https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 5 January 2024

واللہ اعلم

  فتوی نویسی کے آداب میں سے ہے کہ فتوی لکھنے والے کی نظر اپنی کم علمی اور کوتاہی کے امکان پر ہو چنانچہ صحابۂ کرام کے دور سے سلف صالحین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ دینی مسئلہ بتانے کے بعد اپنے علم کی کمی اور اپنے بتائے ہوئے مسئلے میں خطا کے امکان کا اظہار فرمایا کرتے تھے، کیوں کہ انسانوں میں سےانبیاء علیہم السلام کے علاوہ کوئی غلطی سے خالی اور مبرا  نہیں۔

صفة الفتوى"  میں ہے :

"وأكثر من يفتي يقول الجواب وبالله التوفيق وحذف ذلك آخرون والأولى أن يكتب فيما طال من المسائل ويحذف فيما سوى ذلك ويختم الجواب بقوله وبالله التوفيق أو والله الموفق أو والله أعلم وكان بعض السلف يقول إذا أفتى إن كان صوابا فمن الله وإن كان خطأ فمني

وقد قال أبو بكر الصديق رضي الله عنه في الكلالة أقول فيها برأيي فإن كان صوابا فمن الله وإن كان خطأ فمني ومن الشيطان والله ورسوله بريئان منه الكلالة من لا ولد له ولا والد."

(ص 59، المكتب الإسلامي - بيروت)

حدیث وسنت کا فرق

 مختلف فنون واصطلاحات میں سنت کے مختلف معانی ہیں، جو حسب ذیل ہیں:

الف: فقہ میں احناف کے نزدیک سنت کا اطلاق اس حکم پر ہوتا ہے جو فرض اور واجب کے مقابلہ میں ہو۔اور شوافع وغیرہ کے نزدیک وہ حکم ہے جو فرض کے مقابلہ میں ہو؛ کیوں کہ ان حضرات کے نزدیک واجب کا کوئی درجہ نہیں ہے۔

ب:کبھی سنت کا اطلاق بدعت کے مقابل میں ہوتا ہے، اس وقت اس کے مصداق میں کل شریعت داخل ہوگی۔

ج: اصولیین کے نزدیک سنت کا اطلاق حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر شدہ ان اقوال وافعال پر ہوتا ہے جو تشریع کا پہلو رکھتے ہوں۔

د: عام محدثین کی اصطلاح میں حدیث اور سنت دونوں مترادف (ہم معنی) ہیں، یعنی: حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہر چیز حدیث اور سنت ہے خواہ وہ آپ کا قول، فعل یا تقریر ہو، یا آپ کے اختیاری یا غیر اختیاری اوصاف ہوں، نیز نبوت سے پہلے کے احوال ہوں یا بعد کے، یہ سب حدیث و سنت ہیں۔

قال أبو بکر رحمہ اللہ: سنة النبي صلی اللہ علیہ وسلم ما فعلہ أو قالہ لیقتدی بہ فیہ ویداوم علیہ، وھو مأخوذ من سنن الطریق، وھي جادتہ التي یکون المرور فیھا (الفصول في أصول الفقہ، ۳: ۲۳۵)، قال أبو بکر: وأحکام السنة علی ثلاثة أنحاء: فرض وواجب وندب، ولیس یکاد یطلق علی المباح لفظ السنة؛ لأنا قد بینا أن معنی السنة أن یفعل أو یقول لیقتدی بہ فیہ ویداوم علیہ ویستحق بہ الثواب وذلک معدوم في قسم المباح۔(المصدر السابق،ص: ۲۳۶)، (وفي الأصول: قولہ علیہ السلام وفعلہ وتقریرہ) مما لیس من الأمور الطبیعیة، وکأنہ لم یذکرہ للعلم بہ (التقریر والتحبیر، ۲: ۲۸۸، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، (وفي) اصطلاح (الأصول: قولہ) علیہ السلام (وفعلہ وتقریرہ) مما لیس من الأمور الطبیعیة، لم یذکر ھذا القید للعلم بأنھا من الأدلة الشرعیة، والأمور المذکورة لیست منھا( تیسیر التحریر، ۳: ۱۹، ۲۰)، و-السنة- فی الأدلة ما صدر عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ سلم من غیر القرآن من قول أو فعل أو تقریر، وھذا ھو المقصود بالبحث عنہ في ھذا العلم (إرشاد الفحول للشوکاني، ص: ۱۸۶)، وقد تطلق علی ما صدر عن الرسول من الأدلة الشرعیة مما لیس بمتلو ولا ھو معجز ولا داخل في المعجز، وھذا النوع ھو المقصود بالبیان ھھنا، ویدخل في ذلک أقوال النبي صلی اللہ علیہ وسلم وأفعالہ وتقاریرہ (الإحکام في أصول الأحکام للآمدي، ۱: ۲۲۷، ط: دار الصمیعي للنشر والتوزیع، الریاض)، قال الأسنوي: ”وفی الاصطلاح تطلق علی ما یقابل الفرض وعلی ما صدر من النبي صلی اللہ علیہ وسلم من الأفعال والأقوال التي لیست للإعجاز، وھذا ھو المراد ھنا“:أقول: الأول اصطلاح الفقہاء من الشافعیة والمالکیة والحنابلة، وأما اصطلاح الحنفیة فھي ما قابل الفرض والواجب، وأما الثاني فھو اصطلاح الأصولیین وھو المراد ھنا؛ لأن الأصولیین إنما یبحثون عن الأدلة، والدلیل في ھذا لا في الأول؛ بل ھو حکم أخذ من فعلہ صلی اللہ علیہ وسلم ولو واظب علیہ ولم یتوعد علی ترکہ (نھایة السول في شرح منھاج الأصول، ۳: ۵)، وانظر أفعال الرسول للأشقر (۱:۱۸- ۲۰ ) والوضع في الحدیث (ص: ۱۴- ۱۸) أیضاً۔

فقہ اسلامی

 فقہ کی اہمیت کااندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ اس کی ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے خود قرآن کریم نے اس عظیم مقصدکے لیے ایک مستقل جماعت کی تشکیل کو ناگزیر قراردیا ہے، چنانچہ سورۃ التوبہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: 

’’وَمَاکَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَافَّۃً ط فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَائِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی   الدِّیْنِ   وَ لِیُنْذِرُوْا  قَوْمَھُمْ   اِذَا  رَجَعُوْٓا   اِلَیْھِمْ   لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ۔‘‘ 
’’اور مومنین کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ سب کے سب (جہاد کے لیے)نکل پڑیں، ایسا کیوں نہ ہوکہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے، تاکہ وہ (ادھر رہنے والے) دین میں سمجھ بوجھ حاصل کریں اور جب وہ (جہاد کے لیے جانے والے) ان کی طرف واپس لوٹ آئیں تو انہیں ڈرائیں،تاکہ وہ بچتے رہیں۔‘‘
اس کامنشا یہ ہے کہ دین کی دو بنیادی ضروریات ہیں: ایک غلبۂ دین اور دوسری فہم دین،اور یہ طے شدہ امر ہے کہ غلبۂ دین کا مدار فہمِ دین پر ہے، اس لیے باری تعالی نے تاکیدفرمائی کہ ایک جماعت غلبۂ دین کے سلسلہ میںجہاد کے لیے نکل پڑے اور دوسری فہمِ قرآن وسنت کے لیے اپنے مقام پر ہی رہے، تاکہ دین کے دونوں شعبے جاری رہیں۔

فقیہ کا مقام ومرتبہ

علم فقہ کی افادیت کے پیش نظراس محبوب مشغلہ کے لیے اپنی حیاتِ مستعار کے قیمتی لمحات وقف کرنے والے خوش نصیب افراد کو بہت سے فضائل ومناقب سے نوازا گیا ہے۔ سورۃ البقرہ میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ أُوْتِیَ خَیْرًاکَثِیْرًا‘‘        (البقرۃ:۲۶۹)
’’جس شخص کو حکمت عطا کی گئی اس کو بہت زیادہ بھلائی عطا کی گئی۔‘‘ 
حکمت کی تفسیر میں مفسرین کے متعدداقوال ہیں: ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ: اس سے فقہ مراد ہے۔ گویاکہ باری تعالیٰ کی نظر میں سب سے زیادہ اس کی بھلائیوں اورخوبیوں کو سمیٹنے والاشخص فقیہ ہے۔ صحیح بخاری ، کتاب العلم میں حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ  کی روایت سے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: ’’مَنْ یُّرِدِ اللہُ بِہٖ خَیْرًا یُّفَقِّہْہُ فِيْ الدِّیْنِ‘‘ ... ’’جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں، اسے دین کی سمجھ عطا فرمادیتے ہیں۔‘‘اس کے علاوہ کتب احادیث میں ’’أبواب العلم‘‘ کے تحت محدثین نے فقہاء کرام اوراہلِ علم کے فضائل ومناقب میں سینکڑوں احادیث نقل کی ہیں۔ 

