https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 15 October 2020

رولے اب دل کھول کے اے دیدۂ خوننابہ بار:سرہند کاذکر

 سرہند مشرقی پنجاب میں فتح گڑھ صاحب کے قریب ایک تاریخی قصبہ ہے.عہداسلامی میں اسے مرکزی حثییت حاصل تھی.یہاں مشاہیرعلما,شعراء,مؤرخین,صوفیاء ,امراء,وزراء, پیداہوئے.اگرچہ یہ فیروزشاہ تغلق کے عہد میں آباد ہوالیکن شہرت کے بام عروج پرعہداکبری میں پہنچا. عہد بابری میں مغل سلطنت کے بنیاد گزار شہنشاہ بابر, بقول مصنف گلزار ابرار'اس دور کے نامور عالم اور شیخ طریقت مولانا مجدالدین سرہندی سے سرہند ملنے آیا.

عہداکبری کے مشاہیرعلماء میں  طبقات اکبری کے مصنف شیخ نظام الدین  احمدان کے استاد شیخ علی شیر سرہندی,مولاناعبدالقادر,مولاناالہدادبن صالح سرہندی,بہت مشہور ہیں.

عہد جہانگیری کا ایک اہم نام جوتزکیہ وسلوک کے عظیم سلسلۃ الذہب کے بانی مبانی ہیں شیخ احمد سرہندی مجددالف ثانی کا ہے .ان کی سوانح ,شخصیت,علوم ومعارف مکاتیب اور تصانیف وشروحات ,خلفاء اورتلامذہ اور مستفیدین ,اور اس خانوادۂ علمی کی تاریخ پرہزارہاکتب ,معتبرمصنفین ومحققین نے لکھی ہیں.اس پرفیض خانوادۂ مشاہیر کے آثارآج بھی سرہند کی زینت ہیں.آپ کی مساعئ جمیلہ سےاسلامی دنیا میں انقلاب برپاہوا.بدعات وخرافات کی آپ نے بیخ کنی کی اور اتباع سنت کی تلقین کی.

:آپ کی اولاد میں 

شیخ  محمد صادق سرہندی ,خواجہ محمدسعید سرہندی,خواجہ محمد معصوم,خواجہ محمدیحی عرف شاہ جیو بہت مشہور ہیں.

:خلفاء میں

 خواجہ میرمحمد نعمان بدخشی,شیخ احمد برکی,شیخ آدم بنوری, خواجہ محمد ہاشم کشمی,شیخ حسن برکی,ملاعبدالحکیم سیالکوٹی,شیخ محمد طاہرلاہوری,شیخ بدیع الدین,شیخ بدالدین ابراہیم سرہندی شیخ احمد دیوبندی  وغیرہ سے اہل علم بخوبی واقف ہیں

بہرکیف سرہند اپنی عظمت رفتہ کی بناپر مؤرخین کی نظر میں خاص مقام کاحامل ہے.سرہند کی چندقابل ذکرشخصیات کی صرف فہرست درج ذیل کی جاتی ہے تاکہ واضح ہوجائے کہ یہاں عہد اسلامی میں کیسے کیسے آفتاب وماہتاب پیداہوئے عہداسلامی میں یہاں 360سے زاید مساجدمدارس اور خانقاہیں آباد تھیں .آج  فقط چند آثارہیں.ابوالفضل نے آئین اکبری میں لکھاکہ سرہند دہلی کی ایک سرکار ہے جس کے تحت 31محل اور پرگنہ جاہیں.اس کاقدیم نام سہرند(شیروں کاجنگل)تھا جب غزنوی بادشاہوں نے غزنی سے سرہند تک کاعلاقہ اپنے زیراقتدار کرلیاتوسرِہند یعنی ہندوستان کاسرمشہورہوگیا. شاہجہاں نے کابل سے قرا باغ غزنی تک کا وسیع و عریض علاقہ فتح کرلیاتوحکم جاری کیا کہ سہرند ہی لکھا جائے لیکن اس کے باوجود سرہند ہی زبان زد خاص وعام رہا.(سرو آزاد مؤلفہ مولانا غلام علی آزاد بلگرامی ,ص128 سرہندکو جغرافیائی لحاظ سے گیٹ وے آف انڈیا کہا جاتاتھا.اسی لئے ہربادشاہ نے اس کو بہت زیادہ اہمیت دی.1415ء/818ہجری میں دہلی کے اولین سید حکمراں خضر خان نے اپنے بیٹے  ملک مبارک کو سرہند کاگورنراورملک سادہوناکو اس معاون مقررکیا.لیکن وہ 1416ء میں ترکوں کے ہاتھوں قتل ہوا

١۴٥١ء میں سرہند ہی میں ملک بہلول لودھی نے سلطان کالقب اختیار کیا.

١٥٥٥ء میں سرہند ہی میں ہمایوں نےسکندرسوری کوشکست دی. جب بیرم خان نے بغاوت کی تو اکبر نے١٥٦۰ء میں سرہندہی میں اس کی سرکوبی کی.اورنگ زیب اور داراشکوہ کے درمیان جانشینی کی جنگ میں دارا شکوہ نے دس ہزار افواج کے ساتھ سرہند کی طرف مارچ کیاتھا

تاکہ اورنگ زیب کی پیش قدمی کو روکاجاسکے

چند مشاہیر کے صرف نام درج کئے جاتے ہیں تاکہ قارئین کوسرہند کی عظمت رفتہ  کا بخوبی احساس ہوسکے

:علما وصلحاء

شیخ مجدالدین محمد,شیخ الہداد بن صالح,شیخ بہاء الدین,مولانابدرالدین صاحب حضرات القدس,مولاناعلی شیرسرہندی مقدمہ نویس غیرمنقوط عربی تفسیر سواطع الالہام,شیخ عبدالاحد ,سیدیاسین,مولاناعثمان ,شیخ نورالدین ترخان,شیخ عبدالرحمان صوفی,شیخ سلطان رخنہ ہروی,شیخ عبدالصمد حسینی,مولاناقطب الدین سرہندی مولاعبدالمالک, مولانا مظفر,ملاابوالخیر,شیخ علی رضا سرہندی,شیخ نعمۃ اللہ وغیرہ.

:مشاہیر خاندان مجددیہ

شیخ احمد سرہندی

خواجہ محمد سعید بن شیخ مجدد الف ثانی, متعدد عربی فارسی کتابوں کے مصنف

خواجہ محمد معصوم ولد شیخ مجدد الف ثانی صاحب مکتوبات معصومی.

شیخ سیف الدین 

شیخ بدرالدین ابراہیم

شیخ صبغۃ اللہ

شیخ محمد نقشبند

خواجہ محمد عبید اللہ

خواجہ محمد اشرف

شیخ محمد صدیق

شیخ محمد ہادی

شیخ یوسف

شیخ ابوالفیض کمال الدین محمد احسان

شیخ زین العابدین

مولانافرخ شاہ سرہندی

شیخ محمد راشد

شیخ محمد عیسی سرہندی

:فہرست مؤرخین

یحی بن احمد بن عبداللہ سرہندی, صاحب تاریخ مبارک شاہی

شیخ الہ داد فیضی سرہندی

شیخ ابراہیم سرہندی ,صاحب رزم نامہ

عبداللہ نیازی سرہندی

مولاناامان اللہ سرہندی

مولاناعبدالقادر سرہندی

عبدالحق سجاول سرہندی

سیف خا فقیراسرہندی

شیخ فضل اللہ سرہندی

غلام محی الدین سرہندی

شیخ قطب الدین سرہندی 

شیخ محمد عابد سرہندی 

ولی سرہندی

شیخ عبدالاحدوحدت سرہندی نبیرۂ شیخ مجدد,استادشاہ افضل (جو شاہ ولی اللہ (محدث دہلوی کے استاذ ہیں

:فہرست شعرا سرہند

ناصرعلی سرہندی

راسخ سرہندی

محمدافضل سرخوش

میرمحمدحسن ایجاد

 سعادت یارخان رنگین

مولاناصفائی سرہندی

شیری سرہندی

عیشی حصاری

فائض سرہندی

فضل اللہ خوشتر

میرعلی رضاحقیقت

مرزاغازی شہید

میرمفاخرحسین ثاقب

میاں علی عظیم

میرمعصوم وجدان

سرآمدسرہندی

میراحمدحسین مخلص

اجابت سرہندی

وسعت سرہندی

شاہجہاں بادشاہ نے سرہند میں ایک باغ تعمیر کرایا ان کی ایک ملکہ سرہندی بیگم کاتعلق سرہند سے تھا.

عہد سلطنت میں سرہند ہمیشہ شاہان دہلی کا مرکز رہا. فیروزشاہ نے اسے فیروزپور کانام دیا.

:شیخ مجددالف ثانی کے مشہور شاگردخواجہ ہاشم کشمی کہتے ہیں

کزان قندیکہ شیریں ترزجان است

کنوں درخطۂ ہندوستان است

الاسودائیاں شہریست درہند

کہ اندر پائے او بنہاد سرہند

سوادش زلف رخسارفتوح است

غبارش توتیائے چشم روح است

ازاں شہرے کہ نامش مضمرآمد

بعہدے ماعجب کانے برآمد

(روضۃ القیومیہ اردو صفحہ 27جلد اول)

Wednesday 14 October 2020

چین کے ایغور مسلمانوں کی داستان

 چین کاوہ خطہ جسے سنکیانگ یاچینی ترکستان کہتے ہیں چین میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی ایک عظیم یادگار.ہے یہاں عرصۂ درازتک مسلمانوں کی حکمرانی رہی اس کے دارالسلطنت کاشغرمیں اب بھی عہد اسلامی کے سینکڑوں مساجدومدارس اپنے باوقار ماضی کی داستان بیان کررہے ہیں.چینی زبان لکھنےکےلئے ترکی اور اردوکی طرح مسلمانوں کا یہاں اپناایک خاص رسم الخط تھا جواب صرف مسلمانوں میں رائج ہے.چین کی کمیونسٹ حکومت نے عرصہ سے مسلمانوں پرظلم وبربریت کی انتہاکررکھی ہے.نمازروزہ اوردیگراسلامی شعائرپرپابندی ہے لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کوری ایجوکیشن سینٹر کے نام سے مراکزمیں قید کرکے ان کوظلم وعدوان کانشانہ بنایاجاتاہے.ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے,جائزوناجائزکی تمیزکوختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.بہت سے مسلمان کسی طرح سے چین سے سعودی عرب اور مصرہجرت میں کامیاب ہوگئے لیکن ان کی حرماں نصیبی دیکھئے بی بی سی عربی کے مطابق سادہ وردی میں ملبوس چینی خفیہ پولیس نےسعودی حکومت کی مدد سے انہیں گرفتار کرکے چین بھیج دیا.یہی مصرہجرت کرنے والے چینی مسلمانوں کے ساتھ ہوا.افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہ سب ان نام نہاد مسلم حکمرانوں کے ذریعے ہوا جوپوری دنیا میں اپنی اسلامیت کاڈھنڈوراپیٹتے ہیں. سعودی حکومت کی ابلیسانہ تزویرات سے پوری دنیاواقف ہے کہ وہ کس طرح اپنے خادم الحرمین الشریفین کی آڑمیں اپنے مخالفین کوصفحۂ ہستی سے مٹادیتاہے اور اندرون خانہ اسرائیل سے تعلقات بڑھانے کے لئے کوشاں ہے.جمال خاشقجی کاپراسرار قتل اس کی مشہور مثال ہے.جس سے پور ی دنیا واقف ہے واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار کو اپنی بیباکی اور صداقت کی جان گواں کرگراں قدر قیمت چکانی پڑی. مصرکا ظالم  وجابرعبدالفتاح سیسی ظلم وبربریت کی ساری حدیں پارکرتے ہوئے اپنے مخالفین کوبرسرعام تہہ تیغ کررہاہے اخوان المسلمین کے کارکنان پرستم ڈھائے جارہے ہیں.اور یہ سلسلہ جاری ہے.سعودی شہنشاہیت اپنے زوال کی طرف گامزن کیونکہ اس نے اپنے مخالفین کوصفحۂ ہستی سے مٹانے کے لئے سارے ہتھکنڈے اپنانے شروع کردیئے مرکزاسلام پراپنے اقتدار کوتادیرقائم رکھنے کے لئے اپنے آقا ممالک متحدہ امریکہ کی نگرانی میں سینما اور فحاشی کے دیگرذرائع کی ترویج بھی اب سعودی اقتدار کے اہم نکات میں شامل ہے لیکن مقصود سب کاشہنشاہیت کی بقا ہے جو ایک دن مکڑی کے جالے کی طرح حرف  غلط کی طرح مٹ جائے گی.  ایغور مسلمانوں کو سعودی ومصری حکومت نے چینی حکام کوسونپ کر کھلے عام چینی ظالم حکومت کی مدد کی ہے .یہ ایک ایساعمل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے.

چین میں ہزاروں مسلمانوں کو حراستی کیمپ میں قید رکھنے کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کی جاتی رہی ہے۔ انسانی حقوق کے علبرداروں اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ شمال مغربی علاقے شن جیانگ میں ہزاروں مسلمانوں کی حراست چین میں کئی دہائیوں کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی کی سب سے خراب صورت حال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 2012 میں برسر اقتدار آنے کے بعد چین کے صدر شی جن پن نے چین پر آمرانہ تسلط قائم کر لیا اور مغربی چین میں ایغور اور تبت کے لوگوں کے خلاف وسیع پیمانے پر ظلم و ستم کیا گیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے اتوار کے روز ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ چین میں انسانی حقوق کی حالیہ خلاف ورزیاں 1966-1976 کے دوران رونما ہونے والے چین کے ثقافتی انقلاب کے بعد سے سنگین ترین ہیں۔ اس رپورٹ میں شن جیانگ کے 58 سابق شہریوں کے انٹرویو شامل کئے گئے ہیں جنہوں نے چین کے اعلیٰ حکام پر پابندیاں عائد کرنے کی سفارش کی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ حتمی پابندیوں کا اعلان وزارت خزانہ اور حکومت کے دیگر شعبوں کے علاوہ کانگریس سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔

حراست میں لئے گئے مسلمانوں کو زبردستی روزانہ منعقد ہونے والی کلاسوں میں جانے، اسلام کے بعض پہلوؤں سے انکار کرنے، چین کی ثقافت کا بغور جائزہ لینے اور کمیونسٹ پارٹی سے وفاداری کے اعلان پر مجبور کیا جاتا ہے۔ رہا ہونے والے کچھ افراد کا کہنا ہے کہ اُنہیں سیکیورٹی اہلکاروں نے اذیت کا نشانہ بنایا۔

چین نے اس عمل کو ’’تعلیم کے ذریعے تبدیلی‘‘ یا ’’انتہاپسندی کی مدافعت میں تعلیم‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ تاہم، اُنہوں نے ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کو حراست میں رکھنے کا الزام مسترد کر دیا ہے۔

چین میں اسلامی تاریخ

 چین میں داخلہ ٔ اسلام کی ایک غیر مستند روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہہجرت حبشہ کے زمانہ میں دو صحابیٔ رسول جعفر ابن ابی طالب اور سعد بن ابی وقاص چین آئے تھے۔ اِس روایت کے متعلق کوئی تاریخی شہادت تاریخ میں نہیں ملتی کیونکہ اِن دونوں صحابیوں کا مدفن جزیرہ عرب ہے۔ایک دوسری روایت کے مطابق سعد بن ابی وقاص چین کے تیسرے اور اپنے آخری دورے میں 650ء سے 651ء کی وسطی مدت میں چین آئے جو خلیفہ سومعثمان غنی کا عہدِ خلافت تھا۔ اگر یہ تاریخی روایت درست ہو تو یہ واقعہ چینکے شہنشاہ گاؤژونگ کے عہد کا ہے جو 649ء سے 683ء تک شہنشاہ چینتھا۔

تانگ خاندان

تانگ خاندان کے دور میں چین کی خوشحالی کی راہیں برقرار ہوئیں تو لوگوں کے اذہان تجارتی اور ذہنی ترقی کی جانب مائل ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جس میں مغربی ایشیا کے مختلف مذاہب کا اثر چین کی زندگی پر پڑنا شروع ہوا۔ بدھ مت، عیسائیت اور یہودیت بھی اِسی زمانے میں چین میں داخل ہوئے۔ اسلامجو ابتداً خلافت راشدہ کے دور میں جزیرہ عرب سے نکل کر ایشیاء میں منتقل ہو رہا تھا، وہ ما وراء النہر میں پہنچتا ہوا چین میں داخل ہوا۔ تقریباً تیس سال کے عرصے میں مسلم آبادیاں ایشیا میں قائم ہوچکی تھیں اور مسلمان جب ما وراء النہر میں داخل ہوتے ہوئے مشرقی ترکستان پہنچے تو وہاں کے باشندے بھیاسلام سے فیض یاب ہوئے اور منجملہ اُن سب قبائل کے جنہوں نے اسلامقبول کیا، اُن میں ایک قبیلہ ’’ہوئی چِہی‘‘ بھی تھا۔ وہ لوگ قتیبہ بن مسلم کے زمانہ میں حلقہ ٔ اسلام میں داخل ہوئے اور آج چینی زبان میں ان مسلمانوں کو ’’ہوئی ہوئی‘‘ کہتے ہیں، جس کی اصل ’’ہوئی چِہی‘‘ تھی اور یہ نام غیر مسلمانوں نے اُن مسلمانوں کے لیے تجویز کیا تھا جو عہد تانگ خاندان میںاسلام لائے۔ کیونکہ اُن کے اکثر افراد اُس زمانے میں ’’ہوئی چِہی‘‘ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے، لیکن یوآن خاندان یعنی ابتدائی مغلوں کے زمانہ میں ان مسلمانوں نے ’’ہوئی چِہی‘‘ کے نام سے اِجتناب کیا اور ’’ہوئی چِہی‘‘ کو ’’ہوئی ہوئی‘‘ میں تبدیل کر دیا، کیونکہ یہ لفظ اُن کے نزدیک بالکل اسلام کا مفہوم ادا کرتا ہے اور مشرق بعید میں آج تک وہ اِسی نام سے مشہور ہیں۔

سونگ خاندان

907ء میں تانگ خاندان کی سلطنت ختم ہو گئی تو سونگ خاندان برسر اِقتدار آیا۔ تانگ خاندان کے عہد میں تبلیغ اسلام اپنے عروج پر رہی اور مختلف قبائل نے اسلام قبول کرکے چینی علاقوں اور صوبوں میں آبادیاں قائم کیں۔ سونگ خاندان کے دوسرے حکمران شہنشاہ تائی ژونگ (دور حکومت: 976ء تا997ء) کے زمانہ ٔ حکومت میں کاشغر کے حاکم بغرا خان نے چینی ترکستان پر لشکرکشی کردی، کیونکہ بغرا خان والی ٔ خراسان کے ماتحت تھا اور اِس لشکرکشی کے بعد بغرا خان نے چینی ترکستان کو اپنے ماتحت کر لیا اور وہاں کے باشندوں کو غلام بنا لیا اور شمال و جنوب میں ’’یتان و شان‘‘ کو اُن کی سکونت کے لیے مقرر کر دیا، چونکہ اُن میں سے اکثر مسلمان تھے، اِس لیے اُن کو آزاد کر دیا اور اُن کو یہ اختیار دِیا گیا کہ جہاں اُن کا جِی چاہے، وہ وہاں مقیم ہوسکتے ہیں۔ آج چینی ترکستان اور کانسو میں ایک مسلم قبیلہ ’’جوتون گان دل‘‘ (دونغان) کے نام سے مشہور ۔ موجودہ لوگوں کا بیان ہے کہ یہ قبیلہ اُن لوگوں کی اولاد ہے جن کو بغرا خان نے 976ء سے 987ء کے زمانہ میں قید کر دیا تھا.1068 ءمیں صفر خان حاکم بخارا نے جو غز ترک قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا،چین کے دار الحکومت آیا اور شہنشاہ چین سے ملاقات کی جس کی وجہ سے حکمران چین اور مسلمانوں کے تعلقات مضبوط ہوئے۔ سونگ خاندان کے چوتھے حکمران رین ژونگ نے اُس کا شاندار استقبال کیا اور دربارِ چین میں اُس کو خاص مہمان کی حیثیت سے رکھا اور اُن کی دوستی و تعلقات ایسے بندھے کہ بعد میں کشیدہ نہیں ہوئے۔

یوآن خاندان

یوآن خاندان کے امرا میں مسلمانوں کی تعداد خاصی زیادہ تھی۔ تاریخ یوآن میں درج ہے کہ شہنشاہ شین چونگ (عہد حکومت: 1312ء) نے ایک شخص حسن نامی کو اپنا وزیر مقرر کیا مگر اُس نے پہلے عہدہ قبول نہ کیا کیونکہ حسن مغل دستور سے واقف تھا کہ دربار میں عموماً دو وزیر ہوتے تھے، ایک وزیر ایمن اور دوسرا ایسر۔ وزیر ایمن کا مرتبہ وزیر ایسر سے بلند ہوتا تھا اور چونکہ شہنشاہ کو اصرار تھا کہ حسن کو وزیر بنایا جائے، اِسی لیے حسن نے صرف وزیر ایسر کا عہدہ قبول کر لیا۔ وزیر ایمن کے لیے شہنشاہ نے ایک دوسرے شخص بطاش نامی ترک کو منتخب کیا تھا۔ یوآن خاندان کے عہد میں مجلسِ شوریٰ جو صوبہ جاتی حکومتوں سے متعلق ہوتی تھی، شہنشاہ عموماً اُس میں مغل مسلمانوں کو مقرر کیا کرتا تھا۔ اگر اُن میں کوئی قابل اور لائق آدمی نہ مل سکتا تو ترک مسلمان منتخب کر لیا جاتا۔ اور اگر ترک مسلمان بھی اِس عہدے کے لائق نہ ملتے تو تب ہان مسلمانوں کا انتخاب ہوتا تھا۔ عام طور پر ہانیوں کو چینی مسلمان کہتے ہیں۔ 1258ء میں سقوط بغداد میں خلافت عباسیہ کا خاتمہ ہوا اور بغدادہلاکو خان کے ہاتھوں تباہ ہوا۔ دولت اسلامیہ کے مرکز میں چونکہ علمی زِندگی بالکل فنا ہوچکی تھی اور سوائے کھنڈر شہر کے بغداد کی حیثیت کچھ بھی باقی نہ رہ گئی تھی۔ ایسی حالت میں چین میں تبلیغ اسلام وسیع پیمانے پر جاری رہی۔ اِس زمانے میں عربی علوم و فنون کو چین میں مروج ہوئے اور علم طب، علم نجوم اور فنِ سپہ گری کے شعبہ جات پر مسلمان فائز ہوتے رہے۔ یوآن خاندان کے میں محکمہ ٔ تاریخ نویسی پر جو 1227ء میں قائم کیا گیا تھا، میں جب کام بڑھتا گیا تو شہنشاہ نے چینیوں اور مسلمانوں سے پانچ افسران منتخب کرکے اِس ادارے میں مقرر کیے کہ تاریخ مرتب کرنے میں وہ مدد کریں۔1314ء میں مسلمانوں کے لیے دارالاستفتاء کی بنیاد رکھی گئی جن میں بڑے بڑے مسلمان علما مقرر ہوئے۔ محکمہ ٔ فوج میں بھی ہزاروں مسلمان کام کرتے تھے جو فن سپہ گری سے واقف تھے۔ 1346ء میں توپچی کا عہدہ بھی مسلمانوں کے سپرد کر دیا گیا اور 1353ء میں محکمہ الفوج والبحر بھی قائم ہوا جس میں مسلمان فوجوں کے لیے درجہ ٔ اول کے دستے موجود تھے۔ 

