https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 3 January 2024

اہل کتاب خواتین سے نکاح کی تفصیل

 ) -اہل کتاب کی تعریف  یہ ہے کہ جن پیغمبروں پر اللہ نے آسمانی کتابیں نازل فرمائی ہیں ان کے ماننے والوں اور ان کی نازل کردہ کتابوں کے ماننے والے کو اہل کتاب کہتے ہیں۔

2) -اہل ذمہ کی تعریف  میں  " اہلِ ذمہ" سے مراد وہ غیر مسلم افراد ہیں جوکسی اسلامی ملک میں اس ملک کے قوانین کی پاسداری کاعہد کرکے وہاں سکونت اختیار کریں۔یہ افراد ''ذمی''کہلاتے ہیں۔

3)- حربی کی تعریف میں "حربی " سے مراد وہ کافر ہیں جن سے کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہ ہو۔

واضح رہے کہ موجودہ دور میں  بلاضرورتِ شدیدہ  اہلِ  کتاب سے نکاح کرنا مکروہ،اور بہت مفاسد  کی جڑ ہے،   آج کل کے پرفتن ماحول میں جب کہ برائی کا اثر قبول کرنے میں اضافہ روز افزوں ہے، اور عام طور پر حال یہ ہے کہ مرد کا اثر بیوی پر قائم ہونے کے بجائے شاطر لڑکیاں مردوں کو اپنا تابع دار بنالیتی ہیں، نیز اہلِ کتاب ماؤں کے فاسد اَثرات اولاد پر بھی بہت زیادہ پڑتے ہیں،اس لیے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں  مسلمانوں کو کتابیہ عورتوں کے نکاح سےمنع فرمادیاتھا،نیز اگرلڑکی  اہلِ کتاب حربیہ ہو تو اس کے ساتھ نکاح مکروہِ تحریمی ہے،اور اگر اہلِ کتاب  ذمیہ ہو تو اس کے ساتھ نکاح مکروہِ  تنزیہی ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عبد الله بن إدريس، عن الصلت بن بهرام، عن شقيق، قال: تزوج حذيفة يهودية ‌فكتب ‌إليه ‌عمر ‌أن ‌خل ‌سبيلها، فكتب إليه: إن كانت حراما خليت سبيلها فكتب إليه: «إني لا أزعم أنها حرام، ولكني أخاف أن تعاطوا المومسات منهن»."

( كتاب النكاح، من كان يكره النكاح في أهل الكتاب،٤٧٤/٣، ط: مکتبةالرشد

وفی الشامیۃ:

"(قوله: مقرة بكتاب) في النهر عن الزيلعي: واعلم أن من اعتقد ديناً سماوياً وله كتاب منزل كصحف إبراهيم وشيث وزبور داود فهو من أهل الكتاب؛ فتجوز مناكحتهم وأكل ذبائحهم. (قوله: على المذهب) أي خلافاً لما في المستصفى من تقييد الحل بأن لايعتقدوا ذلك، ويوافقه ما في مبسوط شيخ الإسلام: يجب أن لايأكلوا ذبائح أهل الكتاب إذا اعتقدوا أن المسيح إله، وأن عزيراً إله، ولايتزوجوا نساءهم، قيل: وعليه الفتوى، ولكن بالنظر إلى الدليل ينبغي أنه يجوز الأكل والتزوج. اهـ.
قال في البحر: وحاصله أن المذهب الإطلاق لما ذكره شمس الأئمة في المبسوط من أن ذبيحة النصراني حلال مطلقاً سواء قال بثالث ثلاثة أو لا؛ لإطلاق الكتاب هنا، والدليل ورجحه في فتح القدير بأن القائل بذلك طائفتان من اليهود والنصارى انقرضوا لا كلهم مع أن مطلق لفظ الشرك إذا ذكر في لسان الشرع لاينصرف إلى أهل الكتاب، وإن صح لغةً في طائفة أو طوائف؛ لما عهد من إرادته به من عبد مع الله تعالى غيره ممن لايدعي اتباع نبي وكتاب إلى آخر ما ذكره. اهـ".
   (ج:۳،ص:۴۵،ط:سعید

No comments:

Post a Comment