حاصل کلام

ان تمام تر تفصیلات کی روشنی میںیہ بات واضح ہوگئی کہ فروعی مسائل کی تحقیق وتخریج کوئی معمولی اور آسان کام نہیںکہ ہر کس ونا کس اس مشغلے میں لگ جائے اور جمہور کے متفقہ مسائل سے انحراف کرکے اُمت کو نئی راہ پرلگادے ۔اجتہاد کی صلاحیت اوراستنباط کے ملکہ سے محروم شخص کے بس کایہ کام ہے اور نہ اسے اس لق ودق صحراء میں قدم رکھناچاہیے۔’’جس کاکام اسی کوساجھے‘‘ کے قاعدے پرعمل کرتے ہوئے یہ کام فقہاء کرام کے سپردکرناچاہیے، جو اس فن کے ماہر اور رموزِ شریعت کے شناور ہیں، ورنہ شریعت کے معاملے میںخودرائی سے ہدایت کی بجائے گمراہی پھیلنے کااندیشہ بلکہ یقین کامل ہے۔ ابن جوزی ؒنے ’’تلبیس ابلیس‘‘میںایک عامل بالحدیث کا واقعہ تحریر کیا ہے کہ وہ جب بھی استنجے سے فارغ ہوکر آتا بغیر وضوکیے وتر کی نیت باندھ لیتا۔ اس کی وجہ پوچھی گئی توکہنے لگا کہ میںنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث ’’مَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْیُوْتِرْ‘‘ (جوشخص استنجا کرے اس کوچاہیے کہ وترپڑھے) پر عمل کرتا ہوں، حالانکہ اس حدیث میں ’’فَلْیُوْتِرْ‘‘ سے مرادوتر پڑھنا نہیں، بلکہ طاق عدد میں ڈھیلے استعمال کرنا ہے۔ایک اورشخص کاواقعہ لکھاکہ وہ اپنے کنویں سے کسی دوسرے کو کھیت میں پانی نہیں لگانے دیتا تھا،وجہ پوچھنے پر اس نے بتایاکہ میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث ’’لَایَسْقِیْ أحَدُکُمْ مَاءَہٗ زَرْعَ غَیْرِہٖ‘‘ (کوئی شخص اپنے پانی سے کسی دوسرے کی کھیتی کوسیراب نہ کرے) پر عمل کرتا ہوں، حالانکہ اس حدیث میں ’’مَاء‘‘ سے مراد منی اور ’’زَرْع‘‘ سے مراد شرمگاہ ہے، مطلب حدیث پاک کا یہ ہے کوئی شخص دوسرے کی باندی سے صحبت نہ کرے۔ یقیناً یہ غلطی اس کوخودرائی کی وجہ سے لگی، اگر کسی ماہرِشریعت سے راہنمائی حاصل کرلیتاتوحدیث کے اصل مرجع اور مقصد تک پہنچ جاتا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کواکابر واسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے اور ان کے فہم کے مطابق قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

Thursday 4 January 2024

حلق یاقصر کی مقدار

 عمرے یا حج کے احرام سے نکلنے کے لیے  آخری عمل  ’’حلق‘‘ یا ’’قصر ‘‘ ہے، افضل یہ ہے کہ مرد حضرات پورے سر کے بال منڈوائیں اسے ’’حلق‘‘  کہاجاتاہے۔اوراگر کوئی شخص حلق نہیں کروانا چاہتا تو  کم از کم چوتھائی سر کے بال ایک پورے کی مقدار قصر کرنا (کاٹنا) ضروری ہے، سر کےجس حصے سے بھی چوتھائی سر کی مقدار ایک پورے کے بقدر بال کاٹ دیے تو احرام سے حلال ہوجائے گا۔ البتہ قصر کی صورت میں بھی بہتر یہ ہے کہ پورے سر کے بال کم از کم ایک پورے  کے برابر کاٹے۔  چوتھائی سر سے کم اور ایک پورے  کی لمبائی سے کم مقدار بال کاٹنا عمرہ یا حج کے احرام سے حلال ہونے کے لیے کافی نہیں ہوگا؛  لہٰذا اگر کسی مرد کے بال پہلے سے ایک پورے سے چھوٹے ہوں تو ایسی صورت میں قصر کی اجازت نہیں ہوگی، بہر صورت حلق ہی کرانا ہوگا۔ 

واضح رہے کہ مردوں کے لیے قصر (یعنی بال کتروانے) کے مقابلہ میں حلق (یعنی پورے سر کے بال منڈوانا) زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اپنے سرمبارک کا حلق فرماکر ارشاد فرمایا:"رحم اللّٰه المحلقین"، یعنی اللہ تعالیٰ سر منڈانے والوں پر رحم فرمائیں، توصحابہ نے عرض کیا کہ: ’’اے اللہ کے رسول! سر کے بال کتروانے والوں پر بھی رحمت ہو‘‘، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی فرمایاکہ: "رحم اللّٰه المحلقین"، تو صحابہ نے دوبارہ مقصرین یعنی کتروانے والوں کے لیے دعا کی درخواست کی، مگر آپ نے تیسری مرتبہ بھی حلق کرنے والوں ہی کے لیے دعا فرمائی اور چوتھی مرتبہ میں مقصرین کو دعا میں شامل فرمایا۔

(صحیح البخاري، باب الحلق والتقصير عند الإحلال.2/213)

اور خواتین کے لیے بہرصورت یہ حکم ہے کہ وہ حج یا عمرے کے احرام سے حلال ہونے کے لیے سرکے بالوں کا قصر کریں، یعنی ایک پورے کے برابر کاٹ لیں، اگر کسی خاتون نے کم از کم چوتھائی سر کے بال ایک پورے کے بقدر کاٹ لیے تو وہ احرام سے حلال ہوجائے گی

