https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 13 May 2022

اخلاص کی قوت

امام محمد غزالیؒ نے احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک عابد تھا، جو ہر وقت عبادت میں مشغول رہتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک جماعت اس کے پاس آئی اور کہا کہ یہاں ایک قوم ہے، جو ایک درخت کو پوجتی ہے۔ یہ سن کر اس کو غصہ آیا اور کلہاڑا کندھے پر رکھ کر اس کو کاٹنے کیلئے چل دیا۔ راستے میں اسے شیطان ایک پیر مرد کی صورت میں ملا۔ عابد سے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ اس نے کہا فلاں درخت کو کاٹنے جارہا ہوں۔ شیطان نے کہا: تمہیں اس درخت سے کیا غرض، تم اپنی عبادت میں مشغول رہو۔ تم نے اپنی عبادت کو ایک مہمل اور بے کار کام کیلئے چھوڑ دیا۔ عابد نے کہا لوگوں کو شرک سے بچانا یہ بڑی عبادت ہے۔ شیطان نے کہا: میں تمہیں نہیں کاٹنے دوں گا، پھر دونوں کا مقابلہ ہوا، وہ عابد اس کے سینے پر چڑھ گیا۔ شیطان نے اپنے کو عاجز دیکھ کر خوشامد کی اور کہا کہ اچھا ایک بات سن لے۔ عابد نے اس کو چھوڑ دیا۔ شیطان نے کہا: خدا نے تجھ پر اس درخت کو کاٹنا فرض تو کیا نہیں، تیرا اس سے کوئی نقصان نہیں تو اس کی پرستش و پوجا نہیں کرتا۔ خدا کے بہت سے نبی ہیں، اگر وہ چاہتا تو کسی نبی کے ذریعے اس کو کٹوا دیتا۔ عابد نے کہا میں ضرور کاٹوں گا۔ پھر دونوں میں مقابلہ ہوا، وہ عابد پھر اس کے سینے پر چڑھ گیا۔ شیطان نے کہا اچھا سن، ایک فیصلہ کن بات جو میں تیرے نفع کی کہوں گا۔ عابد نے کہا کہہ۔ شیطان نے کہا کہ تو غریب آدمی ہے۔ دنیا پر بوجھ بنا ہوا ہے تو اس کام سے باز آ۔ میں تجھے روزانہ تین دینار دیا کروں گا، جو روزانہ تیرے سرہانے کے نیچے رکھے ہوئے ملا کریں گے۔ تیری بھی ضرورتیں پوری ہو جایا کریں گی، اپنے اعزہ و اقارب پر بھی احسان کر سکے گا۔ فقیروں کی بھی مدد کرسکے گا اور بہت سے ثواب کے کام حاصل کرے گا۔ درخت کاٹنے میں تو فقط ایک ہی ثواب ہوگا اور وہ بھی رائیگاں جائے گا، وہ لوگ پھر دوسرا درخت لگالیں گے۔ عابد کو سمجھ میں آگیا اس عابد نے قبول کرلیا اور گھر آگیا۔ دو دن تک دینار تکیے کے نیچے سے ملے، تیسرے دن کچھ بھی نہ ملا۔ عابد کو پھر غصہ آیا اور اسی طرح کلہاڑا لے کر چلا، راستہ میں وہ بوڑھا اسے پھر ملا، تو پوچھا جناب کہاں جا رہے ہو؟ عابد نے کہا کہ اسی درخت کو کاٹنے جا رہا ہوں۔ بوڑھے نے کہا تو اس کو نہیں کاٹ سکتا۔ دونوں میں لڑائی ہوئی اور وہ بوڑھا (یعنی شیطان) غالب آگیا اور عابد کے سینے پر چڑھ گیا۔ عابد کو بڑا ہی تعجب ہوا۔ اس سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ تو اس مرتبہ غالب آگیا؟ شیطان نے کہا کہ پہلی مرتبہ تیرا غصہ خالص خدا کیلئے تھا، اس لئے خدا نے مجھے مغلوب کردیا اور تجھے غالب۔ اس مرتبہ تیرے دل میں دیناروں کا دخل تھا۔ خدا کی رضا اور اخلاص نہ تھا، اس لئے تو مغلوب ہوا اور میں غالب۔ حق یہ ہے کہ جو بھی کام اخلاص اور رب تعالیٰ کی رضا جوئی کیلئے کیا جائے تو اس میں بڑی قوت و برکت ہوتی ہے اور جس کام میں حرص و لالچ کا دخل ہو، اس عمل میں کوئی طاقت اور برکت نہیں ہوتی، جیسا کہ اس مذکورہ واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ (فضائل ذکر ص 514) خلوص نیت کا مطلب یہ ہے کہ مطلوبہ کام صرف اور صرف رب تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے کیا جائے، جس میں تصنع اور ریاکاری اور کسی قسم کے لالچ کا دخل نہ ہو۔ نیت میں اخلاص کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اعمال روشن، وزنی اور قابل قبول ہوں گے۔ بصورت دیگر اعمال صرف ڈھانچے بن کر رہیں گے۔ جس طرح اعضائے بدن کی کارکردگی روح پر منحصر ہے، اسی طرح اعمال صالحہ بھی خلوص نیت پر موقوف ہیں۔ حضور اقدسؐ کا فرمان مبارک ہے: اعمال کے زندہ ہونے کا مدار بلاشک نیتوں پر ہے۔ مسجد میں جاتے وقت اگر کوئی اپنے جوتوں کی حفاظت اس لئے کرتا ہے کہ مبادا کوئی اپنی عاقبت خراب نہ کر بیٹھے یا مکان بناتے وقت روشندان اس لئے رکھتا ہے کہ اذان کی آواز بھی سنائی دے، تو یہ عمل اس کیلئے عمل ثواب اور عمل بقا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ روز قیامت اعمال گننے کے بجائے اعمال تولے جائیں گے۔ علی ہذا القیاس اخلاص نیت کے ہوتے ہوئے چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی بڑا اور عدم اخلاص کی صورت میں بڑا عمل بھی چھوٹا اور بے وزن ثابت ہو گا۔

Thursday 12 May 2022

زوال امت کے اسباب و عوامل

آجکل پوری دنیا میں مسلمانوں پرظلم وزیادتی بے انصافی عدوان وبربریت کاشورہے. مسلمان تواپنی ہرمحفل میں اس روناروتے ہی رہتے ہیں. مسجد بازار, دوکان, گھرکوئی جگہ ایسی نہیں جہاں یہ تذکرہ نہ ہو. میرے خیال میں اس کی وجہ خود مسلمان ہیں. ان کی زندگی پرنظرڈالیں توپتہ چلے گاسب سے زیادہ اسلام, قرآن شریعت کی توہین یہ خود کرتے ہیں. بظاہر حاجی نمازی, حافظ جی. وغیرہ وغیرہ سبھی کچھ ہیں. لیکن جہاں اپنے مفاد سے اسلام کاکوئی حکم ٹکرائے گاوہاں وہ اس گوشۂ اسلام کوحرف غلط کی طرح صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کرتے ہیں. مسجد چپل پہن کر جانے پرٹوک دیاجائے تووہ ماننےکے لئے تیار نہیں بلکہ بحث کرے گااپنی بات پربضد ہوگا. اورٹوکنے والے ہی کوغلط ٹھہرائے گا. کوئی مسئلہ کھلے عام ایسا وضاحت سے بتادیاجائے جس میں سب عام طورپرمبتلاہوں توبتلانے والے ہی کے خلاف ہوجائیں گے. مثلا قربانی کے دنوں میں یہ مسئلہ کسی قریشی محلے میں بتادیاجائے کہ" دوسال سے کم عمر کے بڑے جانوربھینسہ وغیرہ کی قربانی جائز نہیں جودوکاندار عام طور سے اس کی رعایت نہیں کرتے ان سے جب جانور کے دوسال کے ہونے کی پختہ جانکاری یاثبوت نہ ہونہ کرائیں". تودوکاندار بتانے والے کےدشمن ہوجائیں گے. میں نے ایک مرتبہ یہ مسئلہ بتایا کئ دوکانداروں نے میری اقتداء میں نماز پڑھنی چھوڑ دی. ایک نے بعد میں وضاحت بھی طلب کی. گھریلومسائل میں آپ کسی مسلمان کے خلاف فیصلہ سنادیں تب دیکھئے کیاہوتاہے. زیادہ تر تویہی کہیں گے کہ ہم شریعت کے فیصلے کونہیں مانتے .اگرکچھ شرم وحیاہوئی توکہیں گے توشریعت کانام حذف کرکے یوں کہیں گے ہم آپ کے فیصلے کونہیں مانتے خواہ انہوں نے پہلے ہی آپ کے سامنے تحریری اقرار کیاہوکہ ہمیں شریعت کافیصلہ قبول منظورہوگا. اس کے باوجود آپ کے درپۂ آزار ہوں گے عدالت میں چیلنج کریں گے. پولیس سے آپ کی شکایت کریں انہیں رشوت دیں گے تاکہ پولیس اس عالم کے خلاف ایکشن لے جس نے شریعت کے مطابق فیصلہ کیا. علماء کی توہین. شریعت کی مساجد کی توہین. نمازوں کی توہین حج کی توہین قربانی کی توہین نکاح کی توہین عقیقہ کی توہین ان کاعام شیوہ ہے. نکاح کی توہین اس طرح کے نکاح کے موقع پرگانے ڈانس میوزک کااہتمام کرتے ہیں. عقیقہ میں بعض لوگ میوزک کااہتمام کرتے ہیں. حج سے واپس آکراکثر منکرات وفواحش کاارتکاب کرتے ہوئے اپنے آپ کوحاجی لکھواتے بتاہیں اوراعمال فساق وفجارکاکرتے ہیں. علم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اللہ اپنی اس صفت سے اپنے پسندیدہ بندوں کو ہی نوازتے ہیں، تاکہ وہ نائبِ رسول بن کر لوگوں کو راہِ شریعت بتلائے، اور کسی سبب یا عداوت کے بغیر کسی عالمِ دین یا حافظِ قرآن کی اہا نت درحقیقت علمِ دین کی اہانت ہے ، اور علمِ دین کی اہانت کو کفر قراردیا گیا ہے، اور اگر کوئی شخص کسی دنیاوی دشمنی یا بغض کی وجہ سے عالمِ دین کو برا بھلا کہتا ہےتو یہ گناہ گار ہے۔ حاصل یہ ہے کہ عالمِ دین کی اہانت سے سلبِ ایمان کا اندیشہ ہے؛ لہذا اس سے مکمل اجتناب ضروری ہے۔ لسان الحكام (ص: 415): "وفي النصاب: من أبغض عالماً بغير سبب ظاهر خيف عليه الكفر. وفي نسخة الخسرواني: رجل يجلس على مكان مرتفع ويسألون منه مسائل بطريق الاستهزاء، وهم يضربونه بالوسائد ويضحكون يكفرون جميعاً". البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 134): " ومن أبغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصداً الاستخفاف بالدين كفر، لا إن لم يقصده". مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 695): "وفي البزازية: فالاستخفاف بالعلماء؛ لكونهم علماء استخفاف بالعلم، والعلم صفة الله تعالى منحه فضلاً على خيار عباده ليدلوا خلقه على شريعته نيابةً عن رسله، فاستخفافه بهذا يعلم أنه إلى من يعود، فإن افتخر سلطان عادل بأنه ظل الله تعالى على خلقه يقول العلماء بلطف الله اتصفنا بصفته بنفس العلم، فكيف إذا اقترن به العمل الملك عليك لولا عدلك، فأين المتصف بصفته من الذين إذا عدلوا لم يعدلوا عن ظله! والاستخفاف بالأشراف والعلماء كفر. ومن قال للعالم: عويلم أو لعلوي عليوي قاصداً به الاستخفاف كفر. ومن أهان الشريعة أو المسائل التي لا بد منها كفر، ومن بغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو شتم فم عالم فقيه أو علوي يكفر وتطلق امرأته ثلاثاً إجماعاً"

