https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 30 April 2022

رقیہ شرعیہ

رقیہ شرعیہ 1- الآيات القرآنية سورۃ الفاتحة سات مرتبہ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (1) الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (2) الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (3) مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (4) إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (5) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (6) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (7) سورۂ بقرہ کی ابتدائی پانچ آیات ایک مرتبہ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الم (1) ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (2) الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (3) وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآَخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (4) أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (5) آية الكرسي تین مرتبہ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ آخر آیات سورة البقرة.ایک بار آَمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آَمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (285) لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ آيات سورة آل عمران.ایک بار رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ * رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ آيات سورة يونس .سات مرتبہ قَالَ مُوسَى مَا جِئْتُمْ بِهِ السِّحْرُ إِنَّ اللَّهَ سَيُبْطِلُهُ ان اللہ 7 مرات ] إِنَّ اللَّهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ (81) وَيُحِقُّ اللَّهُ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ آيت سورة الرعد.... سات مرتبہ الَّذِينَ آَمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (28) آيات سورة المؤمنون أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ (115) فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ (116) وَمَنْ يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آَخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِنْدَ رَبِّهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ (117) وَقُلْ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ آيت سورة النور.ایک بار اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (35) آيات سورة الصافات...ایک بار إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ (6) وَحِفْظًا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ مَارِدٍ (7) لَا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَى وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ (8) [ دُحُورًا وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ... 7 مرات ] (9) إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ آيت سورة الزمر..تین بار قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ (38) آخری چار آيات سورة الحشر .تین بار لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآَنَ عَلَى جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (21) هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (22) هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ (23) هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ آخر ی دوآیات سورة القلم تین بار وَإِنْ يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ (51) وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ آية سورة البروج...سات بار إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ سورة الإخلاص ... 