https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 11 September 2024

عقیقہ کونسے دن کریں

 پیدائش کے ساتویں روز عقیقہ کرنا مسنون ہے، اگر کسی وجہ سے ساتویں روز نہ کر سکیں، تو چودہویں روز کر لیا جائے، اگر چودہویں روز بھی نہ کرسکیں تو اکیسویں روز کر لیا جائے، اگر اکیسویں روز بھی عقیہ نہ کر سکے تو اس کے بعد عقیقہ کرنا مباح ہے، اگر کرلے تو ادا ہوجاتا ہے، تاہم جب بھی عقیقہ کرے بہتر یہ ہے کہ پیدائش کے دن کے حساب سے ساتویں دن کرے،یعنی اگر بالفرض جمعہ کو پیدائش ہوئی ہو تو آئندہ جمعرات کے دن عقیقہ کرے۔

لڑکے کی طرف سے دو چھوٹے جانور (دو بکرے یا بکری )اور لڑکی کی طرف سے ایک چھوٹا جانور( ایک بکرا یا  بکری ) کرنا مستحب ہے، تاہم اگر لڑکے کے عقیقہ میں دو چھوٹے جانور (دو بکرے یا بکری )کی وسعت نہ ہو تو ایک چھوٹا جانور ( ایک بکرا یا  بکری ) کرنے سے بھی عقیقہ ہوجائے گا۔

اسی طرح سے بڑے جانور کو ذبح کرنے سے بھی عقیقہ ہوجائے گا، اور اگر کئی بچوں کا عقیقہ ایک ساتھ کرنے کا ارادہ ہو تو بڑے جانور میں سات تک حصہ کیے جا سکتے ہیں، اور ہر حصہ ایک چھوٹے جانور کی طرف سے کافی ہوگا، یعنی بچی کے لیے ایک حصہ اور بچے کی طرف سے دو حصے کرنے سے مسنون عقیقہ ادا ہوجائے گا۔

عقیقہ کے جانور کی وہی شرائط ہیں جو قربانی کے جانور کی ہیں۔

عقیقہ کے جانور کا سارا کا سارا گوشت گھر والے کھا سکتے ہیں، اور اگر چاہیں تو سارا گوشت صدقہ بھی کر سکتے ہیں، یا رشتہ داروں میں تقسیم بھی کر سکتے ہیں، اسی طرح گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ اپنے لیے، ایک حصہ رشتہ داروں کے لیے اور ایک حصہ غرباء میں تقسیم کرنا زیادہ بہتر ہے۔

عقیقہ کے جانور کے ذبح کے بعد نومولود کے سر کے بال صاف کردیے جائیں، اور بالوں کے وزن کے بقدر چاندی یا سونا تول کر اس کی قیمت صدقہ کردی جائے، اور بالوں کو کوڑا کرکٹ میں نہ پھینکا جائے، بلکہ کسی جگہ دفن کر دینا مستحب ہے،اور دل چاہے تو زعفران سر پر لگائیں۔

اعلاء السنن میں ہے:

’’أنها إن لم تذبح في السابع ذبحت في الرابع عشر، وإلا ففي الحادي والعشرین، ثم هکذا في الأسابیع‘‘.

(17/117، باب العقیقة، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة

Sunday 8 September 2024

خریدوفروخت کے بنیادی اسلامی اصول

 خرید وفروخت کے متعلق بنیادی ہدایات

خرید وفروخت کا جومعاملہ بھی ہو، اس میں تین چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں :
1. معاملہ کرنے والے فریقین
2. وہ چیز جس کا سودا کیا جا رہا ہو
3. چیز کی قیمت

شریعت ِمطہرہ نے ہر ایک کے لیے الگ الگ ہدایات دی ہیں :
فریقین کے لیے ہدایات
معاملہ باہمی رضامندی سے طے پانا چاہیے
بیع کی شرطِ اوّل یہ ہے کہ فریقین کا نہ صرف ذہنی توازن درست ہو اور وہ معاملات کی سوجھ بوجھ رکھتے ہوں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سودے پریکساں طور پر رضامندہوں ۔ چنانچہ لین دین کے وہ تمام معاملات جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہ پائی جاتی ہو ناجائز ہیں ۔اِرشاد باری تعالیٰ ہے :
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوالَا تَأْكُلُوٓا أَمْوَ‌ٰلَكُم بَيْنَكُم بِٱلْبَـٰطِلِ إِلَّآ أَن تَكُونَ تِجَـٰرَ‌ةً عَن تَرَ‌اضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوٓاأَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَ‌حِيمًا ...﴿٢٩﴾...سورة النساء
''اے ایمان والو !ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے نہ کھاؤمگر یہ کہ تجارت ہو تمہاری باہمی رضامندی سے۔اور اپنے نفسوں کو قتل نہ کروبلا شبہ اللہ تمہارے ساتھ رحم کرنے والا ہے۔''

