https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 25 December 2021

گھر میں داخل ہونے کی دعاء

 اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَ الْمَوْلِجِ، وَخَيْرَ الْمَخْرَجِ، بِسْمِ اللَّهِ وَلَجْنَا، وَبِسْمِ اللَّهِ خَرَجْنَا، وَعَلَى اللَّهِ رَبِّنَا تَوَكَّلْنَا


ترجمہ:
اے اللہ ! میں آپ سے داخل ہونے کی بھلائی اور نکلنے کی بھلائی مانگتا ہوں، اللہ ہی کے نام سے ہم داخل ہوئے اور اللہ ہی کے نام سے ہم نکلے اور اللہ ہی پر جو ہمارا پروردگار ہے، ہم نے بھروسہ کیا۔

(سنن لابی داؤد، باب ما يقول الرجل إذا دخل بيته، رقم الحدیث5096)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لما جاء فی السنن لابی داؤد:

حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْفٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عَوْفٍ وَرَأَيْتُ فِي أَصْلِ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ضَمْضَمٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُرَيْحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِذَا وَلَجَ الرَّجُلُ بَيْتَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَقُلْ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَ الْمَوْلَجِ وَخَيْرَ الْمَخْرَجِ، ‏‏‏‏‏‏بِسْمِ اللَّهِ وَلَجْنَا وَبِسْمِ اللَّهِ خَرَجْنَا وَعَلَى اللَّهِ رَبِّنَا تَوَكَّلْنَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لِيُسَلِّمْ عَلَى أَهْلِهِ .

(سنن لابی داؤد، باب ما يقول الرجل إذا دخل بيته، رقم الحدیث5096، المکتبۃ العصریۃ)

Friday 24 December 2021

اولادکاوالدین کوان کی خیرخواہی میں ٹوکنااورغصہ کرنا

  شریعتِ مطہرہ نے جہاںوالدین سے حسنِ سلوک کو فرائض میں شمار کیا ہے، وہیں حسنِ سلوک کا طریقہ بھی بتا دیا  اور وہ  یہ ہے کہ والدین کے ساتھ  نرمی سے پیش آئیں ایسا رویہ اختیار نہ کریں جس سے ان کو ایذا  ہو،  چنانچہ قرآن پاک میں ہے :

{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا }  [الإسراء: 23]

ترجمہ :  اور  تیرے رب نے حکم کر دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا۔

  قرآنِ  پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد کو سب سے بڑے گناہ  یعنی شرک سے توبہ کرنے کی دعوت کو نقل کیا گیا ہے   جس میں انہوں نے والد کے ادب کو بھی ملحوظ رکھا :

{إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئًا} [مريم: 42]

ترجمہ : بابا شیطان کی عبادت نہ  کیجیے کہ شیطان رحمان کی نافرمانی کرنے والا ہے۔

نیز قرآنِ پاک میں حکم ہے کہ اگر والدین اولاد کو شرک پر مجبور کریں تو  اولاد ان کی اطاعت تو ہرگز نہ کرے، لیکن اس کے ساتھ ہی حکم دیا کہ دنیا میں ان کے ساتھ گزران اچھا رکھے، اور حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ فرعون سے نرمی سے بات کریں، شاید کہ وہ نصیحت حاصل کرے یا اللہ کا لحاظ کرلے۔

بہرحال  والدین کے فائدے کے لیے بھی انہیں کچھ   کہتے وقت ان کے مقام کا لحاظ  رکھا جائے، ادب  کے دائرے میں ہی صحیح بات کی طرف متوجہ کیا جائے، اگر ادب کے دائرے سے نکل کر ان سے گفتگو  کی گئی اور  اس بے ادبی پر انہیں تکلیف ہوئی تو اس صورت میں اس تکلیف اور حق تلفی پر ان سے معافی مانگنا لازم ہے، البتہ اگر ان سے ایسا تعلق ہو کہ وہ اس بے ادبی کو برا نہ محسوس کریں،  بلکہ اولاد کا خیر خواہانہ  جذبہ ان کے سامنے ہو اور تکلیف محسوس نہ کریں تو اس بے ادبی  پر ان سے معافی مانگنا ضروری نہیں، اللہ تعالی سے معافی مانگنا کافی  ہے۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (8 / 64):

"و قدم في الحديث بر الوالدين على الجهاد؛ لأن برهما فرض عين يتعين عليه القيام به، و لاينوب عنه فيه غيره."

تفسير ابن كثير ت سلامة (5 / 64):

"و لما نهاه عن القول القبيح و الفعل القبيح، أمره بالقول الحسن والفعل الحسن فقال:{وقل لهما قولًا كريمًا} أي: لينًا طيبًا حسنًا بتأدب وتوقير وتعظيم."

تفسير ابن كثير ت سلامة (5 / 67):

{ربكم أعلم بما في نفوسكم إن تكونوا صالحين فإنه كان للأوابين غفورا}

قال سعيد بن جبير: هو الرجل تكون (9) منه البادرة إلى أبويه، وفي نيته وقلبه أنه لا يؤخذ به -وفي رواية: لا يريد إلا الخير بذلك -فقال:{ربكم أعلم بما في نفوسكم}

وقوله [تعالى] (10) : {فإنه كان للأوابين غفورا}

تفسير الجلالين (1 / 368):

{ربكم أعلم بما في نفوسكم}من إضمار البر والعقوق {إن تكونوا صالحين} طائعين لله{فإنه كان للأوابين}الرجاعين إلى طاعته{غفورا} لما صدر منهم في حق الوالدين من بادرة وهم لايضمرون عقوقًا."

اگروالدہ نمازنہ پڑھے تو اولاد کو کیاکرناچاہئے.

 شریعتِ  مطہرہ نے والدہ سے حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے، اگر کوئی شخص والدہ سے بدسلوکی، بدتمیزی سے پیش آتا ہے تو مختلف احادیث میں ایسے شخص کے  لیے سخت وعیدوں کا ذکر ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

 "عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان".

(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، رقم الحديث:4943، ج:3، ص:1382، ط:المكتب الاسلامى)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔  ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔ 

حدیث شریف میں ہے:

 " عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا حَقُّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى وَلَدِهِمَا؟ قَالَ: «هُمَا جَنَّتُكَ وَنَارُكَ»".

(مشکوٰۃ المصابيح، باب البر والصلة، رقم الحديث:4941، ج:3، ص:1382، ط:المكتب الاسلامى)

         ترجمہ:  حضرت ابو  امامہ رضی  اللہ  تعالی عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا ،  اے  اللہ کے رسول! والدین کا اولاد کے ذمہ کیا حق ہے؟ فرمایا : وہ تیری جنت یا دوزخ ہیں ، (یعنی ان کی خدمت کروگے تو  جنت میں جاؤ گے ،  ان نافرمانی کروگے  تو دوزخ میں جاؤگے) ۔

حدیث شریف میں ہے:

"وَعَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كلُّ الذنوبِ يغفرُ اللَّهُ مِنْهَا مَا شاءَ إِلَّا عُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ فَإِنَّهُ يُعَجَّلُ لِصَاحِبِهِ فِي الحياةِ قبلَ المماتِ»".

(مشکاۃ المصابیح، باب البر والصلۃ، رقم الحديث:4945، ج:3، ص:1383، ط:المكتب الاسلامى)

         ترجمہ: رسول کریمﷺ نے فرمایا : شرک کے علاوہ تمام گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے جس قدر چاہتا ہے بخش دیتا ہے، مگر والدین کی نافرمانی کے گناہ کو نہیں بخشتا، بلکہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کو موت سے پہلے اس کی زندگی میں  جلد ہی سزا  دے دیتا ہے۔

  والدہ کے نماز پڑھنے پر قدرت ہونے کے باوجود نماز نہ پڑھنا واقعتًا ایک بڑا گناہ ہے، تاہم والدہ کو حکمت ومصلحت سے نرمی اور محبت کے ساتھ  (بدتمیزی، بے ادبی اور ناروا سلوک کیے بغیر)سمجھانا چاہیے، ان کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے مسلسل ان کی ہدایت کی دعا بھی کرنی چاہیے،  

Thursday 23 December 2021

بچے کی پرورش کا حق

 طلاق  کے لیے بچہ دینے کی شرط لگانا کہ بچہ دوگی تبھی طلاق دوں گا ورنہ نہیں ,جائز نہیں،  بلکہ طلاق سے پہلے اور  بعد میں  چھوٹے بچے  کی حضانت (پرورش)  کا حق  ماں کو  حاصل ہے، ہاں سات سال کے بعد بچے کی تربیت کی عمر ہے، اور بچے کی تربیت والد کے ذمے ہے،لہذا بچے  کی عمر سات سال  ہونے کے بعد  والد اسے لے سکتا ہے۔

"و أما بیان من له الحضانة فالحضانة تکون للنساء في وقت و تکون للرجال في وقت، و الأصل فیها النساء لأنهن أشفق و أرفق و أهدی إلی تربیة الصغار، ثم تصرف إلی الرجال لأنهم علی الحمایة و الصیانة و إقامة مصالح الصغار أقدر."

(بدائع الصنائع ۳: ۴۵۶)

"أحق الناس بحضانة الصغیر حال قیام النکاح، أو بعد الفرقة الأم … وإن لم یکن أم تستحق الحضانة بأن کانت غیر أهل للحضانة، أو متزوجة بغیر محرم أو ماتت، فأم الأم أولیٰ. فإن لم یکن للأم أم، فأم الأب أولیٰ ممن سواہا، وإن علت."

(فتاوی عالمگیری ۱: ۵۴۱)

اولاد کے ذمہ والدکانفقہ کب لازم ہے

 اگر والدکی آمدنی کا کوئی ذریعہ موجود ہویا اس کے پاس جمع پونجی ہو،تو والد پر اسی میں سے اپنے نان ونفقہ کا انتظام کرنا لازم ہوگااور اگر والد کی آمدنی کا کوئی ذریعہ موجود نہ ہو اور کوئی جمع پونجی بھی نہ ہو،تو اس کی صاحب ِ حیثیت اولادپر اس کے نان ونفقہ کا انتظام کرنا برابر سرابر لازم ہے۔

الدرالمختار مع رد المحتار میں ہے:

"(و) تجب (على موسر) ولو صغيرا (يسار الفطرة) على الأرجح...(النفقة لأصوله)۔۔۔(الفقراء) ولو قادرين على الكسب"

"(قوله ولو قادرين على الكسب) جزم به في الهداية، فالمعتبر في إيجاب نفقة الوالدين مجرد الفقر"

(کتاب الطلاق،باب النفقة،ج:3،ص621،ط:سعید)

رد المحتار میں ہے:

"القسم الأول: الفروع فقط: والمعتبر فيهم القرب والجزئية: أي القرب بعد الجزئية دون الميراث كما علمت، ففي ولدين لمسلم فقير ولو أحدهما نصرانيا أو أنثى تجب نفقته عليهما سوية ذخيرة للتساوي في القرب والجزئية وإن اختلفا في الإرث"

(کتاب الطلاق،باب النفقة،ج:3،ص624،ط:سعید)

بیٹے کاوالدہ کے پاؤں دبانا

 بیٹا اپنی والدہ کے پاؤں دبا سکتا ہے بلکہ اولاد کو اپنی والدہ اور والد دونوں کی خدمت کرنی چاہیئے, یہ والدین کا حق ہے  ,أحادیث میں اس کی بہت فضیلت آئی ہے,حدیث میں ہے کہ جس نے اپنی والدہ کا پاؤں چوما گویا اس نے جنت کی چوکھٹ(یعنی دروازہ) کو بوسہ دیا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 367)
(وما حل نظره) مما مر من ذكر أو أنثى (حل لمسه) إذا أمن الشهوة على نفسه وعليها «لأنه عليه الصلاة والسلام كان يقبل رأس فاطمة» وقال - عليه الصلاة والسلام -: «من قبل رجل أمه فكأنما قبل عتبة الجنة» وإن لم يأمن ذلك أو شك، فلايحل له النظر والمس كشف الحقائق لابن سلطان والمجتبى (إلا من أجنبية) فلا يحل مس وجهها وكفها وإن أمن الشهوة؛ لأنه أغلظ ولذا تثبت به حرمة المصاهرة وهذا في الشابة
۔

طلاق کے بعد بچوں کووالدین سے ملنے کاپوراحق ہے.

