https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 15 October 2020

رولے اب دل کھول کے اے دیدۂ خوننابہ بار:سرہند کاذکر

 سرہند مشرقی پنجاب میں فتح گڑھ صاحب کے قریب ایک تاریخی قصبہ ہے.عہداسلامی میں اسے مرکزی حثییت حاصل تھی.یہاں مشاہیرعلما,شعراء,مؤرخین,صوفیاء ,امراء,وزراء, پیداہوئے.اگرچہ یہ فیروزشاہ تغلق کے عہد میں آباد ہوالیکن شہرت کے بام عروج پرعہداکبری میں پہنچا. عہد بابری میں مغل سلطنت کے بنیاد گزار شہنشاہ بابر, بقول مصنف گلزار ابرار'اس دور کے نامور عالم اور شیخ طریقت مولانا مجدالدین سرہندی سے سرہند ملنے آیا.

عہداکبری کے مشاہیرعلماء میں  طبقات اکبری کے مصنف شیخ نظام الدین  احمدان کے استاد شیخ علی شیر سرہندی,مولاناعبدالقادر,مولاناالہدادبن صالح سرہندی,بہت مشہور ہیں.

عہد جہانگیری کا ایک اہم نام جوتزکیہ وسلوک کے عظیم سلسلۃ الذہب کے بانی مبانی ہیں شیخ احمد سرہندی مجددالف ثانی کا ہے .ان کی سوانح ,شخصیت,علوم ومعارف مکاتیب اور تصانیف وشروحات ,خلفاء اورتلامذہ اور مستفیدین ,اور اس خانوادۂ علمی کی تاریخ پرہزارہاکتب ,معتبرمصنفین ومحققین نے لکھی ہیں.اس پرفیض خانوادۂ مشاہیر کے آثارآج بھی سرہند کی زینت ہیں.آپ کی مساعئ جمیلہ سےاسلامی دنیا میں انقلاب برپاہوا.بدعات وخرافات کی آپ نے بیخ کنی کی اور اتباع سنت کی تلقین کی.

:آپ کی اولاد میں 

شیخ  محمد صادق سرہندی ,خواجہ محمدسعید سرہندی,خواجہ محمد معصوم,خواجہ محمدیحی عرف شاہ جیو بہت مشہور ہیں.

:خلفاء میں

 خواجہ میرمحمد نعمان بدخشی,شیخ احمد برکی,شیخ آدم بنوری, خواجہ محمد ہاشم کشمی,شیخ حسن برکی,ملاعبدالحکیم سیالکوٹی,شیخ محمد طاہرلاہوری,شیخ بدیع الدین,شیخ بدالدین ابراہیم سرہندی شیخ احمد دیوبندی  وغیرہ سے اہل علم بخوبی واقف ہیں

بہرکیف سرہند اپنی عظمت رفتہ کی بناپر مؤرخین کی نظر میں خاص مقام کاحامل ہے.سرہند کی چندقابل ذکرشخصیات کی صرف فہرست درج ذیل کی جاتی ہے تاکہ واضح ہوجائے کہ یہاں عہد اسلامی میں کیسے کیسے آفتاب وماہتاب پیداہوئے عہداسلامی میں یہاں 360سے زاید مساجدمدارس اور خانقاہیں آباد تھیں .آج  فقط چند آثارہیں.ابوالفضل نے آئین اکبری میں لکھاکہ سرہند دہلی کی ایک سرکار ہے جس کے تحت 31محل اور پرگنہ جاہیں.اس کاقدیم نام سہرند(شیروں کاجنگل)تھا جب غزنوی بادشاہوں نے غزنی سے سرہند تک کاعلاقہ اپنے زیراقتدار کرلیاتوسرِہند یعنی ہندوستان کاسرمشہورہوگیا. شاہجہاں نے کابل سے قرا باغ غزنی تک کا وسیع و عریض علاقہ فتح کرلیاتوحکم جاری کیا کہ سہرند ہی لکھا جائے لیکن اس کے باوجود سرہند ہی زبان زد خاص وعام رہا.(سرو آزاد مؤلفہ مولانا غلام علی آزاد بلگرامی ,ص128 سرہندکو جغرافیائی لحاظ سے گیٹ وے آف انڈیا کہا جاتاتھا.اسی لئے ہربادشاہ نے اس کو بہت زیادہ اہمیت دی.1415ء/818ہجری میں دہلی کے اولین سید حکمراں خضر خان نے اپنے بیٹے  ملک مبارک کو سرہند کاگورنراورملک سادہوناکو اس معاون مقررکیا.لیکن وہ 1416ء میں ترکوں کے ہاتھوں قتل ہوا

١۴٥١ء میں سرہند ہی میں ملک بہلول لودھی نے سلطان کالقب اختیار کیا.