سورہ نساء کی یہ آیت تجارتی اور معاشی تعلقات کے متعلق بنیادی اُصول پیش کر رہی ہے کہ وہ کاروباری اور تجارتی معاملات جن پر دونوں فریق یکساں مطمئن اور راضی نہ ہوں ، باطل ہیں ۔ یہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ لین دین میں فریقین کی باہمی رضامندی لازم ہے ۔ شریعت ِاسلامیہ اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ کوئی کسی کو اپنی چیز بیچنے پر مجبور کرے یا زبر دستی اپنی پسند کی قیمت پر حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔اسلام نے ایک دوسرے کی جان ، مال اور عزت کویکساں محترم قرار دیا ہے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لاٹھی جیسی معمولی چیز کی زبر دستی خرید وفروخت کو بھی قابل حرمت قرار دیا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشاد ہے :
''کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کی لاٹھی( بھی) اس کی قلبی خوشی کے بغیر لے۔''6

بطورِ خاص خرید و فروخت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صریح فرمان ہے :
(إنما البیع عن تراض)7
''بیع صرف باہمی رضامندی سے ہوتی ہے۔''

واضح رہے کہ یہ رضا مندی حقیقی ہونی چاہیے نہ کہ مصنوعی۔لہٰذاکسی دباؤکے تحت یا غلط تاثرکی بنیادپریادوسرے فریق کوچیز کی حقیقت سے بے خبریا اصل قیمت سے دھوکے میں رکھ کر حاصل کی گئی رضامندی قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ یہ مصنوعی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے شریعت نے اس قسم کی دھوکہ دہی کی صورت میں متاثرہ فریق کو معاملہ منسوخ کرنے کا اختیار دیا ہے۔

اسی طرح ایک شخص اگر انتہائی بے بسی اور مجبوری کی بنا پر اپنی چیز بیچ رہا ہوتو ایسے شخص سے مارکیٹ ریٹ سے بہت کم پر خریدنا، اگرچہ بظاہر وہ اس پر راضی بھی ہوناجائز ہے، درست نہیں ۔ معمولی کمی بیشی کی تو گنجائش ہے لیکن بہت زیادہ فرق درست نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قلبی خوشی کی تاکید فرمائی ہے اور یہ بات طے ہے کہ مجبور شخص خوش دلی سے غیر معمولی کم ریٹ پربیچنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں مجبور شخص سے سستے داموں خریدنے کو ترجیح دی جاتی ہے، یہ ناپسندیدہ رویہ ہے جس کی اصلاح ہونی چاہیے۔

البتہ بعض صورتوں میں حکومت یا کوئی مجاز اتھارٹی مالک کو اس بات پر مجبور کر سکتی ہے کہ وہ اپنی چیز فروخت کرے :


 پہلی صورت یہ ہے کہ مقروض اپنے ذمے قرض ادا نہ کر رہا ہو اور اس کے پاس نقد رقم بھی موجود نہ ہو تو عدالت اس کو اپنی جائیداد فروخت کر کے قرض ادا کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ اگر وہ عدالتی حکم کے باوجود لیت و لعل سے کام لے تو عدالت قرض خواہ کی داد رسی کے لیے خود بھی اس کی جائیداد مارکیٹ ریٹ پرفروخت کر سکتی ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ کسی شخص نے جائیداد رہن رکھ کر قرض لے رکھا ہو اور وہ متعدد مرتبہ کی یاد دہانی کے باوجود ادائیگی نہ کر رہا ہو تو قرض خواہ رہن شدہ جائیداد فروخت کر کے اپنا حق وصول پا سکتا ہے، چاہے مقروض اس پر راضی نہ بھی ہوبشرطیکہ عدالت اورقرض خواہ منصفانہ قیمت پربیچنے کو یقینی بنائیں ،اپنی رقم کھری کرنے کے لالچ میں کوڑیوں کے بھاؤ بیچنے کی اجازت نہیں ہے۔

تیسری صورت جب مالک کو اپنی اشیا فروخت کرنے پر مجبور کیا سکتا ہے، یہ ہے کہ جب غذائی اشیا کی قلت ہو اور کچھ لوگ ذخیرہ اندوزی کر رہے ہوں تو حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ تاجروں کو ذخیرہ کی گئی اشیا فروخت کرنے کا حکم دے، اگر وہ تعمیل نہ کریں توحکومت ان کی مرضی کے خلاف خود بھی مارکیٹ ریٹ پر فروخت کر سکتی ہے، جیسا کہ الموسوعة الفقهية میں ہے :
إذا خیف الضّرر علی العامّة أجبر بل أخذ منه ما احتکرہ وباعه وأعطاہ المثل عند وجودہ أو قیمته وهذا قدر متّفق علیه بین الأئمة ولا یعلم خلاف في ذلك8
''جب عوام کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہو توحاکم ذخیرہ اندوز کو مجبورکرے گا بلکہ اس سے ذخیرہ شدہ مال لے کر فروخت کر دے گااور اس کو اس مال کا مثل جب موجود ہو یا اس کی قیمت دے گا۔اتنی بات تمام ائمہ میں متفق علیہ ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔''


 کسی کی چیز زبر دستی لینے کی چوتھی صورت یہ ہے کہ حکومت کو عوامی مقاصد کے لیے کسی جگہ کی حقیقی ضرورت ہو اور مالکان بیچنے پر آمادہ نہ ہوں تو حکومت وہ جگہ زبردستی بھی حاصل کر سکتی ہے، تاہم حکومت پر فرض ہو گا کہ مالکان کو مارکیٹ ریٹ کے حساب سے ادائیگی کرے۔حکومت بازاری قیمت ادا کئے بغیر کسی شہری کو جائیدا د سے محروم نہیں کر سکتی۔

خریدنے سے پہلے بیچنا ممنوع ہے !
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تلقین بھی فرمائی ہے کہ بیچنے والا فقط اسی چیز کا سودا کرے جس کا وہ کلی طورپر مالک بن چکا ہو۔بعض دفعہ کاروباری حضرات کے پاس چیز موجود نہیں ہوتی مگر و ہ اس اُمید پر سودا طے کر لیتے ہیں کہ بعد میں کہیں سے خرید کر فراہم کر دینگے، ایساکرنا منع ہے،کیونکہ ممکن ہے مالک وہ چیز بیچنے پر آمادہ ہی نہ ہو یا وہ اس کی قیمت فروخت سے دگنی قیمت طلب کر لے اور یہ نقصان سے بچنے کے لیے خود ہی خریدنے پر تیار نہ ہو۔ اس طرح فریقین کے ما بین تنازعات جنم لینے کا اندیشہ ہے ، لہٰذاشریعت ِاسلامیہ نے ان کے سد باب کے لیے یہ اُصول بنا دیا ہے کہ وہ متعین چیزجوفی الحال فروخت کنندہ کی ملکیت میں نہ ہو، اس کا سودا نہ کیا جائے، جیساکہ جناب حکیم بن حزامؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا :
''میرے پاس ایک آدمی آتا ہے اور وہ مجھ سے ایسی چیز کا سودا کرنا چاہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتی۔ کیا میں اس سے سودا کر لوں پھر وہ چیز بازار سے خرید کر اسے دے دوں ۔''

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوابافرمایا :
(لَا تَبِعْ ما لَیْسَ عِنْدَکَ)9
''جو (متعین )چیز تیرے پاس موجود نہیں ، وہ فروخت نہ کر۔''

حضرت حکیم بن حزام ؓکا سوال متعین چیز کی فروخت کے متعلق ہی تھا۔متعین کا معنی ہے کسی مخصو ص پلاٹ یا گاڑی وغیرہ کا سودا کرنامثلاً یوں کہنا کہ میں فلاں سکیم کا فلاں نمبر پلاٹ آپ کو اتنے میں بیچتا ہوں جبکہ وہ اس وقت اس کی ملکیت نہ ہو، ایسا کرنا ناجائز ہے جیساکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے واضح ہے ۔ لیکن اگر تعین کی بجائے صرف مخصوص صفات بیان کی جائیں ، مثلاً یوں کہا جائے کہ میں تمہیں اتنی مدت بعدان صفات کی حامل فلاں چیز مہیا کرنے کی ذمہ داری لیتا ہوں تویہ صورت جائز ہے بشرط کہ مکمل قیمت پیشگی ادا کر دی جائے، اس کو بیع سَلَم کہتے ہیں ۔مکمل قیمت کی پیشگی ادائیگی لازمی شرط ہے، اس کے بغیر یہ جائز نہیں ہو سکتی ۔

