام میں قطعاً گنجائش نہیں۔ اسلام کیا دنیا کے کسی نظریہ و دھرم میں اس کی ہرگز اجازت نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا خاتمہ حکومت ہی کرسکتی ہے۔ لہٰذا قاضی یا عدالت کے پاس جیسے ہر مظلوم داد رسی کے لئے رجوع کرسکتا ہے، اسی طرح ایسی مظلومہ بھی عدالت کے ذریعہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا خاتمہ کرواسکتی ہے چونکہ عدالتی فیصلہ حکومتی فیصلہ ہے۔ جس پر عملدرآمد کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ عدالت کا بھی یہ کام ہے کہ جو عورت داد رسی کے لئے اس کی طرف رجوع کرے، یہ تمام حالات و کوائف کی چھان پھٹک کرے، منصفانہ وغیر جانبدارانہ تحقیقات سے خاوند کا ظلم ثابت ہو، یا وہ بیوی کے حقوق پورے نہ کرے یا نہ کرسکے اور قاضی عادل کو اطمینان ہو کہ خاوند، بیوی کے حقوق پامال کررہا ہے، عدالت فوراً اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے میاں بیوی میں تنسیخ نکاح کردے۔ یہ عدالتی تنسیخ شرعاً جائز ہے بلکہ ضروری ہے تاکہ ظلم ختم ہو۔ یہ تنسیخ عدالت طلاق بائن ہوگی۔ نکاح فوراً ٹوٹ جائے گا۔ اگر خاوند نامرد ہو، بیوی بذریعہ عدالت اس سے آزادی کا مطالبہ کرے، حاکم اسے ایک سال کی مہلت دے۔ اگر سال میں قربت کے قابل ہوگیا تو نکاح برقرار رہے گا۔ ورنہ عدالت عورت کے مطالبہ پر تفریق کردے۔ عورت کو بذریعہ عدالت تفریق کا حق حاصل ہے۔ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود ث سے یہی روایت ہے۔ یہی فتویٰ ہے دنیا بھر کے فقہائے کرام کا۔ امام ابو حنیفہؒ اور آپ کے اصحاب، امام شافعی اور ان کے اصحاب، امام مالک اور ان کے اصحاب، امام احمد اور ان کے اصحاب کا یہی حکم ہے۔ ابن همام، فتح القدیر، 4: 130، عالمگیری ،1: 524 عدم نفقہ سے تفریق عدالت ضروری ہوجاتی ہے جان لیجئے کہ ہمارے مشائخ نے اس بات کو مستحق سمجھا ہے کہ حنفی قاضی اپنا کوئی ایسا نائب مقرر کرے جس کے مذہب میں میاں بیوی میں اس وقت تفریق جائز ہو جب خاوند کا اتہ پتہ نہ ہو یا خاوند موجود ہو اور نان نفقہ بھی نہ دیتا ہو اور اس سے بیوی کو تکلیف ہورہی ہے۔ ظاہری بات ہے کہ ہمیشہ قرض لے کر ضرورت پوری نہیں کی جا سکتی۔ لہذا فالتفریق ضروری اذا طلبتہ۔’’ پس ان مجبوریوں کی بنا پر اگر عورت تنسیخ کا مطالبہ کرے تو تنسیخ نکاح ضروری ہے‘‘۔ شامی، ردالمختار، 3: 590 اگر خاوند جو بیوی کے حقوق پورے نہیں کرتا یا نہیں کرسکتا یا اس پر ظلم کرتا ہے اور اگر طلاق دینے سے بھی انکار کرتا ہے، بھلائی سے آزاد نہیں کرتا۔ تو وہ خاوند ظالم ہے۔ پس حاکم اس کا نائب بن کر تفریق کردے۔ یہ تفریق طلاق بائن ہوگی۔ اور خاوند پر مکمل حق مہر بھی لازم ہوگا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عورت خود اپنے آپ کو اس کے چنگل سے آزاد کرسکتی ہے۔ عدالتی فیصلہ کی بھی ضرورت نہیں جسے خیار عتق کہا گیا، یہی بات صحیح تر ہے۔ ( شامی، ردالمختار ، 3: 498) خاوند کا لاپتہ ہوجان جس عورت کا خاوند چار سال تک مفقود الخبر رہے اور اس کے زندہ یا مردہ ہونے کا کوئی پتہ نہ ہو، ایسی عورت امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک چار سال تک انتظار کرے۔ اس کے بعد عدالت کے ذریعہ تنسیخ کروائے اور موت کی عدت چار ماہ دس دن گزارے پھر وہ آزاد ہے جہاں چاہے شرعی نکاح کر سکتی ہے۔ یہی امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول قدیم ہے۔ احناف کے نزدیک: لوافتی به فی موضع الضروری لا باس به ’’ بوقت ضرورت اس امام مالک کے قول پر فتویٰ دینے میں حرج نہیں‘‘۔ فتاویٰ بزازیہ میں ہے: الفتوی فی زماننا علی قول مالک ’’ ہمارے زمانہ میں فتوی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے قول پر ہے‘‘۔ ابن همام، فتح القدیر شرح هدایه، 5: 371 اذا أقامت بینة علی ذلک و طلبت فسخ النکاح من قاض یراه ففسخ نفذ وهو قضاء علی الغائب وفی نفاذ القضاء علی الغائب رواتیان عندنا فعلی القول بنفاذه یسوغ للحنفی أن یزوجها من الغیر بعد العدة وإذا حضر الزوج الأول وبرهن علی خلاف ماادعت من ترکها بلانفقه لا تقبل ببنته لان البینة الأولی ترجحت بالقضاء فلا تبطل بالثانیة۔ شامی، ردالمختار، 3: 591 ’’جب عورت نے خاوند کے غائب ہونے پر ثبوت (گواہ) پیش کردیا اور اس قاضی سے نکاح فسخ کرنے کا مطالبہ کیا جس کی رائے میں فسخ کی وجہ معقول تھی۔ پھر اس قاضی نے نکاح فسخ کردیا تو یہ فیصلہ نافذ ہوجائے گا۔ یہ غائب کے خلاف فیصلہ ہے اور غیر حاضر شخص پر فیصلہ نافذ ہونے میں ہمارے نزدیک دو قول ہیں۔ تو جس قول میں فیصلہ نافذ ہونے کی تصریح ہے حنفی مذہب کے پیرو کار کے لئے گنجائش ہے کہ عدت گزرنے کے بعد اس عورت کا کسی اور سے نکاح کردے اور اگر پہلا خاوند حاضر ہوگیا اور اس نے عورت کے اس دعویٰ کے خلاف ثبوت پیش کردیا کہ خاوند نے اسے بغیر خرچہ کے چھوڑے رکھا تو پہلے خاوند کا ثبوت تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ پہلے ثبوت کو عدالتی فیصلہ نے ترجیح دے دی ہے۔ لہٰذا دوسرے ثبوت سے وہ باطل نہ ہوگا۔ ‘‘ خلاصہ بحث اسلام کسی کو کسی پر ظلم کرنے اور اس کے حقوق پامال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اگر بیوی حقوق زوجیت سے خاوند کو محروم کرے تو خاوند کے پاس حق طلاق ہے اور دیگر حاکمانہ حقوق ہیں جنہیں احسن طریقے سے بروئے کار لاکر وہ اپنے حقوق وصول کرسکتا ہے۔ بصورت دیگر حق طلاق استعمال کرکے اس سے جان چھڑا سکتا ہے۔ اور اگر خاوند بیوی کے حقوق پامال کرے، نان نفقہ نہ دے، حقوق زوجیت سے اسے محروم کرے۔ امساک بمعروف اوتسریح باحسان پر عمل نہ کرے اور ساری عمر نہ بیوی بنا کر رکھے، نہ آزاد کرے تو بیوی پر ظلم ہوا، قرآن کریم نہ کسی کو ظالم بننے کی اجازت دیتا ہے اور نہ مظلوم۔ ’لاتظلمون ولا تظلمون‘ نہ تم ظالم بنو نہ تم پر ظلم ہو۔ البقره ،2: 279 لہٰذا عورت ہو یا مرد دونوں کے حقوق ہیں۔ ایک فریق کے حقوق دوسرے فریق کے فرائض میں شامل ہیں مرد کے حقوق عورت پورے کرے اور عورت کے حقوق مرد پورے کرے۔