Wednesday 11 May 2022

علماء کی توہین کفرہے

علم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اللہ اپنی اس صفت سے اپنے پسندیدہ بندوں کو ہی نوازتے ہیں، تاکہ وہ نائبِ رسول بن کر لوگوں کو راہِ شریعت بتلائے، اور کسی سبب یا عداوت کے بغیر کسی عالمِ دین یا حافظِ قرآن کی اہا نت درحقیقت علمِ دین کی اہانت ہے ، اور علمِ دین کی اہانت کو کفر قراردیا گیا ہے، اور اگر کوئی شخص کسی دنیاوی دشمنی یا بغض کی وجہ سے عالمِ دین کو برا بھلا کہتا ہےتو یہ گناہ گار ہے۔ حاصل یہ ہے کہ عالمِ دین کی اہانت سے سلبِ ایمان کا اندیشہ ہے؛ لہذا اس سے مکمل اجتناب ضروری ہے۔ لسان الحكام (ص: 415): "وفي النصاب: من أبغض عالماً بغير سبب ظاهر خيف عليه الكفر. وفي نسخة الخسرواني: رجل يجلس على مكان مرتفع ويسألون منه مسائل بطريق الاستهزاء، وهم يضربونه بالوسائد ويضحكون يكفرون جميعاً". البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 134): " ومن أبغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصداً الاستخفاف بالدين كفر، لا إن لم يقصده". مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 695): "وفي البزازية: فالاستخفاف بالعلماء؛ لكونهم علماء استخفاف بالعلم، والعلم صفة الله تعالى منحه فضلاً على خيار عباده ليدلوا خلقه على شريعته نيابةً عن رسله، فاستخفافه بهذا يعلم أنه إلى من يعود، فإن افتخر سلطان عادل بأنه ظل الله تعالى على خلقه يقول العلماء بلطف الله اتصفنا بصفته بنفس العلم، فكيف إذا اقترن به العمل الملك عليك لولا عدلك، فأين المتصف بصفته من الذين إذا عدلوا لم يعدلوا عن ظله! والاستخفاف بالأشراف والعلماء كفر. ومن قال للعالم: عويلم أو لعلوي عليوي قاصداً به الاستخفاف كفر. ومن أهان الشريعة أو المسائل التي لا بد منها كفر، ومن بغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو شتم فم عالم فقيه أو علوي يكفر وتطلق امرأته ثلاثاً إجماعاً"

یہ سب کامسئلہ ہے

ایک چُوہا کسان کے گھر میں بِل بنا کر رہتا تھا۔ ایک دن چُوہے نے دیکھا کہ کسان اور اُس کی بیوی ایک تھیلے سے کچھ نکال رہے ہیں۔ چُوہے نے سوچا کہ شاید کچھ کھانے کا سامان ہے۔🥀 خُوب غور سے دیکھنے پر اُس نے پایا کہ وہ ایک چُوہے دانی تھی۔ خطرہ بھانپنے پر اُس نے گھر کے پِچھواڑے میں جا کر کبُوتر کو یہ بات بتائی کہ گھر میں چوہے دانی آ گئی ہے۔ کبوتر نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ مجھے اس سے کیا؟ مجھے کون سا اُس میں پھنسنا ہے؟ مایُوس چُوہا یہ بات مُرغ کو بتانے گیا۔ مُرغ نے بھی مذاق اُڑاتے ہوئے کہا کہ جا بھائی یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔🥀👽 بالآخر چُوہے نے جا کر بکرے کو بھی یہ بات بتائی۔ جسے سُن کر بکرا ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہونے لگا اور یہی کہا کہ جاؤ میاں یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔🐀 اُسی رات چوہے دانی میں كھٹاک کی آواز ہوئی جس میں ایک زہریلا سانپ پھنس گیا تھا۔🐁 اندھیرے میں اُس کی دم کو چُوہا سمجھ کر کسان کی بیوی جب اُسے نکالنے لگی تو سانپ نے اُسے ڈس لیا۔🪱 طبیعت بگڑنے پر کسان نے حکیم کو بلوایا۔ جِس نے اُسے کبُوتر کا سُوپ پلانے کا مشورہ دیا۔🦜 کبُوتر ابھی برتن میں اُبل ہی رہا تھا کہ خبر سُن کر کسان کے کچھ رشتہ دار عیادت کو آ پہنچے۔ جن کے کھانے کے انتظام کیلئے اگلے دن مُرغ کو ذبح کر دیا گیا۔🐓 کچھ دنوں کے بعد کسان کی بیوی مر گئی۔ جِس کے جنازے اور تعزیت پر آنے والوں کی ضیافت میں بکرا کاٹنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ جب کہ چُوہا تو کب کا دُور جا چکا تھا۔ بہت دُور ۔🐁 لہٰذا🌱🌱 اگلی بار اگر کوئی آپ کو اپنا مسئلہ بتائے اور آپ کو لگے کہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے تو انتظار کیجئیے اور دوبارہ سوچئیے کہ کہیں ہم سب خطرے میں تو نہیں ہیں۔ کیونکہ اگر سماج کا ایک حصہ، ایک طبقہ، یا ایک شہری بھی خطرے میں ہے تو یقیناََ کہ پُورا مُلک خطرے میں ہے۔🥀 ذات، مذہب اور طبقے کے دائرے سے باہر نکلیں،🥀🌱 صرف اپنی ہی ذات تک محدود مت رہیے، دوسروں کا بھی اِحساس کیجئیے۔ کیونکہ پڑوس میں لگی آگ آپکے گھر تک بھی پہنچ سکتی ہے

