https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 26 June 2021

اگر چار کے بجائے پانچ رکعت نمازپڑھادی تو کیا کریں

 صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ شخص  اگر  فرض نماز پڑھ رہا تھا اور چوتھی رکعت کے قعدہ میں بیٹھا تھا اور اس کے بعد  پانچویں رکعت کے لیے غلطی سے کھڑا ہوگیا تو  جب تک  وہ پانچویں رکعت کا سجدہ  نہ کرلے  قعدہ  کی طرف  واپس لوٹ آئے  اور سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرلے، اور اگر  پانچویں رکعت کا سجدہ کرلیا ہو تو اب اس کے ساتھ چھٹی رکعت بھی ملادے اور آخر میں سجدہ سہو کرلینے سے نماز ہوجائے گی، چار رکعت فرض اور دو نفل ہوجائے گی۔

اور اگر مذکورہ شخص نے  چوتھی رکعت پر قعدہ  نہیں کیا تھا اور اس کے بعد پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا تو پانچویں رکعت کے سجدہ سے پہلے پہلے واپس قعدہ میں آجائے، اور سجدہ سہو کرکے نماز  مکمل کرلے، اور اگر پانچویں رکعت کا سجدہ بھی کرلیا ہو تو اب اس کی فرض نماز باطل ہوگئی،  اب اس نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے۔ 

الفتاوى الهندية (1/ 129):
’’رجل صلى الظهر خمساً وقعد في الرابعة قدر التشهد إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة عاد إلى القعدة وسلم، كذا في المحيط. ويسجد للسهو، كذا في السراج الوهاج. وإن تذكر بعدما قيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة لا يعود إلى القعدة ولا يسلم، بل يضيف إليها ركعةً أخرى حتى يصير شفعاً ويتشهد ويسلم، هكذا في المحيط. ويسجد للسهو استحساناً، كذا في الهداية. وهو المختار، كذا في الكفاية. ثم يتشهد ويسلم، كذا في المحيط. والركعتان نافلة ولا تنوبان عن سنة الظهر على الصحيح، كذا في الجوهرة النيرة ... وإن لم يقعد على رأس الرابعة حتى قام إلى الخامسة إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة عاد إلى القعدة، هكذا في المحيط. وفي الخلاصة: ويتشهد ويسلم ويسجد للسهو، كذا في التتارخانية. وإن قيد الخامسة بالسجدة فسد ظهره عندنا، كذا في المحيط‘‘
.

Thursday 24 June 2021

مسئلۂ قلتین ( قلتین کی مقدار )

 "ظاہریہ" کے علاوہ دیگر تمام فقہاء ومحدثین کے نزدیک   پانی میں اگر کوئی نجاست گر جائے تو  اگر وہ پانی کثیر ہے تو ناپاک نہیں ہوگا اور اگر پانی قلیل ہے تو ناپاک ہوجائے گا، البتہ پانی کے کثیر یا قلیل ہونے کی تحدید میں ائمہ کا اختلاف ہے، جس میں امام شافعی  رحمہ اللہ اور بعض روایات کے مطابق امام احمد رحمہ کے نزدیک بھی  قلتین کی مقدار کثیر ہے اور اس سے کم قلیل ہے،  "قلہ"  مشہور معنی کے مطابق مٹکہ کو  کہتے ہیں، اور مٹکہ سے مراد بھی وہ مٹکہ جس میں پانی بھر کر لایا جاتا ہو،  اس کی مقدار  کے بارے میں منقول ہے کہ یہ پانچ مشکیں پانی ہوتا ہے، جس کی مقدار پانچ سو رطل بنتی ہے، جو  دو سو تین (203) کلو  بنتا ہے، ان کے نزدیک یہ ماءِ کثیر ہے، اور چاروں طرف سے سوا سوا ہاتھ حوض ان کے نزدیک حوض کا ادنی درجہ ہے۔ حضرت مولانا  شاہ ولی اللہ  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :  "دو مٹکے کسی ہم وار زمین پر ہو تو وہ عموماً سات بالش لمبا اور پانچ بالشت چوڑا ہوتا ہے ، (5x7=35 بالشت مربع ، اور بالشت 9 انچ کا ہوتا ہے) یہ ان کے(شوافع اور حنابلہ ) نزدیک حوض کا ادنی درجہ   ہے"۔

احناف اس روایت کو  علی سبیل التسلیم  ماءِ جاری پر محمول کرتے ہیں۔

سنن الترمذي(1/ 97):
" عن ابن عمر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يسأل عن الماء يكون في الفلاة من الأرض، وما ينوبه من السباع والدواب؟ قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا كان الماء قلتين لم يحمل الخبث». قال محمد بن إسحاق: «القلة هي الجرار، والقلة التي يستقى فيها» ، [ص:98] وهو قول الشافعي، وأحمد، وإسحاق، قالوا: «إذا كان الماء [ص:99] قلتين لم ينجسه شيء ما لم يتغير ريحه أو طعمه»، وقالوا: «يكون نحواً من خمس قرب»".
العرف الشذي شرح سنن الترمذي (1/ 99):
"(قوله: خمس قرب) هو في قول للشوافع، خمسمائة رطل".
حجة الله البالغة (1/ 311):
"وإذا كان قدر قلتين في مستو من الأرض يكون غالباً سبعة أشبار، وذلك أدنى الحوض".
 (رحمہ اللہ الواسعہ 3/261۔تحفۃ الالمعی 1/306

Wednesday 23 June 2021

وتر کی رکعت تین یاایک

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور متعدد صحابہٴ کرام سے وتر کا تین رکعت ہونا ثابت ہے جس میں یہ صراحت بھی ہے کہ دو رکعت پر سلام نہیں پھیرتے تھے یہی احناف کا مسلک ہے تفصیل کے لیے اعلاء السنن ج۶ص۱تا ۷۰کا مطالعہ فرمائیں۔