منگ خاندان

منگ خاندان کے ہم عصر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت اور عرب سمیت افریقہ اور یورپی ممالک کے ایک حصہ پر سلطنت عثمانیہ قائم تھیں۔ منگ خاندان کے عہد میں مسلمانوں نے نہ صرف فوجی ملازمتوں میں حصہ لیا بلکہ تمدنی اور عمرانی عہدوں پر بھی اپنی استعداد اور ذہانت ظاہر کی۔1383ء میں علامہ ٔ زمان کو تقویم ہجری کے متعلق کرۂ ارض کے طول و عرض کے متعلق جو کتبعربی زبان میں مل سکیں، اُن کو چینی زبان میں ترجمہ کرنے پر مقرر کیا گیا۔ دراصل یہ بات تھی کہ ابتدا میں جب امیرالفوج نے دار السلطنت پر قبضہ کیا تھاتو یوآن خاندان کے شاہی کتب خانوں میں بہت سی ایسی کتب پائی گئیں تھیں جو غیر ملکی زبانوں میں تھیں اور اُن کتابوں کے متعلق لوگ بیان کیا کرتے تھے کہ وہ قدیم علما اور حکما کی تصانیف ہیں جن میں عقل اور حکمت آمیز اقوال موجود ہیں اور عام گمان یہ تھا یہ کسی چینی کو یہ طاقت نہیں کہ اُن اقوال کی تاویل کرسکے۔ چونکہ شہنشاہ تائی چُو ایک دانشمند اور سمجھدار دانا شہنشاہ تھا، لہٰذا اُس نے اُن کتب کو محفوظ رکھنے کا حکم دِیا آخر کار تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ سب کتب عربی زبان میں تھیں۔ شہنشاہ تائی چو نے علاقہ ہویہ چونگ اور لی زَن اور شیخ المشائخ کو حکم دِیا کہ اِن کتب کا ترجمہ عربی زبان سے چینی زبان میں منتقل کر دیں تاکہ تقویم عالم کی تدوین میں اِن کتب سے مدد مل سکے۔ یہ واقعات تاریخ منگ خاندان کے سینتیسویں حصہ میں مندرج ہیں۔ بعد ازاں اِن کتب پر تحقیق جاری رہی کہ یہ ترجمہ شدہ کتب کہاں چلی گئیں؟۔ مذکورۂ بالا بیانات سے واضح ہے کہ منگ خاندان میں اِسلامی علوم و فنون کو خاص اہمیت حاصل تھی، نہ صرف حکام اِن سے دلچسپی لیتے تھے، بلکہ شہنشاہِ وقت بھی اِن کے پھیلانے میں حتیٰ الامکان کوششیں اور اِمداد کیا کرتے تھے 

ایک روایت یہ ہے کہ

تیسرے خلیفۂ راشد حضرت عثمان بن عفانؓ نے ۶۵۱ء میں چانگ آن میں ایک وفد بھیجا تھا۔ ’چانگ آن‘ اس زمانے میں چین کا دارلحکومت تھا اورتانگ قاؤ تسنگ کے زیرمملکت تھا، جس کا تعلق تانگ کے شاہی خاندان سے تھا۔ اس وفد نے چینی شہنشاہ سے ملاقات کی ۔ اسے خلافت اسلامیہ اوراسلام کے احوال نیز مسلمانوں کے رہن سہن سے واقف کرایا۔مورخین اسی واقعے کو چین میں اسلام کی آمد کا آغاز مانتے ہیں۔البتہ عملی طورپرچین میں اسلام کی نشرواشاعت عرب اورایران سے آنے والے مسلمان تاجروں کے ذریعے ہوئی جووہاں خشکی اوربحری دونوں راستوں سے پہنچے تھے۔چین کے مغربی سرحدی علاقوں میں اسلام خشکی کے راستے ترکستان کے توسط سے پہنچا تھا۔ ترکستان میں اسلام اموی دورخلافت میں ہی پہنچ چکا تھا، کیوں کہ اسے اسی زمانے میں فتح کر لیا گیا تھا۔اس راستے سے اسلام کے چین میں داخلے میں اہم کردار اس شاہراہ کا بھی رہا ہے جسے شاہراہِ ریشم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قافلے مغربی ایشیا اور چین کے درمیان آمد و رفت کے لیے اسی شاہراہ کا استعمال کرتے تھے۔مشرقی چین میں اسلام بحری راستے سے داخل ہوا۔ حضرت عثمان بن عفانؓ کے زمانۂ خلافت میں (۲۱ ہجری ) مسلمانوں کا ایک وفد اسی راستے سے چین میں آیا تھا۔
اس کے بعد لگاتار کئی وفد چین گئے یہاں تک کہ ۳۱ ہجری/۶۵۱ عیسوی سے ۱۸۴ ہجری /۸۰۰ عیسوی کے دوران چین جانے والے وفود کی تعداد اٹھائیس ( ۲۸) تک پہنچ گئی۔ان تمام تفصیلات کا ذکر تاریخِ تانگ میں بھی ملتا ہے بلکہ اس میں ۶۱۸ء سے ۹۰۷ء تک چین میں جانے والے عرب وفود کی تعداد تیس ( ۳۰) بتائی گئی ہے۔اسی زمانے میں باہر سے آنے والے مسلمان داعیوں نے کچھ مسجدیں بھی تعمیرکی تھیں، جن میں سے ایک گوانگ زاو (Guang Zhou)کے مقام پر تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کا نام’ مسجد گوانگ تا‘ تھا۔اس کے علاوہ ایک مسجد قوان زاو(Quan Zhou) شہر میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کا نام مسجد قِنگ زین (Qing Zhen) تھا۔اسی شہر کو ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں شہر زیتون کہا ہے۔ یہ دونوں مسجدیں آج بھی موجود ہیں۔
چین میں اسلام کی اتنی قدیم تاریخ ہونے کے باوجود چینی مسلمان ایک عرصے تک دنیا کی نظروں سے اس طرح اوجھل رہے کہ شاید ہی کوئی ان کے بارے میں کچھ جانتا رہا ہو۔امیر شکیب ارسلان نے اپنی کتاب حاضر العالم الاسلامی میں چینی مسلمانوں کی قدیم تاریخ کے تعلق سے لکھا ہے : ’’گویا چین کے مسلمان اس دنیا میں تھے ہی نہیں۔‘‘ معروف مصری صحافی نے ۱۹۸۰ء میں اپنے سفر چین کے بعد وہاں کے مسلمانوں کے حالات لکھتے ہوئے کہا: ’’چین کے مسلمان عالم اسلام کی ’’ایک گم شدہ فائل‘‘ کی طرح تھے۔‘‘
آغاز میں عرب اورایران سے چین جاکر اسلام کی دعوت دینے والے مسلمانوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ چین میں کنفیوشزم، تاؤزم اور بدھ مت کا غلبہ تھا۔ وہاں کے مسلمانوں میں قرآن کی تعلیم کو عام کرنے کے لیے انھوں نے چینی زبان سیکھی اور چینیوں کوعربی کی تعلیم دی تاکہ لوگ عربی زبان میں قرآن کو پڑھ سکیں۔
تہذیبی ارتقا
تاریخ چین کے عہد وسطی میں چین کی مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے اسلامی تہذیب کو جنم دیا، جس کی بنیاد دین کے اصولوں پر قائم تھی۔اس تہذیب نے انسانی زندگی پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ اسلام ان کے لیے ایک خدائی پیغام و نصیحت ہے۔ لیکن اسلام سے مسلمانوں کے اس تعلق میں بتدریج کمی آتی چلی گئی، جس کے اسباب بہت واضح تھے۔ سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اسلامی تعلیمات سے متعلق جو بھی کتابیں میسر تھیں وہ عربی اور فارسی زبان میں تھیں۔ جب تک ان دونوں زبان سے راست استفادہ کرنے والے مسلمان موجود رہے، ان کا رشتہ اسلام کی تعلیمات سے قائم رہا۔ لیکن جب یہ لوگ دنیا سے رخصت ہونے لگے تو ان کا متبادل تیار کرنے کی کوئی کوشش مسلمانوں نے نہیں کی۔ انجام کار ان کتابوں سے استفادہ کرنے والے کم ہوتے ہوتے آخر کار ختم ہو گئے۔ ان کتابوں کو چینی زبان میں منتقل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ چنانچہ اب چین کے غیر مسلموں کے لیے اسلام کے بارے میں جاننے کا واحد ذریعہ اس کے سوا کوئی نہیں بچا کہ وہ مسلمانوں کی عملی زندگی پر نظر ڈالیں۔اس بات کی تائید تاریخی دستاویزوں سے بھی ہوتی ہے، جن میں اس جانب اشارہ ملتا ہے کہ اس وقت کا غیر مسلم تعلیم یافتہ طبقہ اسے بدھ مت کا ہی حصہ تصور کرتا تھا۔اسی صورت حال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ملیشیا کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے استاذ ڈاکٹر یونس عبداللہ ماچنگ بین ، جن کا تعلق چین سے ہی ہے، لکھتے ہیں:
’’چینی آمر کانگ ژی (Kang Xi)کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا وہ مسلمانوں کی علمی حالت کی عکاسی کرتا ہے۔ ۱۶۷۹ء میں راجا کان شی نے اسلام کے بارے میں سنا تو اس نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ قرآن میں کیا تعلیمات دی گئی ہیں۔اس نے معلوم کیا کہ کیا چینی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ موجود ہے ؟ تاکہ وہ اسے پڑھ اور سمجھ سکے؟؟لیکن افسوس کہ اسے ایک بھی مسلمان ایسا نہیں مل سکا جو اس آرزو کو پوری کر سکتا۔ اسی طرح ۱۶۸۳ء میں جب ایک عربی وفد اس کے پاس آیا اور اس نے راجا کو قرآن تحفے میں پیش کیا تو اس نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا کوئی ایسا شخص اس کی سلطنت میں موجود ہے جو اس کے لیے اس کا ترجمہ کر سکے۔ لیکن اس بار بھی اسے ایسا کوئی شخص نہیں مل سکا۔‘‘)
آگے وہ لکھتے ہیں کہ چینی زبان میں اسلامی لٹریچر کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسلام ایک مخصوص گروہ کا مذہب بن کر رہ گیا۔البتہ بعد کے دور میں اس پر توجہ دی جانے لگی۔ اور قرآن کے ترجمے کے علاوہ دیگر اسلامی لٹریچر چینی زبان میں تیار کیا جانے لگا ہے۔
چین میں مسلمانوں کی تعداد
برّصغیر ایشیا میں ہندستان کے بعد چین دوسرا ملک ہے جہاں مسلمان اپنے ملک کی سب سے بڑی اقلیت شمار کیے جاتے ہیں۔چین میں چھپّن (۵۶) قومیتیں آباد ہیں ، جن میں سے دس قومیتیں مسلمانوں کی ہیں۔ ان میں سب سے بڑی مسلم قومیت ’’ہوی‘‘ ہے۔یہ وہ مسلمان ہیں جو وسطی ایشیا اور بلاد فارس سے ہجرت کرکے چین میں آباد ہوگئے تھے۔باقی مسلم قومیتیں اس طرح ہیں: ایگور، قازق، قرغیز، اوزبک، تاتار، دونگسیانگ، باؤ آلان، سالار اور تاجک۔ان سب پر اسلام کے اثرات بہت واضح اور نمایاں ہیں جوزندگی کے تمام پہلوؤں میں اسلامی تعلیمات سے ان کی وابستگی، کھانے، پینے ،لباس اور گھروں کی ہیئت اور مذہبی اجتماعات اور تہواروں سے ظاہرہیں۔
چینی قومیت والے ہان قبیلے کی آبادی چورانوے ( ۹۴) فی صد ہے، جب کہ باقی دوسری قومیتیں، جو اقلیتی قومیتیں کہلاتی ہیں، ان کی آبادی کل چھ (۶ )فی صد ہے۔چین میں مسلمانوں کی تعداد صحیح طور پر معلوم نہیں ہے ۔چین کے مسلمانوں کے حالات پر تحقیق کرنے والوں نے اگرچہ اس سلسلے میں ممکنہ حد تک اعداد و شمار حاصل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ بھی صحیح تعداد معلوم نہیں کر سکے۔اس کا بنیادی سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ چین میں آبادی کے اعداد وشمار مذہب کی بنیاد پر نہیں، بلکہ صرف قومیت کی بنیاد پر تیار کیے گئے ہیں۔ مسلم قومیتوں کے سلسلے میں بھی جو اعداد وشمار دیے جاتے ہیں وہ محض اندازے ہی ہیں۔ اکثر محققین کی نظر سے یہ بات چوک گئی کہ وہاں کے مسلمانوں کی اکثریت ان دس مسلم قومیتوں کے علاوہ دوسری قومیتوں سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ان لوگوں نے اسلام قبول کرنے کے باوجود اپنی قومی شناخت کو باقی رکھا، جو شاید ان کی مجبوری بھی تھی، کیوں کہ چین میں مردم شماری مذہب کی بنیاد پر نہیں، بلکہ قومیت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔اسی لیے مردم شماری کے دوران انھیں مسلمان قومیت شمار نہیں کیاجاتا۔
مسلم آبادی والے علاقے
چین میں مسلمان پورے ملک کے اندر پھیلے ہوئے ہیں اوراپنے مخصوص محلوں یا علاقوں میں سب جمع ہوتے ہیں جو ان کا خاص امتیاز ہے۔گویا وہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہونے کے باوجود یکجا اور متحد ہیں۔زیادہ تر مسلمان شمال مغربی چین میں آباد ہیں۔ شمال مغربی چین کا علاقہ پانچ صوبوں پر مشتمل ہے: فانسو، شنگھائی، شینکیانگ، شانسی اور نینگشیا۔ جنوبی چین کے علاقے میں مسلمان بہت کم ہیں، حالاں کہ تجارتی راستے سے چین میں داخل ہونے کے لیے مسلمانوں کا پہلا پڑاؤ یہی علاقہ تھا،کیوں کہ اس علاقے کی طرف برّی اور بحری دونوں راستے پہنچتے تھے۔
مختلف حکومتوں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات
منگولی عہد:منگولی حکومت کے تحت مسلمانوں نے بہت سی رعایتیں حاصل کیں اور بہت تیزی سے اوپر اٹھے۔ان کے اندر پائے جانے والے اوصاف: مساوات، امانت داری، حسن اخلاق اور انتظامی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے حکمراں قبلائی خاندان نے عام ریاستوں میں ان کی خدمات حاصل کیں اور انھیں بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا۔اتنا ہی نہیں بلکہ وہ مشرقی اور مغربی ترکستان سے آنے والے مسلمانوں سے بھی خدمات لیا کرتے تھا۔بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ چین کی اصلاًبارہ ( ۱۲) ریاستوں میں سے آٹھ ( ۸) پر مسلمان قائدین کی حکم رانی رہی۔اس دور کے مشہور ترین اور سب سے زیادہ اثر ورسوخ رکھنے والے مسلمانوں میں سے ایک شمس الدین عمر تھے جو منگول حکم راں کے فوجی افسر سے ترقی کر کے تائی یوان شہر اور پھر بعد میں بنیانگ کے فوجی گورنرکے عہدے پر فائز ہوئے۔اس کے بعد بکین شہر کے قاضی مقرر ہوئے، پھر اسی شہر کے گورنر بھی بنائے گئے جو کہ چین کا دارالحکومت تھا۔اس مسلم گورنر نے چین میں بڑی تعداد میں مدارس اور دینی ادارے قائم کرنے کا اہتمام کیا۔ اور شاید اس وقت چین میں موجود مساجد میں سے بیش تر مساجد وہ ہیں جو عہد منگولیہ میں ہی تعمیر کی گئیں۔یہ سب اس باعزت مقام ومرتبے کے طفیل ہوا جو اس زمانے میں مسلمانوں کو حاصل تھا۔
خاندان مِِنگ کا عہد: منگولی عہد کے خاتمے کے بعد چین اورمشرقی ترکستان کے اندر مسلمانوں کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور مسلمان گزشتہ عہد حکومت میں جن سہولتوں سے فیض یاب ہو رہے تھے وہ سب انھیں اس دوران حاصل رہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی نیا حکم راں خاندان یعنی مِنگ بھی اسی منگولی قبلائی خاندان کے طرز پر حکومت کر رہا تھا۔ اس خاندان کے حکم رانوں نے بھی علمی، ثقافتی اور معاشی اعتبار سے نمایاں مسلمانوں کو حکومت کے اعلیٰ مناصب پر فائز کیا۔ ۱۰۵۲ھ / ۱۴۶۲ء تک یہ صورت حال برقرار رہی۔
عہد مانشوری:یہ دور مسلمانوں پر انتہائی ظلم وبربریت کا رہا ہے۔دراصل مانشوری حکم راں مسلمانوں کے اثرونفوذ سے گھبرانے لگے تھے۔چنانچہ انھوں نے مسلمانوں پر ظلم کا ایک سلسلہ شروع کیا اور انھیں ختم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کی وجہ سے مانشوری خاندان کوترقی کا موقع ملا۔اس نے پانچ ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا اور مشرقی ترکستان میں ان کا خاتمہ کرنے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر کارروائیاں کیں۔ یہ دور ۱۹۱۱ء میں مانشوری عہد کے خاتمے تک جاری رہا۔
جمہوری نظام حکومت: مانشوری عہد کے خاتمے کے بعد ملک میں جمہوری نظام کا دور آیا۔ اس زمانے میں اگر چہ انھیں کھلے ظلم کی پالیسی سے نجات مل چکی تھی اور اب ان کے لیے ملک کے اندر سکون اور اطلینان کی سانس لینا قدرے آسان ہو گیا ہے، تاہم یہ کوئی عام صورت حال نہیں ہے۔ موجودہ وقت کا کمیونسٹ نظام آج بھی ان مسلمانوں سے خائف ہے۔ چنانچہ مشرقی ترکستان کے مسلمان آج بھی چین کے کمیونسٹ نظام کے مظالم جھیل رہے ہیں ۔ یہ وہ علاقہ ہے جوچین کے قبضے میں ہے اوروہاں کی جمہوریت پسند کمیونسٹ حکومت کو اس بات کا ڈر ہے کہ اگر ترکستان کو آزادی کو موقع دیا گیا تو وہاں کے باشندے چینی حکومت سے علیحدہ ہو جائیں گے۔اسی وجہ سے چین میں مذہبی آزادی بھی صرف ہوی قبیلے کے مسلمانوں یا مہاجرین کو ہی حاصل ہے، لیکن ترکستان کے ترک ایگور قبیلے کو اس حق سے محروم کر دیا گیاہے ۔اہلِ ترکستان کا قافیہ تنگ کرنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ علاقہ مسلم اکثریتی ہونے کے باوجود چین کے لیے کئی اعتبار سے بہت اہم ہے۔ترکستان پٹرول اور معدنی ذخائر سے مالا مال ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس طبیعی گیس کے ذخائر بھی موجود ہیں، اسی طرح اس علاقے میں سونا بھی بہت ہے۔ عمدہ ترین قسم کا یورینیم ترکستان ہی میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی وہاں بے شمار معدنی ذخائر موجود ہیں۔اس لیے چین اپنے لیے بہتر یہی سمجھتا ہے کہ مشرقی ترکستان اس کے تابع رہے۔نیز یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ قرغیزستان اور مرکزی ایشیا میں پائے جانے والے تیل اور گیس کے میدانوں تک براہ خشکی ترکستان سے گزر کر ہی پہنچا جا سکتا ہے۔اسی طرح بین الاقوامی تجارت کے فروغ میں ترکستان کا کردار بنیادی اور کلیدی اہمیت کا حامل رہا ہے کیوں کہ مشہورشاہ راہِ ریشم ترکستان ہی سے ہو کر گزرتی ہے۔ مشرقی ترکستان کا رقبہ اتنا بڑا ہے کہ تنہا یہ ملک چین کے پانچویں حصے پر مشتمل ہے۔اس کا اپنا رقبہ فرانس کے رقبے سے پانچ گنا زیا دہ ہے، جو کہ یوروپی ممالک میں سب سے زیادہ رقبہ والا ملک ہے۔ رقبے کے اعتبار سے دنیا میں اس کا نمبر انیسواں ہے۔اس کی آبادی تقریباً دو کروڑ پچاس لاکھ ہے جس کی اکثریت مسلمان ہے۔اسی لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر ترکستان نہ ہوتا تو چین معاشی اعتبار سے رو بہ زوال ہو گیا ہوتا۔

