https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 3 August 2024

اجنبی عورت سے محبت کرنا

  بیوی کے علاوہ کسی اجنبی لڑكی سے بغير نكاح  كےتعلق قائم كرنا،اور اس سے محبت كرنا ،اس كو  شہوت سے ديكھنا،چھونا وغیرہ  یہ سب چیزیں شرعاً ناجائز وحرام ہیں اس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: « ‌كتب ‌على ‌ابن ‌آدم ‌نصيبه ‌من ‌الزنا مدرك ذلك لا محالة، فالعينان زناهما النظر، والأذنان زناهما الاستماع، واللسان زناه الكلام، واليد زناها البطش، والرجل زناها الخطا، والقلب يهوى ويتمنى، ويصدق ذلك الفرج ويكذبه."

(کتاب القدر، ‌‌باب: قدر على ابن آدم حظه من الزنا وغيره، ج:8، ص:52، حدیث:2657، ط:دار الطباعة العامرة - تركيا)

الدرالمختار میں ہے:

" ولا يكلم الأجنبية ‌إلا ‌عجوزا."

(کتاب الحظر والاباحۃ، ص:654، ط:دار الكتب العلمية - بيروت)


بیوٹی پارلر کے لیے دوکان کرایہ پر دینا

 آج کل بیوٹی پارلر میں جائز اورناجائزدونوں قسم کےکام  کئے جاتے ہیں،جس کی تفصیلات معلوم کی جاسکتی ہے،لہذا اگربیوٹی پارلر میں خلاف شریعت کام نہیں ہوتے توانہیں کرایہ پردکان دی جاسکتی ہے،اورشرعا کرایہ لینابھی درست اورجائز ہے،لیکن اگرغالب گمان یہ ہوکہ وہ شرعی حدود کالحاظ نہیں رکھیں گے توانہیں یہ دکان کرایہ پرنہ دیں ،اورایسی صورت میں کرایہ لینابھی درست نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وجاز اجارة الماشطة لتزين العروس ان ذكرالعمل والمدة."

(باب اجازة الفاسده، ج:6، ص:63، ط:سعيد)

سمنون نام رکھنا

 سمنون ایک صوفی شاعر تھے ، اللہ پاک کی محبت میں اشعار پڑھا کرتے، لوگ انہیں سمنون محب(محبت کرنے والا  سمنون) کہا کرتے تھے، لیکن وہ  خود کو سمنون کذاب ( جھوٹا سمنون) کہا کرتے تھے ، کپڑے  بنتے تھےاور  سوت کاتتے تھے ،  کسی  بزرگ ،صوفی کے نام پر رکھناجائزہے،لہذا محمد سمنون نام رکھنا درست ہے۔

معجم الشعراء العرب میں ہے:

"أبو الحسن ‌سمنون بن حمزة الخواص.صوفي شاعر، كان معاصروه يلقبونه بسمنون المحب، وذلك لأنه كان ينسج غزلياته وينظم محبته لله تعالى.أما هو فقد كان يسمي نفسه ‌سمنون الكذاب.عاش في بغداد وصحب ‌سمنون كل من السقطي والقلانسي ومحمد بن علي القصاب، وكانوا جميعاً من جلة مشايخ بغداد وأكابر صوفيتها.وله شعر جيد."

(حرف السین،سمنون المحب،ص:1422)

طبقات الصوفیہ میں ہے:

"ومنهم سمنون بن حمزة ويقال سمنون بن عبد الله أبو الحسن الخواص ويقال كنيته أبو القاسم سمى نفسه سمنون الكذاب لكتمه عسر البول بلا تضرر صحب سريا السقطي ومحمد بن علي القصاب وأبا أحمد القلانسي وسوس وكان يتكلم في المحبة بأحسن كلام وهو من كبار مشايخ العراق."

(‌‌الطبقة الثانية من أئمة الصوفية، ص: 159، ط:دار الکتب العلمیة)

منگل کی شب اور چاند رات میں ہمبستری نہ کرنا

 شرعًا میاں بیوی کی ہم بستری کے لیے کوئی خاص دن متعین نہیں ہیں، اور نہ ہی کسی خاص دن میں اس کی  ممانعت ہے، ہاں دیگر  وجوہات  مثلًا روزہ، احرام  کی حالت اور عورت کے ایام اور نفاس کی حالت میں اس کی ممانعت ہے۔

سوال میں موجود مذکورہ بات درست نہیں ہے۔ اس بات کا شریعت سے کوئی تعلق  نہیں ہے،یہ  بے اصل ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركنه: فالإمساك....... والجماع....... والجماع في ليالي رمضان لقوله تعالى {‌أحل ‌لكم ‌ليلة ‌الصيام الرفث}."

(کتاب الصوم، ج2، ص:90، ط: دار الکتب العلمیة)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"فأما جماع الحائض في الفرج حرام بالنص يكفر مستحله ويفسق مباشره لقوله تعالى{فاعتزلوا النساء في المحيض}  ، وفي قوله تعالى{ولا تقربوهن حتى يطهرن}، دليل على أن الحرمة تمتد إلى الطهر."

(كتاب الاستحسان، باب جماع الحائض في الفرج، ج:10، س:159، ط:دارالمعرفة)

فتح القدیر میں ہے:

" الجماع فيما دون الفرج من جملة الرفث فكان منهيا عنه بسبب الإحرام. وبالإقدام عليه يصير مرتكبا محظور إحرامه. اهـ. وقد يقال: إن كان الإلزام للنهي فليس كل نهي يوجب كالرفث، وإن كان للرفث فكذلك إذ أصله الكلام في الجماع بحضرتهن وليس ذلك موجبا شيئا."

(كتاب الحج،باب الجنايات،فصل نظر إلي فرج إمرأته بشهوة فأمني، ج:3، ص:42،ط:دار الفكر)

انزلنا نام رکھنا

 لڑکی کا نام"انزلنا" رکھنا درست نہیں ہے،کیوں کہ یہ عربی کا لفظ ہے، جو کہ "انزل" اور "نا" دو الگ الگ کلمات کا مجموعہ ہے،"اَنزَل"درحقیقت "اِنزَال" سے بنا ہے، جس کے معنیٰ ہے:(1)نیچے اتارنا(2)نازل کرنا۔ اور "نا" یہ اسمِ ضمیر برائے جمع متکلم ہے، جس کا معنی ہے:ہم۔مذکورہ تفصیل کی رُو سے "انزلنا" کا معنی  بنا: "ہم نے نازل کیا"یا " ہم نے نیچے اتارا"۔

لہذا بچی کے لیےمذکورہ نام کے بجائے کسی اور اچھےاور بامعنیٰ نام کا انتخاب کیاجائے، اس حوالہ سے بہتریہ ہے کہ  اَزواجِ مطہرات اور صحابیات مکرمات رضوان اللہ علیہن اجمعین کے ناموں میں سے کسی نام پر رکھاجائے تاکہ زیادہ خیر و برکت کا باعث بھی بنے۔

مسند بزار میں  ہے:  

"عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن من حق الولد على الوالد أن يحسن اسمه ويحسن أدبه."

(مسند حمزه انس بن مالك، رقم الحديث:8540، ج:15، ص:176، ط:مكتبة العلوم والحكم)

ترجمہ:"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"والد کے ذمہ بچےکے حقوق میں سےاس کا اچھا نام رکھنا اور اسے اچھے اخلاق و آداب سکھاناہے"۔

تاج العروس میں ہے:

"النزول، بالضم: الحلول وهو في الأصل انحطاط من علو.

ونزله تنزيلا، وأنزله إنزالاً، ومنزلا كمجمل، واستنزله بمعنى واحد."

(بحث نزل، ج:30، ص:478، ط:دارالهداية)

قرآن کریم کے اوراق ری سائیکل کرنا

 اگر ری سائیکل کرنے والے ادارے سے ری سائیکل کرتے وقت اور اس سے پہلے کسی قسم کی بےحرمتی نہ ہوتی ہو توقرآن کریم کےصفحات اور آیتوں کے علاوہ دیگر مقدّس  اوراق  حوالہ کرنے کی گنجائش ہے۔

فتاوی ٰشامی میں ہے:

"الكتب التي لا ينتفع بها يمحى عنها اسم الله وملائكته ورسله ويحرق الباقي ولا بأس بأن تلقى في ماء جار كما هي أو تدفن وهو أحسن كما في الأنبياء (قوله كما في الأنبياء) كذا في غالب النسخ وفي بعضها كما في الأشباه،،،،،،وإن شاء غسله بالماء أو وضعه في موضع طاهر لا تصل إليه يد محدث ولا غبار، ولا قذر تعظيما لكلام الله عز وجل ۔"

(كتاب الحظر والإباحة، 422/6،ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولو محا لوحا كتب فيه القرآن واستعمله في أمر الدنيا يجوز، وقد ورد النهي عن محو اسم الله تعالى بالبزاق، كذا في الغرائب۔"

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن،322/5، دار الفكر)

محمد نام رکھنے کی نذر ماننا

 نذر صحیح ہونے  کی   شرائط میں سے ایک شرط یہ  بھی ہےکہ جس کام کی نذر مانی جاۓ وہ کام قربت اور  عبادتِ مقصودہ ہو ،جیسے نماز روزہ ،زکاۃ،حج وغیرہ، اسی طرح جس کام کی نذر مانی جاۓ اس کی جنس سے کوئی فرد فرض یا کم از کم واجب ضرورہو،مباح چیزوں کی نذر لازم نہیں ہوتی۔

 لھذا اگر کسی شخص نے یہ نذر مانی کہ كے اس كے هاں بيٹا پيدا هوا تو اس كا نام ”محمد“ رکھوں گا تو   یہ نذر منعقد نہیں ہوئی  اوربیٹے کی پیدائش کے بعد  بیٹے کا ”محمد“ نام رکھنا لازم نہیں ہے، البتہ ”محمد“ نام اچھا ہے، بیٹے کا یہ نام  رکھنا بہتر ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومن ‌نذر ‌نذرا ‌مطلقا أو معلقا بشرط وكان من جنسه واجب) أي فرض كما سيصرح به تبعا للبحر والدرر (وهو عبادة مقصودة)... (ووجد الشرط) المعلق به (لزم الناذر).

(قوله وهو عبادة مقصودة) ...وفي البدائع: ومن شروطه أن يكون قربة مقصودة فلا يصح النذر بعيادة المريض، وتشييع الجنازة، والوضوء، والاغتسال، ودخول المسجد، ومس المصحف، والأذان، وبناء الرباطات والمساجد وغير ذلك، وإن كانت قربا إلا أنها غير مقصودة."

(كتاب الأيمان، 3/ 735، ط: سعيد)

فقط واللہ أعلم

حلال جانور کی اوجھڑی

 حلال جانور کی اوجھڑی کھانا جائز ہے، البتہ خوب پاک وصاف کرکے کھائیں۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"فقہاء نے جانور کی سات چیزوں کو حرام قراردیا ہے، ان سات چیزوں میں اوجھڑی شامل نہیں ہے، لہذا اسے حلال کہا جائے گا،  جو  اِسے حرام قرار دیتے ہیں وہ دلیل پیش کریں"۔

(ما یجوز اکلہ من الحیوان ومالا یجوز،ج:10،ص:81،دارالاشاعت)

عیسائی کے ساتھ کھانا کھانا

 اگر  عیسائی کے کھانے کے برتن پاک ہے، اور کھانا بھی کوئی حرام چیز پر مشتمل نہیں ہےتو ان کے ساتھ کھانا کھانا جائز ہے،

فتاویٰ عالمگیری  میں ہے:

"قال محمد - رحمه الله تعالى - ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز ولا يكون آكلا ولا شاربا حراما وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني فأما إذا علم فأنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل ولو شرب أو أكل كان شاربا وآكلا حراما وهو نظير سؤر الدجاجة إذا علم أنه كان على منقارها نجاسة فإنه لا يجوز التوضؤ به والصلاة في سراويلهم نظير الأكل والشرب من أوانيهم إن علم أن سراويلهم نجسة لا تجوز الصلاة فيها وإن لم يعلم تكره الصلاة فيها ولو صلى يجوز ولا بأس بطعام اليهود والنصارى كله من الذبائح وغيرها ويستوي الجواب بين أن يكون اليهود والنصارى من أهل الحرب أو من غير أهل الحرب وكذا يستوي أن يكون اليهود والنصارى من بني إسرائيل أو من غيرهم كنصارى العرب".

