https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 12 October 2021

جمعہ کی اذان ثانی کا حکم

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جمعہ کی ایک اذان ہوا کرتی تھی، اسی طرح حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں بھی جمعہ کے لیے  ایک ہی اذان ہوتی تھی اور یہ وہ اذان ہے جو آج کل دوسری اذان کہلاتی ہے،  یعنی جو اذان  مؤذن امام کے سامنے کھڑے ہو کر دیتا ہے۔

پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں  مجمع بڑھ گیا تو ایک اور اذان کی ضرورت محسوس کی گئی، جس کے لیے انہوں نے  "زوراء" نامی مقام سے اذان دینے کا حکم دیا، اور یہ وہ اذان ہے جو آج کل جمعہ کی پہلی اذان کہلاتی ہے،اور اس پر صحابہ میں سے کسی نے کوئی اشکال نہیں کیا، اس طرح اس اذان پر امت کا اجماع ہو گیا۔

جس طرح رسول اللہ ﷺکے احکامات کی تابع داری  لازم ہے، اسی طرح احادیثِ  مبارکہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بالخصوص خلفائے راشدین کی اتباع واقتدا  کا حکم دیاگیاہے، لہذا اجماعِ  صحابہ کی وجہ سے اس اذانِ  ثانی کااہتمام بھی لازم ہے، فقہاء نے لکھا ہے کہ اذان سنتِ مؤکدہ ہے جو  واجب کے قریب اور دین کے شعائر میں سے ہے، اس لیے اس اذانِ  ثانی کو ترک کرنا خلافِ  سنت و اجماعِ صحابہ ہوگا۔

جمعہ کے دن خطبہ سے پہلے جو اذان دی جاتی ہے یہی اذان اول ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے چلی آرہی ہے، پھر جب اسلامی فتوحات زیادہ ہوئیں اور لوگ اسلام میں کثرت سے داخل ہوئے تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں پہلی والی اذان کا صحابہٴ کرام کے مشورہ سے اضافہ کیا گیا، اور اس لیے کیا گیا کہ خطبہ والی اذان سن کر سب لوگ خطبہ میں شریک نہیں ہوپاتے تھے، کثرت تعداد کی وجہ سے۔ پھر جب یہ پہلی اذان کا اضافہ ہوا تو لوگ اذان سن کر جمعہ کے لیے آتے آتے خطبہ سے پہلے تک سارا مجمع اکٹھا ہوجاتا اور اطمینان سے سب کو خطبہ اور جمعہ پڑھنے کا موقع ملنے لگا۔ اب اصل اذان غائبین کو بلانے کے لیے یہی پہلی اذان متعین ہوگئی اور خطبہ کی اذان حاضرین کو اطلاع دینے کے لیے متعین ہوئی کہ اب خطبہ ہونے والا ہے، سب لوگ تیار ہوجائیں خطبہ سننے کے لیے۔ 

الاختیار لتعلیل المختارمیں ہے :

"باب الأذان:وهو في اللغة : مطلق الإعلام ، قال تعالى : ) وأذان من الله ورسوله ( [ التوبة : 3 ] ؛وفي الشرع : الإعلام بوقت الصلاة بألفاظ معلومة مأثورة على صفة مخصوصة، وهو سنةمحكمة . قال أبو حنيفة في قوم صلوا في المصر بجماعة بغير أذان وإقامة : خالفوا السنةوأثموا ، وقيل هو واجب لقول محمد : لو اجتمع أهل بلد على ترك الأذان لقاتلتهم، وذلك إنما يكون على الواجب ، والجمع بين القولين أن السنة المؤكدة كالواجب في الإثم بتركها ،وإنما يقاتل على تركه لأنه من خصائص الإسلام وشعائره ." (1/46)

البحرالرائق میں ہے :

"( قوله : سن للفرائض ) أي سن الأذان للصلوات الخمس والجمعة سنة مؤكدة قوية قريبة من الواجب حتى أطلق بعضهم عليه الوجوب ولهذا قال محمد لو اجتمع أهل بلد على تركه قاتلناهم عليه وعند أبي يوسف يحبسون ويضربون وهو يدل على تأكده لا على وجوبه ؛ لأن المقاتلة لما يلزم من الاجتماع على تركه من استخفافهم بالدين بخفض أعلامه ؛ لأن الأذان من إعلام الدين كذلك واختار في فتح القدير وجوبه ؛ لأن عدم الترك مرة دليل الوجوب ولا يظهر كونه على الكفاية وإلا لم يأثم أهل بلدة بالاجتماع على تركه إذا قام به غيرهم ولم يضربوا ولم يحبسوا واستشهد على ذلك بما في معراج الدراية عن أبي حنيفة وأبي يوسف صلوا في الحضر الظهر أو العصر بلا أذان ولا إقامة أخطئوا السنة وأثموا. والجواب أن المواظبة المقرونة بعدم الترك مرة لما اقترنت بعدم الإنكار على من لم يفعله كانت دليل السنية لا الوجوب كما صرح به في فتح القدير في باب الاعتكاف". (3/10)

ارشاد الفحول للشوکانی میں ہے:

"البحث السابع: حكم إجماع الصحابة:إجماع الصحابة حجة بلا خلاف....وقد ذهب إلى اختصاص حجية الإجماع بإجماع الصحابة داود الظاهري، وهو ظاهر كلام ابن حبان في صحيحه، وهذا هو المشهور عن الإمام أحمد بن حنبل فإنه قال في رواية أبي داود عنه: الإجماع أن يتبع ما جاء عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وعن أصحابه، وهو في التابعين مخير.وقال أبو حنيفة: إذا أجمعت الصحابة على شيء سلمنا". (1/217)

العرف الشذی میں ہے :

"وأيضاً في الحديث : "عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين ..." إلخ وفي شرح هذا الحديث قولان ، قيل : إن سنة الخلفاء والطريقة المسلوكة عنهم أيضاً سنة وليس ببدعة وقيل: إن سنة الخلفاء في الواقع سنة النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وإنما ظهرت على أيديهم ، ويمكن لنا أن نقول : إن الخلفاء الراشدين مجازون في إجراء المصالح المرسلة  وهذه المرتبة فوق مرتبة الاجتهاد ، وتحت مرتبة التشريع ، والمصالح المرسلة : الحكم على اعتبار علة لم يثبت اعتبارها من الشارع ، وهذا جائز للخلفاء الراشدين لا للمجتهدين". (2/69)

وفیہ ایضاً :

"أقول : إن سنة الخلفاء الراشدين أيضاً تكون سنة الشريعة؛ لما في الأصول أن السنة سنة الخلفاء وسنته، وقد صح في الحديث :"عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين".(2/294)

3 comments: