نذر صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہےکہ جس کام کی نذر مانی جاۓ وہ کام قربت اور عبادتِ مقصودہ ہو ،جیسے نماز روزہ ،زکاۃ،حج وغیرہ، اسی طرح جس کام کی نذر مانی جاۓ اس کی جنس سے کوئی فرد فرض یا کم از کم واجب ضرورہو،مباح چیزوں کی نذر لازم نہیں ہوتی۔
لھذا اگر کسی شخص نے یہ نذر مانی کہ كے اس كے هاں بيٹا پيدا هوا تو اس كا نام ”محمد“ رکھوں گا تو یہ نذر منعقد نہیں ہوئی اوربیٹے کی پیدائش کے بعد بیٹے کا ”محمد“ نام رکھنا لازم نہیں ہے، البتہ ”محمد“ نام اچھا ہے، بیٹے کا یہ نام رکھنا بہتر ہے ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ومن نذر نذرا مطلقا أو معلقا بشرط وكان من جنسه واجب) أي فرض كما سيصرح به تبعا للبحر والدرر (وهو عبادة مقصودة)... (ووجد الشرط) المعلق به (لزم الناذر).
(قوله وهو عبادة مقصودة) ...وفي البدائع: ومن شروطه أن يكون قربة مقصودة فلا يصح النذر بعيادة المريض، وتشييع الجنازة، والوضوء، والاغتسال، ودخول المسجد، ومس المصحف، والأذان، وبناء الرباطات والمساجد وغير ذلك، وإن كانت قربا إلا أنها غير مقصودة."
(كتاب الأيمان، 3/ 735، ط: سعيد)
فقط واللہ أعلم
No comments:
Post a Comment