١٥٥٥ء میں سرہند ہی میں ہمایوں نےسکندرسوری کوشکست دی. جب بیرم خان نے بغاوت کی تو اکبر نے١٥٦۰ء میں سرہندہی میں اس کی سرکوبی کی.اورنگ زیب اور داراشکوہ کے درمیان جانشینی کی جنگ میں دارا شکوہ نے دس ہزار افواج کے ساتھ سرہند کی طرف مارچ کیاتھا

تاکہ اورنگ زیب کی پیش قدمی کو روکاجاسکے

چند مشاہیر کے صرف نام درج کئے جاتے ہیں تاکہ قارئین کوسرہند کی عظمت رفتہ  کا بخوبی احساس ہوسکے

:علما وصلحاء

شیخ مجدالدین محمد,شیخ الہداد بن صالح,شیخ بہاء الدین,مولانابدرالدین صاحب حضرات القدس,مولاناعلی شیرسرہندی مقدمہ نویس غیرمنقوط عربی تفسیر سواطع الالہام,شیخ عبدالاحد ,سیدیاسین,مولاناعثمان ,شیخ نورالدین ترخان,شیخ عبدالرحمان صوفی,شیخ سلطان رخنہ ہروی,شیخ عبدالصمد حسینی,مولاناقطب الدین سرہندی مولاعبدالمالک, مولانا مظفر,ملاابوالخیر,شیخ علی رضا سرہندی,شیخ نعمۃ اللہ وغیرہ.

:مشاہیر خاندان مجددیہ

شیخ احمد سرہندی

خواجہ محمد سعید بن شیخ مجدد الف ثانی, متعدد عربی فارسی کتابوں کے مصنف

خواجہ محمد معصوم ولد شیخ مجدد الف ثانی صاحب مکتوبات معصومی.

شیخ سیف الدین 

شیخ بدرالدین ابراہیم

شیخ صبغۃ اللہ

شیخ محمد نقشبند

خواجہ محمد عبید اللہ

خواجہ محمد اشرف

شیخ محمد صدیق

شیخ محمد ہادی

شیخ یوسف

شیخ ابوالفیض کمال الدین محمد احسان

شیخ زین العابدین

مولانافرخ شاہ سرہندی

شیخ محمد راشد

شیخ محمد عیسی سرہندی

:فہرست مؤرخین

یحی بن احمد بن عبداللہ سرہندی, صاحب تاریخ مبارک شاہی

شیخ الہ داد فیضی سرہندی

شیخ ابراہیم سرہندی ,صاحب رزم نامہ

عبداللہ نیازی سرہندی

مولاناامان اللہ سرہندی

مولاناعبدالقادر سرہندی

عبدالحق سجاول سرہندی

سیف خا فقیراسرہندی

شیخ فضل اللہ سرہندی

غلام محی الدین سرہندی

شیخ قطب الدین سرہندی 

شیخ محمد عابد سرہندی 

ولی سرہندی

شیخ عبدالاحدوحدت سرہندی نبیرۂ شیخ مجدد,استادشاہ افضل (جو شاہ ولی اللہ (محدث دہلوی کے استاذ ہیں

:فہرست شعرا سرہند

ناصرعلی سرہندی

راسخ سرہندی

محمدافضل سرخوش

میرمحمدحسن ایجاد

 سعادت یارخان رنگین

مولاناصفائی سرہندی

شیری سرہندی

عیشی حصاری

فائض سرہندی

فضل اللہ خوشتر

میرعلی رضاحقیقت

مرزاغازی شہید

میرمفاخرحسین ثاقب

میاں علی عظیم

میرمعصوم وجدان

سرآمدسرہندی

میراحمدحسین مخلص

اجابت سرہندی

وسعت سرہندی

شاہجہاں بادشاہ نے سرہند میں ایک باغ تعمیر کرایا ان کی ایک ملکہ سرہندی بیگم کاتعلق سرہند سے تھا.

عہد سلطنت میں سرہند ہمیشہ شاہان دہلی کا مرکز رہا. فیروزشاہ نے اسے فیروزپور کانام دیا.

:شیخ مجددالف ثانی کے مشہور شاگردخواجہ ہاشم کشمی کہتے ہیں

کزان قندیکہ شیریں ترزجان است

کنوں درخطۂ ہندوستان است

الاسودائیاں شہریست درہند

کہ اندر پائے او بنہاد سرہند

سوادش زلف رخسارفتوح است

غبارش توتیائے چشم روح است

ازاں شہرے کہ نامش مضمرآمد

بعہدے ماعجب کانے برآمد

(روضۃ القیومیہ اردو صفحہ 27جلد اول)

1 comment: