https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday, 23 November 2024

طلاق کنایہ

 طلاق کے الفاظِ کنایہ سے مراد وہ الفاظ ہیں جو اصلاً طلاق کے لیے وضع نہ ہوں، بلکہ ان میں طلاق اور غیر طلاق دونوں کا احتمال ہو، ان الفاظِ کنائی سے طلاق واقع ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ طلاق کا معنی مراد لیا جائے،  بعض الفاظ میں یہ معنی نیت ہی کے ذریعے مراد لیا جاتا ہے  اور بسا اوقات مذاکرۂ  طلاق، دلالتِ حال، عرف اور الفاظِ کنائی کے صریح بن جانے کی وجہ سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے،  الفاظِ کنائی بہت سارے ہیں، یہاں سب کا احاطہ و شمار ممکن نہیں ہے،  البتہ کتب فقہ کی روشنی میں چند الفاظ اور حالتوں کے اعتبار سے حکم مندرجہ ذیل ہے:

حضراتِ فقہاء نے لکھا ہے کہ کنایہ کے طور پر جن الفاظ سے طلاق دی جاتی ہے وہ تین قسموں پر مشتمل ہیں:

1- وہ الفاظ جن میں طلاق کے معنی کا بھی احتمال ہے ، اور طلاق کے مطالبہ کو مسترد کرنے کا بھی احتمال ہے ، مثلاً : بیوی سے کہا کہ : ’’ تو گھر سے نکل جا ، تو یہاں سے چلی جا ، تو اُٹھ کھڑی ہو ، تو میرے سامنے سے ہٹ جا ، تو پردہ کرلے ‘‘ وغیرہ ،  تو اِن الفاظ میں اگر شوہر طلاق کی نیت کرے تو وہ بھی مراد ہوسکتی ہے ، اور یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ شوہر محض دفع الوقتی کے  لیے اُس کو اپنے سامنے سے ہٹانے کا حکم دے رہا ہے ۔

2-وہ الفاظ جن میں طلاق کے ساتھ ساتھ طعن وتشنیع کے معنی مراد  لیے جاسکتے ہیں ، مثلاً بیوی سے کہا کہ : ’’ تو  خالی ہے ، تو الگ تھلگ ہے، تو کسی کام کی نہیں ‘‘ وغیرہ ۔ تو اِن الفاظ میں طلاق بھی  مراد ہوسکتی ہے،  اور بیوی کی توہین وتحقیر بھی مراد لی جاسکتی ہے ۔

3-   ایسے الفاظ جن میں نہ تو تردید مراد ہو ، اور نہ ہی طعن وتشنیع مراد ہو ؛ بلکہ زیادہ تر وہ الفاظ طلاق کے مطالبہ کے جواب میں استعمال کیے جاتے ہوں ، اگرچہ وہ طلاق کے  لیے موضوع نہ ہوں ، مثلاً کہا کہ : ’’ میں نے تجھ کو جدا کردیا ‘‘ وغیرہ ۔ ( اِس قسم کی مثال میں فقہاء نے ’’ تو آزاد ہے ‘‘  وغیرہ جیسے الفاظ بھی لکھے ہیں ، مگر اَب وہ عرف میں صرف طلاق کے  لیے استعمال ہونے لگے ہیں ، اس  لیے ان الفاظ سے بہرحال بلانیتِ  طلاق کے وقوع کا حکم ہوگا ۔

آپ نے جو اپنی بیوی کو  ”چلی جاؤ“ کہا میری طرف سے تم آزاد ہو کہاتو یہ طلاق کے کنایہ الفاظ میں سے ہے، اور اس سے طلاق واقع ہونے کے لیے طلاق کی نیت کرنا ضروری ہے، چوں کہ  بیوی کو  مذکورہ الفاظ کہتے ہوئے آپ کی نیت اگر طلاق دینے کی تھی توایک طلاق بائن واقع ہوگیی دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے ۔اور اگر طلاق دینے کی نیت نہیں تھی تو طلاق واقع نہیں ہوئی ، نکاح بدستور قائم ہے۔

اللباب في شرح الكتاب میں ہے:

 والكنايات ثلاثة أقسام: قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح رداً ولا شتما، وهي ثلاثة ألفاظ: أمرك بيدك، اختاري، اعتدي، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا وشتما ولا يصلح رداً، وهي خمسة ألفاظ: خلية، برية، بتة، بائن، حرام، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا ورداً ولا يصلح سباً وشتما؛ وهي خمسة أيضا: اخرجي، اذهبي، اغربي، قومي، تقنعي، ومرادفها، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية، والقول قوله في عدم النية، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع بكل لفظ لا يصلح للرد وهو القسم الأول والثاني، وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث، ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل للجواب فقط وهو القسم الأول. كما في الإيضاح.

(3 / 44، کتاب الطلاق، ط؛ المکتبۃ العلمیہ)

Monday, 18 November 2024

کیا حضرت مریم سے آخرت میں حضور کا نکاح ہوگا

 حدیث ضعیف و بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کے علاوہ مریم بنت عمران، کلثوم اختِ موسی علیہ السلام، اور فرعون کی اہلیہ آسیہ جنت میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں شامل ہوں گی۔

’’عن ابي أمامة قال: سمعت رسول الله صلي عليه وسلم يقول لعائشة: أشعرت أن الله عز و جل زوجني في الجنة مريم بنت عمران، و كلثوم أخت موسي، و امرأة فرعون‘‘. (المعجم الكبير للطبراني، ٨/ ٢٥٨، رقم: ٨٠٠٦، ط: دار إحياء التراث العربي)

اس سند میں ایک راوی خالد بن یوسف ضعیف ہیں۔

’’و جاء في بعض الآثار: أن مريم و آسية زوجا رسول الله صلي الله عليه وسلم في الجنة‘‘. ( روح المعاني، سورة التحريم، تفسير ابن كثير، سورة التحريم)

’’ أخرج الطبراني عن سعد بن جنادة، قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: إن الله زوجني في الجنة بنت عمران، و امرأة فرعون، و أخت موسي‘‘. ( الدر المنثور، سورة التحريم، ط: دار الكتب العلمية) 

Sunday, 17 November 2024

جاب کے مقام پر قصر یاپوری نماز پڑھیں

 اگر کوئی  شخص اپنے وطن سے سوا ستتر  کلو میٹر یا اس سے زیادہ   دور  ڈیوٹی  کے فرائض سرانجام دے رہا ہو  ،  تو وہ  اس کا وطنِ اصلی  تو نہیں،  البتہ اگر   اس کا  وہاں  کمرہ ہے اور  سامان ہے، نیز  اس  نے وہاں ایک مرتبہ 15 دن اور 15 راتیں  یا اس سے زیادہ  دن اقامت کی نیت سے رہا ہو تو وہ جگہ اس  کے لیے وطنِ اقامت  ہوجاتاہے،  اس لیے وہ شخص وہاں پوری نماز پڑھے گا، اور اگر  اس  شخص نے  وہاں  ایک مرتبہ بھی 15 دن  اور پندرہ راتیں  اقامت کی نیت سے نہیں رہا تو  وہ جگہ اس  کے لیے وطنِ اقامت نہیں ہوتا، لہذا  وہ  وہاں مسافر والی نماز یعنی قصر پڑھے گا۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں سائل کی جہاں  ڈیوٹی ہے، وہ  اس کے وطنِ اصلی سے   چوں کہ مسافت شرعی پر  ،اس لیے  وہاں مسافر والی نماز یعنی   قصر  پڑھے گا ،   البتہ سائل نے اگر   وہاں ایک مرتبہ 15 دن(چوبیس گھنٹے کے حساب سے) اقامت  کی نیت سے رہاہے  تو وہ جگہ  اس  کے لیے وطنِ اقامت ہے،  سائل  وہاں پوری نماز پڑھے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(من خرج من عمارة موضع إقامته) من جانب خروجه (قاصدًا) و لو كافرًا، ومن طاف الدنيا بلا قصد لم يقصر (مسيرة ثلاثة أيام ولياليها) من أقصر أيام السنة و لا(صلى الفرض الرباعي ركعتين) وجوبا لقول ابن عباس: إن الله فرض على لسان نبيكم صلاة المقيم أربعًا (حتى يدخل موضع مقامه)."

(کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ المسافر، ج:2، ص:122/ 123، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه..(قوله الوطن الأصلي) ويسمى بالأهلي ووطن الفطرة والقرار ح عن القهستاني...(قوله ويبطل وطن الإقامة) يسمى أيضا الوطن المستعار والحادث وهو ما خرج إليه بنية إقامة نصف شهر سواء كان بينه وبين الأصلي مسيرة السفر أو لا، وهذا رواية ابن سماعة عن محمد وعنه أن المسافة شرط والأول هو المختار عند الأكثرين قهستاني."

(کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ المسافر، ‌‌مطلب في الوطن الأصلي ووطن الإقامة، ج:2، ص:131، ط: سعید)