مسلمانوں کی صورت حال
چین میں اسلام کی جڑیں دیگر مذاہب مثلاً عیسائیت کے برعکس بہت گہری ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اسلام یہاں بہت پہلے پہنچ چکا تھا اور اس وقت سے آج تک موجود چلا آ رہا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے ملک کی حیثیت سے چین کی سیاست و معیشت کی ترقی میں استطاعت بھر اپنا حق دیا کیا ہے۔اس کے باوجود اسلام وہاں زیادہ نہ پھیل پانے کی ایک وجہ تو یہ رہی کہ مسلمانوں نے اس جانب بہت بعد میں توجہ دی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ دعوتی مشن کو وہاں اس طرح مادی تقویت حاصل نہیں ہو سکی جس طرح عیسائیت کو حاصل ہے۔ مغربی چرچوں بالخصوص ویٹی کن سے عیسائی مشنریوں کو وہاں ہر طرح کی کمک فراہم کی جاتی ہے۔
اس وقت چینی مسلمانوں میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں: ایک وہ جو دوسرے مسلم ممالک کے ربط میں رہ کر یا وہاں کی اسلامی یونیورسٹیوں سے فیض یاب ہو کر آئے ہیں اور چین میں اسلام کی ایک معتدل تصویر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔چین کے سیاسی ، معاشرتی اور اقتصادی میدان میں جس حد تک گنجائش ہے، اس حد تک مسلم اقلیت کو ملنے والے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو اسلام کے تئیں والہانہ جذبہ تو رکھتے ہیں لیکن اپنی اسلامی شناخت کو کھو چکے ہیں۔ ان کے اندر اسلام کا دفاع کرنے کا جذبہ تو موجود ہے، لیکن وہ اسلام کی تعلیمات او راس کے بنیادی ارکان تک سے ناواقف ہیں۔اگر کوئی شخص ان کے سامنے یہ کہہ دے کہ اسلام اچھا مذہب نہیں ہے تو انھیں غصہ آ جائے گا اور اس کا دفاع کرنے کے لیے آستینیں چڑھا لیں گے، لیکن اگر آپ ان سے پوچھ لیں کہ اسلام ہے کیا؟ تو وہ آپ کو کوئی جواب نہیں دے پائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے چین کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے جہاں تعلیم ابتدائی، ثانوی اور یونیورسٹی مراحل سے گزرنے کے دوران کمیونزم کو ان ذہنوں میں اچھی طرح نچوڑ دیا گیا ہے۔
دینی و علمی کوششیں
چینی عوام کے درمیان اسلام کو متعارف کرانے کے لیے علمی کام کرنے اوردینی لٹریچر کو چینی زبان میں منتقل کرنے کی ضرورت تو پہلے بھی تھی، لیکن برسوں تک اس ضرورت کی تکمیل نہ ہوپانے کی وجہ سے اسلام کی اشاعت اور ارتقا میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہو ئی تھی۔لیکن بعد میں مسلمان علماء نے چینی تہذیب وثقافت کو سامنے رکھتے ہوئے تعارف اسلام کی غرض سے لٹریچر تیار کرنا شروع کیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اسلام ،جو محض ایک عقائد اورچند مخصوص عبادات کا مجموعہ سمجھا جاتا تھا ، اب دین اور نظام حیات کے طور پر جانا جانے لگا۔ اسلام کی اخلاقی قدروں سے بھی لوگ واقف ہونے لگے ۔انیسویں صدی کے آغاز تک قرآن کا مکمل ترجمہ نہیں کیا جا سکا تھا، البتہ انیسویں صدی کے اواخر میں قرآن کے بعض انگریزی تراجم چین پہنچے تو ان سے چین کے مسلمانوں کو بھی تحریک ملی اورانھوں نے ترجمے کا کام شروع کیا۔چینی زبان میں قرآن کا قدیم ترین ترجمہ جاپانی زبان سے کیا گیا تھا۔ یہ ترجمہ ایک غیرمسلم نے کیا تھا جو ۱۹۲۷ء میں بیکین سے شائع ہوا تھا۔ایک اور ترجمہ ۱۹۳۱ء میں ہوا تھا۔ اسے بھی ایک غیر مسلم جی جیو می (Ji Jue Mi)نے کیا تھا۔یہ سب ترجمے چوں کہ براہ راست عربی زبان کے بجائے انگریزی سے کیے گئے تھے، اس لیے ان میں بہت سی غلطیاں در آئی تھیں۔ چنانچہ ان کی اشاعت کو زیادہ فروغ نہیں دیا گیا۔بیسیویں صدی میں بیجنگ، تیان جن اور شنگھائی میں براہ راست عربی زبان سے قرآن کا ترجمے کے کام کا آغاز ہوا۔چنانچہ ۱۹۱۴ء میں ایک مسلم عالم شیخ یعقوب وانگ جینگ چائی نے اس کام کو شروع کیا اور یہ ۱۹۴۶ء میں شنگھائی سے شائع ہوا۔لیو جین بیاؤ کا ترجمہ بھی اسی سال بیجنگ سے شائع ہوا۔بانگ چنگ مینگ نے بھی ایک ترجمہ کیا جو ۱۹۴۷ء میں شائع ہو۔ آخری ترجمہ محمد مکین ما جیان نے کیا جو ۱۹۸۱ء میں شائع ہوا۔ یہ ترجمہ عربی زبان کے اصل مفہوم سے زیادہ قریب تر سمجھا جاتا ہے۔
اسی طرح حدیث کے میدان بھی علمی و تحقیقی کام کیا گیا۔ احادیث کے مجموعوں کے تراجم تو نہیں ہو سکے البتہ منتحب احادیث کے بعض مجموعے چینی زبان میں شائع ہو چکے ہیں۔ان میں مشکوۃ المصابیح کے علاوہ بخاری کا خلاصہ بھی شامل ہے۔اسلام کے ان بنیادی مآخذ، بالخصوص قرآن کے تراجم مہیا ہونے کی وجہ سے اہلِ چین کے لیے اسلام کا تعارف حاصل کرنا آسان ہو گیا ہے۔
مسلمانوں کی تعلیم
مسلم بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے چین میں مدارس بھی قائم ہیں، جن میں ابتدائی، ثانوی اور اعلی، تین مرحلوں میں تعلیم دی جاتی ہے۔ان مراحل میں ناظرقرآن سے لے عربی زبان، تفسیر، علم حدیث و فقہ وغیرہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔البتہ اسلامی کتب اب بھی اس معیار اور مقدار میں نہیں ہیں کہ ان کے ذریعے بچوں کی مکمل تربیت کا کام انجام دیا جا سکے۔ جو کتابیں ہیں ان پر بھی نظر ثانی کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔لیکن ابھی اس میدان میں چین کے مسلمانوں کو بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلام کے بارے میں غیر مسلموں کے تصورات
ایک سروے کے ذریعے ملیشا میں موجود غیر مسلم چینیوں سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ اسلام کے بارے میں ان کے تصورات کیا ہیں؟ اس کے نتیجے میں تین الگ الگ تصورات سامنے آئے۔ ایک تصور تو یہ سامنے آیا کہ اسلام ملاؤں اور عربوں کا دین ہے۔ وہ عورتوں کے ساتھ عدل نہیں کرتا ہے، تشدد اور غیر مسلموں سے نفرت کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ اسلام کا یہ تصور انھوں نے مسلمانوں کے ساتھ رہ کر اخذ کیا ہے یا پھر میڈیا نے انھیں یہ معلومات فراہم کی ہیں۔ یہ تصور عام طور پر ان غیر مسلم چینیوں کے ذہنوں میں پایا جاتا ہے جو تعلیم یافتہ ہیں۔ ایک دوسرا طبقہ عام چینی باشندوں کا ہے۔ ان کے ذہنوں میں اسلام کا جو تصور پایا جاتا ہے وہ بھی تقریباً وہی ہے جو تعلیم یافتہ طبقے کا ہے۔وہ اسلام کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ اسلام کا عقیدہ کیا ہے؟ معاشرے سے برائی کے خاتمے کے لیے اس نے کیا احکام دیے ہیں؟ وہ ان سب چیزوں سے بے خبر ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ایک تیسرا طبقہ بھی ہے جو اسلام کے بارے میں کافی معلومات رکھتا ہے، لیکن ان کی معلومات کا ذریعہ مسلمان نہیں بلکہ ان کا شوقِ مطالعہ و تحقیق ہے۔ انھوں نے اسلام کے بارے میں یہ ساری معلومات کتابوں کے ذریعے حاصل کی ہیں۔