(کتاب الکراهية، الباب الرابع عشر في أهل الذمة والأحكام التي تعود إليهم، ج:5، ص:347، ط:مکتبه رشیدیة)

مردار مچھلی کا حکم

 مری ہوئی مچھلیاں دو طرح کی ہوتی ہیں :1۔جو پانی میں اپنی طبعی موت مر گئی ہو،اس کی علامت یہ ہے کہ پانی کی سطح پر الٹی تیر  رہی ہو،ایسی مچھلیاں بالکل حلال نہیں ہیں۔

2۔جو کسی آفت ِ سماویہ یا کسی خارجی سبب سے مرگئی ہو مثلاً ،پانی کے ٹھندے یاگرم ہونے کی وجہ سے یا پانی سے باہر نکالنے کی وجہ سے مرگئی ہو،ایسی مچھلیاں  حلال ہیں،اور یہ اس وقت تک حلال ہے ،جب تك سڑ نہ جائےاور بدبو نہ آئے۔

در مختار  میں ہے:

"(ولا) يحل (حيوان مائي إلا السمك) الذي مات بآفة۔۔۔۔۔۔(غير الطافي) على وجه الماء الذي مات حتف أنفه وهو ما بطنه من فوق، فلو ظهره من فوق فليس بطاف فيؤكل كما يؤكل ما في بطن الطافي، وما مات بحر الماء أو برده وبربطه فيه أو إلقاء شيء فموته بآفة وهبانية ."

(كتاب الذبائح،ج:6،ص:307،ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"واللحم إذا أنتن يحرم أكله."

(كتاب الكراهية،الباب الحادي عشر في الكراهة في الاكل وما يتصل به،ج:5،ص:339،ط:دار الفكر)

بہرام اور ولی نام رکھنا

 ’’ولی‘‘  کے معنی دوست کے ہیں، اس کا شمار آپ ﷺ کے صفاتی ناموں میں سے بھی ہوتا ہے، لہذا’’ ولی‘‘  نام رکھنا درست ہے۔’’بہرام ‘‘  ایک ستارہ"مریخ"کا نام ہے۔(فیروز اللغات، ص: 227ط:فیروز سنز)،سلف صالحین کے انساب میں بھی اس نام کا استعمال ملتا ہے،اور عراق کے ایک بادشاہ کا نام بھی تھا ،لہٰذا یہ نام رکھنا جائز ہے۔باقی اس سے بہتر معنی والا لفظ ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ 

اسد الغابۃ میں ہے:

"5533- يزيد بن بهرام

س: يزيد بن بهرام قَالَ أبو حاتم بن حبان: هُوَ المقعد الَّذِي دعا عَلَيْهِ رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذكر فِي الميم.

أخرجه أبو موسى مختصرا."

(أسد الغابة في معرفة الصحابة ،5/ 445، ط : دار الكتب العلمية)

تاریخ کبیر میں ہے:

"[7672] عبد الحميد بن بهرام، الفزاري، المدائني .

سمع شهر بن حوشب.

سمع منه ابن المبارك، ومحمد بن يوسف.

قال علي، عن يحيى: من أراد حديث شهر فعليه بعبد الحميد."

(التاريخ الكبير للبخاري،‌‌ حرف العين،  ‌‌باب عبد الحميد، 7/ 60، الناشر: الناشر المتميز للطباعة والنشر والتوزيع، الرياض)

گناہ کے بعد گناہ کا اظہار

   گناہ کے بعد گناہ کا اظہار یا اس کی خبر کسی کو دینا شرعاً درست نہیں،او اس شخص( زانی) سے مکمل لا تعلقی اور پردہ کرے، ورنہ پھر گناہ کا خطرہ ہے۔

گناه كركے كسی دوسرے  دوسرے شخص كو گناه بتانے  كے بارے ميں سخت وعيدات آئی ہيں،چناں چہ صحابی رسول  حضرت ابوھریرہ  رضي الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوۓ سنا:"میری ساری امت کو معاف کیا جائے گا، سوائے گناہوں کو اعلانیہ اور کھلم کھلا کرنے والوں کے، اور یہ بھی اعلانیہ گناہ ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی (گناہ کا) کام کرے، حالانکہ اللہ تعالی نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے، مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا۔"

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ ‏فرماتے ہیں:فحاشی (گناہ) کے  فساد کے اعتبار سے مختلف درجات ہیں، عورتوں کے ساتھ خفیہ دوستی لگانے والے مرد اور مرد کےساتھ خفیہ دوستی لگانے والی عورت کا شر زنا اور بدکاری کرنے والے مرد اور عورت سے کم ہے، اور اسی طرح چوری چھپ کر معصیت کا ارتکاب کرنے والا اعلانیہ معصیت کرنے والے سے کم گناہ رکھتا ہے، اور چھپا کر گناہ کرنے والا لوگوں کو معصیت کرکے خبریں بتانے والے سے کم گناہ رکھتا ہے ، اور یہ اللہ تعالی کے عفو درگزر سے دور ہے، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری ساری امت سے درگزر کیا گیا ہے، لیکن اعلانیہ طور پر معصیت کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔

 بخاری شریف میں ہے:

"عن سالم بن عبد الله قال: سمعت أبا هريرة يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «كل أمتي معافى ‌إلا ‌المجاهرين، وإن من المجاهرة أن يعمل الرجل بالليل عملا ثم يصبح وقد ستره الله، فيقول: يا فلان، عملت البارحة كذا وكذا، وقد بات يستره ربه، ويصبح يكشف ستر الله عنه."

(كتاب الأدب، باب ستر المسلم على نفسه، ج: 8، ص: 20، رقم: 6069، ط: دار طوق النجاة)

علی مراد نام رکھنا

 "علی مراد" نام رکھنا درست ہے، البتہ  اگر "مراد" والد کے نام کا حصہ یا خاندانی نام کا حصہ نہیں ہے تو بہتر  یہ ہے کہ "محمدعلی" یا پھر صرف"  علی " نام رکھ دیا جائے۔

أسد الغابة  میں ہے:

"عليّ بْن أَبِي طَالِب بْن عَبْد المطلب بْن هاشم بْن عَبْد مناف بْن قصي بْن كلاب بْن مرة بْن كعب بْن لؤي الْقُرَشِيّ الهاشمي ابْن عم رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ واسم أَبِي طَالِب عَبْد مناف، وقيل: اسمه كنيته، واسم هاشم: عَمْرو، وأم عليّ فاطمة بِنْت أسد بْن هاشم، وكنيته: أَبُو الْحَسَن أخو رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وصهره عَلَى ابنته فاطمة سيدة نساء العالمين، وَأَبُو السبطين، وهو أول هاشمي والد بين هاشميين، وأول خليفة من بني هاشم، وكان عليّ أصغر من جَعْفَر، وعقيل، وطالب."

(حرف العین، باب العین و اللام ،ج :4،ص:87،ط:دار الکتب العلمیة)

ہفتہ وار ذکر کی مجلس

 اگر کوئی متبع شریعت شیخِ کامل اپنے مریدوں کی اصلاح وتربیت کے لیے  جہری ذکر کی مجلس منعقد کرے اور اس میں درج ذیل شرائط کا اہتمام کیا جائے تو یہ جائز ہے:

  1.  ریا ونمود کا خوف نہ ہو۔
  2.    اصرار والتزام نہ ہو، یعنی شرکت نہ کرنے والوں کو اصرار کرکے شرکت پر آمادہ نہ کیا جائے اور شریک نہ ہونے والوں پر طعن وتشنیع نہ کی جائے۔
  3. آواز شرکاءِ حلقہ تک ہی محدودو رکھی جائے،  مسجد میں  ذکر  یا کوئی بھی ایسا عمل اتنی  آواز سے کرنا جس سے دیگر لوگوں یااہلِ محلہ کو تشویش ہوتی ہو قطعاً جائز نہیں ہے۔ 
  4.  جہر مفرِط نہ ہو یعنی بہت زیادہ تیز آواز جس سے ذکر کرنے والا اپنے آپ کو مشقت میں ڈال دے ۔

صحيح البخاري (9/ 121):

"حدثنا عمر بن حفص، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، سمعت أبا صالح، عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "يقول الله تعالى: أنا عند ظن عبدي بي، وأنا معه إذا ذكرني، فإن ذكرني في نفسه ذكرته في نفسي، وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم."

صحيح مسلم (4/ 2061):

"حدثنا قتيبة بن سعيد، وزهير بن حرب - واللفظ لقتيبة - قالا: حدثنا جرير، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يقول الله عز وجل: «أنا عند ظن عبدي بي، وأنا معه حين يذكرني، إن ذكرني في نفسه، ذكرته في نفسي، وإن ذكرني في ملإ، ذكرته في ملإ هم خير منهم."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 660):

’’مطلب في رفع الصوت بالذكر

(قوله: و رفع صوت بذكر إلخ) أقول: اضطرب كلام صاحب البزازية في ذلك؛ فتارةً قال: إنّه حرام، وتارةً قال: إنّه جائز. وفي الفتاوى الخيرية من الكراهية والاستحسان: جاء في الحديث به اقتضى طلب الجهر به نحو: "«وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم» رواه الشيخان. وهناك أحاديث اقتضت طلب الإسرار، والجمع بينهما بأن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص و الأحوال كما جمع بذلك بين أحاديث الجهر و الإخفاء بالقراءة و لايعارض ذلك حديث «خير الذكر الخفي»؛ لأنه حيث خيف الرياء أو تأذي المصلين أو النيام، فإن خلا مما ذكر؛ فقال بعض أهل العلم: إن الجهر أفضل؛ لأنه أكثر عملًا و لتعدي فائدته إلى السامعين، و يوقظ قلب الذاكر فيجمع همّه إلى الفكر، و يصرف سمعه إليه، و يطرد النوم، و يزيد النشاط. اهـ. ملخصًا، و تمام الكلام هناك فراجعه. وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفًا و خلفًا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد و غيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ ...إلخ ‘‘

مشت زنی

 مشت زنی ناجائز اور گناہ ہے،  اس کی حرمت قرآنِ کریم سے ثابت ہے۔نیز  احادیث مبارکہ میں بھیاس فعلِ بد  پر بہت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اور اس فعل کے مرتکب پر لعنت کی گئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالٰی قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظرِ کرم فرمائیں گے ، اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے )۔

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (5) إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ (6) فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ (7) (سورۃ المؤمنون آیت نمبر۵ تا۷)

ترجمہ: اور جو اپنی شہوت کی جگہ کو تھامتے ہیں مگر اپنی عورتوں پر اور اپنے ہاتھ کے مال باندیوں پر سو  ان پر نہیں کچھ الزام ، پھر جو کوئی ڈھونڈے اس کے سوا سو  وہی ہیں حد سے بڑھنے والے۔ 

ان آیات مبارکہ کی تفسیر میں علامہ  شبیراحمد عثمانی صاحب نور اللہ مرقدہ لکھتے ہیں: یعنی اپنی منکوحہ عورت یاباندی کے سواء کوئی اور راستہ قضائے شہوت کا ڈھونڈے وہ حلال کی حد سے آگے نکل جانے والا ہے، اس میں زنا، لواطت اور استمناء بالید وغیرہ سب صورتیں آگئیں۔

(ماخوذ از تفسیر عثمانی، ص: ۴۵۵)

حدیث شریف میں ہے:

"عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "سبعة لا ينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، ولايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره". "تفرد به هكذا مسلمة بن جعفر هذا". قال البخاري في التاريخ".

(السنن الکبری للبیہقی، ج: 7، ص: 329، رقم الحدیث: 5087، ط: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض بالتعاون مع الدار السلفية ببومباي بالهند)

ارھا نام رکھنا

 "ارہا " یعنی"ہ" کے ساتھ عربی اردو لغات میں مستعمل نہیں ،البتہ اس کا تلفظ  عربی لغت میں"ارحا" یعنی "ح"کے ساتھ کیا جاتا ہے،اور اس کےمعنی" چکی اور داڑھ کے ہیں"اوراس کے اندر کسی چیز کو گھمانے کا معنی بھی ہے،معنی کے اعتبار سے یہ نام رکھنا مناسب نہیں ہے ،لہذا بہتر ہے کہ صحابیات کے ناموں میں سے کسی نام کا انتخاب کر کے نام رکھا جائے۔

ہماری ویب سائٹ پر اسلامی ناموں کی فہرست اور تلاش کی سہولت بھی موجود ہے ،وہاں سے بھی انتخاب کرسکتے ہیں۔

المدخل إلى تقويم اللسان میں ہے:

"ويقولون لبيت ‌الرحا: (الطاحونة). وإنما الطاحونة الطحانة التي تدور بالماء، والجمع: الطواحين."

(باب ما جاء لشيئين أو لأشياء فقصروه على واحد، ص:375 ط: دار البشائر)

المغرب فی ترتیب المعرب میں ہے:

"رحي"  الرَّحى مؤنث وتثنيتُها رحَيان والجمع أرحاءُ وأَرْحٍ وأنكر أبو حاتم الأَرْحِية. وقوله: ما خلا الرَحَى أي وضع الرحى وتستعار، الأرحاء للأضراس وهي اثنا عشر."

( باب الراء المهملة، الراء مع الدال المهملة، ص:186 ط: دار الکتاب العربی)

گلیوں میں پھرنے والی مرغی کا گوشت

 گلی کوچوں میں مرغی صاف اور گندی دونوں چیزیں کھاتی ہے تو اس کا گوشت کھانا بلا کراہت درست ہے ،کیونکہ اس کے جسم اور گوشت سے اکثر بدبو نہیں آتی ،البتہ اگر مرغی خالص گندگی کھالیں اور گوشت اور جسم سے بدبو آنے لگے تب اس کو تین دن پنجرہ وغیرہ میں رکھ کرپاک صاف چیزیں کھلائی جائیں ،جب جسم اور گوشت سے بدبو آنا ختم ہوجائے تو پھر اس کا کھانا جائز ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان ما يكره من الحيوانات فيكره أكل لحوم الإبل الجلالة وهي التي الأغلب من أكلها النجاسة لما روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن أكل لحوم الإبل الجلالة ولأنه إذا كان الغالب من أكلها النجاسات تتغير لحمها وينتن فيكره أكله كالطعام المنتن. وروي  «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - نهى عن الجلالة أن تشرب ألبانها» ؛ لأن لحمها إذا تغير يتغير لبنها، وما روي «أنه عليه الصلاة والسلام - نهى عن أن يحج عليها وأن يعتمر عليها وأن يغزى وأن ينتفع بها فيما سوى ذلك» فذلك محمول على أنها أنتنت في نفسها فيمتنع من استعمالها حتى لا يتأذى الناس بنتنها كذا ذكره القدوري  رحمه الله  في شرحه مختصر الكرخي، وذكر القاضي  في شرحه مختصر الطحاوي أنه لا يحل الانتفاع بها من العمل وغيره إلا أن تحبس أياما وتعلف فحينئذ تحل وما ذكر القدوري رحمه الله أجود؛ لأن النهي ليس لمعنى يرجع إلى ذاتها بل لعارض جاورها فكان الانتفاع بها حلالا في ذاته إلا أنه يمنع عنه لغيره.

ثم ليس لحبسها تقدير في ظاهر الرواية هكذا روي عن محمد رحمه الله أنه قال: كان أبو حنيفة رضي الله عنه لا يوقت في حبسها وقال تحبس حتى تطيب وهو قولهما أيضا، وروى أبو يوسف عن أبي حنيفة عليه الرحمة أنها تحبس ثلاثة أيام، وروى ابن رستم رحمه الله عن محمد في الناقة الجلالة أو الشاة والبقر الجلال أنها إنما تكون جلالة إذا تفتتت وتغيرت ووجد منها ريح منتنة فهي الجلالة حينئذ لا يشرب لبنها ولا يؤكل لحمها، وبيعها وهبتها جائز، هذا إذا كانت لا تخلط ولا تأكل إلا العذرة غالبا فإن خلطت فليست جلالة فلا تكره؛ لأنها لا تنتن."

(كتاب الذبائح والصيود،فصل في بيان ما يكره من الحيوانات،39،40/5،ط:دار الكتب العلمية)

جس کمرےمیں تصویر لگی ہو وہاں تلاوت کرنا

 ایسے  کمرے  میں،  جہاں  کسی  جاندار  کی  تصویر  لگی  ہوئی  ہو،  خواہ  ہاتھ  سے  بنائی  ہوئی  ہو،  یا  کیمرہ  وغیرہ  کے  ذریعہ،وہاں  رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے اس لیے جاندار كی تصاویر سے اپنے گھروں کو مکمل پاک رکھنا چاہیے، تا کہ ہمارے گھر رحمت کے فرشتوں سے آباد رہیں،تاہم ایسے گھر یا کمرے میں  قرآن   کریم  کی  تلاوت  کرسکتے  ہیں،  البتہ  قرآن  کریم  کا  تقدس  اور  ادب  کا  لحاظ  رکھتے  ہوئے  بہتر  یہی  ہے  کہ    ایسے  کمرے میں تلاوت کی جائے جہاں تصاویر وغیرہ نہ ہوں ، اور زیادہ بہتر ہے کہ اپنی بیٹھک  کو بھی اس  ناجائز  اور  حرام    چیز  سے  پاک  رکھا  جائے؛ تاکہ بیٹھک پر اللہ کی رحمت نازل ہو۔

مسلم شریف میں ہے:

"عن مسلم، قال: كنا مع مسروق، في دار يسار بن نمير، فرأى في صفته تماثيل، فقال: سمعت عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن أشد الناس عذابا عند الله يوم القيامة المصورون."

(باب عذاب المصورين يوم القيامة، ج:7، ص:167، ط:دار طوق النجاة)

ترجمہ:" سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت میں تصویر بنانے والوں کو ہو گا۔"

عمدة القاری میں ہے:

"وفي التوضيح قال أصحابنا وغيرهم تصوير صورة الحيوان حرام أشد التحريم وهو من الكبائر وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فحرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله وسواء كان في ثوب أو بساط أو دينار أو درهم أو فلس أو إناء أو حائط وأما ما ليس فيه صورة حيوان كالشجر ونحوه فليس بحرام وسواء كان في هذا كله ما له ظل وما لا ظل له وبمعناه قال جماعة العلماء مالك والثوري وأبو حنيفة وغيرهم."

(باب عذاب الصورین،22/70، ط:دار إحياء التراث العربي)

قرآن مجید ناظرہ پڑھنا افضل ہے یاسننا

 قرآنِ کریم سننا اور قرآنِ کریم پڑھنا ٗ دونوں اپنی اپنی جگہ مستقل عبادت کی حیثیت سے ثواب کے حامل ہیں، لیکن عام حالات میں قرآن کو دیکھ کر خود سے پڑھنا کسی اور سے سننے سے زیادہ افضل ہے، کیوں کہ قرآن خود پڑھنے میں پڑھنے اور سننے دونوں روایات کی فضیلت حاصل ہوجاتی ہے، جب کہ سننے میں صرف سننے کی روایات کی فضیلت حاصل ہوتی ہے۔

تاہم اگر تلاوتِ قرآنِ کریم میں دل نہ لگ رہا ہو، یا قرآنِ کریم پڑھنے میں وہ خشوع، خضوع یا یکسوئی حاصل نہ ہورہی ہو، جو  سُن کر حاصل ہوسکتی ہے، یا قرآنِ کریم کاسیکھنا، سکھانا مقصود ہو، ایسے ہی اگر کہیں قرآنِ کریم کی تلاوت پہلے سے جاری ہو، تو ایسی صورتوں میں قرآنِ کریم کو سننا، پڑھنے سے زیادہ افضل ہوگا۔

سنن الترمذي میں ہے:

"عبد الله بن مسعود، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ‌قرأ ‌حرفا من كتاب الله فله به حسنة، والحسنة بعشر أمثالها، لا أقول الم حرف، ولكن ألف حرف ولام حرف وميم حرف."

(ص:١٧٥، ج:٥، أبواب فضائل القرآن، ‌‌باب ما جاء فيمن قرأ حرفا من القرآن ماله من الأجر، ط: ألبابي، مصر)

سنن أبي داؤد   میں ہے:

"عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: الذي يقرأ القرآن وهو ماهر به مع السفرة ‌الكرام ‌البررة، والذي يقرؤه وهو يشتد عليه فله أجران."

(ص:٥٤٣، ج:١، کتاب ‌‌الصلاۃ، باب في ثواب قراءة القرآن، ط: المطبعة الأنصارية)

المصنف لعبد الرزاق   میں ہے:

"عن ابن عباس قال: من ‌استمع ‌آية ‌من ‌كتاب ‌الله، كانت له نورا يوم القيامة."

(ص:١٠٩، ج:٤، کتاب فضائل القرآن، باب تعلیم القرآن وفضله، ط: دار التأصيل)

مسند أحمد میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من استمع إلى آية من كتاب الله عز وجل، كتب له حسنة مضاعفة، ومن تلاها كانت له نورا يوم القيامة."

(ص:١٩١، ج:١٤، صحيفة همام بن منبه،

خواتین کا پڑوس میں ختم قرآن مجید میں شریک ہونا

 بیان اور دعا میں شرکت کی غرض سے پردےکے اہتمام کے ساتھ اگرپڑوس سے کچھ بوڑھی عورتیں  آتی ہیں تو اس میں مضائقہ نہیں ہے ۔ 

بخاری میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري قالت النساء للنبي صلى الله عليه وسلم: غلبنا عليك الرجال، فاجعل لنا يوما من نفسك، فوعدهن يوما لقيهن فيه، فوعظهن وأمرهن، فكان فيما قال لهن: «ما منكن امرأة تقدم ثلاثة من ولدها، إلا كان لها حجابا من النار» فقالت امرأة: واثنتين؟ فقال: واثنتين."

(کتاب العلم ،ہل یجعل للنساء یوم علی حدۃ فی العلم،ج:1،ص:32،ط:دار طوق النجاۃ)

احلام فاطمہ نام رکھنا

 احلام کے عربی زبان میں کئی معانی آتے ہیں ،مثلا اگر اس کی اصل حُلماً وحُلُماً ہو تو ،اس کا معنی ہوگا:خواب دیکھنا۔

اگر اس کی اصل حِلماً ہو،تو معنی ہے:بردبار ہونا۔

لہذا اگر بیٹی کا نام احلام(ہمزہ پر زبر)  فاطمہ رکھنا چاہتے ہیں ت  بمعنی بردبار ہونا ہوگا ،اس طرح نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں ،معنی کے اعتبار سے یہ نام درست ہوگا۔

قرآن کریم میں ہے :

"اَمْ تَاْمُرُھُمْ اَحْلاَمُھُمْ بِھٰذَا"(سورة الطور،32)

القاموس الوحید میں ہے:

"حَلَمَ یَحلُمُ حُلما وحُلُما :خواب دیکھنا۔

حَلُمَ یَحلُمُ حِلما :بردبار ہونا،یعنی ناگواری اور غصہ کے اظہار پر قدرت کے باوجود نرمی سے کام لینا،متحمل مزاج ہونا،سلیم الطبع ہونا ،دور اندیش ہونا ،دانشمند ہونا۔"

(ص:371، ط:ادارۂ اسلامیات)

خرگوش کو حیض آتا ہے پھر بھی یہ حلال کیوں ہے

 خرگوش کھانا حلال ہے،اور   نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں خرگوش پیش کیا گیا، آپ ﷺ نے اسے قبول فرمایا،باقی رہی یہ بات کہ اس کے حلال ہونے کی وجہ کیا ہے تو جہاں واضح نص موجود ہو وہاں علتو ں سے بحث نہیں کی جاتی۔

سنن ترمذی میں ہے:

" عن هشام بن زيد بن أنس قال : سمعت أنساً يقول : أنفجنا أرنباً بمر الظهران فسعى أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم خلفهتا فأدركتها فأتيت بها أبوطلحة فذبحها بمروة فبعث معي بفخذها أو بوركها إلى النبي صلى الله عليه و سلم فأكله، قال: قلت: أكله ؟ قال: قبله"۔

(أبواب الأطمعة، باب في أكل الأرنب،ج:4، س؛251۔ ط:داراحياء التراث)

عصر کے بعد سونا

 عصر سے مغرب تک کے وقت میں سونا   مکروہ ہے، اور عصر سے مغرب کے درمیان سونے کا معمول بنالینا  ممنوع  ہے،لہذا اس سے احتراز کیا جائے، البتہ کبھی کبھار کسی عذر (بیماری، تھکن یا بے خوابی وغیرہ) کی وجہ سے اگر عصر اور مغرب کے درمیان سونے کا تقاضہ  ہو تو  پھر اس وقت سونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

ملحوظہ: عصر کے بعد سونے سے ایک روایت  میں منع آیا ہے،جس میں عقل کی فتور کو سبب قررارد یاہے، اگر چه يه روايت سنداً ضعیف  ہے(1)،لیکن  کسی نے بھی اس روایت کو  موضوع نہیں کہاہے(2)، ترغیبات و ترهیبات  میں ضعیف احادیث سے استدلال کرنا سلف سے منقول ہے(3)، دوئم  اس حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہے،جو حديث ضعيف كي ضعف كو ختم كرديتا هے(4)،  سلف  صالحين نے عصر کے بعد سونا کو مکروہ قراردیا ہے ان کے سامنے بظاہر یہی حدیث تھی(5)۔

حوالہ جات ملاحظہ ہو:

(1)

"مسند أبي يعلى " میں ہے:

"4918 - حدثنا عمرو بن حصين، حدثنا ابن علاثة، حدثني الأوزاعي، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من نام بعد العصر فاختلس عقله فلا يلومن إلا نفسه» ۔"

ترجمہ:نبی کریم ﷺ سے روایت ہے جوعصر کے بعد سویا تواس کی عقل ميں فتور پیدا ہو ا توصرف اپنے آپ کو ہی ملا مت کرے ۔

‌‌[حكم حسين سليم أسد] : إسناده ضعيف۔"

(مسند أبي يعلى لأبی يعلى أحمد بن علي بن المثُنى بن يحيى بن عيسى بن هلال التميمي، الموصلي (ت ٣٠٧ هـ)، ج:8، ص:316،رقم:4918،  ط: دار المأمون للتراث - دمشق)

(2)

"اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة للسيوطي"میں ہے:

‌‌كتاب الأدب والزهد

"(ابن حبان) حدثنا أحمد بن يحيى بن زهير حدثنا عيسى بن أبي حرب الصفار حدثنا خالد بن القاسم عن الليث بن سعد عن عقيل عن الزمري عن عروة عن عائشة قالت قال رسول الله: من نام بعد العصر فأختلس عقله فلا يلومن إلا نفسه.لا يصح......"

(اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة لعبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (ت ٩١١هـ)، ج:2، ص:237، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

خواتین کی اصلاح کے لیے دینی جلسے

 خواتین  کی  اصلاح اور دینی تربیت کے لیے علاقہ کے کسی گھر میں باپردہ اہتمام کے ساتھ مستند متدین عالم کی وعظ و نصیحت کی مجلس رکھی جا سکتی ہے،  جس میں خواتین شرکت کرسکتی ہیں،  ایسا کرنا خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی ثابت ہے کہ خواتین نے حضور صلی اللہ علیہ سلم  کی خدمت میں درخواست کی تھی تو ان کے لیے مخصوص دن اور مخصوص جگہ میں اجتماع تجویز فرما دیا گیا تھا۔

لہذا صورتِ مسئولہ  میں عورتوں کے لیے وعظ اور نصیحت کے لیے کوئی دن اور وقت مقرر کرلیا جائے،اور عورتیں اس وقت میں کسی جگہ پردے کے اہتمام کے ساتھ شریک ہوجائیں، تو ایسا کرنا درست ہے،تاہم خواتین کو مسجد شرعی میں جمع کرنے سے اجتناب کیا جائے:

1:اس لیے کہ خواتین مسائل کے ناواقفیت کے باعث ممکن ہے کہ  ناپاکی کے ایام میں ہوں،جب کہ حیض ونفاس والی عورت کا مسجد میں آنا جائز نہیں ۔

2:خواتین عموماً جب جمع ہوں، تو دنیوی باتوں میں مشغول ہوجاتی ہے،یہ مسجد کے آداب کے خلاف ہے۔

3:نیز عموماً خواتین کے ساتھ چھوٹے بچے بھی ہوتے ہیں،گندگی کرسکتے ہیں،اس سے مسجد کی تلویث کا اندیشہ ہے۔

4:مسجد میں مرد حضرات کی آمد ورفت مستقل رہتی ہے،بے پردگی کا اندیشہ ہے۔

5:تجربہ اور مشاہدہ یہی ہے ،کہ ایک ہی جگہ مرد وزن کا  مستقل جمع ہونا،اگر چہ الگ الگ اوقات میں ہو، فتنے کا باعث بن ہی جاتا ہے۔

لہذا عورتوں کے لیے مسجد سے ہٹ کر کوئی علیحدہ جگہ مقرر کی جائے۔

صحیح بخاری میں روايت  ہے :

"عن أبي سعيد الخدري: قال النساء للنبي صلى الله عليه وسلم: غلبنا عليك الرجال، فاجعل لنا يوما من نفسك، فوعدهن يوما لقيهن فيه، فوعظهن وأمرهن، فكان فيما قال لهن: (ما منكن امرأة تقدم ثلاثة من ولدها، إلا كان لها حجابا من النار). فقالت امرأة: واثنين؟ فقال: (واثنين)."

(كتاب العلم،  باب: هل يجعل للنساء يوم على حدة في العلم، ج:1، ص:50، رقم:101، ط:دار ابن كثير)

شیخ کی تعریف

 مختلف دایرہ کار کےلوگوں کی اصطلاح  میں شیخ کے مختلف معانی اور مصداق ہیں، اہل لغت کے نزدیک شیخ وہ شخص ہے جس میں بڑھاپا ظاہر ہوگیاہو یا پچاس سال کی عمر سے  زیادہ ہو، نیز کبھی اس شخص کو بھی شیخ کہا جاتا ہے جس کا علم زیادہ ہو اس کے وسیع تجربہ اور پہچان کی وجہ سے،  اور محدثین جس سے حدیثیں روایت کی جائیں اس کو شیخ کہتے ہیں، صوفیاء کے نزدیک شیخ وہ شخص ہے جو خود بھی سیدھے راستے پر چلے، اور دین کے اعتبار سے مہلکات اور مضر چیزوں کو پہچانے،نیز مریدوں کی رہنمائی کرے اور ان کو ان کے نفع و نقصان کی چیزوں کا بتائے۔ با الفاظ دیگر شیخ وہ ہے جو مریدین اور طالبین کے دلوں میں دین اور شریعت کو راسخ کرے۔لہذا کسی عام آدمی کو ادب کی وجہ سے یا اس کی عمر کے زیادہ ہونے کی وجہ سے، یا اس کے علم اور تجربہ زیادہ ہونے کی وجہ سے شیخ کہنے میں کوئی حرج نہیں۔  

لسان العرب میں ہے:

"الشيخ: الذي استبانت فيه السن وظهر عليه الشيب؛ وقيل: هو شيخ من خمسين إلى آخره؛ وقيل: هو من إحدى وخمسين إلى آخر عمره؛ وقيل: هو من الخمسين إلى الثمانين".

(خا، فصل الشين المعجمة، ج:3، ص:31، ط:دار صادر)

کشاف اصطلاحات الفنون میں ہے:

"وقد يعبّر به عمّا يكثر علمه لكثرة تجاربه ومعارفه.

والمحدّثون يطلقون الشيخ على من يروى عنه الحديث كما يستفاد من كتب علم الحديث، وقد سبق في المقدمة أنّ المحدّث هو الأستاذ الكامل وكذا الشيخ والإمام. والشيخ عند السّالكين هو الذي سلك طريق الحقّ وعرف المخاوف والمهالك، فيرشد المريد ويشير إليه بما ينفعه وما يضرّه. وقيل الشيخ هو الذي يقرّر الدين والشّريعة في قلوب المريدين والطالبين. وقيل الشيخ الذي يحبّ عباد الله إلى الله ويحبّ الله إلى عباده وهو أحبّ عباد الله إلى الله". 

(حرف الشين، ج:1، ص:1049، ط:مكتبة لبنان)

سحروافطار کے لیے مسجد کی حدود میں سایرن بجانا

 مسجد کی حدود میں یاحدودمسجدسےباہر رکھے ہوئے ساؤنڈسسٹم سے سحری وافطاری کے اوقات میں ایسا سائرن بجانا جس میں میوزک  ہوقطعاجائزنہیں،البتہ سادہ سائرن کی بقدرضرورت گنجائش ہے،تاہم بہتریہ ہے کہ سائرن کومسجدکی حدودسے باہربجایاجائےتاکہ مسجدکوشوروشغب سےپاک رکھاجاسکےہےاورضرورت بھی پوری ہو۔

المبسوط میں ہے:

"ولا يقام الحد في المسجد، ولا قود، ولا تعزير لما فيه من وهم تلويث المسجد، ولأن المجلود قد يرفع صوته، وقد نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن رفع الصوت في المسجد بقوله صلى الله عليه وسلم «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم ورفع أصواتكم»، ولكن القاضي يخرج من المسجد إذا أراد إقامة الحد بين يديه".

(کتاب الحدود،باب الاقراربالزنا،ج:9،ص:102/101،ط:دارالمعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وينبغي أن يكون ‌بوق ‌الحمام يجوز كضرب النوبة. وعن الحسن لا بأس بالدف في العرس ليشتهر. وفي السراجية هذا إذا لم يكن له جلاجل ولم يضرب على هيئة التطرب اهـ.أقول: وينبغي أن يكون طبل المسحر في رمضان لإيقاظ النائمين للسحور كبوق الحمام تأمل".

(کتاب الحظروالاباحة،ج:6،ص:350،ط:دارالفکر)

گدھاحرام ہے

  گدھا حرام جانوروں میں داخل ہے ، گدھے کا گوشت کھانا حرام ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وأما الحمار الأهلي فلحمه حرام، وكذلك لبنه وشحمه، واختلف المشايخ في شحمه من غير وجه الأكل فحرمه بعضهم قياسا على الأكل وأباحه بعضهم وهو الصحيح، كذا في الذخيرة".

(کتاب الذبائح ،الباب الثانی فی بیان ما یؤکل من الحیوان،ج:5،ص:290،دارالفکر)

یاقوت کی انگوٹھی ثواب کی نیت سے پہننا

 ثواب کی نیت کے ساتھ  یا قوت پہننا درست نہیں ہے  ،کیوں کہ پتھر  کے پہننے کے ساتھ کسی  قسم كا کوئی ثواب مشروط نہیں ہے ، البتہ  ثواب کی نیت کے  بغیر نگینہ والی چاندی کی انگوٹھی پہن لے تو درست ہے ،بعض ضعیف روایتوں میں  بعض پتھروں کے بارے میں  بركت كا ذکر ہے ۔

فتاویٰ شامی میں ہے :

"(ولا يتختم) إلا بالفضة لحصول الاستغناء بها فيحرم (بغيرها كحجر) وصحح السرخسي جواز اليشب والعقيق وعمم منلا خسرو (وذهب وحديد وصفر) ورصاص وزجاج وغيرها لما مر فإذا ثبت كراهة لبسها للتختم ثبت كراهة بيعها وصيغها لما فيه من الإعانة على ما لا يجوز وكل ما أدى إلى ما لا يجوز لا يجوز وتمامه في شرح الوهبانية (والعبرة بالحلقة) من الفضة (لا بالفص) فيجوز من حجر وعقيق وياقوت وغيرها وحل مسمار الذهب في حجر الفص ۔۔۔(قوله فيحرم بغيرها إلخ) لما روى الطحاوي بإسناده إلى عمران بن حصين وأبي هريرة قال: نهى رسول الله - صلى الله تعالى عليه وسلم عن خاتم الذهب ، وروى صاحب السنن بإسناده إلى عبد الله بن بريدة عن أبيه: أن رجلا جاء إلى النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وعليه خاتم من شبه فقال له: مالي أجد منك ريح الأصنام فطرحه ثم جاء وعليه خاتم من حديد فقال: مالي أجد عليك حلية أهل النار فطرحه فقال: يا رسول الله من أي شيء أتخذه؟ قال: اتخذه من ورق ولا تتمه مثقالا " فعلم أن التختم بالذهب والحديد والصفر حرام ۔۔۔وفي الجوهرة والتختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجل والنساء۔۔۔فالحاصل: أن التختم بالفضة حلال للرجال بالحديث وبالذهب والحديد والصفر حرام عليهم بالحديث۔۔۔ولا يتختم إلا بالفضة الذي هو لفظ محرر المذهب الإمام محمد رحمه الله تعالى فافهم."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة ، فصل في اللبس ، ج : 6 ، ص : 359/60 ، ط : سعيد كراچي)