ملکیت سے قبل فروخت کی بعض صورتیں
بعض ہاؤسنگ اسکیمیں اپنی ملکیّتی زمین سے زیادہ تعداد میں پلاٹس کی فائلیں فروخت کر دیتی ہیں مثلاً ابھی تک اسکیم کے پاس زمین صرف ایک ہزار پلاٹس موجود ہیں لیکن فائلیں دو ہزار پلاٹس کی بیچ دی جاتی ہیں اور ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ بقیہ زمین بعد میں خرید لی جائے گیــ۔ اس طرح اسکیم مالکان کو کچھ مدت کے لیے لوگوں کی دولت سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے اور یہی جلب ِمنفعت ان کا مطمح نظر ہوتا ہے۔یہ طریقہ سراسر خلافِ شریعت ہے کیونکہ اسکیم نے ایک ہزار پلاٹس کی جو زائدفائلیں فروخت کی ہیں ، اُن کی زمین ابھی اس کی ملکیت میں نہیں آئی،لہٰذا اسکیم مالکان کو ان کی فروخت کا حق بھی نہیں پہنچتا ۔


(مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلاَ یَبِعْهُ حَتَّی یَسْتَوْفِیَهُ )10
''جو غلہ خریدے، وہ قبضہ سے قبل فروخت نہ کرے۔''

جناب عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں :
کُنَّا فِي زَمَانِ رَسُولِ اﷲِ ﷺ نَبْتَاعُ الطَّعَامَ فَیَبْعَثُ عَلَیْنَا مَنْ یَأْمُرُنَا بِانْتِقَالِهِ مِنَ الْمَکَانِ الَّذِي ابْتَعْنَاہُ فِیهِ إِلَی مَکَانٍ سِوَاہُ قَبْلَ أَنْ نَبِیعَهُ 11
''ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں غلہ خریدتے تو آپ ہمارے پاس ایک شخص کو بھیجتے جو ہمیں حکم دیتا کہ ہم بیچنے سے قبل جہاں سے خریدا ہے، وہاں سے اُٹھا کر دوسری جگہ لے جائیں ۔''

سیدنا زید بن ثابت ؓسے روایت ہے :
نَهی أَنْ تُبَاعَ السِّلَعُ حَیْثُ تُبْتَاعُ حَتَّی یَحُوزَها التُّجَّارُ إِلَی رِحَالِهمْ 12
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس سے منع فرمایا کہ سامان کو وہاں بیچا جائے جہاں سے خریدا گیا تھاحتیٰ کہ تاجر اسے اپنے مقامات پر منتقل کر لیں ۔''

جو تاجر اس حکم کی تعمیل نہ کریں ان کے خلاف تادیبی کار روائی بھی کی جاسکتی ہے جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں :
رَأَیْتُ الَّذِینَ یَشْتَرُونَ الطَّعَامَ مُجَازَفَةً یُضْرَبُونَ عَلَی عَهدِ رَسُولِ اﷲِ أَنْ یَبِیعُوہُ حَتَّی یُئْوُوْہُ إِلَی رِحَالِهم 13
''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تخمینے سے اناج خریدنے والوں کی پٹائی ہوتی دیکھی یہاں تک کہ وہ اس کواُٹھاکر اپنے ٹھکانوں میں منتقل کر دیں پھر فروخت کریں ۔''

       امام غزالیؒ نے مسلم تاجر کے لیے سات اصول اور نصائح بیان فرمائے ہیں ، ہم اختصار کے ساتھ ان کو نقل کرتے ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں : إنّما تَتِمُّ شفقۃُ التاجرِ علی دینِہ بِمُرَاعَاۃِ سَبْعَۃِ أُمُوْرٍ۔ یعنی تاجر کا اپنی ذات اور نفس پر مہربان ہونا سات چیزوں کی رعایت کرنے سے تام اور مکمل ہوگا۔

