https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 16 October 2021

Killing of innocents in Afghanistan

  After two Shia mosques in Afghanistan were bombed in a span of one week killing hundreds of worshippers, Shia Muslim clerics in India have slammed the silence of Sunni clerics on the targeted killings which have increased after the war-torn country was taken over by the Taliban in August.

Speaking to on the phone, top Lucknow-based Shia cleric Kalbe Jawwad said: "No Sunni Muslim clerics have come out to condemn the killings. We have supported them when any such incident happens... And this is not happening for the first time but from the last 25 years.

"If the Sunni Ulema from India and Pakistan start condemning the killings, then such incidents will not happen. But their silence is tacit support to the killings."

He also alleged that the killings are result of a conspiracy by the US Israel, Saudi Arabia and Pakistan to wipe out the Shias since the past three decades.

The cleric added that the Islamic State (IS), Taliban and other terror organisations have been operating with the support of US Israel and Saudi Arabia

He said the Taliban has deceived the Shias by saying that everything will be normal and then cheated the community by killing them.

Another cleric from Mumbai, Maulana Ashraf Zaidi told over the phone that the incidents were condemnable and requested the Indian government to take the matter to UN.

"I request our government to take the persecutions of Shias in both Pakistan and Afghanistan to US as a sensitive country we should pay our attention on such incident."

The Islamic State (IS) terror group on Saturday claimed that its Khorasan branch (IS-K) carried out the twin bombings inside the Shia mosque in Kandahar a day ago, that claimed the lives of 63 people while injuring 83 others.

Friday's attack came exactly after a week when another Shia mosque in Kunduz city was hit by a suicide bombing which claimed the lives of at least 50 people.

The IS-K had claimed responsibility for the attack, which was the deadliest since the US forces left Afghanistan at the end of August.

استواء علی العرش کامفہوم

 قرآن کی بعض آیتوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے استواء علی العرش کو ثابت کیا گیا ہے ، اس کی اور اس جیسے متشابہات کی تفسیر میں اہل سنت والجماعت کے دو موقف ہیں۔ ایک موقف متقدمین کا ہے، جو کہ تنزیہ مع التفویض کے قائل ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نصوص میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے جو صفات بشریہ ثابت کی گئی ہیں، وہ ہم انسانوں کی صفات کی طرح نہیں ہے؛ بلکہ وہ صفات ذات باری تعالیٰ کے لیے ان کی شایان شان ثابت ہے، اور اس کی حقیقت وکیفیت بھی اللہ کو ہی معلوم ہے، چنانچہ ”استواء“ کے ہی متعلق ’شرح فقہ اکبر‘ میں امام مالک کا ایک جملہ نقل کیا گیا ہے، ”الإستواء معلوم والکیف مجہول، والسوال عنہ بدعة والإیمان بہ واجب“۔ (شرح فقہ اکبر: ۴۶، اشرفی دیوبند) کہ استواء تو یقینی ہے، کیفیت معلوم نہیں، اس کے متعلق کھود کرید بدعت ہے، اور اس پر ایمان رکھنا واجب ہے۔

دوسرا موقف متاخرین کا ہے، جو ’تنزیہ مع التاویل‘ کے قائل ہیں، یعنی اس طرح کی نصوص میں ایسی تاویل کرنا جو ذات باری تعالیٰ کی شایان شان ہو، البتہ نصوص میں وہ تاویلی معنی مراد لینے کی چند شرائط ہیں۔

(۱) لفظ میں وہ تاویلی معنی مراد لینے کی وسعت و گنجائش ہو۔

(۲) وہ معنی مرادی شان الوہیت کے منافی نہ ہو۔

(۳) وہ معنی کسی دوسری نص میں خدا تعالیٰ کے لیے ثابت ہو۔

(۴) اس معنی کو حتمی اور قطعی نہ سمجھا جائے، چنانچہ متاخرین ’استواء‘ والی آیات میں ’استواء‘ کی تاویل استیلاء سے کرتے ہیں۔ اسی کو ’المہند علی المضند‘ میں اس طرح تعبیر کیا ہے۔ ”وأما ما قال المتأخرون من أئمتنا في تلک الآیات یوٴولونہا بتأویلات صحیحة سائغة في اللغة والشرع بأنہ یمکن أن یکون المراد من الاستواء الاستیلاء ․․․․․ تقریباً إلی أفہام القاصرین، فحق ایضاً عندنا (المہند علی المضند: ۸/ رحیمیہ دیوبند)

خلاصہ یہ کہ اہل سنت والجماعت کے دونوں مسالک - مسلک تفویض اور مسلک تاویل - برحق ہیں، ان میں سے کسی کا بھی اعتقاد رکھنے والے کی تجہیل و تغلیط جائز نہیں، نیز یہ مسئلہ بڑا نازک ہے اس میں زیادہ غور و خوض نہیں کرنا چاہئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو جو مدینہ میں آکر متشابہات میں گفتگو کرتا تھا، اس کو سخت سزا دی تھی، اور جب وہ واپس اپنے وطن گیا تو حضرت ابو موسیٰ اشعری کو حکم بھیجا کہ کوئی مسلمان اس کے پاس بیٹھنے نہ پائے (سنن دارمی: ۱/۲۵۲، دارالمغنی، مکة المکرمہ۔ روح المعانی: ۳/۸۸، ملتان)

Wednesday 13 October 2021

سالی سے زنا کی صورت میں استبراء واجب ہے یا مستحب

 

زنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے خواہ کسی کے ساتھ ہو، لہٰذا سالی کے ساتھ زنا بھی کبیرہ گناہ ہے جس پر فوری طور پر توبہ و استغفار کرنا لازم ہے۔ نیز اجنبیہ کے ساتھ زنا کے جو احکام ہیں سالی سے زنا ثابت ہوجائے تو وہی احکام جاری ہوں گے، لہٰذا  اگر شرعی گواہوں یا اقرار زنا کی وجہ سے عدالت میں زنا ثابت ہوجائے تو قاضی ایسے شخص کو سنگسار کرنے کا پابند ہوگا۔ اسی طرح  اگر اس بدترین فعل کو جائز و حلال سمجھ کر کیا تو آیت قرآنی: (وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَيْنَ الأّخْتَيْن) کے انکار کی وجہ سے تجدیدِ ایمان و تجدید نکاح کرنا لازم ہوگا۔  بصورت دیگر سالی سے زنا کی وجہ سے بیوی سے نکاح ختم تو نہیں ہوگا، مگر جب تک سالی ایک ماہواری سے پاک نہ ہوجائے اس وقت تک اپنی بیوی سے ہمبستری کی شرعاً اجازت نہیں ہوگی، اور اگر سالی اس زنا کی وجہ سے حاملہ ہو گئی تو جب تک ولادت نہ ہوجائے زانی کے لیے  اپنی بیوی سے ہمبستری کی شرعاً اجازت نہ ہوگی۔ نیز آئندہ  ایسے شخص کے لیے  اپنی سالی سے پردہ کرنا ضروی ہوگا۔ 

واضح رہے کہ سالی سے زنا کرناانتہائی قبیح فعل، اور کبیرہ  گناہ کا ارتکاب  ہے، اس پر توبہ واستغفار لازم ہے، لیکن  سالی سے زنا کرنے سے بیوی حرام نہیں ہوتی، لیکن اس  کے استبراء یعنی  (اس ہمبستری کے بعد) ایک حیض گزرنے تک یاحاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل تک اپنی بیوی سے ہم بستری کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

وفي الخلاصة: وطئ أخت امرأته لا تحرم عليه امرأته

(قوله: وفي الخلاصة إلخ) هذا محترز التقييد بالأصول والفروع وقوله: لا يحرم أي لا تثبت حرمة المصاهرة، فالمعنى: لا تحرم حرمة مؤبدة، وإلا فتحرم إلى انقضاء عدة الموطوءة لو بشبهة قال في البحر: لو وطئ أخت امرأة بشبهة تحرم امرأته ما لم تنقض عدة ذات الشبهة، وفي الدراية عن الكامل لو زنى بإحدى الأختين لا يقرب الأخرى حتى تحيض الأخرى حيضة۔ واستشكله في الفتح ووجهه أنه لا اعتبار لماء الزاني ولذا لو زنت امرأة رجل لم تحرم عليه وجاز له وطؤها عقب الزنا. اهـ.(3/ 34، کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، ط: سعید)

علامہ شامی رحمہ اللہ نے  آخر میں  فتح سے یہ اشکال نقل کیا ہے کہ زانی کے پانی کا اعتبار نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ کوئی شخص منکوحہ سے نکاح کرلے تو  اس کا شوہر اس کے بعد فورا اس سے ہم بستری کرسکتا ہے۔

دراصل اس مسئلے  میں کہ مزنیہ کا استبراء واجب ہے یا مستحب ؟  تو احناف کے ہاں اس مسئلے میں دو قول ملتے ہیں ، ایک قول شامی میں نقل کیا گیا ہے کہ استبراء مستحب ہے ، یعنی :

 اذا زنی باخت امرأته او بعمتھا أو بنت اخیھا أو اختھا بلا شبھة فان الافضل ان لایطاء امراته حتی تستبرأ المزنیة۔۔۔۔الخ ۔شامی ج:۶،ص:۳۸۰ باب الاستبراء (طبع سعید)۔

اور یہی قول جامع الرموز للقھستانی، کتاب الکراھیۃ ،جج:۲،ص:۳۱۴ (طبع سعید)میں بھی مذکور ہے ۔(وکذا فی شرح الملتقی ،ص:۲۱۱ علی مجمع الانھار )۔

مگر ایک دوسرا قول استبراء کے واجب ہونے کا بھی ہے ، جو درایۃ عن الکامل کی عبارت : وفي الدراية عن الكامل لو زنى بإحدى الأختين لا يقرب الأخرى حتى تحيض الأخرى حيضة، کے علاوہ النتف فی الفتاویٰ ، کتاب النکاح ، ص:۱۸۹ (طبع دار الکتب العلمیۃ بیروت) میں یوں مذکور ہے :

والخامس عشر اذا وطأ ذات محرم من امرأته ممن لا يحرم عليه بزنا فانه لا يطأ امرأته حتى يستبرئ الموطوءة بحيضة لانه لا يحل له رحمان محرمان فيهما ماؤه۔ (النتف في الفتاوى للسغدي (1 / 294)

نيز مجمع الانهر ميں  علامه عبدالرحمن شیخی زادہ نے  صرف درایہ عن الکامل کی عبارت ذکر کی ہے ، اس پر کوئی اشکال وغیرہ ذکر نہیں فرمایا  اس سے معلوم ہوا کہ حنفیہ کے ہاں ایک قول استبراء کے واجب ہونے کا بھی ہے۔

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1 / 325):

وفي الدراية لو زنى بإحدى الأختين لا يقرب الأخرى حتى تحيض الأخرى بحيضة 

نیز  مصنف ابن ابی شیبہ میں  حضرت قتادہ سے بھی یہی منقول ہے، اور حنابلہ کا مسلک بھی یہی ہے، اور بالخصوص فروج کے معاملہ میں احتیاط کا پہلو مد نظر رکھا جاتا ہے، اس لیے ہمارے اکابرین نے اسی پر فتوی دیا ہے کہ احتیاطا ایک حیض کا  استبرا واجب ہے۔

مصنف ابن أبي شيبة (3 / 491):

"حدثنا أبو بكر قال: نا سعيد: قال قتادة: «لا يحرمها ذلك عليه، غير أنه لا يغشى امرأته، حتى تنقضي عدة التي زنى بها» "

الفقہ الاسلامی وأدلتہ ،ج:۷،ص:۱۶۵ (طبع دار الفکر دمشق):

"وان زنی الرجل بامرأة فلیس له أن یتزوج بأختھا حتی تنقضی عدتھا وحکم العدة من الزنا والعدة من وطء الشبھة كحكم العدة من النکاح"

فتاوی مفتی محمود میں ہے:

سالی  سے زنا سے زانی شخص پر اس کی بیوی حرام نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ جب تک مزنیہ کو ایک حیض نہ آئے  اس وقت تک اس کو منکوحہ بیوی سے الگ رہنا واجب ہے۔(4/560، ط: جمعیت پبلیشرز)۔

مدرسے کے دوبچوں پرحملہ :گاندھی کے گجرات میں

 گجرات کے پلاڈی علاقے کے ایک مقامی مدرسہ کے دو طلبہ کو اتور کی رات ہندوتوا ہجوم نے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایاہے۔ متاثرین شدید طور پر زخمی اور اسپتال میں زیر علاج ہیں

رپورٹس کے بموجب' 17سالہ عمر اور16سالہ خضر کو عوام کی کثیرتعداد کے سامنے مذکورہ ہجوم نے لات اور گھونسے رسید کئے ہیں۔عمرکے والد مفتی عبدالقیوم کے حوالے سے مکتوب میڈیا نے کہاکہ ہے کہ "حملہ آوروں نے انہیں محض اسلئے نشانہ بنایا کیونکہ وہ کرتا پاجاماں اور ٹوپی پہنے ہوئے تھے"۔

انہوں نے مزیدکہاکہ دونوں کو ان لوگوں نے بے رحمی کے ساتھ پیٹا جس کی وجہہ سے عمر نیم بہوشی کے عالم ہے اور خضر صدمہ کی وجہہ سے بات کرنے سے قاصر ہے۔

عمر کے ہاتھ توڑ دئے گئے اور اس کے سر پر بے رحمی کے ساتھ متواترمارا گیا اور اس کو شدید چوٹیں ائی ہیں وہیں خضر کے دونوں ہاتھو ں پر ٹانکے لگاے ہوئے ہیں۔ دونوں معصوم بتایاجارہا ہے کہ پلاڈی سے اسکوٹر پر گھر واپس لوٹ رہے تھے۔

ملک بھر میں نفرت پر مشتمل جرائم میں حال ہی میں اضافہ ہوا ہے بالخصوص ہندی بولی جانے والی ریاستو ں میں یہ تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔

وہیں کسی بھی قسم کا نفرت پر مشتمل جرم بلا جواز ہے' مذکورہ حملوں کی وجہہ سے ان جرائم کی پیش کردہ وجوہات قابل غور ہیں۔

یہ جرائم ہندوتوا دائیں بازو گروپس' یاتی نرسنگ آنند سرسوتی کے بھگت کے ممبرس انجام دے رہے ہیں' او ربعض معاملات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیاسی قائدین کی حملہ آوروں کو حمایت حاصل دیکھائی دے رہی ہے۔

حملہ آوروں کی جانب سے ان جرائم کی وجوہات میں ہندو خواتین کی حفاظت' مسلمانوں کے "ہندوؤں کی ملازمت" چھین لینے جیسے بے بنیاد دلائل جس کووہ "معاشی جہاد" قراردے رہے ہیں' اس میں شامل ہے۔