 شوہر کو طلاق کے بعد بچوں کو ماں سے  ملنے سے روکنے کا حق حاصل نہیں ہے،ناہی ماں کویہ حق حاصل ہے کہ وہ ان کواپنے والدسے ملنے سے روکے.  بلکہ بچے اگر بالغ ہوں تو ان پر خود لازم ہے کہ والدہ سے ملیں اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک کریں، اور اگر چھوٹے ہوں تو ماں کو ان سے  ملنے کا حق ہے اور شوہر کا انہیں روکنا ناجائز ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 543):

"الولد متى كان عند أحد الأبوين لايمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده، كذا في التتارخانية ناقلًا عن الحاوي."

Wednesday 22 December 2021

کسی عورت کو محرم بنانے کے لئے اس کی نابالغ بچی سے غیرجنسی عارضی نکاح کرناکیسا ہے ؟

 بالغ یا نابالغ لڑکی سے نکاح ہوتے ہی اس کی ماں سے حرمتِ  مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، یعنی نکاح کرنے والے پر منکوحہ کی ماں ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے، بالفاظِ  دیگر منکوحہ کی  ماں سے حرمتِ  مصاہرت کے ثبوت کے  لیے منکوحہ  سے جنسی تعلق قائم کرنا شرط نہیں، لہذا صورتِ  مسئولہ میں نابالغ بچی سے نکاح ہوتے ہی اور جنسی تعلق  قائم کرنے سے پہلے ہی اس کی ماں نکاح کرنے والے پر ہمیشہ کے لئے حرام ہوجائے گی۔

چونکہ اس عمل کا مقصد نکاح کے مقاصد کا حصول نہیں، بلکہ محض اپنی ضرورت پوری کرنا ہے جواصلاََ نکاح کے شرعی مقاصدکے خلاف ہے، علامہ سرخسی رحمہ اللہ نکاح کے چند مقاصد کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:اس عقد کے ساتھ بے شمار دینی اور دنیوی مصلحتیں متعلق ہوتی ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں : عورتوں کی حفاظت ونگرانی، ان کا نان ونفقہ،زنا سے بچنا،اللہ تعالی کے بندوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی کثرت،(بروزِ قیامت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے فخر کا متحقق ہونا،جیساکہ فرمانِِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ: "نکاح کرو اور نسل بڑھاؤ،تمہاری کثرت ہوگی ، سو میں قیامت کے دن تمہاے سبب فخر کروں گا" نکاح کی مشروعیت کا سبب اللہ تعالی کے مقرر کیے ہوئے وقت تک اس عالم کا بقا ہے اور یہ بقا توالد و  تناسل کے ذریعے ہی ممکن ہوگا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں صرف بچی کی ماں کو محرم بنانے کے لیے نکاح کرنے سے  شریعتِ مطہرہ کی جانب سے میاں بیوی کےلیے وضع کردہ کئی اَحکام  کی خلاف ورزی اور بہت سے اَحکام کا استحصال ہوگا، چنانچہ اس عارضی  نکاح کے نتیجہ میں بیوی نان نفقہ سے محروم رہے گی، جب کہ نکاح کے عقد کی وجہ سے یہ ذمہ داری شوہر پر عائد ہوتی  ہے، "علامہ ابن نجیم" رحمہ اللہ نے " بدائع الصنائع " کے حوالہ سے نکاح کے اَحکام تفصیلًا ذکر کیے ہیں ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ: بدائع میں نکاح کے اَحکام علیحدہ فصل میں ذکر کیے ہیں، فرماتے ہیں کہ نکاح کے اَحکام میں سے مہر کا واجب ہونا، نفقہ اور پوشاک کا شوہر کے ذمہ لازم ہونا،حرمتِ مصاہرت کا ثابت ہونا، جانبین سے وراثت کا اجرا اور ان حقوق کی ادائیگی میں عدل کا واجب ہونا (جب کہ ایک سے زائد بیویاں ہوں) وغیرہ شامل ہیں۔لہذا اس قسم کے عارضی نکاح سے اجتناب کیا جائے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (3 / 100)