            (۱)  تجارت کی ابتدا میں حسنِ نیت اور حسنِ عقیدہ ہو۔ پس تاجر تجارت شروع کرنے کے وقت سوال سے بچنے، لوگوں سے حرص وطمع سے  رکنے،رزق حلال کے ذریعہ لوگوں سے استغنائ، کمائے گئے مال کے ذریعہ دین پر استعانت اور اپنے اہل وعیال کی کفایت وکفالت کے قیام کی نیت کرے۔

            (۲)  تاجر اپنی صنعت اور تجارت میں فروضِ کفایہ میں سے ایک فرض کفایہ کے ادا کرنے کی نیت کرے؛ اس لیے کہ صنعتیں اور تجارتیں اگر بالکلیہ چھوڑ دی جائیں تو معیشتیں باطل ا ور تباہ ہوجائیں گی اور اکثر لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔ یعنی تجارت کرنا فرض کفایہ ہے؛ لہٰذا قوم میں ایک طبقہ ایسا ہونا ضروری ہے، جو تجارت میں لگا رہے ، اس لیے کہ اگر سارے ہی لوگ صنعت وتجارت چھوڑدیں گے تو اکثر لوگ ہلاکت کے دہانے پر پہنچ جائیں گے، اس لیے اپنی تجارت کی شروعات میں یہ نیت کرے کہ میں ایک فرض کفایہ کو ادا کررہا ہوں ۔ اس طرح وہ اجر وثواب کا بھی مستحق ہوجائے گا۔

            (۳)  تاجر کو دنیا کا بازار آخرت کے بازار سے نہ روک دے، اور آخرت کے بازار مساجد ہیں ؛ اس لیے مناسب ہے کہ دن کے اول حصہ کو بازار میں داخل ہونے کے وقت تک اپنی آخرت کے لیے صرف کرے، اس وقت کومسجد میں گزارے اور اوراد ووظائف کو لازم پکڑے۔

            (۴)  اوراسی پر اکتفاء نہ کرے ،بلکہ بازار میں بھی اللہ سبحانہ وتعالی کے ذکر کو لازم پکڑے اور تسبیح وتہلیل میں مشغول رہے۔ اس لیے کہ بازار میں غافلوں کے درمیان اللہ کا ذکر کرنا افضل ہے۔

            (۵)  تاجر بازار اور تجارت پر بہت زیادہ حریص نہ ہو،اس کی علامت یہ ہے کہ سب سے پہلے بازار جائے اور سب سے اخیر میں وہاں سے لوٹے۔ یہ کاروبار میں بہت زیادہ حریص ہونے کی دلیل ہے۔

            (۶)  تاجر کے لیے حرام چیزوں کی تجارت سے بچنا لازم اور ضروری؛ لیکن صرف حرام سے اجتناب پر اکتفاء نہ کرے؛ بلکہ مواقعِ شبہات اور شک و تہمت کے مقام سے بھی احتراز کرے اوربچے۔

            (۷)  تاجر کو چاہیے کہ وہ جن لوگوں سے معاملات کر رہا ہے، ان کے بارے میں ہر وقت یہ خیال رکھے اور فکر مند رہے کہ ان میں سے ہر صاحبِ معاملہ اس سے حساب لے گا کہ خرید وفروخت میں اس نے کسی کا حق مار تو نہیں لیا، لہٰذا تاجر کو اپنے ہر قول اور عمل کے بارے میں حساب و عقاب کے دن (روز محشر)کے لیے جواب تیار رکھناچاہیے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ اگر ایک شخص نے ہزاروں آدمیوں سے خرید وفروخت کیا ہے تو ان ہزاروں آدمیوں کا حق اس سے وابستہ ہے، اگر اس نے کسی کے حق میں بھی کچھ کوتاہی اور گڑبڑی کی ہے تو وہ صاحبِ حق اس کی وصولی کے لیے قیامت کے دن اس تاجر خائن کے پاس حاضر ہوجائے گا اور اس سے اپنا حق وصول کرے گا؛ اس لیے ہر تاجر اپنی تجارت میں اس بات کو ملحوظ رکھے کہ اس کو قیامت کے دن ہر حساب لینے والے کا حساب دینا ہوگا۔  (احیاء العلوم:۲/۸۳-۸۷)

آن لائن تجارت نہ تو مطلقاً ناجائز ہے اور نہ مطلقاً جائز بلکہ اس کی بعض صورتیں جائز ہیں اور بعض ناجائز ہیں :

آن لائن تجارت:

آن لائن تجارت میں اگر "مبیع" (جوچیزفروخت کی جارہی ہو)بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے اور وہ محض اشتہار ،تصویردکھلاکر کسی کو وہ سامان فروخت کرتا ہو اور بعد میں وہ سامان کسی اور دکان،اسٹوروغیرہ سے خرید کردیتا ہو تو یہ صورت بائع کی ملکیت میں "مبیع" موجود نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ جو چیز فروخت کرنی ہو اس کا شرعاًبائع کی ملکیت میں ہونا  ضروری  ہے۔

اس کے جواز کی صورتیں درج ذیل ہیں:

1۔ بائع مشتری سے یہ کہہ دے کہ یہ سامان میری ملکیت میں نہیں ، اگر آپ کو چاہیے تو میں اسے خرید کرآپ کو اتنی قیمت میں فروخت کرسکتاہوں، یوں بائع اس سامان کوخرید کر اپنے قبضہ میں لے کر باقاعدہ سودا کرکے مشتری کو فروخت کرے تو یہ درست ہوگا۔

2۔ آن لائن کام کرنے والا کسی سے آرڈر لے اورمطلوبہ چیز کسی دوسرے  سے لے کر خریدار تک پہنچائے اور اس عمل کی اجرت مقرر کرکے لے تو یہ بھی جائز ہے۔ یعنی بجائے اشیاء کی خرید وفروخت کے بروکری کی اجرت مقرر کرکے یہ معاملہ کرے۔

3۔ اگر مبیع بائع کی ملکیت میں موجود ہو اور تصویر دکھلا کر سودا کیا جا رہا ہو تو ایسی صورت میں بھی آن لائن خریداری شرعاً درست ہوگی۔ البتہ جواز کی ہر صورت میں خریدار کو مطلوبہ چیز ملنے کے بعد خیارِ رؤیت حاصل ہوگا، یعنی جب "مبیع" خریدار کو مل جائے تو دیکھنے کے بعد اس کی مطلوبہ شرائط کے مطابق نہ ہونے کی صورت میں اسےواپس کرنے کااختیار حاصل ہوگا۔

حدیث میں ہے :

"عن حكيم بن حزام، قال: يا رسول الله، يأتيني الرجل فيريد مني البيع ليس عندي، أفأبتاعه له من السوق؟ فقال: "لا تبع ما ليس عندك ."

(سنن ابی داؤد،باب فی الرجل یبیع مالیس عندہ،ج:۵،ص:۳۶۲،دارالرسالۃ العالمیۃ)

آن لائن اسٹورز :

خرید و فروخت سے متعلق اصولی طور پر یہ بات واضح رہے کہ جس وقت آپ کسی چیز کو بیچتے ہیں خواہ دکان پر بیچیں یا کسی آن لائن پلیٹ فارم پر بیچیں، شریعت کی رو  سے یہ ضروری ہے کہ وہ چیز آپ کی ملکیت میں ہو، آپ کے قبضے میں ہو اور آپ خریدار کو وہ چیز حوالے کرنے پر قدرت رکھتے ہوں، اگر ایسی چیز کو بیچا جائے جو اب تک بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے یا ملکیت میں تو ہے لیکن اس نے خود خریدنے کے بعد اب تک اس پر قبضہ نہیں کیا یا وہ خریدار کو وہ چیز حوالے کرنے پر قدرت نہیں رکھتا تو یہ صورتیں شریعت کی نظر میں ناجائز ہیں۔

آن لائن کاروبار میں بکثرت غیر مملوک (یعنی جو چیز ملکیت میں نہیں ہے) یا غیر مقبوض (جس چیز پر قبضہ نہیں ہے) اشیاء  کی خرید و فروخت کی جاتی ہے،لہذا اس سے بچنا ضروری ہے۔ البتہ اگر غیر مملوک یا غیر مقبوض چیز کو فوراً نہ  بیچا جائے بلکہ اس کے بیچنے کا وعدہ کیا جائےیعنی اپنے آن لائن گاہک کو یہ پیغام دیا جائے کہ ہم یہ چیز آپ کو فروخت کر دیں گے تو یہ صورت جائز ہے، پھر جب وہ چیز بیچنے والے کی ملکیت میں آجائے یا اس پر قبضہ ہو جائے تب اس چیز کو بیچ دیا جائے۔

کرپٹوکرنسی یا ڈیجیٹل کرنسی:

کرپٹوکرنسی یاکسی اورڈیجیٹل کرنسی کی شکل میں انٹرنیٹ  اور الیکٹرانک مارکیٹ میں خرید و فروخت کے نام سے جو کاروبار چل رہا ہےوہ حلال اورجائز نہیں ہے،کیوں کہ کرپٹوکرنسی  محض ایک فرضی کرنسی ہے،اس میں حقیقی کرنسی کےبنیادی اوصاف اورشرائط بالکل موجود نہیں ہیں،یہاں حقیقت میں کوئی مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا،صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں؛لہٰذاصورتِ مسئولہ میں کرپٹوکرنسی اور ڈیجیٹل کرنسی میں  سرمایہ کاری(ٹریڈنگ) کرنا جائز نہیں ہےاوراس  سےحاصل ہونےوالانفع بھی  شرعاًجائز نہیں ہے۔

  باقی  فیوچر ٹریڈ  ( Future Trade) (بیاعات مستقبلیات)  درجِ ذیل امور کی وجہ سے جائز نہیں ہے:

1: قبضہ کرنے سے پہلے خرید وفروخت  کرنا:

فیوچر ٹریڈنگ میں ایک بڑی شرعی خرابی یہ ہے کہ اس میں ایسی چیز کو آگے فروخت کیاجاتاہے جو مالک کے قبضے میں موجود نہیں ہوتی، فیوچر ٹریڈنگ میں یہ خرابی صرف ایک جگہ نہیں بلکہ بار بار اور تسلسل کے ساتھ آتی رہتی ہے ، کیوں کہ سب سے پہلا فروخت کنندہ نہ سامان کا مالک ہوتا ہے اور نہ وہ اس کے قبضے  میں ہوتا ہے، اس کے باوجود وہ اسے مستقبل کی کسی تاریخ کے لیے کسی تاریخ کے لیے کسی کو فروخت کردیتا ہے،  چیز کو خریدنے والا بھی اس پر قبضہ کیے بغیر اسے کسی اور کو فروخت کردیتا ہے،  چیز کو خریدنے والا بھی اس پر قبضہ کیے بغیر اسے کسی اور کو فروخت کردیتا ہے اور وہ کسی اور کو۔ چنانچہ مقررہ تاریخ آنے تک بے شمار لوگ درمیان میں بائع اور مشتری  بن چکے ہیں لیکن سامان ا ن میں سے کسی نے دیکھا تک نہیں ہوتا،  چہ جائیکہ اس پر کسی نے قبضہ کیا ہو، جس کا شرعی حکم یہ ہے کہ جو چیز قبضے میں موجود نہ ہو اسے آگے فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں۔ 

2: : سامان اور قیمت دونوں کا ادھار معاملہ کرنا:

فیوچر ٹریڈنگ میں ایک بڑی شرعی خرابی یہ ہے کہ اس میں سامان اور اس کی قیمت دونوں ادھار میں ہوتے ہیں کیونکہ سامان خریدار کو فوراً نہیں ملتا بلکہ مستقبل کی تاریخ کے آنے کے بعد ملتا ہے،  اسی طرح خریدار اس چیز کی قیمت ابھی نہیں دیتا بلکہ مستقبل کی تاریخ کے آنے کے بعد دیتا ہے، گویاکہ اس معاملہ میں دونوں طرف سے ادھار ہے، اور اس قسم کی ادھار کی بیع کو بیع الکالی بالکالی کہا جاتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے ایسی خرید وفروخت سے منع فرمایا ہے۔

3: یہ معاملہ قمار پر بھی مشتمل ہے:

اس طرح کے معاملے میں قمار بھی ہے، کیوں کہ حقیقت میں خریدوفروخت مفقود ہے، محض ایک کاغذی کاروائی کی بنیاد پر نفع ونقصان ہوتا ہے، اور قمار والا معاملہ بھی شرعاً جائز نہیں ہے

قرآن مجید میں ہے:

"یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ."(المائدة:90)

"ترجمہ:اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں ہیں، شیطانی کام ہیں، سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔(بیان القرآن)"

قسطوں پر سوفیصد نفع کمانا:

1۔ ہر شخص  کے  لیے اپنی مملوکہ  چیز  کو  اصل قیمت میں کمی زیادتی کے ساتھ نقد  اور ادھار دنوں طرح  فروخت کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور جس طرح ادھار پر سامان  فروخت کرنے والا اپنے سامان کی قیمت یک مشت وصول کرسکتا ہے ، اسی  طرح اس کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے  کہ وہ اس رقم کو قسط وار وصول کرے،  اسے اصطلاح میں ”بیع بالتقسیط“ یعنی قسطوں پر خریدوفروخت  کہتے ہیں۔