Tuesday 12 October 2021

جمعہ کی اذان ثانی کا حکم

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جمعہ کی ایک اذان ہوا کرتی تھی، اسی طرح حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں بھی جمعہ کے لیے  ایک ہی اذان ہوتی تھی اور یہ وہ اذان ہے جو آج کل دوسری اذان کہلاتی ہے،  یعنی جو اذان  مؤذن امام کے سامنے کھڑے ہو کر دیتا ہے۔

پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں  مجمع بڑھ گیا تو ایک اور اذان کی ضرورت محسوس کی گئی، جس کے لیے انہوں نے  "زوراء" نامی مقام سے اذان دینے کا حکم دیا، اور یہ وہ اذان ہے جو آج کل جمعہ کی پہلی اذان کہلاتی ہے،اور اس پر صحابہ میں سے کسی نے کوئی اشکال نہیں کیا، اس طرح اس اذان پر امت کا اجماع ہو گیا۔

جس طرح رسول اللہ ﷺکے احکامات کی تابع داری  لازم ہے، اسی طرح احادیثِ  مبارکہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بالخصوص خلفائے راشدین کی اتباع واقتدا  کا حکم دیاگیاہے، لہذا اجماعِ  صحابہ کی وجہ سے اس اذانِ  ثانی کااہتمام بھی لازم ہے، فقہاء نے لکھا ہے کہ اذان سنتِ مؤکدہ ہے جو  واجب کے قریب اور دین کے شعائر میں سے ہے، اس لیے اس اذانِ  ثانی کو ترک کرنا خلافِ  سنت و اجماعِ صحابہ ہوگا۔

جمعہ کے دن خطبہ سے پہلے جو اذان دی جاتی ہے یہی اذان اول ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے چلی آرہی ہے، پھر جب اسلامی فتوحات زیادہ ہوئیں اور لوگ اسلام میں کثرت سے داخل ہوئے تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں پہلی والی اذان کا صحابہٴ کرام کے مشورہ سے اضافہ کیا گیا، اور اس لیے کیا گیا کہ خطبہ والی اذان سن کر سب لوگ خطبہ میں شریک نہیں ہوپاتے تھے، کثرت تعداد کی وجہ سے۔ پھر جب یہ پہلی اذان کا اضافہ ہوا تو لوگ اذان سن کر جمعہ کے لیے آتے آتے خطبہ سے پہلے تک سارا مجمع اکٹھا ہوجاتا اور اطمینان سے سب کو خطبہ اور جمعہ پڑھنے کا موقع ملنے لگا۔ اب اصل اذان غائبین کو بلانے کے لیے یہی پہلی اذان متعین ہوگئی اور خطبہ کی اذان حاضرین کو اطلاع دینے کے لیے متعین ہوئی کہ اب خطبہ ہونے والا ہے، سب لوگ تیار ہوجائیں خطبہ سننے کے لیے۔ 

الاختیار لتعلیل المختارمیں ہے :

"باب الأذان:وهو في اللغة : مطلق الإعلام ، قال تعالى : ) وأذان من الله ورسوله ( [ التوبة : 3 ] ؛وفي الشرع : الإعلام بوقت الصلاة بألفاظ معلومة مأثورة على صفة مخصوصة، وهو سنةمحكمة . قال أبو حنيفة في قوم صلوا في المصر بجماعة بغير أذان وإقامة : خالفوا السنةوأثموا ، وقيل هو واجب لقول محمد : لو اجتمع أهل بلد على ترك الأذان لقاتلتهم، وذلك إنما يكون على الواجب ، والجمع بين القولين أن السنة المؤكدة كالواجب في الإثم بتركها ،وإنما يقاتل على تركه لأنه من خصائص الإسلام وشعائره ." (1/46)

البحرالرائق میں ہے :

"( قوله : سن للفرائض ) أي سن الأذان للصلوات الخمس والجمعة سنة مؤكدة قوية قريبة من الواجب حتى أطلق بعضهم عليه الوجوب ولهذا قال محمد لو اجتمع أهل بلد على تركه قاتلناهم عليه وعند أبي يوسف يحبسون ويضربون وهو يدل على تأكده لا على وجوبه ؛ لأن المقاتلة لما يلزم من الاجتماع على تركه من استخفافهم بالدين بخفض أعلامه ؛ لأن الأذان من إعلام الدين كذلك واختار في فتح القدير وجوبه ؛ لأن عدم الترك مرة دليل الوجوب ولا يظهر كونه على الكفاية وإلا لم يأثم أهل بلدة بالاجتماع على تركه إذا قام به غيرهم ولم يضربوا ولم يحبسوا واستشهد على ذلك بما في معراج الدراية عن أبي حنيفة وأبي يوسف صلوا في الحضر الظهر أو العصر بلا أذان ولا إقامة أخطئوا السنة وأثموا. والجواب أن المواظبة المقرونة بعدم الترك مرة لما اقترنت بعدم الإنكار على من لم يفعله كانت دليل السنية لا الوجوب كما صرح به في فتح القدير في باب الاعتكاف". (3/10)

ارشاد الفحول للشوکانی میں ہے:

"البحث السابع: حكم إجماع الصحابة:إجماع الصحابة حجة بلا خلاف....وقد ذهب إلى اختصاص حجية الإجماع بإجماع الصحابة داود الظاهري، وهو ظاهر كلام ابن حبان في صحيحه، وهذا هو المشهور عن الإمام أحمد بن حنبل فإنه قال في رواية أبي داود عنه: الإجماع أن يتبع ما جاء عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وعن أصحابه، وهو في التابعين مخير.وقال أبو حنيفة: إذا أجمعت الصحابة على شيء سلمنا". (1/217)

العرف الشذی میں ہے :

"وأيضاً في الحديث : "عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين ..." إلخ وفي شرح هذا الحديث قولان ، قيل : إن سنة الخلفاء والطريقة المسلوكة عنهم أيضاً سنة وليس ببدعة وقيل: إن سنة الخلفاء في الواقع سنة النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وإنما ظهرت على أيديهم ، ويمكن لنا أن نقول : إن الخلفاء الراشدين مجازون في إجراء المصالح المرسلة  وهذه المرتبة فوق مرتبة الاجتهاد ، وتحت مرتبة التشريع ، والمصالح المرسلة : الحكم على اعتبار علة لم يثبت اعتبارها من الشارع ، وهذا جائز للخلفاء الراشدين لا للمجتهدين". (2/69)

وفیہ ایضاً :

"أقول : إن سنة الخلفاء الراشدين أيضاً تكون سنة الشريعة؛ لما في الأصول أن السنة سنة الخلفاء وسنته، وقد صح في الحديث :"عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين".(2/294)

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

 انڈیا کے وزیر داخلہ اور حکمراں جماعت بی جے پی کے مرکزی رہنما امت شاہ کا وزیر اعظم نریندر مودی کو 'انڈیا کا آج تک کے سب سے بڑا جمہوریت پسند رہنما' کہنا لوگوں کو پسند آیا یا نہیں لیکن اس حوالے سے سوشل میڈیا پر لطائف کی ایک جھڑی سی لگ گئی ہے۔

اور اس کے پس پشت سابق ٹینس لیجنڈ مارٹینا نورا ٹیلووا رہیں جنھوں نے اس بیان کو طنز کا نشانہ بناتے ہوئے موضوع بحث بنا دیا۔

امریکی سابق ٹینس سٹار مارٹینا نوراٹیلووا نے ہندوستان ٹائمز کی اس کے متعلق ایک خبر کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا: 'اور میرے اگلے لطیفے کے لیے۔۔۔' اور اس کے ساتھ انھوں نے دو ایموجی کا استعمال کیا۔ پہلا ایموجی حیرت و استعجاب کی علامت ہے جبکہ دوسری جوکر کی۔

عام طور پر سٹینڈ اپ کامیڈین جب اپنا سب سے اہم لطیفہ یا لطیفے کا حصہ سناتے ہیں تو اس سے پہلے اس قسم کا 'اینڈ فار مائی نیکسٹ جوک' فقرہ کستے ہیں۔

اس خبر میں امت شاہ نے وزیر اعظم مودی کے متعلق کہا ہے کہ 'وزیر اعظم نریندر مودی ڈکٹیٹر نہیں ہیں، بلکہ آج تک انڈیا نے ان سے زیادہ جمہوریت پسند لیڈر کبھی نہیں دیکھا۔'

امت شاہ نے یہ باتیں سنسد (پارلیمنٹ) ٹی وی پر مودی کے 20 سالہ عوامی کیریئر پر بولتے ہوئے ایک انٹرویو میں کہیں۔

بہر حال تین دہائیوں تک ٹینس کی دنیا پر راج کرنے والی مارٹینا نوراٹیلووا اس سے قبل بھی انڈیا کے متعلق ٹویٹ کر چکی ہیں۔ سنہ 2016 میں انھوں نے نیویارک ٹائمز کی خبر کو ٹویٹ کرتے ہوئے انڈیا کے معروف ادارے جے این یو میں بعض طلبہ پر غداری کے الزامات پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے 'بلوئنگ ایٹ بیسٹ' یعنی 'ہراساں کرنے کی بہترین مثال' قرار دیا تھا جبکہ گذشتہ سال انڈین وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ٹرمپ کو بھی اپنے ایک ٹویٹ میں نشانہ بنایا تھا۔

مارٹینا کا تازہ ٹویٹ اور اس پر رد عمل

بہت سے صارفین نے جہاں نوراٹیلووا کا شکریہ ادا کیا وہیں بہت سے لوگوں نے انھیں متنبہ کیا کہ انھیں بھی اداکارہ ریحانہ کی طرح ٹرول کا سامنا ہو سکتا ہے۔ خیال رہے کہ امریکی گلوکارہ اور اداکارہ ریحانہ نے انڈیا میں جاری کسان تحریک کی حمایت میں ٹویٹ کیا تھا۔

اے ایف پی کے صحافی عزیر رضوی نے مارٹینا کے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے لکھا: 'مارٹینا اب انڈیا کے دائیں بازو کا نشانہ بنیں گی۔ وہ اب غیر ملکی مشہور شخصیات کی فہرست میں آ گئی ہیں جنھیں انڈیا اور امریکہ میں دائیں بازو کی جانب سے ٹرول کا سامنا ہوتا ہے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ کچھ ایسا ہی یا کچھ مختلف؟'

اس کے جواب میں مارٹینا نے لکھا: 'یہاں بھی بالکل ویسا ہی دائیں بازو کے ٹرولز کی طرح ہے۔ میرے خیال سے یہ سب ایک ہی سکول میں جاتے ہیں۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔'

مارٹینا کے ٹویٹ کے جواب میں سدھیر بھاٹیا نامی ایک شخص نے لکھا کہ 'کاموں میں فنا ایک ایسے شخص کے بارے میں آپ کیا جانتی ہیں جس نے گذشتہ 21 برسوں میں کبھی ایک دن کی چھٹی بھی نہ لی ہو اور کبھی بیمار بھی نہ پڑا ہو؟'

یہاں یہ امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ بھی طنز کر رہے ہیں یا پھر وزیر اعظم مودی کی تعریف یا بات کچھ اور ہے۔

جبکہ اینگمیٹک مائنڈ نامی صارف نے ایک ہی شخص کی چار تصاویر مختلف انداز میں ڈال کر میم کے طور پر شیئر کیا اور لکھا کہ 'ابھی آئی ٹی سیل۔۔۔' یعنی ابھی بی جے پی کا آئی ٹی سیل یہ پتا لگانے کی کوشش کرہا ہے کہ آیا مارٹینا کے والدین مسلم تو نہیں؟ آیا اسے پاکستان سے فنڈ تو نہیں کیا جارہا ہے؟ قوم کے خلاف کوئی بیان تو نہیں دیا؟ مارٹینا کا کوئی ہندو مخالف بیان۔'

ملومک1 نامی ایک صارف نے لکھا کہ 'مارٹینا نوراٹیلووا نے مودی کے خلاف ایک ایس ماری ہے۔ چیپیئن تو چیمپیئن ہی ہوتا ہے۔'

تینڈولکر اور کوہلی بھی نشانہ بنے

بہت سے صارفین نے لکھا کہ مارٹینا نے درست کہا لیکن کیا اب 'مودی بھکت' اسے انڈیا کے اندرونی معاملے میں مداخلت نہیں کہیں گے۔

ایک صارف نے نوراٹیلووا، مودی اور امت شاہ کی تصاویر ڈال کر لکھا کہ اسے کہتے ہیں 'بین الاقوامی قدر شناسی'۔

جبکہ انڈیا کے معروف سیاست داں اور کانگریس رہنما دگ وجے سنگھ نے لکھا: 'مودی جی مبارک ہو۔ اب آپ اپنے 'جمہوری' اقدار کے لیے عالمی سطح پر مشہور ہیں!

شکریہ مارٹینا۔ آپ کے چبھتے ہوئے طنز کے لیے۔'

واضح رہے کہ انڈیا میں مودی کے حمایتی انھیں عالمی سطح پر انڈیا کا نام بلند کرنے والے اور مقبول ترین رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

چنانچہ اسی سلسلے میں گذشتہ دنوں جب وہ امریکہ کے دورے پر تھے تو نیویارک ٹائمز کے سرورق کی ایک فیک تصویر شیئر کی گئی جس میں انھیں دنیا کا مقبول ترین رہنما بتانے کی کوشش کی گئی لیکن اس کا بہت زیادہ مذاق اڑایا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

بہت سے صارفین نے نوراٹیلووا کے ٹویٹ کے بہانے سچن تنڈولکر اور وراٹ کوہلی کا بھی ذکر کیا۔ صحافی سواتی چترویدی نے لکھا: 'ہوشیار ڈاکٹر جے شنکر (انڈیا کے وزیر خارجہ) سچن تینڈولکر اور وراٹ کوہلی کو جگائیں۔۔ اسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔'

اسی طرح ستیش بی نامی ایک صارف نے لکھا: 'مجھے انتظار ہے کہ کب تینڈولکر اور کوہلی مارٹینا کو بتائیں گے کہ یہ انڈیا کا 'اندرونی معاملہ' ہے اور کسی باہری کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔'

خیال رہے کہ ریحانہ کے کسان کی بات کرنے والے ٹویٹ کے جواب میں تینڈولکر اور کوہلی کے علاوہ اداکارہ کنگنا راناوت اور اداکار اکشے کمار نے اسے 'انڈیا کا اندرونی معاملہ' کہا تھا۔

ٹویٹر پر صارفین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کا کہنا ہے کہ نوراٹیلووا انڈیا کے بارے میں کچھ نہیں جانتیں۔ اس لیے وہ 'خود مذاق' ہیں۔

دوسری جانب بہت سے صارف انڈیا میں مودی کے حمایتیوں کو کم علم بتاتے رہتے ہیں۔ اس معاملے میں بھی بہت سے صارفین نے مذاق اڑاتے ہوئے لکھا ہے کہ اب بھکت لوگ گوگل پر مارٹینا کے بارے میں تلاش کر رہے ہوں گے۔ کسی نے لکھا کہ وہ مارٹینا کا مسلم کنکشن کی تلاش میں ہوں گے تو کسی نے لکھا کہ کہیں اب وہ 'بائیکاٹ مارٹینی' نہ ٹرینڈ کرانے لگیں۔ واضح رہے کہ مارٹینی دنیا میں مشہور کاک ٹیل ہے اور شراب کے دلدادہ اسے اپنی اپنی پسند کے اعتبار سے بناتے ہیں۔