11 بار بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (1) اللَّهُ الصَّمَدُ (2) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (3) وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ (4) سورة الفلق ... تین بار بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ (1) مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ (2) وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ (3) وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ (4) وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ (5) سورة الناس ... تین بار بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ (1) مَلِكِ النَّاسِ (2) إِلَهِ النَّاسِ (3) مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ (4) الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ (5) مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ (6) 2- الأدعية النبوية تین باردرج ذیل دعاء پڑھیں: بسم الله الذي لا يضرُّ مع اسمه شيء في الأرض ولا في السماء وهو السميع العليم دعاء الشفاء:تین بار بسم الله الرحمن الرحیم تین بار أعوذ بالله وقدرته من شرّ ما أجِد وأحاذِر... 7بار درج ذیل دعاء .سات بار أسألُ الله العظيم ربَّ العرش العظيم أن يشفيَني دعاء العافية ..زیادہ سے زیادہ اللهم إني أسألك العفو والعافية في الدنيا والآخرة

Thursday 28 April 2022

امام شامل.مینارۂ حریت

امام شامل (پیدائش 1797ء۔ انتقال مارچ 1871ء) شمالی قفقاز کے مسلمانوں کے ایک عظیم رہنما تھے جن کی قیادت میں انہوں نے روسی استعمار کے خلاف جنگ قفقاز میں بے مثل شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ وہ داغستان تحریک حریت اور امامت قفقاز کے تیسرے سربراہ اور نقشبندی سلسلے کے تیسرے امام تھے (از 1834ء تا 1859ء)۔ ابتدائی زمانہ امام شامل 1797ء میں موجودہ داغستان کے ایک چھوٹے سے قصبے گھمری میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک زمیندار تھے۔ امام شامل نے بچپن میں عربی سمیت کئی مضامین میں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے نقشبندی مجددی خالدیہ سلسلہ تصوف میں شمولیت اختیار کرلی اور قفقاز کے علاقے کے مسلمانوں کی ایک تعلیم یافتہ اور ہر دلعزیز شخصیت بن گئے جب امام شامل پیدا ہوئے تو روسی سلطنت سلطنت عثمانیہ اور فارس کے علاقے پر قبضے کرکے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کر رہی تھی۔ فارس کے سلطان کی حمایت سے جنگ قفقاز میں علاقے کے کئی مسلمان قبائل نے روسی استعمار کے بغاوت کردی۔ قفقازیوں کی مزاحمت کے اولین رہنماؤں میں شیخ منصور اور غازی ملا معروف ہیں۔ امام شامل غازی ملا کے بچپن کے دوست تھے۔ 1834ء میں غازی ملا جنگ گھمری میں شہید ہو گئے طریقہ کے امام بن گئے. امام شامل قفقاز کی جہاد کے رہنما اور نقشبندی مجددی طریقہ کے شیخ تھے. روسیوں کے قبضے سے پہلے قفقاز کے علاقے کبھی ایران کی حکومت کے تحت آجاتے تھے اور کبھی ان پر عثمانی ترک قابض ہوجاتے تھے۔ شروان کا علاقہ جہاں سے اسماعیل صفوی نے اپنی حکومت کا آغاز کیا آذربائیجان کا ایک حصہ ہے۔ جب افغانوں نے اصفہان پر قبضہ کرکے صفوی سلطنت کا خاتمہ کر دیا تھا تو ایران کے ابتر حالات سے فائدہ اٹھاکر روس نے داغستان اور شمالی آذربائیجان پر اور عثمانی ترکوں نے گرجستان اور آرمینیا پر قبضہ کر لیا تھا لیکن نادر شاہ نے ان علاقوں کو جلد ہی واپس لے لیا۔ اس کے بعد روسی 1797ء میں پھر داغستان پر قابض ہو گئے اور چند سال میں دریائے اردس تک پورے آذربائیجان پر قبضہ کر لیا۔ فتح علی شاہ قاچار 1828ء میں معاہدہ ترکمانچی کے تحت ان تمام علاقوں پر سے ایران کے حق سے دستبردار ہو گیا۔ روسیوں کی اس جارحانہ پیش قدمی کے دوران جس علاقے کے باشندوں نے حملہ آوروں کا سب سے زیادہ مقابلہ کیا وہ داغستان ہے یہاں کے جری باشندوں نے بار بار بغاوت کی اور روسیوں کو اپنے وطن سے نکال باہر کیا۔ آزادی کی اس جنگ میں سب سے زیادہ شہرت اور نیک نامی امام شامل نے حاصل کی۔ داغستان کے حکمران کی حیثیت سے انہوں نے 25 سال تک بے مثل شجاعت سے روسیوں کی لاتعداد فوج کا مقابلہ کیا اور 1845ء تک داغستان کے ہرحصے سے روسیوں کو نکال دیا لیکن روسی بار بار حملہ آور ہوتے تھے اور امام شامل کے ليے ان کی کثیر تعداد اور جدید اسلحے سے لیس افواج کا تنہا مقابلہ کرنا ممکن نہیں رہا۔ انہوں نے سلطنت عثمانیہ اور برطانیہ سے مدد حاصل کرنا چاہی لیکن ناکام رہے۔ آخر کار 1859ء میں غنیب کے سخت ترین معرکے میں روسیوں کی تمام شہریوں کو قتل کردینے کی دھمکی پر انہوں نے تمام شہریوں کی جان کے بدلے خود کو روسی فوج کے حوالے کر دیا اور ہتھیار ڈال دیے۔ روسی کمانڈر نے جو زار روس کا بھائی تھا زار کو مبارکباد کا تار دیا کہ آج 100 سال سے جاری قفقاز کی جنگ ختم ہو گئی۔ اس دن کلیساؤں میں اس کامیابی پر شکرانے کی عبادت کی گئی۔ نظر بندی روسی حکومت امام شامل کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئی۔ ان کی پنشن مقرر کردی گئی اور رہنے کے ليے مکان دیا گیا۔ 1870ء تک امام شامل روس میں نظر بند رہے۔ حجاز مقدس آمد اور انتقال 1870ء میں وہ روسی حکومت کی اجازت سے حج کے ليے مکہ معظمہ گئے۔ حجاز مقدس کی جانب سفر کے دوران وہ ترکی اور مشرق وسطی کے دیگر ممالک سے گذرے جہاں کے عوام نے ان کا فقید المثال خیر مقدم کیا۔ اگلے سال 1871ء میں ان کے صاحبزادے غازی محمد روسی قید سے رہا ہوکر مکہ مکرمہ پہنچے لیکن امام شامل مدینہ منورہ انتقال کر گئے۔ انہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ شخصیت اور کارنامے امام شامل کی عظمت محض ان کی دلیرانہ جنگ کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ان کی سیاسی بصیرت، سوجھ بوجھ، انتظامی صلاحیت اور کردار کی بلندی نے عبدالقادر الجزائری اور ٹیپو سلطان کی طرح ان کی عظمت کو چار چاند لگادیے۔ ان کا زمانہ داغستان کی تاریخ میں "شریعت کا دور" کہلاتا ہے۔ امام شامل تصوف کے نقشبندی سلسلے کے سربراہ تھے۔ ان کے مرتب کردہ انتظامی اور قانونی ضابطے "نظام شامل" کہلاتے تھے۔ اس کے تحت داغستان 32 انتظامی اضلاع میں تقسیم کیا گیا تھا۔ انتظامیہ اور عدلیہ الگ الگ تھے۔ ہر ضلع کا مفتی عدالت کے محکمے کا ذمہ دار تھا اور ضلع کا حاکم اس کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا تھا۔ ہر مفتی کے تحت 4 قاضی ہوتے تھے۔ اگر کسی معاملے کو قاضی طے نہ کرسکتے تھے تو وہ مفتی کے سامنے پیش کیا جاتا تھا اور مفتی اس معاملے کو امام شامل یا مجلس شوری کے سامنے پیش کرتا تھا جس کو دیوان کا نام دیا گیا تھا۔ امام شامل نے احتساب کا محکمہ بھی قائم کیا تھا جس کے ذریعے عہدے داروں پر نگرانی رکھی جاتی تھی۔ فوجوں کی تنظیم بھی جدید طرز پر کی گئی تھی اور دار الحکومت ودینو Vedeno میں بندوقوں اور توپوں کو ڈھالنے کا کارخانہ بھی قائم کیا گیا تھا۔ ایک زمانے میں داغستان کی افواج کی تعداد 60 ہزار سوار اور پیادہ فوج تک پہنچ گئی تھی۔ فوجی تربیت کے ليے جو مراکز قائم کیے گئے تھے ان میں قید کیے جانے والے روسی افسر تربیت دیتے تھے۔ امام شامل کے ہتھیار ڈال دینے کے بعد داغستان میں 5 سال تک روسیوں کی مزاحمت جاری رہی یہآں تک کہ 21 مئی 1864ء کو داغستان کا آخری پہاڑی قلعہ بھی روسیوں کے قبضے میں آ گیا اور داغستان کی آزادی کی جنگ ختم ہو گئی۔ شیشان میں جاری آزادی کی تحریک شاید انہی کی خاک کی چنگاری ہے۔ چیچن جانبازوں کے سربراہ شامل بسایوف کا نام ان کے والدین نے امام شامل کے نام پر ہی رکھا تھا جو رواں سال 10 جولائی 2006ء کو جاں بحق ہوئے۔ علماء الاسلام کانوابدورا وسماء الصدور ترکستان ان اردت الدین الحنیف تجدہ وہوللبروالہدی عنوان وطن المسلمین دنیاودینا تتغنی بفضلہا الازمان

علماء دین کی توہین