مسبوق امام کے ساتھ سلام پھیردے

 مسبوق اگر بھول کر امام کے ساتھ ایک طرف سلام پھیر دے اور پھر فوراً  یاد آجانے پر کھڑے ہوکر اپنی بقیہ رکعت پوری کرلے تو اس پر سجدہ سہو واجب ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ اگر اس نے بھولے سے سلام امام کے ساتھ  متصلاً پھیرا تھا، یعنی اس کے سلام کہنے کے الفاظ امام کے بالکل ساتھ ساتھ ادا ہوئے تھے، الفاظ کی ادائیگی میں امام کے مقابلے میں ذرا سی بھی تاخیر نہیں ہوئی تھی (اگرچہ عام طور سے ایسا ہونا بہت مشکل یا شاذ و نادر ہے) تو اس صورت میں اس پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا۔

لیکن اگر مسبوق نے امام کے بالکل ساتھ متصلاً ایک طرف سلام نہ پھیرا ہو، بلکہ اس کے لفظ ’’السلام‘‘ کہنے میں امام سے ذرا سی بھی تاخیر ہوئی ہو ( جیسا کہ عام طور سے ہوتا ہے) تو اس صورت میں بقیہ رکعات پوری کرنے کے بعد آخر میں سجدہ سہو کرنا اس پر لازم ہے، اسی طرح اگر مسبوق نے بھولے سے دونوں طرف سلام پھیر دیا اور یاد آنے پر اگر اس نے نماز کے منافی کوئی کام نہ کیا ہو تو  کھڑے ہوکر بقیہ رکعات ادا کرلے اور آخر میں سجدہ سہو کرلے تو نماز ادا ہوجائے گی۔

البتہ اگر مسبوق نے جان بوجھ کر امام کے ساتھ سلام پھیرا ہو، یا یہ سمجھتے ہوئے سلام پھیرا کہ اس پر امام کے ساتھ سلام پھیرنا لازم ہے تو اس صورت میں اس کی نماز باطل ہوجائے گی، دوبارہ پڑھنا ضروری ہوگا۔

اور جن صورتوں میں سہواً امام کے ساتھ سلام پھیرنے کی وجہ سے مسبوق پر سجدہ سہو لازم ہوتا ہے اگر اس نے سجدہ سہو نہ کیا تو اس نماز کے  وقت کے اندر وہ نماز واجب الاعادہ ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قَوْلُهُ: وَالْمَسْبُوقُ يَسْجُدُ مَعَ إمَامِهِ) ... فَإِنْ سَلَّمَ فَإِنْ كَانَ عَامِدًا فَسَدَتْ وَإِلَّا لَا، وَلَا سُجُودَ عَلَيْهِ إنْ سَلَّمَ سَهْوًا قَبْلَ الْإِمَامِ أَوْ مَعَهُ؛ وَإِنْ سَلَّمَ بَعْدَهُ لَزِمَهُ لِكَوْنِهِ  مُنْفَرِدًا حِينَئِذٍ، بَحْرٌ، وَأَرَادَ بِالْمَعِيَّةِ الْمُقَارَنَةَ وَهُوَ نَادِرُ الْوُقُوعِ، كَمَا فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ. وَفِيهِ: وَلَوْ سَلَّمَ عَلَى ظَنِّ أَنَّ عَلَيْهِ أَنْ يُسَلِّمَ فَهُوَ سَلَامُ عَمْدٍ يَمْنَعُ الْبِنَاءَ". ( باب سجود السهو، ٢/ ٨٢ - ٨٣)

الدر المختار میں ہے:

"وَلَوْ سَلَّمَ سَاهِيًا إنْ بَعْدَ إمَامِهِ لَزِمَهُ السَّهْوُ وَإِلَّا لَا".

رد المحتار میں ہے:

"(قَوْلُهُ وَلَوْ سَلَّمَ سَاهِيًا) قَيَّدَ بِهِ لِأَنَّهُ لَوْ سَلَّمَ مَعَ الْإِمَامِ عَلَى ظَنِّ أَنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ مَعَهُ فَهُوَ سَلَامٌ عَمْدٌ، فَتَفْسُدُ كَمَا فِي الْبَحْرِ عَنْ الظَّهِيرِيَّةِ، (قَوْلُهُ: لَزِمَهُ السَّهْوُ)؛ لِأَنَّهُ مُنْفَرِدٌ فِي هَذِهِ الْحَالَةِ ح. (قَوْلُهُ: وَإِلَّا لَا) أَيْ وَإِنْ سَلَّمَ مَعَهُ أَوْ قَبْلَهُ لَايَلْزَمُهُ لِأَنَّهُ مُقْتَدٍ فِي هَاتَيْنِ الْحَالَتَيْنِ". ( شامي، قبيل باب الاستخلاف، ١ / ٥٩٩

Wednesday 3 January 2024

اہل کتاب خواتین سے نکاح کی تفصیل

 ) -اہل کتاب کی تعریف  یہ ہے کہ جن پیغمبروں پر اللہ نے آسمانی کتابیں نازل فرمائی ہیں ان کے ماننے والوں اور ان کی نازل کردہ کتابوں کے ماننے والے کو اہل کتاب کہتے ہیں۔

2) -اہل ذمہ کی تعریف  میں  " اہلِ ذمہ" سے مراد وہ غیر مسلم افراد ہیں جوکسی اسلامی ملک میں اس ملک کے قوانین کی پاسداری کاعہد کرکے وہاں سکونت اختیار کریں۔یہ افراد ''ذمی''کہلاتے ہیں۔

3)- حربی کی تعریف میں "حربی " سے مراد وہ کافر ہیں جن سے کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہ ہو۔

واضح رہے کہ موجودہ دور میں  بلاضرورتِ شدیدہ  اہلِ  کتاب سے نکاح کرنا مکروہ،اور بہت مفاسد  کی جڑ ہے،   آج کل کے پرفتن ماحول میں جب کہ برائی کا اثر قبول کرنے میں اضافہ روز افزوں ہے، اور عام طور پر حال یہ ہے کہ مرد کا اثر بیوی پر قائم ہونے کے بجائے شاطر لڑکیاں مردوں کو اپنا تابع دار بنالیتی ہیں، نیز اہلِ کتاب ماؤں کے فاسد اَثرات اولاد پر بھی بہت زیادہ پڑتے ہیں،اس لیے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں  مسلمانوں کو کتابیہ عورتوں کے نکاح سےمنع فرمادیاتھا،نیز اگرلڑکی  اہلِ کتاب حربیہ ہو تو اس کے ساتھ نکاح مکروہِ تحریمی ہے،اور اگر اہلِ کتاب  ذمیہ ہو تو اس کے ساتھ نکاح مکروہِ  تنزیہی ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عبد الله بن إدريس، عن الصلت بن بهرام، عن شقيق، قال: تزوج حذيفة يهودية ‌فكتب ‌إليه ‌عمر ‌أن ‌خل ‌سبيلها، فكتب إليه: إن كانت حراما خليت سبيلها فكتب إليه: «إني لا أزعم أنها حرام، ولكني أخاف أن تعاطوا المومسات منهن»."

( كتاب النكاح، من كان يكره النكاح في أهل الكتاب،٤٧٤/٣، ط: مکتبةالرشد

وفی الشامیۃ:

"(قوله: مقرة بكتاب) في النهر عن الزيلعي: واعلم أن من اعتقد ديناً سماوياً وله كتاب منزل كصحف إبراهيم وشيث وزبور داود فهو من أهل الكتاب؛ فتجوز مناكحتهم وأكل ذبائحهم. (قوله: على المذهب) أي خلافاً لما في المستصفى من تقييد الحل بأن لايعتقدوا ذلك، ويوافقه ما في مبسوط شيخ الإسلام: يجب أن لايأكلوا ذبائح أهل الكتاب إذا اعتقدوا أن المسيح إله، وأن عزيراً إله، ولايتزوجوا نساءهم، قيل: وعليه الفتوى، ولكن بالنظر إلى الدليل ينبغي أنه يجوز الأكل والتزوج. اهـ.
قال في البحر: وحاصله أن المذهب الإطلاق لما ذكره شمس الأئمة في المبسوط من أن ذبيحة النصراني حلال مطلقاً سواء قال بثالث ثلاثة أو لا؛ لإطلاق الكتاب هنا، والدليل ورجحه في فتح القدير بأن القائل بذلك طائفتان من اليهود والنصارى انقرضوا لا كلهم مع أن مطلق لفظ الشرك إذا ذكر في لسان الشرع لاينصرف إلى أهل الكتاب، وإن صح لغةً في طائفة أو طوائف؛ لما عهد من إرادته به من عبد مع الله تعالى غيره ممن لايدعي اتباع نبي وكتاب إلى آخر ما ذكره. اهـ".
   (ج:۳،ص:۴۵،ط:سعید

Tuesday 2 January 2024

ناصبی کسے کہتے ہیں

 ناصبی وہ گروہ جو علی بن ابی طالب اور ان کی آل سے بغض و عداوت رکھتا ہو۔ یہ ایک مخصوص فرقہ نہیں بلکہ ایک رجحان کہا جا سکتا ہے، جو ہر دور میں انفرادی یا بعض ادوار یا علاقوں میں کسی حد اجتماعی ہوتا ہے۔ عام اہل تشیع تمام اہل سنت کو جو امیر معاویہ کو درست قرار دیتے ہیں اور علی بن ابی طالب کو بھی حق پر مانتے ہیں، ان سب کو ناصبی قرار دیتے ہیں۔ بعض معاصر محققین کا خیال ہے کہ ناصبیت کا آغاز قتل عثمان سے شروع ہوا اور یہ بنو امیہ کے دور میں رائج ہوئی۔

ناصبی اہلسنت کی اصطلاح میںترمیم

نواصب یا ناصبی وہ فرقہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلیت کرام کی شان میں تو ہیں وتنقیص کرتا ہے حضرت امام حسیں کو باغی اور یزید کو برحق اور جنتی کہتے ہیں خار جیوں اور ناصبیوں میں سب سے بڑافرق یہ ہے کہ خارجی ان تمام صحابہ کرام کو جن کے درمیان میں لڑائیاں ہوئیں کافرقرار دیتے ہیں۔ جیسے حضرت علی و حضرت معاویہ و عمرربن العاص وطلحہ و زبیر اور نامی فرقہ حضرت علی اور ان کی اولاد سے بغض و عداوت رکھتا ہے۔[1] ناصبی وہ فرقہ جو اپنے سینوں میں علی المرتضی اور حسن و حسین سے بغض و کینہ رکھتے ہیں۔[2] اعلیٰحضرت شاہ احمد رضا خان لکھتے ہیں ناصبی وہ ہے جو اہل بیت رسالت کا دشمن ہے [3] علامہ ابن تیمیہ نے فرمایا کہ ناصبی وہ ہے جو اہل بیت کو اپنے قول یا فعل سے تکلیف پہونچانے کا کام انجام دے[4]