جوائے نامی ایک صارف نے اس کے متعلق متواتر ٹویٹس کیے۔ ایک میں انھوں نے لکھا کہ انھیں مارٹینا ہنگس پر رحم آ رہا ہے کیونکہ بھکت اب مودی پر کمنٹس کے لیے مارٹینا نوراٹیلووا کے نام پر انھیں ٹرول کریں گے۔'

ایک صارف نے امت شاہ اور مودی کی ایک تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ تیاری تو شاہ رخ کی تھی لیکن یہ نصاب سے باہر کا سوال مارٹینا نوراٹیلووا کہاں سے آ گیا۔

ٹویٹر پر ایک مشہور طنز نگار اور حکومت پر تنقید کرنے والے 'رافیل گاندھی' نامی ایک پیروڈی صارف نے سچن تینڈولکر کی تصویر لگا کر لکھتا ہے: 'آؤ بھگوان جی، اپنا اندرونی پنڈورا کھولیں۔۔۔' خیال رہے کہ انڈیا میں تینڈولکر کو کرکٹ کا خدا مانا جاتا ہے جبکہ حال میں ان کا نام پنڈورا پیپرز کے معاملے میں بھی سامنے آيا ہے۔

کچھ لوگ مارٹینا کی کنیت کو ہندوؤں کے تہوار نوراتری کے ساتھ جوڑ کر طعنہ بھی دے رہے ہیں۔

مارٹینا نوراٹیلووا کون ہیں؟

سنہ 1956 میں پیدا ہونے والی مارٹینا نوراٹیلووا ٹینس کی دنیا کا ایک بڑا نام ہیں۔

نوراٹیلووا نے سنہ 1978 سے 1990 تک نو مرتبہ ومبلڈن ویمنز سنگلز خطاب جیتا۔ وہ چار بار یو ایس اوپن، تین بار آسٹریلین اوپن اور دو بار فرنچ اوپن بھی جیت چکی ہیں۔

مارٹینا نوراٹیلووا نے مجموعی طور پر 18 گرینڈ سلیم کا سنگل ٹائٹل جیتا ہے جبکہ وہ ریکارڈ 31 مرتبہ گرینڈ سلیم ٹورنامنٹس میں خواتین ڈبلز ٹائٹل بھی جیت چکی ہیں۔ اس کے ساتھ وہ دس بار گرینڈ سلیم کے مکسڈ ڈبلز بھی جیت چکی ہیں۔ مجموعی طور پر سنگلز میں وہ ریکارڈ 167 ٹائٹلز، ڈبلز میں 177 اور مکسڈ ڈبلز میں 10 ٹائٹل جیت چکی ہیں۔

ڈبلیو ٹی اے ٹینس ویب سائٹ کے مطابق مارٹینا ایک ایماندار، بہادر اور متنازع خاتون سمجھی جاتی ہیں۔

مارٹینا ہم جنس پرستوں کے حقوق کے بارے میں بھی بحث و مباحثے کا حصہ رہی ہیں۔ تاہم ایک بار مارٹینا نے خواتین کے زمرے میں ٹرانس جینڈر کھلاڑیوں کو کھلانا دھوکہ قرار دیا تھا۔

اس معاملے پر مارٹینا کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور بعد میں انھوں نے معافی بھی مانگ لی تھی۔ مارٹینا غریب بچوں کی مدد، جانوروں کے حقوق، ماحولیات جیسے مسائل پر سرگرم رہتی ہے۔

source: bbc.com/urdu


زانی ومزنیہ کی اولاد کا با ہم نکاح درست ہے کہ نہیں

 زنا کی وجہ سے زنا کرنے والے کے اصول و فروع (باپ دادا اور بیٹے پوتے) مزنیہ (جس سے زنا کیا گیا ہو) پر حرام ہو جاتے ہیں، اسی طرح مزنیہ کے اصول و فروع زانی  (زنا کرنے والے) پر حرام ہو جاتے ہیں، ان دونوں (زانی اور مزنیہ)  میں سے کسی ایک کے اصول و فروع دوسرے کے اصول و فروع  پر حرام نہیں ہوتے۔

لہذا دونوں کی اولاد کا باہم نکاح جائز ہے، بشرطیکہ کوئی اور وجہ حرمت (مثلاً رضاعت) نہ ہو۔ 

البحر الرائق (3/ 108):

                 "ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها."

زانی ومزنیہ کی اولاد کا با ہم نکاح جائز ہے یا نہیں

 

مزنیہ کے بیٹے سے اپنی بیٹی کا نکاح کرانا


سوال

ایک شخص جس کی اہلیہ کا انتقال ہو چکا ہے، اہلیہ کے انتقال کے بعد اس شخص کے اپنی اہلیہ کی بڑی بہن یعنی بڑی سالی کے ساتھ ناجائز تعلقات رہ چکے ہیں، یہاں تک کہ دونوں بدکاری کے مرتکب بھی ہو چکے ہیں، اب خاندان والے اس شخص کی بیٹی کا رشتہ اس کی سالی (جس کے ساتھ ناجائز تعلقات رہ چکے ہیں) کے بیٹے کے ساتھ کرنا چاہ رہے ہیں، تو سوال یہ ہے کہ کیا ان دونوں کے ناجائر تعلقات کا اثر ان کے بچوں کے رشتے پر پڑسکتا ہے؟ کیا دونوں کے بچے ایک دوسرے کے لیے حرام تو نہیں ہیں؟

جواب

مذکورہ شخص کی بیٹی کا نکاح مذکورہ عورت کے بیٹے کے ساتھ  کرنا جائز ہے۔

''لا باس بأن يتزوج الرجل امرأةً و يتزوج ابنه ابنتها أو أمها، كذا في محيط السرخسي''·

(الفتاوى الهندية ۱/ ۲۷۷

Monday 11 October 2021

زبردستی کی وجہ سے طلاق نامہ پر دستخط کرنا

 اگر زور زبردستی سے مراد  ماں یا بھائی  وغیرہ کی طرف سے اخلاقی دباؤ  یا بہت زیادہ اصرار اور بار بار مطالبہ ہے، (جیساکہ سوال کے ظاہر سے معلوم ہورہاہے) اس کی وجہ سے تنگ آکر ، نہ چاہتے ہوئے طلاق دے دی تو اس صورت میں طلاق نامے پر دستخط کرنے یا طلاق کے الفاظ لکھنے سے بھی طلاق واقع ہوجائے گی، چاہے زبان سے طلاق کے الفاظ نہ کہے ہوں۔

البتہ اگر زور زبردستی سے مراد یہ ہے کہ طلاق نہ دینے کی صورت میں جان سے مارنے یا کسی عضو کے تلف کرنے کی دھمکی دی ہو اور غالب گمان یہ ہو کہ طلاق نہ دینے کی صورت میں دھمکی دینے والا واقعۃً ایسا کرگزرے گا، اس صورت میں اگر اس نے زبان سے طلاق کے الفاظ کہہ دیے تو طلاق واقع ہوجائے گی

لمافی الدر المختار:

(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل)ولو تقديرابدائع ليدخل السكران ( ولو عبدا أو مكرها ) فإن طلاقه صحيح لا إقراره بالطلاق...
ولو استکتب من آخر کتابًا بطلاقہا الخ، وقع إن أقر الزوج أنہ کتابہ۔

(کتاب الطلاق)

، لیکن اگر زبان سے طلاق کے الفاظ نہیں کہے،بلکہ صرف طلاق کے الفاظ لکھے یا لکھے ہوئے طلاق نامہ پر دستخط کیے تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی

الدر المختار (6/ 129):
(وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني 
(خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آخر) كإتلاف مال الغير(أو لحق الشرع) كشرب الخمر والزنا.
حاشية ابن عابدين (3/ 236):
في البحر …… لو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لا طلاق ولا عتاق فی اغلاق.

