https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 6 April 2024

صدقہ فطر کا مصرف

  صدقہ فطر کس کو دیں :صدقہ فطر کا مصرف وہی ہے جو زکوٰۃ کا مصرف ہے، اور صدقہ فطر اور زکاۃ کے مستحق  وہ افراد ہیں جو  نہ بنی ہاشم (سید وں یا عباسیوں وغیرہ) میں سے ہوں اور نہ ہی ان کے پاس ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود ہو جس کی مالیت نصاب (ساڑھے سات تولہ سونا، یاساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت)  تک پہنچے۔ ایسے افراد کو زکات  اور صدقہ فطر دیاجاسکتا  ہے ۔

2۔۔ جو شخص زکوٰۃ کا مستحق ہو اس پر صدقہ فطر واجب ہی نہیں ہے، لہٰذا ایسے شخص کو صدقہ فطر دینا جائز ہے۔ اور جس شخص پر صدقہ فطر واجب ہو وہ زکاۃ کا مستحق نہیں ہے

Friday 5 April 2024

صدقہ فطر کی مقدار

 صدقہ فطر  میں چار  اجناس (گندم،جو،کھجور،کشمش)میں سے کسی ایک جنس  کا دینا یا اس کی بازاری قیمت کادینا ضروری ہے، تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

1:گندم نصف صاع یعنی پونے دو کلو   تاہم احتیاطًا دو کلو یا اس کی  بازاری قیمت دینی  چاہیے۔

2: جو ایک صاع یعنی تقریبًا ساڑھے تین کلو یا اس کی  بازاری قیمت ہے۔

3:کھجور  ایک صاع یعنی تقریبًا  ساڑھے تین کلو یا اس کی  بازاری قیمت ہے۔

4:کشمش ایک  صاع یعنی تقریبًا  ساڑھے تین کلو یا اس کی  بازاری قیمت ہے،لہذا مذکورہ چار اجناس میں سے کسی ایک کی  بازاری قیمت فقیر کی حاجت پورا کرنے کے  لیے بطورِ صدقہ فطر   دینا زیادہ بہتر  اور  آخرت میں ثواب کا باعث ہے۔

صدقہ فطر کن پر واجب ہے

 جو مسلمان اتنا مال دار ہے کہ اس پر زکاۃ واجب ہے یا اس پر زکاۃ واجب نہیں، لیکن قرض اور ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال یا اسباب اس کی ملکیت میں موجود ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس پر عیدالفطر کے دن صدقہ دینا واجب ہے، چاہے وہ تجارت کا مال ہو یا تجارت کا مال نہ ہو، چاہے اس پر سال گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو۔ اس صدقہ کو صدقۂ فطر کہتے ہیں۔

جس طرح مال دار ہونے کی صورت میں مردوں پر صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے اسی طرح اگر عورت مال دار صاحب نصاب ہے یا اس کی ملکیت میں قرضہ اور ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال وغیرہ ہے جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے، مثلاً اس کے پاس زیور ہے جو والدین کی طرف سے ملا ہے یا شوہر نے نصاب کے برابر زیور عورت کو بطور ملکیت دیا ہے، یا مہر میں اتنا زیور ملا جو نصاب کے برابر ہے تو عورت کو بھی اپنی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے، ہاں اگرشوہر اس کی طرف سے اسے بتاکر ادا کردے تو ادا ہوجائے گا۔

 مال دار عورت پر اپنا صدقۂ فطر ادا کرنا تو واجب ہے، لیکن اس پر کسی اور کی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں، نہ بچوں کی طرف سے نہ ماں باپ کی طرف سے، نہ شوہر کی طرف سے۔

البتہ مال دار آدمی کے لیے صدقۂ فطر اپنی طرف سے بھی ادا کرنا واجب ہے، اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی، نابالغ اولاد اگر مال دار ہو تو ان کے مال سے ادا کرے اور اگر مال دار نہیں ہے تو اپنے مال سے ادا کرے۔ بالغ اولاد اگر مال دار ہے تو ان کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا باپ پر واجب نہیں، ہاں اگر باپ ازخود ادا کردے گا تو صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا۔

Sunday 31 March 2024

روزے کی حالت میں جماع

 صورتِ  مسئولہ میں اگر کپڑے کے اوپر سے جماع کیا لیکن مرد کی شرم گاہ عورت کی شرم گاہ میں داخل ہوئی تو میاں بیوی دونوں کا روزہ بھی ٹوٹ گیا اور  دونوں پر روزے کی قضا کے ساتھ کفارہ  (جو مسلسل ساٹھ روزے رکھنا ہے ) بھی لازم ہوگا۔  اگر مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنے کی واقعتًا  قدرت نہ ہو (مثلًا بڑھاپے یا مریض ہونے کی وجہ سے) تو  ساٹھ مسکینوں کو صدقہ فطر  کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت دینا لازم ہے ،  ایک صدقہ فطر کی مقدار  نصف صاع  (پونے دو کلو ) گندم یا اس کی قیمت  ہے۔

ایک مسکین کو ساٹھ  دن صدقہ فطر  کے برابر غلہ وغیرہ دیتا رہے یا ایک ہی دن ساٹھ مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کی مقدار دےدے ،  دونوں جائز ہے۔

صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا قیمت  دینے کے بجائے اگر ساٹھ مسکینوں کو ایک دن صبح وشام، یا ایک مسکین کو ساٹھ دن صبح وشام کھانا کھلادے، تو بھی کفارہ ادا ہوجائےگا۔

اور اگر کپڑے کے اوپر سے جماع کرنے سے مراد شرم گاہ داخل کیے بغیر انزال ہونا ہے تو اگر صرف مرد کو انزال ہوا تو اس کا روزہ فاسد ہوگیا، اور اس صورت میں صرف قضا لازم ہوگی، کفارہ لازم نہیں ہوگا۔ اور اگر بیوی کو بھی انزال ہوگیا یعنی اس کی منی شرم گاہ سے خارج ہوگئی تو اس کا روزہ بھی فاسد ہوگیا، اس صورت میں اس پر بھی قضا لازم ہوگی۔ بہرصورت مذکورہ میاں بیوی کو استغفار بھی کرنا چاہیے؛ کیوں کہ رمضان المبارک میں روزے کی حالت میں جماع کرنا جائز نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 205):

"من جامع عمداً في أحد السبيلين فعليه القضاء والكفارة، ولايشترط الإنزال في المحلين، كذا في الهداية. وعلى المرأة مثل ما على الرجل إن كانت مطاوعةً، وإن كانت مكرهةً فعليها القضاء دون الكفارة... إذا أكل متعمداً ما يتغذى به أو يتداوى به يلزمه الكفارة، وهذا إذا كان مما يؤكل للغذاء أو للدواء فأما إذا لم يقصد لهما فلا كفارة وعليه القضاء، كذا في خزانة المفتين ... وإذا أصبح غير ناو للصوم ثم نوى قبل الزوال ثم أكل فلا كفارة عليه، كذا في الكشف الكبير".