طلاق کے الفاظِ کنایہ سے مراد وہ الفاظ ہیں جو اصلاً طلاق کے لیے وضع نہ ہوں، بلکہ ان میں طلاق اور غیر طلاق دونوں کا احتمال ہو، ان الفاظِ کنائی سے طلاق واقع ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ طلاق کا معنی مراد لیا جائے، بعض الفاظ میں یہ معنی نیت ہی کے ذریعے مراد لیا جاتا ہے اور بسا اوقات مذاکرۂ طلاق، دلالتِ حال، عرف اور الفاظِ کنائی کے صریح بن جانے کی وجہ سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، الفاظِ کنائی بہت سارے ہیں، یہاں سب کا احاطہ و شمار ممکن نہیں ہے، البتہ کتب فقہ کی روشنی میں چند الفاظ اور حالتوں کے اعتبار سے حکم مندرجہ ذیل ہے:
حضراتِ فقہاء نے لکھا ہے کہ کنایہ کے طور پر جن الفاظ سے طلاق دی جاتی ہے وہ تین قسموں پر مشتمل ہیں:
1- وہ الفاظ جن میں طلاق کے معنی کا بھی احتمال ہے ، اور طلاق کے مطالبہ کو مسترد کرنے کا بھی احتمال ہے ، مثلاً : بیوی سے کہا کہ : ’’ تو گھر سے نکل جا ، تو یہاں سے چلی جا ، تو اُٹھ کھڑی ہو ، تو میرے سامنے سے ہٹ جا ، تو پردہ کرلے ‘‘ وغیرہ ، تو اِن الفاظ میں اگر شوہر طلاق کی نیت کرے تو وہ بھی مراد ہوسکتی ہے ، اور یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ شوہر محض دفع الوقتی کے لیے اُس کو اپنے سامنے سے ہٹانے کا حکم دے رہا ہے ۔
2-وہ الفاظ جن میں طلاق کے ساتھ ساتھ طعن وتشنیع کے معنی مراد لیے جاسکتے ہیں ، مثلاً بیوی سے کہا کہ : ’’ تو خالی ہے ، تو الگ تھلگ ہے، تو کسی کام کی نہیں ‘‘ وغیرہ ۔ تو اِن الفاظ میں طلاق بھی مراد ہوسکتی ہے، اور بیوی کی توہین وتحقیر بھی مراد لی جاسکتی ہے ۔
3- ایسے الفاظ جن میں نہ تو تردید مراد ہو ، اور نہ ہی طعن وتشنیع مراد ہو ؛ بلکہ زیادہ تر وہ الفاظ طلاق کے مطالبہ کے جواب میں استعمال کیے جاتے ہوں ، اگرچہ وہ طلاق کے لیے موضوع نہ ہوں ، مثلاً کہا کہ : ’’ میں نے تجھ کو جدا کردیا ‘‘ وغیرہ ۔ ( اِس قسم کی مثال میں فقہاء نے ’’ تو آزاد ہے ‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ بھی لکھے ہیں ، مگر اَب وہ عرف میں صرف طلاق کے لیے استعمال ہونے لگے ہیں ، اس لیے ان الفاظ سے بہرحال بلانیتِ طلاق کے وقوع کا حکم ہوگا ۔
آپ نے جو اپنی بیوی کو ”چلی جاؤ“ کہا میری طرف سے تم آزاد ہو کہاتو یہ طلاق کے کنایہ الفاظ میں سے ہے، اور اس سے طلاق واقع ہونے کے لیے طلاق کی نیت کرنا ضروری ہے، چوں کہ بیوی کو مذکورہ الفاظ کہتے ہوئے آپ کی نیت اگر طلاق دینے کی تھی توایک طلاق بائن واقع ہوگیی دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے ۔اور اگر طلاق دینے کی نیت نہیں تھی تو طلاق واقع نہیں ہوئی ، نکاح بدستور قائم ہے۔
اللباب في شرح الكتاب میں ہے:
والكنايات ثلاثة أقسام: قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح رداً ولا شتما، وهي ثلاثة ألفاظ: أمرك بيدك، اختاري، اعتدي، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا وشتما ولا يصلح رداً، وهي خمسة ألفاظ: خلية، برية، بتة، بائن، حرام، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا ورداً ولا يصلح سباً وشتما؛ وهي خمسة أيضا: اخرجي، اذهبي، اغربي، قومي، تقنعي، ومرادفها، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية، والقول قوله في عدم النية، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع بكل لفظ لا يصلح للرد وهو القسم الأول والثاني، وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث، ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل للجواب فقط وهو القسم الأول. كما في الإيضاح.
(3 / 44، کتاب الطلاق، ط؛ المکتبۃ العلمیہ)
زمانہ کو برا کہنا کیا ہے؟
ReplyDelete2. حضور ﷺ کے حاضر و ناظر ہونے کا عقیدہ کیا ہے؟
3. عقیدہ حاضر و ناظر کیا ہے؟
4. کیا اللہ تعالیٰ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے؟
5. حاضر و ناظر اور تقلب القلوب و بصیرہ کا کیا مطلب ہے؟