Monday 9 May 2022

قبر پرپھول ڈالنا. اگربتی جلانا

قبر وں پر پھول ڈالنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے ثابت نہیں ہے، اس لیے قبر پر پھول ڈالنا درست نہیں ہے، قبروں پر پھول ڈالنے کے بجائے یہ رقم صدقہ وخیرات کرکے اس کا ثواب میت کو بخش دیاجائے تو یہ زیادہ بہتر ہے، تاکہ میت کو بھی فائدہ ہو اور رقم بھی ضائع نہ ہو۔ قبروں پر اگربتیاں یا چراغ جلانا بھی بدعت ہے، جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں، نیز احادیثِ مبارکہ میں رسول کریم ﷺنے قبروں پر چراغ جلانے سے سخت ممانعت فرمائی ہے اور ایسے فعل کے مرتکب پر لعنت فرمائی ہے۔ مشکاۃ شریف کی روایت میں ہے : " وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله علیه وسلم زَائِرَاتِ الْقُبُوْرِ وَالْمُتَّخِذِیْنَ عَلَیْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرْجَ". (رواه أبوداؤد و الترمذي والنسائي)." ترجمہ: " اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور قبروں کو مسجد بنا لینے (یعنی قبروں پر سجدہ کرنے والوں) اور قبروں پر چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔" صاحبِ مظاہرِ حق لکھتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائے اسلام میں قبروں کی زیارت کرنے سے منع فرمایا تھا، پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دے دی تھی، چنانچہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ اجازت مردوں اور عورتوں دونوں کے حق میں تھی، لہٰذا عورتوں کو پہلے تو قبروں کی زیارت کرنے کی اجازت نہیں تھی، مگر اب اس عام اجازت کے پیشِ نظر درست و جائز ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس اجازت کا تعلق صرف مردوں سے ہے عورتوں کے حق میں وہ نہی اب بھی باقی ہے اور وجہ اس کی یہ بیان کرتے ہیں کہ عورتیں چوں کہ کم زور دل اور غیر صابر ہوتی ہیں، نیز ان کے اندر جزع و فزغ کی عادت ہوتی ہے؛ اس لیے ان کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ قبروں پر جائیں۔ چنانچہ یہ حدیث بھی بظاہر ان ہی علماء کی تائید کرتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت جمہور علماء کے نزدیک اس حکم سے مستثنیٰ ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت مرد ہو یا عورت سب کے لیے جائز ہے۔ قبر پر چراغ جلانا اس لیے حرام ہے کہ اس سے بے جا اسراف اور مال کا ضیاع ہوتا ہے‘‘۔ عمدة القاري شرح صحيح البخاري - (5 / 4): ’’أنكر الخطابي ومن تبعه وضع الجريد اليابس وكذلك ما يفعله أكثر الناس من وضع ما فيه رطوبة من الرياحين والبقول ونحوهما على القبور ليس بشيء‘‘. فتاوی ہندیہ میں ہے : "وإخراج الشموع إلى رأس القبور في الليالي الأول بدعة، كذا في السراجية". (5/331رشیدیه) وإخراج الشموع إلی رأس القبور فی اللیالی بدعة (ہندیة: ۵/۳۵۱، کتاب الکراہیة) وعن ابن عباس (رضی اللہ عنہ) قال: لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زائرات القبور والمتخذین علیہا المساجد والسرج۔ (مشکوة)