https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday, 23 April 2025

فسخ نکاح کے لیے شوھر کی رضامندی ضروری نہیں

 خلع کے علاوہ  بعض مخصوص حالات میں قاضی  شرعی کو یہ  اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ  شوہر کی اجازت کے بغیر بھی  میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے، اس لیے کہ   نکاح کے بعض حقوق ایسے ہوتے ہیں  جو  نکاح کے مصالح  اور مقاصد میں سے ہیں اور قضاءً اس کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوتی ہے ،  اگر شوہر ان کی ادائیگی نہ کرے تو بزورِ  عدالت انہیں وصول کیا جاسکتا ہے، مثلًا بیوی کا نان ونفقہ  اور حقوقِ زوجیت ادا کرنا وغیرہ،  اگر شوہر ان کی ادائیگی سے عاجز  ہو تو عورت کو طلاق دے دے ایسی صورت میں اگر  وہ  طلاق دینے سے انکار کرتا ہے یا شوہر طلاق دینے کے قابل نہیں ہے تو قاضی اس کا قائم مقام بن کر میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے، کیوں کہ اس کو ولایت حاصل ہوتی ہے،  بیوی خود تفریق نہیں کرسکتی۔

جن اسباب کی بنا پر قاضی شرعی، میاں بیوی کا نکاح فسخ کرسکتا ہے وہ درج ذیل ہیں:

1۔شوہر پاگل یا مجنون ہو۔

2۔ شوہر نان و نفقہ ادا  نہ کرتا ہو۔

3۔ شوہر نامرد ہو۔

4۔  شوہر مفقود الخبر یعنی بالکل  لاپتہ ہو۔

5۔ شوہر  غائب غیر مفقود ہو اور عورت کے لیے خرچ وغیرہ کی کفالت کا انتظام نہ ہو یا عورت کے معصیت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو۔

6۔ضربِ مبرّح یعنی شوہر بیوی کو سخت مار پیٹ کرتا ہو۔

 ان اسباب  میں سےکسی  کی موجودگی میں  اگر عورت مسلمان جج کی عدالت میں دعویٰ دائر کرکے گواہوں سے اپنے مدعی کو ثابت کردیتی ہے  اورقاضی حسبِ شرائط  نکاح فسخ کردیتا ہے تو اس کا یہ فیصلہ معتبر ہوگا اور اس میں شوہر کی اجازت ضروری نہیں  ہوگی ، اسی طرح اگر شوہر  عدالت میں حاضر نہ ہو تو عدالت شوہر کی غیر موجودگی میں بھی نکاح ختم کرانے کا اختیار رکھتی ہے، نکاح فسخ ہوجانے کے بعد عورت عدت گزار کر  دوسری جگہ شادی کرنے میں آزاد ہوگی۔ (تفصیل کے لیے الحیلۃ الناجزہ للحلیلۃ العاجزہ،(مؤلف:حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی) ؒ کا  مطالعہ کریں )

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"(قال) : والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد."

(المبسوط للسرخسي (6 / 173) باب الخلع، ط: دارالمعرفة، بیروت)

Tuesday, 22 April 2025

منگنی نکاح نہیں

 منگنی کی مجلس تھی جس میں رشتہ دینے کا وعدہ ہوا ، باقاعدہ نکاح کا یاایجاب وقبول نہیں ہو ا، اس کا حکم یہ ہےکہ یہ محض ایک وعدہ ہے نکاح نہیں ہے۔اس وعدہ پر قائم رہنا ضروری ہے بلا عذ ر اس کو توڑنا جائز نہیں،شرعا نکاح کے لئے مجلس نکاح میں باقاعدہ گواہوں کی موجودگی میں شرعی مہر کے عوض ایجا ب وقبول ضروری ہے ۔

حوالہ جات
رد المحتار (9/ 204) لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد ، وإن كان للعقد فنكاح .ا هـ .

بچپن کے وعدہ نکاح کی حیثیت

  جب  بھایی نے اپنی بہن سے جبکہ ان کی بیٹی نابالغہ تھی یہ وعدہ کیا کہ میں اپنی بیٹی کا نکاح تمہارے بیٹے سے کردوں گا ۔اس کے بعد نکاح بموجودگی گواہان نہیں ہوا تواس  شخص نے اپنی بیٹی کے نکاح سے متعلق اس کے بچپن میں  اپنی بہن سے محض وعدہ نکاح کیا تھا، باقاعدہ نکاح نہیں کیا تھا (جیسا کہ سوال میں وضاحت موجود ہے) پھر اس کا انتقال ہوگیا ۔اس  وعدہ نکاح سے نکاح نہیں ہوا بچپن میں کیا ہوا وعدہ محض وعدہ ہے، نکاح نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"هل أعطيتنيها إن المجلس للنكاح، وإن للوعد فوعد.

قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح. اهـ." 

(كتاب النكاح، جلد:3، صفحہ:11، طبع: سعيد)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"خطبہ اور منگنی وعدۂ نکاح ہے، اس سے نکاح منعقد نہیں ہوتا، اگرچہ مجلس خطبہ کی رسوم پوری  ہوگئی ہوں، البتہ وعدہ خلافی کرنا بدون کسی عذر کے مذموم ہے، لیکن اگر مصلحت لڑکی کی دوسری جگہ نکاح کرنے میں ہے تو دوسری جگہ نکاح لڑکی مذکورہ کا جائز ہے۔"

(کتاب النکاح، جلد:7، صفحہ: 110،  طبع: دار الاشاعت)

Sunday, 20 April 2025

وعدہ نکاح نکاح نہیں

 جب مذکورہ شخص نے اپنی بیٹی کے نکاح سے متعلق اس کے بچپن میں محض وعدہ کیا تھا، باقاعدہ نکاح نہیں کیا تھا ، بچپن میں کیا ہوا وعدہ محض وعدہ  اور منگنی ہے، نکاح نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"هل أعطيتنيها إن المجلس للنكاح، وإن للوعد فوعد.

قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح. اهـ." 

(كتاب النكاح، جلد:3، صفحہ:11، طبع: سعيد)


 صرف نکاح کا وعدہ ہوا ہے اس لیے ابھی تک دونوں کا نکاح قائم نہیں ہوا،اور لڑکی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے۔

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"الخطبة مجرد وعد بالزواج، وليست زواجاً ، فإن الزواج لا يتم إلا بانعقاد العقد المعروف، فيظل كل من الخاطبين أجنبياً عن الآخر، ولا يحل له الاطلاع إلا على المقدار المباح شرعاً وهو الوجه والكفان...الخطبة والوعد بالزواج وقراءة الفاتحة وقبض المهر وقبول الهدية، لا تكون زواجاً."

(‌‌القسم السادس: الأحوال الشخصية،‌‌ الباب الأول: الزواج وآثاره، ‌‌الفصل الأول: مقدمات الزواج،‌‌ خامسا ما يترتب على الخطبة، 6492/9، ط:دار الفکر)

ہدایہ میں ہے:

"قال: " النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول بلفظين يعبر بهما عن الماضي " لأن الصيغة وإن كانت للإخبار وضعا فقد جعلت للإنشاء شرعا دفعا للحاجة " ‌وينعقد بلفظين يعبر بأحدهما عن الماضي وبالآخر عن المستقبل مثل أن يقول زوجني فيقول زوجتك."

"قال: " ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف " قال رضي الله عنه:اعلم أن الشهادة شرط في باب النكاح لقوله عليه الصلاة والسلام " لا نكاح إلا بشهود."

(کتاب النکاح ،325،26/2،ط:رحمانیة)