علم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اللہ اپنی اس صفت سے اپنے پسندیدہ بندوں کو ہی نوازتے ہیں، تاکہ وہ نائبِ رسول بن کر لوگوں کو راہِ شریعت بتلائیں، کسی عالمِ دین یا حافظِ قرآن کی اہا نت درحقیقت علمِ دین کی اہانت ہے ، اور علمِ دین کی اہانت کو شریعت میں کفر قراردیا گیا ہے، اور اگر کوئی شخص کسی دنیاوی دشمنی یا بغض کی وجہ سے عالمِ دین کو برا بھلا کہتا ہےتو یہ گناہ گار ہے۔ حاصل یہ ہے کہ عالمِ دین کی اہانت سے سلبِ ایمان کا اندیشہ ہے؛ لہذا اس سے مکمل اجتناب ضروری ہے۔ لسان الحكام (ص: 415): "وفي النصاب: من أبغض عالماً بغير سبب ظاهر خيف عليه الكفر. وفي نسخة الخسرواني: رجل يجلس على مكان مرتفع ويسألون منه مسائل بطريق الاستهزاء، وهم يضربونه بالوسائد ويضحكون يكفرون جميعاً". البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 134): " ومن أبغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصداً الاستخفاف بالدين كفر، لا إن لم يقصده". مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 695): "وفي البزازية: فالاستخفاف بالعلماء؛ لكونهم علماء استخفاف بالعلم، والعلم صفة الله تعالى منحه فضلاً على خيار عباده ليدلوا خلقه على شريعته نيابةً عن رسله، فاستخفافه بهذا يعلم أنه إلى من يعود، فإن افتخر سلطان عادل بأنه ظل الله تعالى على خلقه يقول العلماء بلطف الله اتصفنا بصفته بنفس العلم، فكيف إذا اقترن به العمل الملك عليك لولا عدلك، فأين المتصف بصفته من الذين إذا عدلوا لم يعدلوا عن ظله! والاستخفاف بالأشراف والعلماء كفر. ومن قال للعالم: عويلم أو لعلوي عليوي قاصداً به الاستخفاف كفر. ومن أهان الشريعة أو المسائل التي لا بد منها كفر، ومن بغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو شتم فم عالم فقيه أو علوي يكفر وتطلق امرأته ثلاثاً إجماعاً

Tuesday 26 April 2022

حق حضانت کی تفصیل

بچوں کی حضانت ایک شرعی حق ہے جو متعلقہ افراد کو ملتا ہے اس حق میں اس ناسمجھ بچے کی بہتری پیش نظر ہوتی ہے جو خود سے اپنے آپ کو نہیں سنبھال سکتا اور نہ تربیت کرنے والے کی تربیت و پرورش کے مراحل سے گذرے بغیر عمدہ اوصاف کا حامل ہو سکتا ہے۔ اس کو اس بات کی ضرورت ہے کہ کھانے پینے، پہننے، سونے، جاگنے اور صفائی کرنے میں کوئی اس کی ہر وقت نگرانی کرے اور مناسب اوقات پر مناسب انتظامات کے لیے ہر وقت مستعدر ہے۔ دیگر حقوق کے برعکس حق حضانۃ (پرورش کے حق) میں عورتیں مردوں پر مقدم ہوتی ہیں، ان کو یہ حق مردوں کی نسبت ترجیحاً ملتا ہے، کیونکہ عورتوں میں شفقت و مہربانی کے ساتھ بچوں کی پرورش کے اس حق کو انجام دینے کاعنصر نمایاں ہوتا ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ان امرأۃ قالت: یارسول اللہ، ان ابنی ھذا کان بطنی لہ وعاء وثدیی لہ سقاء وحجری لہ حواء وان اباہ طلقنی واراد ینتزعہ منی فقال لہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’انت احق بہ مالم تنکحی‘‘۔ (ابودائود، ج ۱ ، ص ۳۱۷) ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کرنے لگی، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا یہ بیٹا، میرا شکم اس کا برتن بنا رہا، میرے سینے سے یہ سیراب ہوتا رہا اور میری گود اس کی پرورش گاہ رہی، اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی اور اب مجھ سے بیٹا بھی چھیننا چاہتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو بیٹے کی زیادہ حقدار ہے جب تک تو آگے کہیں نکاح نہیں کرتی۔ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور دادا حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے طریق سے روایت کرتے ہیں: إِنَّ امْرَأَۃً قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ ابْنِي هٰذَا کَانَ بَطْنِي لَهٗ وِعَاءً، وَثَدْیِي لَهٗ سِقَاءً، وَحِجْرِي لَهٗ حِوَاءً، وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي وَأَرَادَ أَنْ یَنْتَزِعَهٗ مِنِّي. فَقَالَ لَهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَنْتِ أَحَقُّ بِہٖ مَا لَمْ تَنْکِحِي. 1۔ احمد بن حنبل، المسند، 2: 246، رقم: 6716 2۔ ابو داؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب من أحق بالولد، 2: 263، رقم: 2276 3۔ حاکم، المستدرک، 2: 225، رقم: 2830 4۔ عبد الرزاق، المصنف، 7: 153، رقم: 12596 حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ام عاصم کو طلاق دے دی، اُم عاصم کی گود میں بچہ تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور عاصم بچے کو لینا چاہا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ادرام عاصم دونوں نے اس بچہ کو اپنی جانب کھینچا، وہ بچہ رونے لگا، یہ دونوں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس (فیصلہ کے لیے) چلے گئے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عمر! اس کی ماں کا ہاتھ پھیرنا، گود اور خوشبو بھی بچے کے لیے تیرے سے بہتر ہے۔ یہاں تک کہ بچہ بڑا ہو جائے اور اپنے لیے کچھ اختیار کر سکے۔ (ابن شیبہ بحوالہ زیلعی ج ۲، ص ۵۲) مندرجہ بالا روایات سے یہ واضح ہے کہ حق حضانت میں عورتیں مردوں پر مقدم ہوتی ہیں، البتہ حق ولایت (ولی اور سرپرست ہونے کا حق) مردوں کو حاصل ہوتا ہے جس کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔ جب بچہ کے والدین رشتہ زوجیت سے منسلک ہوں تو بچہ دونوں کی تربیت میں پرورش پاتا ہے، لیکن اگر خلع, طلاق وفات یافسخ وغیرہ کی وجہ سے دونوں کے درمیان تفریق ہو جائے تو بالاتفاق ماں کو حق حضانت حاصل ہوتا ہے اگر ماں موجود نہ ہو تو مندرجہ ذیل ترتیب کے مطابق یہ حق منتقل ہو جاتا ہے۔ ماں کے بعد نانی، اس کے بعد دادی، پھر حقیقی بہن، اس کے بعد ماں شریک بہن، پھر باپ شریک بہن، اس کے بعد حقیقی بہن کی بیٹی، اس کے بعد ماں شریک بہن کی بیٹی اس کے بعد حقیقی خالہ، اس کے بعد ماں کے اعتبار سے خالہ، اس کے بعد باپ کے اعتبار سے خالہ اس کے بعد باپ شریک بہن کی بیٹی، اس کے بعد حقیقی بھائی کی بیٹی پھر ماں شریک بھائی کی بیٹی، اس کے بعد باپ شریک بھائی کی بیٹی، اس کے بعد حقیقی پھوپھی، پھر ماں کے اعتبار سے پھوپھی، پھر باپ کے اعتبار سے پھوپھی، پھر ماں کی خالہ، اس کے بعد باپ کی خالہ اس کے بعد ماں اور باپ کی پھوپھیاں، اس کے بعد وراثت کی ترتیب کے مطابق عصبات کو حق حضانت حاصل ہوگا، چنانچہ سب سے پہلے باپ کو یہ حق حاصل ہوگا۔ اس کے بعد دادا کو، پھر حقیقی بھائی کو یہ حق ملے گا آخر تک عصبات کی ترتیب کے مطابق، اور عصبات کے نہ ہونے کی صورت میں یہ حق ذوی الارحام کی طرف منتقل ہو جائے گا، جس کی تفصیل فقہ کی کتب میں موجود ہے۔ (ملخص: ردالمحتار مع الدرالمختار ۲/۶۹۲۔ ۲۹۴) امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کے نزدیک بھی حق حضانت میں سب سے مقدم ماں ہے، ماں کے بعد حضانت کے استحقاق میں ان کے نزدیک صورتیں قدرے مختلف ہیں جس کی تفصیل ان کی کتب فقہ میں موجود ہے۔ استحقاق حضانت کی درج ذیل شرائط ہیں: (۱) پرورش کرنے والے کا بالغ اور عقلمند ہونا ضروری ہے اگر وہ بالغ یا عقلمند نہیں تو وہ خود پرورش اور دیکھ بھال کا محتاج ہے وہ دوسرے کی پرورش کس طرح کرے گا؟ (۲) اگر پرورش کرنے والی عورت کافرہ ,فاسقہ فاجرہ ہے تو اس کو حق حضانت اس وقت تک حاصل رہے گا جب تک بچہ دین کی سمجھ نہ رکھتا ہو، اور جب یہ اندیشہ ہو کہ بچہ کافرانہ طریقوں سے مانوس ہونے لگا ہے تو پھر اس بچہ کو کافرہ کی پرورش سے نکال کر کسی مسلمان کی پرورش میں دے دیا جائے گا۔ (۳) اگر پرورش کرنے والا ایسا فاسق فاجر ہو کہ اس کے فسق کا ضرر بچہ پر پڑنے اور بچہ کی تربیت خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کا حق حضانت ساقط ہو جائے گا۔ (۴) پرورش کرنے والا بچہ کی دیکھ بھال کی استطاعت رکھتا ہو۔ بوڑھا، بیمار، نابینا او رکام کاج کے لیے زیادہ اوقات گھر سے باہر گذارنے والا شخص، بچہ کی دیکھ بھال بہتر طریقہ سے نہیں کر سکتا، جس کی وجہ سے بچہ کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو گا لہٰذا ایسے بے استطاعت لوگوں کا حق حضانت بھی ساقط ہو جائے گا۔ (۵) پرورش کرنے والی عورت کا استحقاق اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب وہ اجنبی مرد سے شادی کر لے، ہاں اگر وہ بچہ کے قریبی رشتہ دار سے شادی کرتی ہے تو اس کا حق حضانت ختم نہیں ہوتا۔ (ملخص: ردالمحتار ج ۲ ، ص ۶۸۸، ۶۹۴، و بدائع الصنائع ج ۴، ص ۴۳، ۴۴) بچوں کی حضانت (پرورش) کا آغاز ولادت کے بعد ہو جاتا ہے، جیسے ہی بچہ پیدا ہو اس کی حضانت سابق میں ذکر کردہ ترتیب کے مطابق شروع ہو جائے گی، اگر زوجین کے درمیان رشتۂ زوجیت موجود نہ ہو تو بچے کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہو گا اور یہ حق کب تک حاصل رہے گا اور کب اس کا اختتام ہوگا؟ اس بارے میں حضرات آئمہ کی آراء حسب ذیل ہیں : (۱) فقہ حنفی کے مطابق لڑکا ماں کی پرورش میں رہے گا یہاں تک کہ وہ پرورش سے مستغنی ہو جائے، خود کھا پی سکے، کپڑے وغیرہ پہن سکے اور استنجا وغیرہ کر سکے اور بچہ تقریباً سات سال کی عمر میں یہ باتیں سیکھ جاتا ہے، اس لیے سات سال کی عمر تک بچہ ماں کی پرورش میں رہے گا اور ایک قول کے مطابق بچہ نو سال تک ماں کی پرورش میں رہے گا۔ اگر پرورش کرنے والی ماں، نانی یا دادی ہو تو بچی بالغ ہونے تک ان کی پرورش میں رہے گی اور ان کے علاوہ کوئی اور پرورش کرنے والا ہو تو بچی نو سال تک ان کی پرورش میں رہے گی۔ امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بچی خواہ ماں وغیرہ کی پرورش میں ہو یا کسی اور کی پرورش میں بہرحال جب وہ نو سال کی ہو جائے تو اس کی حضانت ختم ہو جائے گی۔ جب ماں، نانی اور دادی وغیرہ کی حضانت کا حق ختم ہو جائے تو بچہ یا بچی باپ دادا وغیرہ کو دے دئیے جائیں گے تاکہ وہ ان کی تعلیم و تربیت اور شادی وغیرہ کا بندوبست کریں۔ بچہ یا بچی کو اس بات کا اختیار نہیں دیا جائے گا کہ وہ ماں اور باپ میں سے جس کے پاس رہنا پسند کریں اس کے پاس رہیں کیونکہ ان بچوں کو وہ بالغ نظری حاصل نہیں کہ وہ دینی اور دنیاوی بھلائیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی ایک طرف کا بہتر انتخاب کر سکیں بلکہ یہ تو ابھی کھیل کود کو پسند کرتے ہیں اور جس کی طرف ان کو کھیل تماشا زیادہ ملے گا وہ ادھر جائیں گے اور جس طرف تعلیم و تعلم اور سیرت و اخلاق کی تعمیر کی بات ہوگی وہ اس طرف سے بھاگیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: جب تمہارے بچے سات سال کے ہو جائیں تو ا نہیں نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر ان کو (مناسب انداز سے) مارو اور ان کے بستر الگ الگ کر دو۔ (الحدیث) ظاہر ہے کہ بچوں کو مذکورہ بالا آداب سکھانے کا حکم سرپرستوں کو دیا جارہا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت اس نہج پر کریں کہ وہ خدا کے فرمانبردار بن جائیں اور اس کے احکام کی تعمیل کریں، ہاں اگر بچہ کا کوئی مرد سرپرست نہ ہو تو پھر یہ حکم ماں، نانی وغیرہ کے لیے ہوگا اور ان کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ بچہ کی عمدہ تربیت کریں۔ تجربہ اور مشاہدہ اس بات پر شاہد ہے کہ جو بچے ماں کی گود سے ہمیشہ کے لیے چمٹے رہیں وہ مردوں کی نسبت عورتوں کے مزاج سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور مردانہ طریقوں پر ان کو کچھ زیادہ عبور نہیں ہوتا وہ صنف نازک کی لطافت سے متاثر ہو کر مردانہ وقار سے محروم رہتے ہیں ہاں ماں کی گود بیٹی کی پرورش کے لیے زیادہ مفید ہے اس لیے وہ بالغ ہونے تک ماں کی پرورش میں رہے گی۔ حدیث میں ہے کہ جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کی پرورش کے بارے میں حضرت علی، حضرت جعفر اور زید رضی اللہ عنہم نے اختلاف کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچی کو اختیار دئیے بغیر حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی پرورش میں دے دیا کیونکہ وہاں ان کی خالہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر میں موجود تھیں اور خالہ کو اس بچی کی پرورش کا حق حاصل تھا۔ ( اعلاء السنن، ج ۱۱، ص ۲۶۹۔ ۶۷۱) جب بچہ بالغ ہو جائے اور عقلمند اور سمجھدار بھی ہو تو اس کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ جس کے ساتھ رہنا چاہے رہ سکتا ہے اب وہ اپنے نفع اور نقصان کا خود ذمہ دار ہے، لیکن اگر سرپرست یہ دیکھے کہ اس کو بااختیار کر کے چھوڑ دینے سے اس کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا تو اس کو اپنے ساتھ بھی رکھ سکتا ہے۔ اور لڑکی بالغ ہونے کے بعد والد یا دادا کے پاس رہے گی، ہاں جب وہ ایسی عمر میں پہنچ جائے کہ اب اس کے بارے میں کسی قسم کا خوف و اندیشہ نہ ہو تو اس کو بھی اختیار ہوگا کہ وہ جس کے پاس رہنا چاہے رہ سکتی ہے۔ (ردالمحتار ج ۲، ص ۶۹۶) (۲) امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورتوں کے پاس بچہ کی پرورش کا حق بالغ ہونے تک رہتا ہے اور بالغ ہونے کے بعد ختم ہو جاتا ہے بچی کی پرورش کا حق اس کی شادی اور رخصتی تک عورتوں کے پاس ہی رہتا ہے۔ (دسوقی علی شرح الدردیر، ج ۲، ص ۶۳۲۔ ۵۳۳) امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں بچہ یا بچی دونوں کی پرورش کا حق ماں کو حاصل رہے گا اور جب بچہ یا بچی سن تمیز کو پہنچ جائیں یعنی سات یا آٹھ سال کے ہو جائیں تو ان کو والد یا والدہ کے پاس رہنے میں اختیار دیا جائے گا وہ جس کو اختیار کر لیں گے تو اسی کو تربیت میں دے دئیے جائیں گے، اگر وہ کسی کو بھی اختیار نہ کریں تو وہ والدہ کی پرورش میں دے دئیے جائیں گے، کیونکہ ماں زیادہ شفیق اور مہربان ہے او ربچہ پہلے سے اس کی تربیت میں پرورش پاتا چلا آرہا ہے اور اگر بچہ دونوں کو اختیار کر لے تو پھر قرعہ اندازی کے ذریعے فیصلہ کیا جائے گا اور قرعہ اندازی میں جس کا نام نکل آئے بچہ کو اس کی تربیت میں دے دیا جائے گا اور بلوغت کے بعد وہ بااختیار ہے وہ دونوں میں سے جس کے پاس رہنا چاہے وہ رہ سکتا ہے تاہم بہتر یہ ہے کہ ساتھ ہی رہے تاکہ اسے احسان اور نیکی کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ (مغنی المحتاج ج ۳، ص ۵۳۶۔ ۳۵۹) امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں لڑکا سات سال کی عمر تک ماں کی پرورش میں رہے گا اس کے بعد اگر والدین اتفاق رائے سے کسی ایک کے پاس بچہ کے رہنے پر رضا مند ہوں تو وہ اس کو اپنی پرورش میں رکھ سکتا ہے اور اگر دونوں میں سے ہر ایک اس کو اپنے پاس رکھنے پر مصر ہو تو بچہ کو اختیار دیا جائے گا وہ جس کو اختیار کر لے اس کے پاس رہے گا، اگر بچہ سوئِ اختیار کی وجہ سے اس کو اختیار کرنے لگے جہاں اس کی تعلیم و تربیت اور سیرت و اخلاق کا واضح نقصان نظر آتا ہو تو بچہ کو اختیار نہیں دیا جائے گا بلکہ اس کی مصلحت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس شخص کے حوالے کیا جائے گا جو اس کو بہتر پرورش کے ساتھ عمدہ تعلیم و تربیت کا انتظام کر سکے۔ (المغنی ج ۷، ص ۶۱۴، ۶۱۶) مندرجہ بالا سطور میںآپ نے ملاحظہ کیا کہ امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ بچہ کو اختیار دینے کے قائل نہیں امام شافعیؒ اور امام احمدؒ اس کے قائل ہیں۔ امام شافعی اور امام احمد مندرجہ ذیل احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ (۱) حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو والد یا والدہ میں سے جس کے پاس چاہے رہنے کا اختیار دیا۔ (زاد المعاد ج ۴، ص ۱۴۹ بحوالہ ترمذی) (۲) حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا شوہر مجھ سے میرا بیٹا چھیننا چاہتا ہے حالانکہ وہ (میرا بیٹا) مجھے ابو عتبہ کے کنویں سے پانی پلاتا ہے اور مجھے فائدہ دیتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم دونوں قرعہ اندازی کر لو، شوہر نے کہا، میرے بیٹے کا میرے سے زیادہ کون حق رکھتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹے سے فرمایا یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری ماں ہے ، تم جس کا چاہو ہاتھ پکڑ لو، بیٹے نے ماں کاہاتھ پکڑ لیا اور وہ اسے اپنے ساتھ لے گئی۔ (زاد المعادج، ج ۴، ص ۱۴۹ بحوالہ ترمذی) (۳) عبدالحمید بن جعفر انصاریؒ فرماتے ہیں کہ ان کے دادا اسلام لے آئے مگر دادی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کے دادا اپنے چھوٹے بیٹے کو لے کر جو ابھی بالغ نہیں ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کو ایک طرف بٹھا دیا اور ماں کو دوسری طرف بٹھا دیا پھر بچے سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے، تم اختیار کرو اور ساتھ دُعا فرمائی۔ اللھم اھدہ۔ اے اللہ! اس بچے کی راہنمائی فرما وہ بچہ باپ کے پاس چلا گیا۔ (زادالمعادج، ج ۴، ص ۱۴۹، بحوالہ نسائی) مندرجہ بالا احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچہ کو اختیار دینا منقول ہے۔ لیکن تفصیلی روایات میں یہ مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ کو اختیار دینے سے قبل والدین کو لڑائی جھگڑا ختم کرنے کی ترغیب دی اور جانبین کی رضا مندی سے بچہ کو اختیار دیا، اگر اختلاف کو اس مصالحت کے طریقہ سے رفع کرنا ممکن ہو تو یہ سب سے بہتر طرزِ عمل ہوگا۔ چنانچہ امام طحاوی رحمہ اللہ مشکل الآثار میں ذکر کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دینے سے قبل اس کے والدین کو اس بات پر رضا مند کیا کہ وہ بچہ کو خود فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیں۔ (مشکل الآثار ج ۴، ص ۱۸۰، بحوالہ اعلاء السنن ج ۱۱، ص ۲۷۱) اور حدیث (۳) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعا فرمانے کی وجہ سے اللہ رب العزت نے بچہ میں اپنے لیے بہتر انتخاب کی ہدایت عطا فرما دی اور بچہ نے باپ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ بہرحال بچہ یا بچی کو اختیار دینا کوئی ایسی بات نہیں جو شریعت کے ضابطہ کے طور پر منقول ہو اور جس کے خلاف کبھی نہ کیا جا سکتا ہو اگر یہ بات ضابطہ کے طور پر منقول ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کو اختیار دئیے بغیر حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے حوالے نہ کرتے۔ خلاصہ یہ کہ بچی یا بچہ سمجھدار ہونے سے قبل ماں کی پرورش میں رہیں گے، اور سمجھدار ہونے کے بعد کس کے پاس رہیں گے؟ اس میں حضرت آئمہ کرام کے مختلف اقوال ہیں جن کی تفصیل سابقہ سطور میں آپ پڑھ چکے ہیں، جس سے یہ بات بخوبی واضح ہے کہ مندرجہ بالا مسئلہ ایک مجتہد فیہ مسئلہ ہے جس میں فقہائے متبوعین کی مختلف آراء موجود ہیں۔ ایسے اجتہادی مسائل میں کسی ایک جانب کو قطعی اور فیصلہ کن قرار دیتے ہوئے باقی آراء کو غلط قرار دینا مناسب نہیں۔ نزاع کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے جانبین کو ترغیب دی جائے کہ وہ بچے کے بہتر مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر اپنی آراء کو چھوڑ کر ایثار کا اظہار کریں تو یہ باہمی منازعت کو ختم کرنے کے لیے ایک عمل خیر ہوگا اور اگر دونوں اس بات پر رضا مند ہو جاتے ہیں کہ بچہ کو ہی اختیار دے دیا جائے کہ وہ کس کا ہاتھ تھامتا ہے تو یہ بھی کوئی غلط فیصلہ نہیں ( اعلاء السنن ج ۱۱، ص ۲۷۱) لیکن اگر فریقین کسی صورت بھی اپنی آراء سے پیچھے نہ ہٹیں اور نہ ہی بچہ کو اختیار دینے پر رضا مند ہوں تو پھر بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر بیٹا سات سال کی عمر تک والدہ کی پرورش میں رہنے دیا جائے گا اور والدہ اپنے والدین کے گھر میں لے جا کر بھی بچے کی پرورش کر سکتی ہے اور سات سال کے بعد بیٹا سرپرست کی تربیت میں دے دیا جائے گا اور بیٹی بالغ ہونے تک یانوسال کی عمرتک والدہ کی پرورش میں رہے گی اور بلوغت کے بعد شادی وغیرہ کے انتظامات کے لیے سرپرستوں کی ذمہ داری میں دے دی جائے گی۔"