چند روایات ذکر کی جاتی ہیں:

(۱) عن عائشة رضي اللہ تعالی عنہا أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان لا یسلم في رکعتي الوتر (رواہ النسائي: ۱/۲۴۸) وسکت عنہ وفي آثار السنن إسنادہ صحیح أخرجہ الحاکم في المستدرک: ۱/۲۰۴بلفظہ۔

(۲) قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یسلم في الرکعتین الأولین من الوتر وقال ہذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین وأقرہ علیہ الذہبي فی تلخیصہ․ وقال علی شرطہما․

(۳) وعنہا قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوتر بثلاث لا یسلم إلا في آخرہن أخرجہ الحاکم ․

(۴) وعن ابن عباس في الحدیث رواہ مسلم بطریق علي بن عبد اللہ ابن عباس في آخرہ ”ثم أوتر بثلاث“ ج۱ص۲۶۱․

(۵) وعن المسور بن مخزمة قال دفنا أبا بکر لیلا فقال عمر: إنی لم أوتر فقام فصففنا ورائہ فصلی بنا ثلاث رکعات لم یسلم إلا في آخرہن․ أخرجہ الطحاوي ج۱ص۱۷۳وفي آثار السنن إسنادہ صحیح ج۲ص۱۲)

قال المحقق ظفر أحمد العثماني في إعلاء السنن: قلت فیہ أن الوتر ثلاث لا یسلم إلا في آخرہن․ وقد فعل ذلک عمر بن الخطاب في محضر عظیم من الصحابة لم یغب عنہ إلا القلیل فکان کالإجماع منہم علی ذلک فکیف یقول قائل: أن الوتر بثلاث موصولة لم یثبت عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم؟ فہل تری الصحابة یجتمعون علی أمر لم یعرفوہ منہ؟ کلا! لا یمکن مثلہ أبدًا․

ایک رکعت وتر کا تحقیقی جائزہ

غیر مقلدین ایک رکعت وتر پڑھتے ہیں اور دلیل کے طور پر چند احادیث پیش کرتے ہیں ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ان کے مؤقف کی حقیقت کیا ہے ؟

دلیل نمبر1: حدیث عائشہ بروایت سعد بن ہشام :

حضرت سعد بن ہشام  انصاری فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا :أنبئيني عن وتر رسول الله {صلى الله عليه وسلم} فقالت كنا نعد له سواكه وطهوره فيبعثه الله متى شاء أن يبعثه من الليل فيتسوك ويتوضأ ويصلي تسع ركعات لا يجلس فيها إلا في الثامنة۔۔۔۔ الخ )صحیح مسلم ج1ص256(

 

 ترجمہ: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں بتلائیے، فرمایا: ہم آپ کے لیے مسواک اور پانی تیار  کر رکھتے تھے، رات کے کسی حصہ میں اللہ تعالی آپ کو بیدار کرتے تو آپ مسواک کرتے، وضو کرتے اور نو رکعتیں پڑھتے، ان میں صرف آٹھویں رکعت پر بیٹھتے، پس اللہ تعالیٰ  کا ذکر کرتے، حمد و ثناء کرتے، دعا مانگتے، پھر اس طرح سلام پھیرتے کہ ہمیں سن جاتا، پھر سلام کے بعد دورکعتیں بیٹھ کر پڑھتے پس یہ کل گیارہ رکعتیں ہوئی، پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  سن رسیدہ ہوگئے اور بدن بھاری ہوگیا، تو سات رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔

اور دو رکعتیں اس طرح پڑھتے تھے جس طرح پہلے پڑھا کرتے تھے پس یہ کل نوکعتیں ہوئیں۔

طرز استدلال:

پہلے زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی نو رکعتیں پڑھتے تھے، ان میں صرف آٹھویں رکعت پر قعدہ فرماتے تھے اور نویں رکعت پر سلام پھیرتے تھے، اور آخری زمانے میں سات وتر پڑھتے تھے، ان میں چھٹی رکعت پر بغیر سلام قعدہ کرتے اور ساتویں رکعت پر سلام پھیرتے تھے معلوم ہوا کہ وتر ایک رکعت ہے۔

جواب:

 قارئین کرام !آپ نے غیر مقلدین کی دلیل دیکھ لی اور ان کا طرز استدلال بھی ملاحظہ کر لیا ۔ اب آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں :مذکورہ حدیث اسی سند سے سنن نسائی ج1ص248، موطا امام محمد ص151 طحاوی شریف ج1ص137 مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص295 دار قطنی ج1 ص175  اور بیہقی ج3ص31 پر ان الفاظ سے مروی ہے:

کان النبی صلی اللہ علیہ و سلم لا یسلم فی رکعتی الوتر

ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم وتر کی دو رکعتوں پر سلام نہیں پھیرتے تھے۔

اور مستدرک حاکم ج1ص304 میں یہی حدیث ان الفاظ سے ہے: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوتر بثلاث لا یسلم الا فی آخرہنآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تین وتر پڑھا کرتے تھے او رصرف ان کے آخر میں سلام پھیرا کرتے تھے۔

مسند احمد ج6ص156 میں سعد بن ہشام کی یہی حدیث ان الفاظ میں ہے:

ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صلی العشاء دخل المنزل ثم صلی  رکعتین ثم صلی بعدہما رکعتین اطول منہما ثم اوتر بثلاث لا یفصل بینہن ثم صلی رکعتین وھو جالس ۔

ترجمہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز  عشاء سے فارغ ہوکر گھر میں تشریف لاتے تو پہلے دو رکعتیں پڑھتے پھر دو رکعتیں ان سے طویل پڑھتے پھر تین رکعتیں (وتر)  پڑھتے ایسے طور پر کہ ان کے درمیان سلام کا فاصلہ  نہیں کرتے تھے، پھر بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھتے تھے۔

ملحوظہ:

یہ ایک ہی راوی کی روایت کے مختلف الفاظ ہیں، ان تمام طرق و الفاظ کو جمع کرنے سے درج ذیل امور واضح ہوجاتےہیں:

1: سعد بن ہشام کی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کل گیارہ رکعتیں ادا کرتے تھے، جن میں وتر اور وتر کے بعد کے دو نفل بھی شامل تھے۔

2: ہر دو رکعت پر قعدہ کرتے تھے۔

3: ان میں تین رکعتیں وتر کی ہوتی تھیں۔

4: وتر کی دو رکعتوں پر قعدہ کرتے تھے، مگر سلام نہیں پھیرتے تھے۔

5: وتر کے بعد بیٹھ کر دو نفل پڑھتے تھے۔

خلاصہ کلام :

روایت بالا میں  وتر سے پہلے اور بعد کے نوافل کو ملا کر ذکر کردیا گیا، جس کی وجہ سے اشکال پیدا ہوا ہے حالانکہ سائل کا سوال صلوٰۃ اللیل کے بارے میں میں نہیں بلکہ وتر کے بارے میں تھا، اسی لیے جواب میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے صلوٰۃ اللیل  کی رکعات کو تو اجمالا بیان فرمایا اور ان رکعات میں سے جو رکعات وتر کی تھیں ان کی تفصیل بیان فرمائی کہ آٹھویں رکعت پر جو وتر کی دوسری رکعت تھی قعدہ فرماتے تھے مگر سلام نہیں پھیرتے تھے اور نویں رکعت پر جو  وتر کی تیسری   رکعت تھی، سلام پھیرتے تھے۔

تنبیہ: صحیح مسلم میں امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا جو یہ ارشاد ہے کہآپ صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعتیں پڑھتے تھے ان میں نہیں بیٹھتے تھے مگر آٹھویں رکعت میں پس ذکر و حمد اور دعا کے بعد اٹھ جاتے تھے اور سلام نہیں پھیرتے تھے بلکہ نویں رکعت پر سلام پھیرتے تھے۔صحیح مسلم ج1ص256(

 اس روایت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان آٹھ رکعتوں میں قعدہ ہوتا ہی نہیں تھا۔ کیوں کہ یہ مضمون خود امی عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کی احادیث کے خلاف ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ آٹھویں  رکعت پر بغیر سلام کے جو قعدہ فرماتے تھے، پہلی رکعتوں میں اس طرح کا قعدہ نہیں فرماتے تھے بلکہ ما قبل کی رکعتوں میں ہر دوگانہ پر سلام پھیرتے تھے۔

مذکورہ بالا تفصیل سے سعد بن ہشام کی مختلف روایات میں تطبیق ہوجاتی ہے ان میں اب کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا، اگر ایک ہی راوی کی روایت ایک ہی سند مختلف الفاظ  میں مروی ہو تو اس کو مختلف واقعات   پر محمول کر کے یہ سمجھ لینا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کبھی ایسا کرتے ہوں گے، اور کبھی ایسا کرتے ہوں گے یہ طرز  فکر درست نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک واقعہ کی مختلف تعبیرات ہیں، ایک ہی واقعہ کو نقل کرنے والے جب مختلف الفاظ اور مختلف انداز میں نقل کردیں تو وہ متعدد واقعات نہیں بن جاتے۔

دلیل نمبر2: حدیث عائشہ  بروایت عروہ بن زبیر:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے خواہر زادہ سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ام المؤمنین سے روایت کرتے ہیں:

كان يُصلِّي بالليل إِحدى عَشرَةَ ركعة ، يُوتِر منها بواحدة، فإذا فرغ منها اضطجع على شِقِّهِ حتى يأْتيَهُ المؤذِّنُ ، فيصلِّي ركعتين خفيفتين۔ )صحیح مسلم ج1ص253(

ترجمہ:رسول اکرم صلی اللہ علیہو سلم  رات میں گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے، ان میں سے ایک رکعت سے وتر کیا کرتے تھے۔

جواب:

سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے وتر سے متعلق  مختلف روایات  مروی ہیں، مثلا: طحاوی ج1ص138، پر موجود روایت کے الفاظ یہ ہیں: کان یصلی باللیل  ثلٰث  عشرۃ رکعۃ ثم یصلی اذا سمع النداء رکعتین خفیفتین .

اس روایت سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات میں تیرہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے، جب کہ پہلی روایت میں گیارہ رکعات کا ذکر ہے تو ہم اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  کی ان روایات میں نہ کوئی تعارض ہے نہ  ہی متعدد  واقعات پر محمول ہیں، بلکہ یہ ایک ہی واقعہ کی مختلف تعبیرات ہیں۔

جس روایت میں یہ ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعت پڑھتے تھے ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھےاور ایک رکعت سے وتر کیا کرتے تھے، اس میں دو حکم الگ الگ بیان کیے گئے ہیں1: ہر دو رکعت پر قعدہ کرنا 2: ایک رکعت کو ماقبل کے دوگانہ سے ملا کر وتر بنانا، ان دو حکموں میں سے پہلا حکم وتر سے قبل آٹھ رکعتوں سے متعلق ہے اور دوسرا حکم وتر کی تین رکعات سے متعلق ہے لہذا روایت بالا کا یہ مطلب نہیں کہ وتر کی تنہا ایک رکعت پڑھتے تھے بلکہ مطلب یہ ہے کہ گیارہویں رکعت کو ماقبل دوگانہ سے ملا کر وتر بناتے تھے۔ہماری اس توجیہ پر دو قرینے پیش خدمت ہیں  ۔

قرینہ نمبر1:

خود سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ متواتر روایات جن میں تین رکعات وتر کی صراحت ہے، مثلا:

1: ثم یصلی ثلاثا. )صحیح بخاری ج1ص154، صحیح مسلم ج1ص254،سنن  ابو داود ج1ص189(

2:عن سعد بن ہشام  ان عائشۃ حدثتہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان  لا یسلم فی رکعتی الوتر)سنن نسائی ج1ص248، موطا امام محمد ص151(

3:عن عمرۃ عن عائشۃ رضی اللہ عنہا ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یوتر بثلاث یقرا فی الرکعۃ الاولیٰ بسبح اسم ربک الاعلیٰ ۔۔۔ الخ )مستدرک حاکم ج1ص305(

قرینہ نمبر2:

خود سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  کا تین رکعت پر فتوی موجود ہے:

عن ابی الزناد عن السبعۃ سعید ابن المسیب و عروۃ بن الزبیر والقاسم بن محمد ۔۔۔۔۔ ان الوتر ثلاث لا یسلم الا فی آخرہن ۔۔)سنن طحاوی ج1ص145(

دلیل نمبر3: حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما:

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین  میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں اسی مقصد کے لیے قیام کیا تھا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کا مشاہدہ کریں۔

یہ روایت مختلف طرق والفاظ سے مروی ہے، ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ نِمْتُ عِنْدَ مَيْمُونَةَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا تِلْكَ اللَّيْلَةَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي فَقُمْتُ عَلَى يَسَارِهِ فَأَخَذَنِي فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِه فَصَلَّى ثَلَاثَ عَشَرَةَ رَكْعَةً ثُمَّ نَامَ حَتَّى نَفَخَ وَكَانَ إِذَا نَامَ نَفَخَ ثُمَّ أَتَاهُ الْمُؤَذِّنُ فَخَرَجَ فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ۔ )صحیح بخاری ج1ص97(

اس کے تین جواب ہیں ۔

جواب1: اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتےہیں:

والحاصل أن قصة مبيت ابن عباس يغلب على الظن عدم تعددها فلهذا ينبغي الاعتناء بالجمع بين مختلف الروايات فيها ولا شك أن الأخذ بما اتفق عليه الأكثر والأحفظ أولى مما خالفهم فيه من هو دونهم ولا سيما أن زاد أو نقص۔ )فتح الباری ج2ص388 طبع مصر (

الحاصل: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے کاشانہ نبوت میں رات گزارنے کا واقعہ غالب خیال یہ ہے کہ ایک ہی بار کا ہے، اس لیے اس سلسلے میں جو مختلف روایات وارد ہیں ان کو جمع کرنے کا اہتمام  کرنا چاہیے اور کوئی شک اس حصہ کو لینا نہیں کہ جس پر اکثر اور احفظ متفق ہوں وہ اولیٰ ہوگا، بہ نسبت اس حصہ کے جس میں اختلاف ہو اور  ان راویوں کے جو ان سے فرو تر ہوں، خصوصا جہاں کمی  یا زیادتی ہو۔

جواب2:

 خود سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تیر رکعت وتر کی صراحت ہے، مثلا:

1:سیدنا  ابن عباس رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے علی بن عبداللہ کی روایت ہے: ثم اوتر بثلاث ۔ )صحیح مسلم ج1ص261، سنن طحاوی ج1ص140(

 2: یحییٰ بن الجزار کی روایت ہے: کان  یصلی من اللیل ثمان رکعات و یوتر بثلاث و یصلی رکعتین قبل صلوٰۃ الفجر۔ )سنن نسائی ج1ص149(

3: کریب مولی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے:

فصلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکعتین بعد العشاء ثم رکعتین ثم رکعتین ثم رکعتین ثم اوتر بثلاث۔ )سنن طحاوی ج1ص141(

جواب3:

 خود سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا اپنا فتویٰ تین رکعت وتر  کا ہے جیسا کہ حضرت ابو منصور فرماتے ہیں: سالت ابن عباس رضی اللہ عنہما عن الوتر فقال ثلاث۔ )سنن طحاوی ج1ص141(

خلاصہ کلام:

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما قصہ کی تمام روایات کو جمع کیا جائے، تو ان میں متعدد روایات میں تین وتر کی تصریح ہے، اور باقی روایات اس کے لیے محتمل ہیں اس لیے ان روایات کو بھی تین ہی وتر پر محمول کیا جائے گا، ان کو الگ الگ واقعات پر محمول کر کے وتر کی مختلف صورتیں قرار دینا کسی طرح بھی صحیح نہیں، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  کے حوالے سے گزرچکا ہے یہ ایک ہی واقعہ کی مختلف تعبیرات ہیں، ان مختلف تعبیرات سے نہ تو کئی واقعات کو کشید کرنا درست ہے نہ ہی جواز وتر کی مختلف صورتیں پیدا کرنے کی سعی کرنا ٹھیک ہے۔

دلیل نمبر4: حدیث ام سلمہ رضی اللہ عنہا:

ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے یحیی ٰ جزار کی روایت ہے:

کان یصلی من اللیل احدیٰ عشرۃ رکعتۃ فلما کبر وضع اوتر بسبع ۔ )جامع الترمذی ج1ص60، سنن نسائی ج1ص251(

جواب:

یہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مطابق ہے، اور ماقبل میں یہ تصریح گزر چکی ہے کہ ان میں آٹھ رکعتیں نوافل کی اور تین وتر کی ہوتی تھیں مگر مجموعہ صلوٰۃ اللیل   کو لفظ وتر سے تعبیر  کردیا گیا، جیسا کہ خود امام ترمذی رحمہ اللہ  اس حدیث کے ذیل میں امام اسحاق بن ابراہیم  سے اس کی تصریح نقل کرتے ہیں:

انما معناہ انہ کان  یصلی من اللیل ثلاث عشرۃ رکعۃ مع الوتر فنبست صلوۃ اللیل الی الوتر۔ )جامع الترمذی ج1ص60(

دلیل نمبر5: حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما:

صحیحین  میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ان رجلا سال النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن صلوٰۃ اللیل فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  صلوٰۃ اللیل مثنیٰ مثنیٰ فاذا خشی احدکم الصبح صلی رکعۃ واحدۃ توتر لہ ما قد صلّٰی ۔ )صحیح بخاری ج1ص136، صحیح مسلم ج1ص257 (

اسی طرح صحیح مسلم میں سیدنا ابن عباس اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہم سے مرفوعا مروی ہے: الوتر رکعۃ من آخر اللیل۔ )صحیح مسلم ج1ص257(

اس کے تین جواب ہیں ۔

جواب1:

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وتعقب بانہ لیس   صرد کافی الفصل فیحتمل ان یرید بقولہ صلیٰ رکعۃ واحدۃ ای مضافۃ الی رکعتین مما مضیٰ ۔ )فتح الباریشرح صحیح بخاری ج2ص385(

 ترجمہ:یہ حدیث ایک رکعت کے الگ پڑھنے پر صریح نہیں، کیوں کہ احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہو کہ گزشتہ دو رکعتوں کے ساتھ ایک اور رکعت ملا کر تین وتر پڑھے ۔

وجہ یہ ہے کہ وتر (طاق) ہونا آخری رکعت پر موقوف ہے، جس کے ذریعے نمازی اپنی نماز کو وتر (طاق) بنائے گا، اس کے بغیر خواہ ساری رات بھی نماز پڑھتا رہے اس کی نماز وتر نہیں بن سکتی اس حقیقت کے اظہار کے لیے ایک دوسری تعبیر یہ اختیار فرمائی گئی الوتر رکعۃ من آخر اللیل وتر ایک رکعت ہے رات کے آخری حصہ میں۔

جواب2:

الوتر رکعۃ من آخر اللیل بالکل ایسے ہی ہے جیسے حج کے بارے میں فرمایا گیا ہے الحج عرفۃ۔ )جامع الترمذی ج1ص178(

 اس کا مطلب یہ ہے کہ وقوف عرفات کے بغیر حج کی حقیقت متحقق نہیں ہوتی، لیکن اس جملہ سے کوئی عاقل و سمجھ دار آدمی یہ مطلب ہرگز نہیں لے گا کہ حج کی پوری حقیقت بس وقوف عرفہ ہی ہے اس کے لیے نہ احرام کی ضرورت ہے اور نہ دوسرے مناسک کی، بعینہ اسی طرح الوتر رکعۃ من آخر اللیل کا مطلب یہ ہے کہ ما قبل کی نماز کے ساتھ جب تک ایک رکعت کو نہ ملایا جائے تب تک وتر کی حقیقت متحقق نہیں ہوگی اس فرمان کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وتر کی پوری حقیقت ہی بس ایک رکعت ہے، اسی مفہوم کو دوسرے پیرائے میں یوں تعبیر کیا گیا ہے۔

صلوۃ اللیل مثنیٰ مثنیٰ فاذا خشی احدکم الصبح صلیٰ رکعۃ واحدۃ توتر لہ ما قد صلیٰ ۔

اس فرمان پاک کا واضح مطلب اور بے غبار مطلب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ رات کو دو دو رکعت نماز پڑھنی چاہیئے جب صبح کے طلوع ہونے کا اندیشہ ہو تو آخری دو گانہ کے ساتھ ایک رکعت اور ملالے، جس سے اس کی نماز وتر بن جائے گی۔

جواب3:

خود سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے نزدیک بھی وتر کی تین رکعتیں ہیں سیدنا عامر  الشعبی فرماتے ہیں: سالت ابن عمر وابن عباس رضی اللہ عنہم کیف کان صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باللیل فقالا ثلث عشرۃ رکعۃ ثمان ویوتر بثلاث، ورکعتین بعد الفجر۔ )سنن طحاوی ج1ص136(

دلیل نمبر6: حدیث ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ:

سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الوتر حق علی کل مسلم فمن احب ان یوتر بخمس فلیفعل ومن احب ان یوتر بثلاث فلیفعل ومن احب ان یوتر بواحدۃ  فلیفعل ۔ )سنن ابو داود ج1ص208(

اس کے دو جواب پیش خدمت ہیں۔

 جواب1:

محدثین کرام کے ہاں اس روایت پر کلام ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے یا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  التلخیص الحبیر ج2ص13 پر لکھتے ہیں: وصحح ابو حاتم والذہلی والدار قطنی فی العلل والبیہقی وغیر واحد وقفہ وھو الصواب ۔

ابو حاتم، ذہلی دار قطنی، نے علل میں اور بہت سے حضرات نے اس کو موقوفا صحیح کہا اور یہی درست ہے۔

یعنی صحیح اور درست بات یہ ہے کہ روایت بالا سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ  کا ذاتی قول ہے، حدیث مرفوع کی حیثیت سے صحیح نہیں ہے۔

جواب2:

علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ہو معمول علی انہ کان قبل استقراءہا لان الصلوٰۃ المستقرۃ لا یخیر فی اعداد رکعاتہا ۔ )عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری  ج5ص215(

 اس پر قرینہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت کے یہ الفاظ ہیں:  قال: الوتر حق علی کل مسلم فمن احب ان یوتر بخمس رکعات فلیفعل ومن احب ان یوتر بثلاث فلیفعل ومن احب ان یوتر بواحدۃ فلیفعل ومن لم یستطع الا ان یومی ایماء فلیفعل ۔ )مصنف عبدالرزاق ج2ص295 رقم 4645باب کم الوتر عمدۃ القاری ج5ص245(

 خلاصہ کلام :

مذکورہ حدیث اول تو مرفوع نہیں ہے، بلکہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا ذاتی قول ہے دوم، اس میں اضطراب ہے، بعض روایتوں میں پانچ تین ایک کاذکر ہے بعض میں صرف ایک کا اور بعض میں اشارہ تک کی اجازت دی گئی ہے، ایسی صورت میں یہ کہنا انتہائی مشکل ہے کہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر کے جواز کا فتوی دیتے تھے۔

دلیل نمبر7: حدیث امیر معاویہ رضی اللہ عنہ:

 سیدنا امیر معاویہ  رضی اللہ عنہ وتر ایک رکعت پڑھتے تھے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  کو جب یہ بات بتائی گئی تو آپ نے کیا جواب دیا؟ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: عن ابن ابی ملیکۃ قیل لابن عباس رضی اللہ عنہما ہل لک فی امیر المومنین معاویۃ فانہ ما اوتر الا بواحدۃ قال اصاب انہ فقیہ )صحیح بخاری ج1ص531(

اور ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں دعہ فانہ قد صحب

معلوم ہوا کہ ایک رکعت وتر کا جواز صحیح حدیث سے ثابت ہے۔

جواب:

یہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذاتی اجتہاد تھا صحیح حدیث کی رو سے مجتہد کو خطاء پر بھی اجر ملتا ہے۔

2: یہ عمل صحابی ہے جو تمہارے نزدیک حجت نہیں۔ )نزل الابرار ص101(

3:اس حدیث کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اس وقت ماحول ایک رکعت پڑھنے کا نہیں بلکہ تین رکعت پڑھنے کا تھا ورنہ دیکھنے والا کبھی  اعتراض نہ کرتا۔

4: علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: دعہ ای اترک القول فیہ والانکار علیہ )عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ج11ص466(

5:علامہ محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: واما قولہ دعہ فانہ قد صحب وقولہ اصاب انہ فقیہ معناہ اصاب فی زعمہ لانہ مجتہد واراد بذالک زجر التابعین الصغار عن الانکار علی الصحابۃ الکبار لا سیما علی الفقہاء المجتہدین منہم۔ )امانی الاحبار ج4ص252(

6: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل جب مشہور ہوا تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بڑی شدت سے اس کا انکار فرمایا۔ )سنن طحاوی ج1ص203(

آخری بات:

حقیقت میں وتر ایک رکعت نہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محض ایک رکعت وتر پڑھنا کسی بھی صحیح حدیث سے بالکل ثابت نہیں۔

1:حافظ ابن حجر رحمہ اللہ التلخیص الحبیر میں امام رافعی کےحوالے سے حافظ ابن صلاح کا یہ قول نقل کرتے ہیں: لا نعلم فی روایات الوتر مع کثرتہا انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام اوتر بواحدۃ فحسب ۔ )التلخیص الحبیر ج2ص15 (

ترجمہ: وتر کی روایات کی کثرت کے باوجود ہمیں معلوم نہیں کہ کسی روایت میں یہ آتا ہو کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی صرف ایک رکعت وتر پڑھی ہو۔

2:سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نہی عن البتیراء ان یصلی الرجل رکعۃ واحدۃ یوتر بہا۔ )التمہید لابن عبدالبر ج5ص275(

3:سیدناابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتےہیں: مااجزات رکعۃ واحدۃ قط ۔ )موطا امام محمد ص150 باب السلام فی الوتر (


Is it democracy? Or autocracy in UP?

 وزیراعلی یوگی آدتیہ نے مبینہ طورپرجبری تبدیلی مذہب پر سختی کا اظہار کرتے ہوئے خاطیوں کے خلاف گینگسٹر ایکٹ کے تحت کاروائی کرنے کا حکم دیا ہے ۔ یو پی اے ٹی ایس نے پیر کو مبینہ جبری تبدیلی مذہب کرانے والے ایک بڑے گروہ کے انکشاف کا دعوی کیا ہے ۔ پولیس کے مطابق دہلی سے چلنے والا یہ مبینہ گروہ لوگوں پیشہ، شادی اور نوکری کا لالچ دے کرتبدیلی مذہب کا کام کرتا ہے ۔ پیر کو لمبی پوچھ گچھ کے بعد یوپی اے ٹی ایس نے مفتی جہانگیر عالم اور مولانا عمر گوتم کو گرفتارکیا تھا۔گرفتار ملزمین پر ایک ہزار سے زیادہ افراد کو جبری تبدیلی مذہب کرانے کا الزام ہے ۔

جبکہ ماب لنچنگ کے کسی بھی ملزم پر یہ کارروائی نہیں کی گئی. جبری تبدیلئ مذہب کاالزام ہی حکومت کی یکطرفہ جابرانہ ذہنیت کاغماز ہے. اس طرح کی کارروائیوں سے بی جے پی مسلمانو ں کے خلاف علی الاعلان اپنی مسلم دشمنی  کااظہار کرنا چاہتی ہے .

Monday 21 June 2021

Misuse of power in UP

 لکھنو: یوپی اے ٹی  ایس 

نے جبری مذہب تبدیلی  کے الزام میں دو عالم دین کو گرفتار کرلیا ہے۔ ان دونوں پر ایک ہزار سے زیادہ ہندووں کے مذہب تبدیل  کر انے کاالزام عائد کیا گیا ہے۔ اس بابت یوپی کے اے ڈی جی (لا اینڈ آرڈر) پرشانت کمار (Prashant Kumar) نے کہا کہ ایک بڑا گروہ مذہب تبدیلی میں مصروف تھا۔ یہ پیسے اور دیگر لالچ سے مذہب تبدیلی کراتا تھا۔ اس معاملے میں پہلے بٹلہ ہاوس، نئی دہلی کے عمر گوتم کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے بعد اس کے ساتھ جہانگیر کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ دونوں خوف اور لالچ سے مذہب تبدیلی کراتے تھے۔

یہی نہیں اس معاملے میں پولیس نے آئی ایس آئی اور غیر ملکی فنڈنگ ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔ پولیس کے ذریعہ دی گئی تفصیلات کے مطابق، یہ لوگ موٹیویشنل سوچ کے ذریعہ ہندووں کا مذہب تبدیل کراتے تھے۔ اے ڈی جی (لا اینڈ آرڈر) پرشانت کمار کے مطابق، مذہب تبدیل کرکے لوگوں کو ریڈکلائز کرایا جارہا تھا۔ 

اب تک ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کا مذہب تبدیل کرایا 

اے ڈی جی (لا اینڈ آرڈر) پرشانت کمار نے کہا کہ یہ دونوں عالم دین اب تک ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کا مذہب تبدیل کراچکے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ان عالم دین نے بہرے بچوں اور خواتین کا مذہب تبدیل کرایا ہے۔ یہی نہیں، انہوں نے مذہب تبدیل کرانے کے بعد شادی بھی کرائی ہے۔ 

یوپی سمیت ملک کے ریاستوں میں جال بچھانے کا الزام 

یوپی اے ٹی ایس کے مطابق، مذہب تبدیل کرانے کا کام نوئیڈا، کانپور، متھرا اور ملک کے دیگر صوبوں میں ہو رہا ہے۔ جبکہ عمر گوتم بھی ہندو سے مسلم بنا ہے۔ یہی نہیں، عمر گوتم نے ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کو مسلم بنایا ہے۔ اس کے ساتھ کہا کہ اسلامک دعوہ سینٹر کے اشارے پر مذہب تبدیل کرایا گیا ہے۔ وہیں، اسلامک دعوہ سینٹر اور بیرون ممالک سے اس کام کے لئے پیسہ دیا گیا ہے۔ 
یہ سراسر جھوٹ  اور یک طرفہ  کارروائی ہے. 

عقیقہ میں پہلے بال کٹوائیں یاجانور ذبح کریں

 عقیقہ کرتے وقت جانور کو ذبح کرنے میں اور بچے کے سر کے بالوں کوحلق کرنےمیں ترتیب ضروری نہیں، کسی بھی عمل کو مقدم کرسکتے ہیں، تاہم بہتر یہ ہے کہ پہلے جانور کوذبح کریں، پھر بال کٹوائیں۔

"یستحب الذبح قبل الحلق، وصححه النووي في شرح المهذب". (إعلاء السنن باب أفضلیة ذبح الشاة في العقیقة)

مفتی بہ قول کے مطابق احناف کے نزدیک عقیقہ مستحب ہے ۔ ( العرف الشذی ، باب ماجاء فی العقیقة، اعلاء السنن: ۱۱۴/۱۷، فتاوی دار العلوم : ۶۰۵/۱۵ ) بہتر یہ ہے کہ عقیقہ ولادت کے ساتویں دن کیا جائے ، اگر کسی وجہ سے ساتویں دن عقیقہ نہیں کیا، تو جب بھی کریں، ساتویں دن کا لحاظ رکھنا بہتر ہے ، مثلا : اگر بچہ جمعہ کو پیدا ہوا ہے ، تو عقیقہ جمعرات میں کریں اور لڑکے کے عقیقے میں مستحب یہ ہے کہ دو بکرے ذبح کیے جائیں اور اگر بڑے جانور میں حصہ لینا ہو، تو بہتر یہ ہے کہ دو حصے لیے جائیں، اگر ایک بکرا ذبح کیا یا بڑے جانور میں ایک حصہ لیا، تب بھی عقیقہ ہوجائے گا ۔

تری پورہ میں ماب لنچنگ

 گوہاٹی : تریپورہ کے کھوائی ضلع میں مویشیوں کی چوری کے الزام میں تین افراد کو ہجوم نے شدید زدوکوب کرکے قتل کردیا۔ جن کی بلال میاں 30 ، جاوید حسین 28 اور سیف الاسلام 18 سال کی حیثیت سے شناخت کی گئی۔