معروف ناصبیترمیم

حضرت امیر معاویہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو برا کہنے والے کی نماز جنازہ پڑھنادرست ہے کہ نہیں

 ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے والا شخص فاسق اور اہلِ سنت و الجماعت سے خارج ہے، لیکن اسلام سے خارج نہیں ہے؛  اس لیے اس کی نمازِ جنازہ پڑھنا اور پڑھاناجائز ہے، اس سے کسی کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا، تاہم ایسے افراد کی نمازِ جنازہ میں مقتدا لوگوں کو شرکت نہیں کرنی چاہیے۔

یہ حکم اس وقت ہے جب کوئی شخص ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو صرف برا بھلا کہے، لیکن اگر کوئی شخص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان باندھے تو وہ اسلام سے خارج ہوجائے گا؛کیوں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاک دامنی خود اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں بیان کی ہے، لہٰذا آپ پر تہمت لگانا  قرآن پاک کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ ایسے شخص کی نمازِ جنازہ پڑھنا اور پڑھانا بھی جائز نہیں ہوگا، اور عقائد کا علم ہوتے ہوئے جان بوجھ کر جائز سمجھتے ہوئے ایسے لوگوں کی نماز جنازہ پڑھنے والوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس فعل پر توبہ اور تجدیدِ ایمان کے ساتھ تجدید نکاح بھی کرے، البتہ اگر کوئی شخص ان کے عقائد سے مطلع نہ ہو یا مطلع ہونے کے باوجود ناجائز سمجھتے ہوئے کسی لالچ کی وجہ سے یا سیاسۃً و رسماً پڑھے تو وہ دائرہ اسلام سے تو خارج نہیں ہوگا، لیکن ایک حرام فعل کے ارتکاب کی وجہ سے اس کے فاسق و فاجر بننے میں کوئی شک نہیں ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 46)

"وبهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي، أو أن جبريل غلط في الوحي، أو كان ينكر صحبة الصديق، أو يقذف السيدة الصديقة فهو كافر؛ لمخالفته القواطع المعلومة من الدين بالضرورة، بخلاف ما إذا كان يفضل علياً أو يسب الصحابة؛ فإنه مبتدع لا كافر، كما أوضحته في كتابي "تنبيه الولاة والحكام علی أحكام شاتم خير الأنام أو أحد الصحابة الكرام عليه وعليهم الصلاة والسلام".

''فنقول: لایصلی علی الکافر …؛ لأن الصلاة علی المیت دعاء واستغفار له، والاستغفار للکافرحرام ''…الخ (المحیط البرهاني: ٨٢/٣ )

"(وشرطها) ستة ( إسلام المیت وطهارته)".

وفي ردالمحتار: (قوله: وشرطها) أي شرط صحتها''…الخ ( الدرالمختار مع ردالمحتار:٦٤٠/١)
''ومنها: أن استحلال المعصیة صغیرةً کانت أوکبیرةً کفر''…الخ (شرح فقه الأکبر : ١٥٢

معتزلہ کے عقائد

 دوسری صدی ہجری کے اوائل میں یہ فرقہ وجود میں آیا اور اس کا سب سے پہلا پیروکار عمرو بن عبید تھا جو حسن بصری کا شاگرد تھا، ان لوگوں کو اہل السنۃ و الجماعۃ کے عقائد سے الگ ہوجانے کی بنا پر معتزلہ کہا جاتا ہے۔ معتزلہ کے مذہب کی بنیاد عقل پر ہے کہ ان لوگوں نے عقل کو نقل پر ترجیح دی ہے، عقل کے خلاف قطعیات میں تاویلات کرتے ہیں اور ظنیات کا انکار کردیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے افعال کو بندوں کے افعال پر قیاس کرتے ہیں، بندوں کے افعال کے اچھے اور برے ہونے کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے افعال پر اچھے اور برے کا حکم لگاتے ہیں، خلق اور کسب میں کوئی فرق نہیں کرپاتے،

پانچ اصولترمیم

ان کے مذہب کے پانچ اصول ہیں:

  • توحید
  • عدل
  • نفاذِ وعید
  • منزلۃ بین منزلتین۔
  • امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔
  • (1) عقیدۂ عدل کے اندر درحقیقت انکارِ عقیدۂ تقدیر مضمر ہے، ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ شر کا خالق نہیں، اگر اللہ تعالیٰ کو خالقِ شر مانیں تو شریر لوگوں کو عذاب دینا ظلم ہوگا جو خلافِ عدل ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ عادل ہے ظالم نہیں۔
  • (2) ان کی توحید کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات اور قرآن مجید مخلوق ہیں، اگر انہیں غیر مخلوق مانیں تو تعدد قدماء لازم آتا ہے جو توحید کے خلاف ہے۔
  • (3) نفاذِوعید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو جو عذاب بتلائے ہیں اور جو جو وعیدیں سنائی ہیں، گنہگاروں پر ان کو جاری کرنا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے، اللہ تعالیٰ کسی کو معاف نہیں کر سکتا اور نہ کسی گنہگار کی توبہ قبول کر سکتا ہے، اس پر لازم ہے کہ گنہگار کو سزا دے، جیسا کہ اس پر لازم ہے کہ نیکو کار کو اجر و ثواب دے، ورنہ نفاذِ وعید نہیں ہوگا۔
  • (4) منزلۃ بین منزلتین کا مطلب یہ ہے کہ معتزلہ ایمان اور کفر کے درمیان ایک تیسرا درجہ مانتے ہیں اور وہ مرتکبِ کبیرہ کا درجہ ہے، ان کے نزدیک مرتکبِ کبیرہ یعنی گنہگار شخص ایمان سے نکل جاتا ہے اور کفر میں داخل نہیں ہوتا، گویا نہ وہ مسلمان ہے اور نہ کافر۔
  • (5) امر بالمعروف کا مطلب ان کے نزدیک یہ ہے کہ جن احکامات کے ہم مکلّف ہیں دوسروں کو ان کا حکم کریں اور لازمی طور پر ان کی پابندی کروائیں اور نہی عند المنکر یہ ہے کہ اگر امام ظلم کرے تو اس کی بغاوت کرکے اس کے ساتھ قتال کیا جائے۔

جبریہ کے عقائد

وہ فرقہ جو انسان کو مجبور محض مانتا ہے۔ اور کہتا ہے۔ کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ تقدیر الہٰی کے تحت ہوتا ہے۔ انسان خود کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اس فرقے کی بنیاد جہم بن صفوان نے رکھی۔ بخاریہ، قلابیہ اور بکریہ بھی جبریہ میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں قدریہ یعنی معتزلہ انسان کو مختار مطلق مانتے ہیں۔ وہ جو چاہے کرے اسے پورا اختیار ہے۔ اشعری کہتے ہیں کہ انسان کچھ مختار ہے اور کچھ مجبور۔ معتزلہ اشاعرہ کو بھی جبریہ کہتے ہیں۔

فلاسفہ مغرب کا ایک گروہ بھی جبر کا قائل ہے۔ یونانی مفکر دیمقراطیس کا خیال تھا کہ کائنات کی ہر شے قانون قدرت کے ماتحت ہے اور اس سے انحراف نہیں کرسکتی۔ برطانوی فلسفی ہابس کا نظریہ تھا کہ کائنات اور انسان کی ہر حرکت قانون اسباب کے تحت ہے۔ نفسیات کے علما کا خیال ہے کہ انسان اپنی مرضی کا مختار نہیں ہے۔ بلکہ ذہنی اور جسمانی حالات اس کے ارادے اور عمل کو جس رخ کو چاہتے ہیں موڑ دیتے ہیں۔

قدریہ کے عقائد

قدریہ فرقے کے لوگ خدا کی حکمت سے منکر ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ کام کرنے نہ کرنے، کھانا کھانے یا نہ کھانے اور خیر و شر میں خدا کا ارادہ شامل نہیں ہوتا بلکہ انسان خود مختار ہے جو چاہے کرے اور جو چاہے نہ کرے۔[1]

وجہ تسمیہترمیم

فرقہ قدریہ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں محققین مختلف الرائے ہیں لیکن انہیں قدریہ کہنے کی صحیح وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ خدا سے تقدیر کی نفی کرکے اسے بندے کے لیے ثابت کرتے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہر چیز انسان کے ارادہ و قدرت کے تابع ہے، گویا انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔

بانی عقیدہ قدریہترمیم

عقیدہ انکار تقدیر کے سرخیل، معبد جہنی اور غیلان دمشقی نامی دو اشخاص تھے۔ اول الذکر نے عراق اور ثانی الذکر نے دمشق کو اپنی دعوت و تبلیغ کا مرکز بنایا۔ عبد الرحمن بن اشعث کی بغاوت جب ناکام ہو گئی (اس بغاوت مین معبد برابر کا شریک تھا) تو حجاج نے معبد کو قتل کر دیا۔ غیلان عرصہ دراز تک شام میں اپنے عقائد کی اشاعت میں سرگرم رہا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز اور اس کے درمیان متعدد تحریری مناظرے بھی ہوئے جس سے متاثر ہو کر غیلان نے اپنے عقائد کی تبلیغ بند کردی۔ مگر خلیفہ مذکور کے انتقال کے بعد وہ پھر قدری عقائد کی دعوت دینے لگا۔ یہاں تک خلیفہ ہشام بن عبد الملک نے اس کے فتنہ کو روکنے کے لیے فقیہ شام امام اوزاعی سے اس کا مناظرہ کرایا تاکہ اس کے قتل کیے جانے کی دلیل ہاتھ آسکے۔ مناقب الاوزاعی میں اس مناظرہ کی پوری تفصیلات نقل کرنے کے بعد مذکور ہے کہ امام موصوف نے اس مناظرہ میں غیلان کو دلائل قاطعہ سے خاموش کر دیا۔ بعض محققوں نے لکھا ہے کہ غیلان نے امام اوزاعی کا ترکی بہ ترکی مدلل و مسکت جواب دیا اور مناظرہ بالکل برابر اور ہم پلہ تھا مگر اس کا مقصد تو صرف بہانہ قتل کی تلاش تھی اس لیے ہشام نے اسے قتل کرادیا۔

قدریہ کی تاریخترمیم

قدری مذہب غیلان کے خاتمہ کے بعد بھی بصرہ میں صدیوں پھلتا پھولتا رہا۔ بعض علما کا خیال ہے کہ قدری مذہب نے بعد میں ثنویہ عقائد کا لبادہ اوڑھ لیا۔ ثنویہ کا عقیدہ ہے کہ دنیا پر دو قوتیں حاکم ہیں۔ ایک نور دوسری ظلمت۔ نور خیر کا مصدر و ماخذ ہے اور ظلمت شر کو جنم دیتی ہے۔ ثنویہ نیک اعمال کو خدا کی طرف منسوب کرتے تھے اور افعال قبیحہ کو اپنی طرف۔ اسلام چونکہ توحید کا علمبردار ہے اس لیے اس کے نزدیک ثنویت یعنی دو خدا ماننے کا مطلب خدا کے تصور کی نفی ہے۔ اسلام میں کوئی باقاعدہ ثنوی فرقہ نہیں ہے۔ یہ اصطلاح ایک خاص مکتب خیال کے لیے مستعمل ہے جو تین غیر مسلم افراد بن

 دیصان، مانی، فردک اور ان کے پیروؤں تک محدود ہے۔[2]

شیخ شنقیطی رحمہ اللہ کا قول ہے:

اللہ تعالی کا فرمان ہے "جسے اللہ تعالی ہدایت نصیب فرمائے وہ راہ راست پر ہے اور جسے گمراہ کر دے تو یہ نا ممکن ہے کہ آپ اس کا کوئی کارساز اور راہنما پاسکیں" الکہف/ 17

اللہ جل وعلا نے اس آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ ہدایت دینا اور گمراہ کرنا صرف اللہ وحدہ کے ہاتھ میں ہے تو جسے وہ ہدایت نصیب فرمادے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔

اور اسی معنی کی وضاحت بہت سی دوسری آیات میں کی گئی ہے ۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔

"اور جسے اللہ تعالی ہدایت نصیب کرے تو وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ راہ سے بھٹکا دے ناممکن ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو اس کا مدد گار پائیں ایسے لوگوں کا ہم قیامت کے دن اوندھے منہ حشر کریں گے اور ان کا یہ حال ہوگا کہ وہ اندھے گونگے اور بہرے ہوں گے" الاسراء/ 97

اور فرمان باری تعالی ہے۔

"جسے اللہ ہدایت دیتا ہے تو وہی ہدایت والا ہے اور جس کو وہ گمراہ کر دے تو ایسے ہی لوگ خسارے میں پڑنے والے ہیں" الاعراف 178

اور اللہ تعالی کا یہ ارشاد:

"جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ تعالی ہی جسے چاہے ہدایت دیتا ہے" القصص 56

اور اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے۔

"اور جس کو فتنہ میں ڈالنا اللہ کو منظور ہو تو آپ اس کے لیے ہدایت الہی میں سے کسی چیز کے مختار نہیں" المائدہ 41

اور فرمان ربانی ہے:

"گو آپ انکی ہدایت کے خواہش مند رہے ہیں لیکن اللہ تعالی اسے ہدایت نہیں دیتا جسے گمراہ کر دے اور نہ ہی انکا کوئی مددگار ہوتا ہے" النحل 37

اور فرمان باری تعالی ہے:

"تو جس شخص کو اللہ تعالی ہدایت دینا چاہے تو اس کے سینہ کو اسلام کے لیے کشادہ کردیتا ہے اور جس کو گمراہ کرنا چاہے اس کے سینہ کو بہت تنگ کردیتا ہے جیسے کوئی آسمان میں چڑھتا ہے" الانعام 125

اور اس طرح کی آیات بہت ہی زیادہ ہیں۔

تو ان اور قرآن کی اس طرح کی دوسری آیات سے قدریہ کے مذہب کا باطل ہونا اخذ کیا جاسکتا ہے کہ: انسان اپنے عمل بھلائی اور برائی کرنے میں مستقل ہے اور یہ کہ یہ مشیت الہی نہیں بلکہ بندے کی اپنی چاہت ہے تو اللہ اس سے پاک اور بلند بالا ہے کہ اس کی ملک میں اس کی مشیت کے بغیر واقع کوئی ہو جائے اور اللہ تعالی اس سے بلند اور بڑا ہے۔