2۔ قسطوں پر خرید وفروخت میں  درج ذیل  شرائط کا لحاظ  اور رعایت کرنا ضروری ہے:

قسط کی رقم متعین ہو، مدت متعین ہو، معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار،  اور عقد کے وقت مجموعی قیمت مقرر ہو، اور ایک شرط یہ بھی  ہے کہ کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اس  میں اضافہ (جرمانہ) وصول نہ کیا جائے، اور جلد ادائیگی کی صورت میں قیمت کی کمی عقد میں مشروط نہ ہو۔  اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا، ان شرائط کی رعایت کے ساتھ قسطوں پر خریدوفروخت کرنا جائز ہے۔

3۔ کسی بھی چیز کو اپنی ملکیت میں آنے سے پہلے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح کسی بھی منقولی چیز کو خریدنے کے بعد اس پر قبضہ کرنے پہلے اسے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔

 ڈیجیٹل تجارت کے چند اسلامی طریقے:

مضاربت)((١)

شرعی طور پر جائز مضاربہ میں ایک فریق کی طرف سے سرمایہ ہوتا ہے اور دوسرے فریق کی جانب سے عمل اور محنت ہوتی ہے،جس کے بنیادی اصول درج ذیل ہیں۔مضاربہ میں سرمایہ اور کروبار حلال ہو۔معاملہ میں کوئ شرطِ فاسد نہ ہو۔ہر فریق کو اختیار ہوگا کہ کاروبار ختم ہونے کے بعد آئندہ جاری رکھے یا ختم کر دے۔منافع دونوں فریقوں میں فیصد کے حساب سے طے شدہ ہوں ۔ کسی ایک فریق کے لئے مخصوص اورمتعین رقم کی شرط لگانا جائز نہیں۔نقصان کی صورت میں سرمایہ کار نقصان برداشت کرے گا اور مضارب کی محنت رائیگاں جائے گیمضارب امین کی حیثیت سے کام کرے گا، لہذا رب المال جس نوعیت کے کام کی اجازت دے اسی طرح کا کام ۲۔کرسکتا ہے، ورنہ خیانت ہوگی، البتہ اگر مضارب نے کسی خاص کاروبار کی شرط لگانے کے بجائے عام اجازت دی ہو تو پھر مضارب ہر طرح کا جائز کام کر سکتا ہے۔مضاربہ میں نقصان کی صورت میں ابتداء اس نقصان کی تلافی نفع سے کی جائےگی، اگر نقصان نفع سے بھی زیادہ ہو تو پھر نفع کے بعد باقی نقصان کی تلافی اصل سرمائے سے کی جائے گی۔۔۳اگر رب المال نے عام اجازت دی ہو تو مضارب آگے کسی اور کو بھی مضاربت پر مال دے سکتا ہے۔


بیع مساومہ میں فروخت کنندہ (Seller)اپنی اصل لاگت اور اُس میں شامل منافع بتانے کا پابند نہیں ہوتا اور نہ ہی خریدار اُسے بتانے پرمجبور کر سکتا ہے، بس اُس نے قیمت فروخت بتا دی ہے، اب اگر خریدار خریدنا چاہےتو خریدلے ورنہ نہ خریدے،شرعی اعتبارسے کاروبار کی یہ شکل   درست   اور جائز ہے۔

مساومہ 

 بیع مساومہ  کی اسلام میں اجازت ہے،جس کے تعریف یہ ہے ،کہ بائع اور مشتری جس قیمت پر اتفاق کر لیں اس قیمت پر بیچنے کا نام بیع مساومہ ہے۔

مرابحہ 

مرابحہ، ایک مخصوص قسم کی تجارت ہے، جو اسلامی بینکاری نظام میں   (Legal Device) استعمال ہوتی ہے۔ اس میں ایک فروخت کنندہ اپنا مال بیچنے سے پہلے صاف طور پر یہ کہہ دیتاہے کہ اس نے اس شے کو کس قیمت پر خریدا تھا اور یہ فروخت کنندہ اس شے پر اس کو حاصل ہونے والے منافع کا اظہار بھی خریدنے والے پر کر دیتا