Sunday 20 June 2021

مولاناارشدمدنی کابیان:مذہبی منافرت کایہ کھیل آخر کب تک؟

 نئی دہلی، حالیہ دنوں ہی میں ہریانہ کے میوات، دہلی سے متصل غازی آباد کے لونی میں اور ملک کے بعض دوسرے مقامات پر ماب لنچنگ اور مساجد کی کی شہادت اور بے حرمتی کے افسوسناک واقعات پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ یہ مذہبی منافرت ملک کو ترقی نہیں تباہی کے راستہ پر لے جارہی ہے۔ آج یہاں جاری اپنے ایک بیان میں ملک کے موجودہ نفرت کے ماحول پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مذہب کے نام پر ملک بھر میں جو خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے، اس سے سماجی طور پر نفرت کی خلیج مزید گہری ہوتی جارہی ہے اور ایک بار پھر خوف ودہشت کا ماحول تیار ہو رہا ہے، جس کی نحوست سے ملک ہمہ جہت تنزل کا شکار ہے اور یہ صرف اور صرف تباہی کا راستہ کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے جب کورونا کی دوسری لہر انسانی جانوں کو نگل رہی تھی تو لوگ مذہب سے اوپر اٹھ کر ایک دوسرے کی مدد کر رہے تھے، ہندو مسلم، سکھ عیسائی سب ایک ساتھ آکر کورونا متاثرین کا تعاون اور مدد کر رہے تھے، تب یہ محسوس ہو رہا تھا کہ جو کام ہمارے حکمراں اور سیاستداں نہیں کر سکے اس کو کورونا کے زیر اثر پید اہوئے انسانی ہمدردی کے جذبہ نے پوراکر دکھایا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ تب پرنٹ والیکٹرانک میڈیا سے لیکر سوشل میڈیا تک یہ کہا جانے لگا تھا کہ اس وبا نے تمام ہندوستانیوں کو متحد کردیا ہے اور اس منافرت کی دیوار کو مسمار کر دیا ہے، جو فرقہ پرست پارٹیوں اور تنظیموں نے اپنے سیاسی مفاد کے لئے ان کے درمیان کھڑی کردی تھی، تب ملک کے ہر امن پسند شہری نے اطمینان کا سانس لیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ، لیکن الیکشن کے قریب آتے ہی ایک بار پھر نفرت کا کھیل شروع ہوگیا اور ایک مخصوص نظریہ کے لوگ پولیس کے زیر سایہ پرانی پرانی مسجدوں اور نہتے مسلمانوں کو ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر اپنا نشانہ بنانے لگے یہاں تک کہ بزرگوں کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے، ان کی داڑھی کاٹی جارہی ہے، بزرگ کے ساتھ یہ معاملہ شر پسندوں نے مذہبی منافرت پھیلانے کے لئے کیا جو کہ افسوسناک ہے۔انہوں نے کہا کہ اب یہ سچائی پوری طرح اجاگر ہوگئی ہے کہ جب بھی کوئی الیکشن قریب ہوتاہے، اچانک ایک مخصوص طبقہ شر انگیزی اور مذہی منافرت کو ہوا دینے میں مصروف ہو جاتا ہے، مطلب صاف ہے کہ کچھ لوگ سماج میں فرقہ وارانہ حد بندی قائم کرکے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں، یعنی تمام واقعات سیاسی بنیاد پر کئے جارہے ہیں، ان لوگوں کے نزدیک نہ تو ملک کے آئین کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی انسانی جذبوں کی، جبکہ ملک ایک بڑے اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔ہم اکیسویں صدی میں بھلے ہی جی رہے ہیں مگر ملک کے شہری تمام تر ترقی کے دعووں کے باوجود اب بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، کورونا کی وبانے ترقی کی بھیانک سچائی سامنے پیش کردی ہے، جب ہم لوگوں کو آکسیجن تک مہیا نہ کراسکے اس کی کمی سے ہزاروں افراد دم توڑ گئے بہت سے لوگوں کو اسپتال میں بیڈ نہیں ملا اگر مل بھی گیا تو انہیں ضرورت کی دوائیں نہیں مل سکیں۔ مولانا مدنی نے کہاکہ اب اگراس کے بعدبھی ہمارا ضمیر بیدار نہیں ہوتا، اور ہم اسی طرح مذہبی شدت پسندی اور منافرت کا کھیل کھیلتے رہے، اور کروڑوں لوگوں کے دلوں کو مایوسی کا شکار بناتے رہے تو اس کو ملک کی بدقسمتی کے سوا کس چیز سے تعبیر کیا جائے گا، انھوں نے اس امر پر سخت افسوس کا اظہار کیا کہ جو لوگ ملک میں نفرت پھیلاتے ہیں، تشدد برپا کرتے ہیں ان کی گرفت نہیں ہوتی بلکہ کچھ لوگ ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر ان کا دفاع کرتے ہیں، اس سے صاف ظاہر ہے کہ شدت پسند لوگوں کو کسی نہ کسی طور پر سیاسی پشت پناہی حاصل ہے شاید یہی وجہ ہے کہ پولس بھی ان لوگوں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے گھبراتی ہے، اور ایسا کرنے والوں کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا، اسی لئے ماب لنچنگ کرنے والے شر پسند گروہ بے خوف وخطر دہشت گرانہ عمل کو انجام دیتے ہیں؛ کیونکہ ان کو یقین ہے کہ ہماری سرپرستی کرنے والے اقتدار میں موجود ہیں، جس کی وجہ سے قتل کرنے کے باوجود بھی ان پر ایسی دفعات لگائی جاتی ہیں جس سے ان کی آسانی سے ضمانت ہو جاتی ہے، اس کے برخلاف دوسری طرف دہلی فسادات میں مسلمان ہی زیادہ قتل ہوئے، ان ہی کی دوکانیں لوٹی گئیں ان ہی کے گھر جلائے گئے ان ہی کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی گئی اور پھر الٹے ان پر ہی اکیس اکیس تک دفعات لگا دی گئیں، جس کی وجہ سے ان کی ضمانتیں لوور کورٹ سے نہیں ہورہی ہیں انصاف کا یہ دہرا معیار ملک کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ اس صورت حال کا ایک خطرناک نتیجہ خدانخواستہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب یہ ناپسندیدہ عنصر اس قتل وغارتگری کا اقلیت کے خلاف عادی ہو جائے گا تو اکثریت کے شریف لوگ بھی ان کے ظلم وزیادتی سے محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔ مولانا مدنی نے انتباہ کیا کہ ابھی وقت ہے کہ اس مذموم سلسلہ کو بند کیا جائے اور مذہبی شدت پسندی اور فرقہ وارانہ صف بندی کی جگہ اسکولوں، کالجوں، اسپتالوں اور نوکریوں کی بات ہونی چاہئے اور مل بیٹھ کر ملک کو تباہ ہونے سے بچانے کی کوشش کی جانی چاہئے، انھوں نے یہ بھی کہاکہ پچھلے کچھ سالوں سے نفرت کی جو سیاست ہورہی ہے اس کے بھیانک نتائج سامنے آنے لگے ہیں، اگر اب بھی حکمرانوں کی آنکھیں نہیں کھلیں تو پھر ملک تنزلی کی جس خطرناک راہ پر چل پڑے گا وہاں سے واپس لانا مشکل ہوجائے گا۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ملک قانون اور انصاف کی حکمرانی سے چلتا ہے اور باہمی اتحاد سے آگے بڑھتا ہے اسی لئے ہم مسلسل یہ بات کہتے آئے ہیں کہ نفرت کی جگہ ملک میں قومی یکجہتی، باہمی اتحاد اور ہندو مسلم بھائی چارہ کو فروغ دیا جانا چاہئے؛ کیونکہ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ محبت اپنے ساتھ امن، ترقی اور خوشحالی لیکر آتی ہے مگر نفرت صرف اور صرف تباہی وبربادی ہی لاتی ہے۔

نومولودبچے کے کان میں عورت اذان دے سکتی ہے

 اگرنومولود بچے کے کان میں اذان پڑھنے والامرد موجود نہ ہوتو عورت اذان دے سکتی ہے بشرطیکہ وہ حیض و نفاس سے پاک ہو. فتاوی محمودیہ جلد5صفحہ446