چینی ادب عالیہ اردو قالب میں

صحیفہ چین کے متعدد نسخے ملتے ہیں اور نسخوں کے اسی اختلاف کی بنا پر یہ کتاب قدیم زمانہ سے ادبی تنازع کا باعث رہی ہے۔ "نیا متن" نامی نسخے کو چن شی ہوانگ کے جاری کردہ فرمان کتابیں جلا دو اور علماء کو زندہ دفن کردوسے بچا کر فو شینگ نے محفوظ کر رکھا تھا۔ جبکہ "پرانا متن" کا نسخہ دوسری صدی ق م کے اواخر میں کنفیوشس کے خاندانی مکان کی منہدم دیوار سے ملا جو قوفو میں واقع تھا۔ بعد ازاں یہ نسخہ ہان خاندان کے زوال کے وقت گم ہو گیا جو پھر چوتھی صدی عیسوی میں دستیاب ہوا۔ ابتدا میں یہی نسخہ رائج اور مقبول تھا لیکن جب چنگ خاندان کے ایک محقق یان روکو نے یہ انکشاف کیا کہ تانگ خاندان نے اپنے عہد حکومت یعنی تیسری یا چوتھی صدی عیسوی میں صحیفہ چین میں الحاقات کیے تھے تو اس کا استناد مجروح ہو گیا۔