’’جبر واکرہ سے نہ طلاق ہوتی ہے نہ مملوک کی آزادی‘‘

  1. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2 : 217، رقم : 2803، دارالکتب العلمية بيروت، سن اشاعت 1990ء
  2. ابن ماجه، السنن، 1 : 660، رقم : 2046، دارالفکر بيروت
  3. بيهقي، السنن الکبری، 7 : 357، رقم : 14874، مکتبة دارالباز مکة المکرمة، سن اشاعت 1994ء
  4. دارقطني، السنن، 4 : 36، رقم : 99، دارالمعرفة. بيروت، سن اشاعت 1966ء
  5. ابن ابي شيبة، المصنف، 4 : 83، رقم : 18038، مکتبة الرشد الرياض، سن اشاعت 1409ه

رجل اکره بالضرب والحبس علی أن يکتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان ابن فلان فکتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق.

’’کسی شخص کو مارپیٹ اور حبس (قید) کے ذریعہ، اپنی بیوی کو تحریری طلاق پر مجبور کیا گیا، کہ فلاں دختر فلاں ابن فلاں کو طلاق اس نے لکھ دیا کہ فلاں عورت فلاں بن فلاں کی بیوی کو طلاق اس کی بیوی کو طلاق نہ ہو گی‘‘

  1. فتاوی قاضی خان علی هامش عالمگيري، 1 : 472، طبع بلوچستان بکدپو، کوئته
  2. زين الدين ابن نجيم الحنفي، غمز عيون البصائر، 3 : 447، دار الکتب العلمية لبنان، بيروت، سن اشاعت1985ء

لو أکره علی أن يکتب طلاق امرأته فکتب لا تطلق.

’’اگر کسی کو مجبور کیا گیا کہ طلاق لکھے اور اس نے لکھ دی تو طلاق نہیں ہو گی‘‘

  1. زين الدين ابن نجيم الحنفي، البحرالرائق، 3 : 264، دارالمعرفة بيروت
  2. شامي، حاشية ابن عابدين، 3 : 236، دارالفکر للطباعة والنشر، بيروت

علامہ شامی فرماتے ہیں :

کل کتاب لم يکتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقرّانّه کتابه.

’’ہر تحریر جو خاوندنے نہ اپنے ہاتھ سے لکھی، نہ خود لکھوائی، اس سے طلاق واقع نہ ہوگی جب تک اقرار نہ کرے کہ یہ تحریر اسی کی ہے‘‘

ابن عابدين، ردالمحتار شامي، 3 : 247

طلاق مکرہ, وقوع وعدم وقوع کے دلائل

 مجبوری (اِكراه) کی طلاق

الإکراه لغوی طور پر :یہ أکَرِهَ یَکرَه سے مصدر ہے۔ یعنی کسی کوایسے کام کے کرنے یا چھوڑنے پر مجبور کیا جائے جس کو وہ ناپسند کرتا ہو۔ اصلاً یہ کلمہ رضا اور پسند کی مخالفت پر دلالت کر تا ہے ۔ امام فرا کہتے ہیں:
یقال أقامني على کره ــ بالفتح ــ إذا أکرهك علیه إلىٰ أن قال: فیصیر الکره بالفتح فعل المضطر (اللسان:٥؍٣٨٦٥)
’’کہا جاتا ہے مجھے مجبور کیا گیا۔ یعنی جب یہ فتحہ کے ساتھ ہوتو اس سے مراد مجبور شخص کا فعل ہو گا۔‘‘
اکراہ کی اصطلاحی تعریف :
’’انسان کاایساکام کرنا یاکوئی ایسا کام چھوڑنا جس کے لیے وہ راضی نہ ہو۔ اگر اسے مجبور کیے بغیر آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ ایسا نہ کرے۔‘‘
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اکراہ سے مراد آدمی کا کوئی ایسا کام کرنا ہے جو وہ کسی دوسرے کے لیے انجام دیتا ہے۔(معجم لغة الفقهاء:ص٨٥)
مختلف اعتبار سے اِکراہ کی متعدد اقسام ہیں۔اِکراہ اقوال میں بھی ہو سکتا ہے اور افعال میں بھی۔جہاں تک افعال کا تعلق ہے تو اس کی بھی دو اقسام ہیں: مجبور اور غیر مجبور۔
اَقوال میں اکراہ
علماے کرام نے اقوال میں جبر کی صحت کو تسلیم کیا اور اس پر اتفاق کیا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ جو شخص حرام قول پر مجبور کیا جائے، اُس پر جبر معتبر مانا جائے گا۔اسے وہ حرام بات کہ کر اپنے آپپ کو چھڑانا جائزہے اور اس پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ زبردستی کا تصور تمام اقوال میں پایا جاتا ہے ،لہٰذا جب کوئی شخص کسی بات کے کہنے پر مجبور کر دیا جائے تو اس پر کوئی حکم مرتب نہیں ہو گا اور وہ لغو جائے گا۔
تاہم اس ضمن میں اگر ادلہ شرعیہ کا جائزہ لیا جائے تو عدم تفریق کا قول زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ فرمانِ عالی شان ہے:
’’اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَىِٕنٌّۢ بِالْاِيْمَانِ‘‘(النحل:١٠٦)
’’مگر یہ کہ وہ مجبور کیاگیا ہو اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔‘‘
امام شافعی اس کے متعلق فرماتے ہیں: 
إن اﷲ سبحانه وتعالىٰ لما وضع الکفر عمن تلفظ به حال الکراه أسقط عنه أحکام الکفر، کذٰلك سقط عن المکره ما دون الکفر لإن الأعظم إذا سقط سقط ما هو دونه من باب أولىٰ (الام:٣،٢٧٠)
’’ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حالتِ اکراہ میں کلمۂ کفر کہنے میں رخصت عنایت کی ہے اور اس سےکفریہ احکام ساقط کیے ہیں، بالکل اسی طرح کفر کے علاوہ دیگر چیزیں بھی مجبور سے ساقط ہوجائیں گی، کیونکہ جب بڑا گناہ ساقط ہوگیا تو چھوٹے گناہ تو بالاولیٰ ساقط ہوجائیں گے۔‘‘ 
سیدنا عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«إن اﷲ وضع عن أمتي الخطأ والنسیان وما استُکرهوا علیه» (سنن ابن ماجہ:٢٠٤٥)
’’اللہ تعالیٰ نے میری اُمت سے خطا و نسیان اورمجبوری سے کیے جانے والے کام معاف کر دئیے ہیں۔‘‘
ابن قیم الجوزیہ کہتے ہیں:’’ مکرہ کی کسی کلام کا کوئی اعتبار نہیں ہے، قرآنِ کریم بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ جو شخص کلمۂ کفر کہنے پر مجبور کیاجائے، وہ کافر نہیں ہو گا اور اسی طرح جو اسلام کے لیے مجبور کیاجائے، اسے مسلمان بھی تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ سنت میں بھی واضح اشارہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجبور شخص سے تجاوز کیا ہے اور اس کو مؤاخذے سے بری قرار دیا ہے……اس کے بعد امام ابن قیم اقوال اور افعال میں اکراہ کے مابین فرق بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’اَقوال میں اکراہ اور افعال میں اکراہ کے مابین فرق یہ ہے کہ افعال کے وقوع پذیر ہو جانے کے بعد اس کے مفاسد کا خاتمہ ناممکن ہے۔ جبکہ اقوال کے مفاسد کو سوئے ہوئے اور مجنون پر قیاس کرتے ہوئے دور کیا جا سکتا ہے۔‘‘(زاد المعاد:٥؍٢٠٥،٢٠٦)
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اکراہ (جبر) کی ایک تقسیم درست اور غیر درست کے اعتبار سے بھی کی گئی ہے۔غیر درست اکراہ تو وہ ہے کہ جس میں ظلم و زیادتی سے کوئی بات منوائی گئی ہو۔ جبکہ درست اِکراہ یہ ہے کہ جس میں حاکم کسی شخص کو اپنا مال بیچنے پر مجبور کرے تاکہ وہ اس سے اپنا قرض ادا کرے۔(جامع العلوم والحکم: ص٣٧٧)
یا وہ ایلاء کرنے والے کو طلاق دینے پر مجبور کرے جب کہ وہ رجوع کرنے سے انکا رکرے۔ 
اکراہ کی شرائط
اہل علم نے اکراہ کی درج ذیل شرائط کا تذکرہ کیا ہے:
١۔اکراہ اس شخص کی طرف سے ہو گا جو صاحب قدرت ہو جیسے حکمران۔
٢۔مجبور کو ظن غال ہو کہ اکر میں نے اس کی بات نہ مانی تو یہ وعید اور اپنی دھمکی کو نافذ کر دے گا اور مجبور اس سے بچنے یا بھاگنے سے عاجز ہو۔
٣۔اکراہ ایسی چیز سے ہو جس سے مجبور کو نقصان پہنچنے کا ڈر ہو۔(شرح الکبیر:٢؍٣٦٧)
ان شروط پر مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ نے اتفاق کا اظہار کیا ہے۔ البتہ ان میں سے کچھ لوگوں نے چند دیگر شرائط کا اضافہ بھی کیا ہے۔ ظاہر بات یہ ہے کہ اکراہ کی تحدید حاکم اور مفتی کے ساتھ خاص کی جائے گی اور انہی کے ثابت کردہ اکراہ کا اعتبار کیا جائے گا۔کیونکہ یہ لوگوں کے احوال کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔(الکفایة:٨؍١٦٨)
اکراہ کی صورت میں وقوع ِ طلاق
اس تحریر میں مجبوری کی طلاق کو موضوعِ بحث بنانے کا مقصد اس قضیے کا حل ہے کہ ایسی طلاق وقوع پذیرہوتی ہے یا نہیں؟
امام مالک، شافعی،احمد اور داؤد ظاہری ﷭ کے نزدیک ایسی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ یہی قول عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، ابن عمر، ابن زبیر، ابن عباس اور دیگر کثیر جماعت کا ہے۔ جبکہ امام ابوحنیفہ اور ان کے صاحبین نے اس طلاق کے وقوع کا موقف اختیار کیاہے اور یہی موقف شعبی، نخعی اور ثوری ﷭ کا بھی ہے۔(الکفایة والعنایة:٣؍٣٤٤)
سبب ِاختلاف یہ ہے کہ مجبور کیا جانے والا مختار ہے یا نہیں؟ کیونکہ طلاق کے الفاظ بولنے والے کا ارادہ تو طلاق دینے کا نہیں ہوتا اور وہ تو اپنے تئیں دو برائیوں میں سے کم تر برائی کو اختیار کر رہا ہوتا ہے اور وہ مجبور کرنے والے کی وعید سے بچنے کے لیے طلاق دینے کو اختیار کر لیتا ہے ۔
اَحناف کے دلائل
١۔نصب الرایة میں ہے کہ ایک آدمی سو رہا تھا کہ اس کی بیوی نے چھری پکڑ کر اس کے گلے پر رکھی اور دھمکی دی کہ تو مجھے طلاق دے، ورنہ میں تیرا کام تمام کردوں گی۔ اس شخص نے اسے اللہ کا واسطہ دیا لیکن وہ نہ مانی۔لہٰذا اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ پھر وہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضرہوا۔ اور تمام ماجرا بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا:
«لاقیلولة في الطلاق» (نصب الرایة:٣؍٢٢٢) ’’طلاق میں کوئی فسخ نہیں ہے۔‘‘
٢۔ابوہریرہ سے روایت ہے: 
«ثلاث جدهن جد، وهزلهن جد: النکاح والطلاق والرجعة» (سنن ترمذی: ١١٨٤)
’’تین چیزوں کی سنجیدگی بھی سنجیدگی ہے اور مذاق بھی سنجیدگی ہے۔ نکاح، طلاق اور رجوع۔‘‘
اَحناف اس حدیث سے اس طرح استدلال کرتے ہیں کہ مذاق کرنے والے کا مقصد تو وقوعِ طلاق نہیں ہوتا بلکہ اس نے فقط لفظ کا ارادہ کیا ہوتا ہے۔ اس کی طلاق کا واقع ہونا واضح کرتا ہے کہ مجرد لفظ کا بھی اعتبار کیا جائے گا۔ اس طرح مجبور کو بھی مذاق کرنے والے پر قیاس کیا جائے گا، کیونکہ دونوں کا مقصود لفظ ہوتا ہے ،معنیٰ مراد نہیں ہوتا۔(فتح القدیر:٣؍٣٤٤)
٣۔حضرت عمر سے مروی ہے: 
أربع مبهمات مقفولات لیس فیهن رد: النکاح والطلاق، والعتاق والصدقة (ايضاً)
’’چار مبہم چیزیں بند کی ہوئی ان میں واپسی نہیں ہو سکتی:نکاح،طلاق، آزادی اور صدقہ‘‘
٤۔ایک حدیث حضرت حذیفہؓ اور ان کے والدِ گرامی سے متعلق ہے جب ان دونوں سے مشرکین نے نہ لڑنے کا حلف لیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: 
«نفى لهم بعهدهم ونستعین اﷲ علیهم» (صحیح مسلم:١٧٨٧)
’’ ہم ان سے معاہدہ پورا کریں گے اور اللہ سے ان کے خلاف مدد مانگیں گے۔‘‘
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ قسم حالت اکراہ اور غیر اکراہ میں برابرہے۔لہٰذا مجرد لفظ کے ساتھ کسی حکم کی نفی کے لیے اکراہ کو معتبر نہیں مانا جائے گا۔ جیسا کہ طلاق۔(فتح القدیر:٣؍٣٤٤)
٥۔اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مکلّف کی طرف سے ایسے محل میں طلاق ہے جس کا وہ مالک ہے لہٰذا اس پر غیر مجبور کی طلاق کے احکام مرتب ہوں گے۔(الهدایة: ٣؍٣٤٤)
دلائل کا جائزہ
١۔سب سے پہلے نقل کی جانے والی حدیث: لا قیلولة في الطلاق ضعیف ہے۔ امام ابن حزم اس کے متعلق فرماتے ہیں : ’’هٰذا خبر في غایة السقوط‘‘(المحلیٰ:١٠؍٣٠٤) لہٰذا اس سے استدلال بھی ساقط ہوا۔
٢۔اور جو«ثلاث جدهن جد…» سے استدلال کرتے ہوئے مکرہ کو مذاق کرنے والے پر قیاس کیاگیا ہے تو یہ قیاس درست نہیں ہے۔(تہذیب السنن لابن القیم:٦؍١٨٨)
کیونکہ مجبور شخص نہ تو لفظ کا ارادہ کرتا ہے اور نہ اس کے سبب کا وہ تو لفظ کے بولنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے ،اگرچہ قصد پر مجبور نہیں ہوتا جب کہ مذاق کرنے والا تو لفظ طلاق اپنے اختیار سے بولتا ہے اگرچہ اس کے سبب کا قصد نہیں کرتا۔لہذا جو شخص اپنے اختیار سے سبب کو اختیار کرے اس پر تو مسبب لازم ہو جائے گا،جیسے مذاق کرنے والا ہے ،لیکن مجبور نہ تو لفظ کا ا رادہ کرتا ہے نہ اس کے سبب کا تو اسے مذاق کرنے والے پر کیسے قیاس کیا جا سکتا ہے؟
٣۔ذکر کردہ حضرت عمرؓ کا قول ہمیں نہیں ملا۔ اگر ہم اس کی صحت کا اعتبار کر بھی لیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب طلاق واقع ہوجائے گی تو پھر دوبارہ لوٹناممکن نہیں رہے گا جبکہ مکرہ کی طلاق تو واقع ہی نہیں ہوئی۔ وہ تو مجبوری کی بنا پر صرف اور صرف لفظ بول رہا ہے۔تاکہ وہ مجبور کرنے والے سے بچ سکےجب کہ حضرت عمرکے متعلق صحیح روایت سے ثابت ہے کہ اُنہوں نے مکرہ کی طلاق کو لغو قرار دیا۔(زاد المعاد:٥؍٢٠٦ تا ٢٠٩)
٤۔اور جو حضرت حذیفہ اور ان کے والد کا واقعہ سامنے رکھتے ہوئے طلاق کو قسم پر قیاس کیا گیا ہے اور ان دونوں کومجرد لفظ کے ساتھ متعلق کیا گیاہے۔
تو اس کا جواب بھی یہ ہے کہ یہ قیاس درست نہیں ہے، کیونکہ طلاق میں صرف لفظ کا اعتبار نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے لیے متکلم کا ارادہ اور اس کے مدلولات کا علم ضروری ہے، کیونکہ شارع نے سوئے ہوئے، بھولنے والے اور پاگل کی طلاق کو واقع نہیں کیا ۔(ایضاً:٥؍٢٠٤،٢٠٥) 
اس سے یقیناً ان دونوں کے مابین فرق نظر آتا ہے لہٰذا یہ قیاس مع الفارق ہے۔
٥۔اس سے استدلال کہ یہ طلاق مکلّف کی طرف سے ایسے محل میں ہے جس کا وہ مالک ہے لہٰذا اس کی طلاق کی تنفیذ اسی طرح ہوگی جس طرح غیر مکرہ کی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ہم اس سے ملتے جلتے دیگر دلائل کا جائزہ لے چکے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکرہ کو غیر مکرہ پر قیاس کرنا کسی طوربھی مناسب نہیں ہے۔اس کی تردید دوسرے قول کے دلائل سے بھی ہو جائے گی جو ہم ذکر کرنے والے ہیں۔
مجبوری کی طلاق کے غیر معتبر ہونےپر جمہورکے دلائل
١۔حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو کہتے ہوئے سنا:
«لا طلاق ولا عتاق في غلاق» (مسند احمد:٦؍٢٧٦)
’’زبردستی کی کوئی طلاق اور آزادی نہیں ہے۔‘‘
اور اِکراہ زبردستی میں شامل ہے، کیونکہ مجبورومکرہ شخص تصرف کا حق کھو بیٹھتاہے۔
٢۔حضرت علی ؓسے موقوفاً روایت ہے:
’’کل طلاق جائز إلا طلاق المعتوه والمكره‘‘(سنن ترمذی : ١١٩١)
’’دیوانے اور مكره کے سوا ہرایک کی طلاق جائز ہے۔‘‘
٣۔صحیح بخاری میں حضرت عبداللہؓ بن عباس کا قول ہے:
’’طلاق السکران والمستکره لیس بجائز‘‘(صحیح بخاری، ترجمة الباب : باب الطلاق فی الغلاق)
’’مجبوری اور نشے کی حالت میں طلاق جائز نہیں ہے۔‘‘
٤۔ثابت بن احنف نے عبدالرحمٰن بن زید بن خطاب کی اُمّ ولد سے نکاح کرلیا۔ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عبدالرحمن بن زید بن خطاب نے مجھے بلایا۔میں اُن کے ہاں آیا تو وہاں دو غلام کوڑے اور زنجیریں پکڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ اُس نے مجھ سے کہا: تو نے میرے باپ کی اُمّ ولد سے میری رضا کے بغیر نکاح کیاہے۔ میں تجھے موت کے گھاٹ اُتار دوں گا۔ پھر کہنے لگا: تو طلاق دیتا ہے یا میں کچھ کروں؟ تومیں نے کہا: ہزار بار طلاق۔ میں اس کے ہاں سے نکل کرعبداللہ بن عمر ؓکے پاس آیا اور سارا ماجرا بیان کیا تو آپ نے فرمایا: یہ طلاق نہیں ہے، اپنی بیوی کے پاس چلا جا۔ پھر میں عبداللہ بن زبیر کے پاس آیا تو اُنہوں نے بھی یہی فرمایا۔(مؤطا امام مالک، کتاب الطلاق، باب جامع الطلاق: ١٢٤٥)
٥۔چونکہ یہ قول زبردستی منوایا جاتا ہے، اس لیے یہ کوئی تاثیر نہیں رکھتا۔ جیسا کہ مجبوری کی حالت میں کلمۂ کفر کہنا۔(المغنی:١٠؍٣٥١، زادالمعاد:٥؍٢٠٤)
بیان کردہ عمومی دلائل سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ مکرہ کی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
راجح موقف
بیان کردہ دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ مکرہ کی طلاق کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ جمہور کے موقف کو ترجیح دینے کی درج ذیل وجوہات ہیں:
١۔جمہور کے دلائل کا قوی ہونا۔
٢۔احناف کے دلائل کا کمزور ہونا،کیونکہ ان پر اعتراضات وارد ہوئے ہیں۔
٣۔یہی موقف اُصولِ شریعہ اور قواعد کے زیادہ قریب ہے، کیونکہ اس سے بہت سی خرابیوں کا رد ہو جاتا ہے ۔ شیخ احمد دہلوی کہتے ہیں:
’’اگر مکرہ کی طلاق کو طلاق شمار کیا جائے تو اس سے زبردستی کا دروازہ کھل جائے گا اور بعید نہیں ہے کہ کوئی طاقتور اسی دروازہ سے کمزور کی بیوی کو چھین لے۔ جب بھی اس کے دل کو کوئی خاتون بھلی لگے، وہ تلوار کے زور پر زبردستی طلاق دلوائے گا۔ لیکن جب اس قسم کی اُمیدوں کا سدباب کر دیا جائے گا تو لوگ ان مظالم سے بچے رہیں گے جو اکراہ کی وجہ سے پیش آسکتے ہیں۔‘‘(حجۃ البالغۃ:2؍138)
بہت سے محققین اسی موقف کے حامل نظر آتے ہیں، ان میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ(مجموع الفتاویٰ:٣٣؍١١٠)، ابن قیم (زادالمعاد: ٥؍٣٠٤)، امام شوکانی(نیل الاوطار:٦؍٢٦٥) اور نواب صدیق بن حسن قنوجی(الروضة الندیة:٢؍٤٢) شامل ہیں۔