"قَوْلُهُ ( وَأُمُّ امْرَأَتِهِ ) بَيَانٌ لِمَا ثَبَتَ بِالْمُصَاهَرَةِ لِقَوْلِهِ تَعَالَى { وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ } النساء 23 أَطْلَقَهُ فَلَا فَرْقَ بين كَوْنِ امْرَأَتِهِ مَدْخُولًا بها أو لَا وهو مُجْمَعٌ عليه عِنْدَ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ وَتَوْضِيحُهُ في الْكَشَّافِ".

أحكام القرآن للجصاص (3 / 71)

"فلما كان قوله وَأُمَّهاتُ نِسائِكُمْ جملة مكتفية بنفسها يقتضى عمومها تحريم أمهات النساء مع وجود الدخول وعدمه وكان قوله تعالى وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ جملة قائمة بنفسها على ما فيها من شرط الدخول لم يجز لنا بناء إحدى الجملتين على الأخرى بل الواجب إجراء المطلق منهما على إطلاقه والمقيد على تقييده وشرطه إلا أن تقوم الدلالة على أن إحداهما مبنية عن الأخرى محمولة على شرطها وأخرى وهي أن قوله تعالى وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلا جُناحَ عَلَيْكُمْ يجرى هذا الشرط مجرى الاستثناء".

في المبسوط للسرخسي:

"ثم يتعلق بهذا العقد أنواع من المصالح الدينية والدنيوية من ذلك حفظ النساء والقيام عليهن والإنفاق، ومن ذلك صيانة النفس عن الزنا، ومن ذلك تكثير عباد الله تعالى وأمة الرسول صلى الله عليه وسلم وتحقيق مباهاة الرسول صلى الله عليه وسلم بهم كما قال: «تناكحوا تناسلوا تكثروا فإني مباه بكم الأمم يوم القيامة» وسببه تعلق البقاء المقدور به إلى وقته فإن الله تعالى حكم ببقاء العالم إلى قيام الساعة وبالتناسل يكون هذا البقاء".

(کتاب النکاح،ج:4،ص:192،ط:دار المعرفة،بیروت)

في البحر الرائق:

"وقد ذكر أحكامه في البدائع في فصل على حدة فقال: منها حل الوطء لا في الحيض والنفاس والإحرام، وفي الظهار قبل التكفير ووجوبه قضاء مرة واحدة وديانة فيما زاد عليها، وقيل يجب قضاء أيضا، ومنها حل النظر والمس من رأسها إلى قدمها إلا لمانع ومنها ملك المنفعة، وهو اختصاص الزوج بمنافع بضعها وسائر أعضائها استمتاعا، ومنها ملك الحبس والقيد، وهو صيرورتها ممنوعة عن الخروج والبروز، ومنها وجوب المهر عليه، ومنها وجوب النفقة والكسوة، ومنها حرمة المصاهرة، ومنها الإرث من الجانبين، ومنها وجوب العدل بين النساء في حقوقهن، ومنها وجوب طاعته عليها إذا دعاها إلى الفراش، ومنها ولاية تأديبها إذا لم تطعه بأن نشزت، ومنها استحباب معاشرتها بالمعروف، وعليه حمل الأمر في قوله تعالى، {وعاشروهن بالمعروف} [النساء: 19] ، وهو مستحب لها أيضا والمعاشرة بالمعروف الإحسان قولا، وفعلا وخلقا إلى آخر ما في البدائع". 

(کتاب النکاح،ج:3،ص:139،ط:دار الکتب العلمیة)