صحیفہ کے ابواب چار حصوں میں منقسم ہیں جو چار مختلف عہد کی تاریخ کا احاطہ کرتے ہیں: یو اعظم کا نیم افسانوی عہد حکومت، شیا خاندان، شانگ خاندان اورژؤ خاندان کے عہد۔ صحیفہ کا بڑا حصہ ژؤ خاندان کے کوائف پر مشتمل ہے۔ نیز "نیا نسخہ" نامی متن کے کچھ ابواب میں چینی نثر کے ابتدائی نمونے بھی ملتے ہیں جن میں گیارہویں صدی ق م کے اواخر کے ژؤ شاہی خاندان کی تقریریں قابل ذکر ہیں۔

اردو ترجمہ

سنہ 1937ء میں سید اسد انوری فریدآبادی نے "صحیفۂ چین" کے نام سے اس کتاب کا اردو ترجمہ کیا جو مکتبہ جامعہ دہلی سے شائع ہوا۔ ڈبلیو گورن اولڈ کا انگریزی ترجمہ بک آف ہسٹری مترجم کے پیش نظر رہا۔ مترجم نے اصل کتاب کے ترجمہ کے علاوہ اس میں اپنی جانب سے تین ضمیمے شامل کیے ہیں۔ پہلا ضمیمہ کنفیوشس کے حالات اور اس کے فلسفہ و اخلاقیات سے بحث کرتا ہے۔ دوسرے میں چین کے معلق عام اور کارآمد معلومات درج کی گئی ہیں، اسی ضمن میں تاریخ چین کا ایک مختصر خلاصہ بھی پیش کر دیا گیا ہے۔ تیسرا ضمیمہ شاہان چین کی سنہ وار فہرست پر مشتمل ہے۔


Tuesday 13 October 2020

حكم طلاق السكران وسائرتصرفاته :من فتاوى الشيخ ا بن باز رحمه الله

 الجواب: بسم الله الرحمن الرحيم، الحمد لله وصلى الله وسلم على رسول الله، وعلى آله وأصحابه ومن اهتدى بهداه.

أما بعد: فقد اختلف العلماء في طلاق السكران هل يقع أم لا؟ فذهب الجمهور إلى أنه يقع طلاقه كما يؤخذ بأفعاله ولا تكون معصيته عذراً له في إسقاط الطلاق، كما أنها لا تكون عذراً له في مؤاخذته بأفعاله من قتل أو سرقة أو زنا أو غير ذلك، وذهب بعض أهل العلم إلى أن طلاق السكران لا يقع، وهذا هو المحفوظ عن عثمان رضي الله عنه الخليفة الراشد؛ لأنه لا عقل له فلا يؤخذ بأقواله التي تضر غيره والطلاق يضره ويضر غيره فلا يؤخذ بالطلاق؛ لأن عقوبة السكران الجلد وليس من عقوبته إيقاع طلاقه وهكذا عتقه وتصرفاته الأخرى كالبيع والشراء والهبة ونحو ذلك كلها باطلة، أما أعماله وأفعاله فإنه يؤخذ بها، ولا يكون سكره عذراً له لا في الزنا ولا في السرقة ولا في القتل ولا غير هذا؛ لأن الفعل يؤخذ به الإنسان عاقلاً أو غير عاقل، ولأن السكر قد يتخذ وسيلة إلى ما حرم الله من الأفعال المنكرة وقد يحتج به فتضيع أحكام هذه المعاصي، ولهذا أجمع أهل العلم على أخذه بأفعاله.
أما القول: فالصحيح أنه لا يؤخذ به، فإذا علم أنه طلق في السكر عند زوال العقل؛ فإن الطلاق لا يقع، وهكذا لو أعتق عبيده في حال السكر أو تصدق بأمواله في حال السكر؛ فإنه لا يؤخذ بذلك أو باع أمواله أو اشترى فجميع التصرفات التي تتعلق بالعقل لا تقع ولا تثبت من تصرفاته القولية كما بينا، وهذا هو المعتمد وهو الذي نفتي به أن طلاقه غير واقع متى ثبت سكره حين الطلاق وأنه لا عقل له، أما إذا كان غير آثم بأن سقي شراباً لا يعلم أنه مسكر، أو أجبر عليه وأسقي الشراب عمداً بالجبر والإكراه، فإنه غير آثم ولا يقع طلاقه في هذه الحال؛ لأن سكره ليس عن قصد فيؤخذ به، بل هو مظلوم أو مغرور فلا يقع طلاقه عند الجميع. نعم.
المقدم: بارك الله فيكم وجزاكم الله خير. 
(انتهى الجواب)
اختلف أهل العلم في طلاق السكران إذا كان سكره بتناول ما يحرم عليه من الخمر بأنواعها هل يقع أم لا ؟ على قولين :
القول الأول : أن طلاقه يقع ، وإلى هذا ذهب أبو حنيفة ومالك ، وأحد القولين للشافعي وأحمد رحمهم الله .
قالوا : لأن عقله زال بسبب معصية ، فيقع طلاقه عقوبة عليه وزجرا له عن ارتكاب المعصية.
ينظر : "المغني" لابن قدامة (7/289). واستدلوا .
القول الثاني : لا يقع طلاقه ، وهو مذهب الظاهرية والقول الثاني للشافعي وأحمد ، واستقر عليه قول الإمام أحمد ، واستدلوا بأدلة ، منها :
1 - قوله تعالى: ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ ) النساء/43، فجعل سبحانه قول السكران غير معتبر ، لأنه لا يعلم ما يقول .
2 - وصح عنه صلى الله عليه وسلم أنه أتاه رجل يقر بالزنا ، فقال : (أشرب خمرا ؟) فقام رجل وشم فمه فلم يجد منه ريح خمر . رواه مسلم (1695) . وهذا يدل على أنه لو كان شرب خمرا ، فلا يقبل إقراره ، فكذلك لا يقع طلاقه .
3- ولأنه قول عثمان بن عفان وابن عباس رضي الله عنهم ، وليس لهما مخالف من الصحابة.
قال الإمام البخاري رحمه الله :
وَقَالَ عُثْمَانُ : لَيْسَ لِمَجْنُونٍ وَلَا لِسَكْرَانَ طَلَاقٌ . وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : طَلَاقُ السَّكْرَانِ وَالْمُسْتَكْرَهِ لَيْسَ بِجَائِزٍ .
قال ابن المنذر رحمه الله : هذا ثابت عن عثمان ، ولا نعلم أحدا من الصحابة خلافه .
4 - ولأنه مفقود الإرادة أشبه المكره .
5 - ولأنه زائل العقل أشبه المجنون والنائم .
6 - ولأن العقل شرط التكليف ولا يتوجه التكليف إلى من لا يفهمه .
وينظر : "مجلة البحوث الإسلامية" (32/252) ، "الموسوعة الفقهية" (29/18)، "الإنصاف" (8/433) .
والقول الثاني قد رجحه جمع من أهل العلم كشيخ الإسلام ابن تيمية ، وتلميذه ابن القيم ، وأفتى به الشيخ ابن باز وابن عثيمين رحمهما الله .