https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 7 May 2022

معلقۂ امروالقیس بن حجر بن عمرو الکندی

قِفَا نَبْكِ مِنْ ذِكْرَى حَبِيبٍ ومَنْزِلِ بِسِقْطِ اللِّوَى بَيْنَ الدَّخُولِ فَحَوْمَلِ اے میرے دونوں دوستو)، ذرا ٹھہرو تاکہ ہم محبوبہ اور (اس کے اس) گھر کی یاد تازہ کر کے رو لیں جو ریت کے ٹیلے کے آخر پر مقامات دخول اور حومل اور۔۔۔ فَتُوْضِحَ فَالمِقْراةِ لَمْ يَعْفُ رَسْمُها لِمَا نَسَجَتْهَا مِنْ جَنُوبٍ وشَمْألِ ۔۔۔ توضح و مقراۃ کے درمیان واقع ہے جس کے نشانات اس وجہ سے نہیں مٹے کہ اس پر جنوبی و شمالی ہوائیں برابر چلتی ہیں۔ تَرَى بَعَرَ الأرْآمِ فِي عَرَصَاتِهَـا وَقِيعانِهَا كَأنَّهُ حَبُّ فُلْفُــلِ سفید ہرنوں کی مینگنیاں اس مکان کے میدانوں اور ہموار زمینوں میں تُو ایسی پڑی دیکھے گا جیسے سیاہ مرچ کے دانے كَأنِّي غَدَاةَ البَيْنِ يَوْمَ تَحَمَّلُـوا لَدَى سَمُرَاتِ الحَيِّ نَاقِفُ حَنْظَلِ یومِ فراق کی صبح کو جب کہ وہ (معشوقہ کے ہمراہی) روانہ ہوئے تو گویا میں قبیلہ کے ببول کے درختوں کے اندر حنظل (اندرائن) توڑنے والا تھا۔ وُقُوْفاً بِهَا صَحْبِي عَلَّي مَطِيَّهُـمُ يَقُوْلُوْنَ لاَ تَهْلِكْ أَسَىً وَتَجَمَّـلِ میں رو رہا تھا اور احباب میرے پاس ان میدانوں میں اپنی سواریوں کو روکے ہوئے کہہ رہے تھے کہ (غمِ فراق سے) ہلاک نہ ہو اور صبرِ جمیل اختیار کر۔ وإِنَّ شِفـَائِي عَبْـرَةٌ مُهْرَاقَـةٌ فَهَلْ عِنْدَ رَسْمٍ دَارِسٍ مِنْ مُعَوَّلِ )جوابا کہتا ہے کہ میں رونے سے کیسے باز آ سکتا ہوں جبکہ) میری شفا (یہی) بہے ہوئے آنسو ہیں (پھر زرا ہوش میں آ کر کہتا ہے کہ) کیا (ان) مٹے ہوئے نشانوں کے پاس کوئی قابلِ اعتماد )فریاد رس) ہے؟ (نہیں ہے تو رونا بھی بے سود ہے)۔ كَدَأْبِكَ مِنْ أُمِّ الحُوَيْرِثِ قَبْلَهَـا وَجَـارَتِهَا أُمِّ الرَّبَابِ بِمَأْسَـلِ )تیری عادت عنیزہ کے عشق میں ٹھیک) اس عادت کے مانند ہے جو اس سے پہلے ام الحویرث اور اس کی پڑوسن ام رباب کے ساتھ (کوہِ) ماسل میں تھی۔ إِذَا قَامَتَا تَضَوَّعَ المِسْكُ مِنْهُمَـا نَسِيْمَ الصَّبَا جَاءَتْ بِرَيَّا القَرَنْفُلِ جب وہ دونوں (ام حویرث اور ام رباب مستانہ انداز سے) کھڑی ہوتی تھیں تو (ان دونوں سے مشک کی خوشبو) ایسی مہکتی تھی گویا بادِ صبا لونگ کی خوشبو لیے آتی ہے۔ فَفَاضَتْ دُمُوْعُ العَيْنِ مِنِّي صَبَابَةً عَلَى النَّحْرِ حَتَّى بَلَّ دَمْعِي مِحْمَلِي پس عشق کی وجہ سے میری آنکھ کے آنسو یہاں تک سینہ پر بہے کہ میرے آنسووں نے میری (تلوار کے) پرتلہ کو تر کر دیا۔ ألاَ رُبَّ يَوْمٍ لَكَ مِنْهُنَّ صَالِـحٍ وَلاَ سِيَّمَا يَوْمٍ بِدَارَةِ جُلْجُـلِ سنو! بہت سے دن ان (حسین عورتوں) کی جانب سے بہت اچھے تھے، خصوصا وہ دن جو دارۃ جلجل میں گزرا۔ ويَوْمَ عَقَرْتُ لِلْعَذَارَي مَطِيَّتِـي فَيَا عَجَباً مِنْ كُوْرِهَا المُتَحَمَّـلِ اور (یہ وہ) دن تھا جب میں نے دوشیزہ لڑکیوں کے لیے اپنی ناقہ ذبح کر دی تھی، تو اے لوگو! میری حیرت کو دیکھو جو اس (ناقہ) کے (اس) کجاوہ سے (پیدا ہوئی) جو (دوسرے ناقہ پر) لدا ہوا تھا۔ فَظَلَّ العَذَارَى يَرْتَمِيْنَ بِلَحْمِهَـا وشَحْمٍ كَهُدَّابِ الدِّمَقْسِ المُفَتَّـلِ یعنی وہ دوشیزہ عورتیں اس کے گوشت اور اس کی چربی کو جو بٹے ہوئے ریشم کی جھالر کی طرح تھی، (بغایتِ سرُور) ایک دوسرے پر پھینکنے لگیں۔ ويَوْمَ دَخَلْتُ الخِدْرَ خِدْرَ عُنَيْـزَةٍ فَقَالَتْ لَكَ الوَيْلاَتُ إنَّكَ مُرْجِلِي اور جس دن کہ میں ہودج میں یعنی عنیزہ کے ہودج میں داخل ہوا (وہ کیسا بھلا دن تھا) تو اس نے مجھ سے کہا تیرا برا ہو تو مجھے پیادہ پا کرنے والا ہے۔ تَقُولُ وقَدْ مَالَ الغَبِيْطُ بِنَا مَعـاً عَقَرْتَ بَعِيْرِي يَا امْرأَ القَيْسِ فَانْزِلِ درانحالیکہ ہودج ہم دونوں کو جھکائے دے رہا تھا۔ وہ کہنے لگی اے امروالقیس! تو نے میرے اونٹ کی کمر لگا دی پس تو اتر پڑ۔ فَقُلْتُ لَهَا سِيْرِي وأَرْخِي زِمَامَـهُ ولاَ تُبْعـِدِيْنِي مِنْ جَنَاكِ المُعَلَّـلِ میں نے اس (عنیزہ) سے کہا کہ چلی چل اور اونٹ کی مہار کو ڈھیلی چھوڑ اور مجھ کو مکرر چنے ہوئے (یا مجھ کو بہلانے والے) میوہ سے دور نہ کر۔ فَمِثْلِكِ حُبْلَى قَدْ طَرَقْتُ ومُرْضِـعٍ فَأَلْهَيْتُهَـا عَنْ ذِي تَمَائِمَ مُحْـوِلِ (معشوقہ کو غرورِ حسن سے باز رکھنے کے لیے کہتا ہے کہ حسن و جمال میں) تجھ جیسی بہت سی حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں ہیں جن کے پاس میں رات کے وقت گیا اور ان کو تعویذ والے یک سالہ بچے سے غافل کر دیا۔ إِذَا مَا بَكَى مِنْ خَلْفِهَا انْصَرَفَتْ لَهُ بِشَـقٍّ وتَحْتِي شِقُّهَا لَمْ يُحَـوَّلِ جب وہ (بچہ) اس کے پیچھے رونے لگتا تھا تو وہ ایک حصہ کو اس کی طرف پھیر دیتی تھی اور ایک حصہ میرے نیچے رہتا تھا جو نہیں پھیرا جاتا تھا۔ ويَوْماً عَلَى ظَهْرِ الكَثِيْبِ تَعَـذَّرَتْ عَلَـيَّ وَآلَـتْ حَلْفَةً لم تَحَلَّـلِ اور ایک روز اس (معشوقہ) نے ایک ریت کے ٹیلے پر مجھ سے سختی کی اور (جدائی کی) ایسی قسم کھائی جس میں کوئی استثناء نہ تھا۔ أفاطِـمَ مَهْلاً بَعْضَ هَذَا التَّدَلُّـلِ وإِنْ كُنْتِ قَدْ أزْمَعْتِ صَرْمِي فَأَجْمِلِي اے فاطمہ! اس ناز و انداز کو ذرا چھوڑ اور اگر تو نے مجھ سے قطع تعلق کا پختہ ارادہ کر لیا ہے تو بھل مَنسی کے ساتھ کر۔ أغَـرَّكِ مِنِّـي أنَّ حُبَّـكِ قَاتِلِـي وأنَّـكِ مَهْمَا تَأْمُرِي القَلْبَ يَفْعَـلِ یقینا میری جانب سے تجھ کو یہ گھمنڈ ہو گیا ہے کہ تیری محبت مجھے قتل کیے دیتی ہے اور یہ کہ جو کچھ تو میرے دل کو حکم دے گی وہ (ضرور) کرے گا۔ وإِنْ تَكُ قَدْ سَـاءَتْكِ مِنِّي خَلِيقَـةٌ فَسُلِّـي ثِيَـابِي مِنْ ثِيَابِكِ تَنْسُـلِ اور اگر میری کوئی عادت تجھ کو بری معلوم ہوتی ہے تو اپنے کپڑوں (یا اپنے دل) کو میرے کپڑوں (یا میرے دل) سے کھینچ لے تاکہ جدا ہو جائے۔ وَمَا ذَرَفَـتْ عَيْنَاكِ إلاَّ لِتَضْرِبِـي بِسَهْمَيْكِ فِي أعْشَارِ قَلْبٍ مُقَتَّـلِ تیری دونوں آنکھیں اشکبار نہیں ہوتیں مگر صرف اس لیے کہ تو اپنی دونوں (نگاہوں کے) کے تیروں کو (میرے) شکستہ دل کے ٹکڑوں میں مارے۔ >ترجمہء ثانی< تیری دونوں آنکھوں نے صرف اس لیے آنسو بہائے تاکہ تو اپنے دونوں تیروں )معلیٰ اور رقیب) کو میرے دل نزار کے دسوں حصوں پر مار کر (مجموعہء) دل کی مالک بن جائے۔ وبَيْضَـةِ خِدْرٍ لاَ يُرَامُ خِبَاؤُهَـا تَمَتَّعْتُ مِنْ لَهْوٍ بِهَا غَيْرَ مُعْجَـلِ اور بہت سی (ایسی) پردہ نشین عورتیں ہیں جن کے خیمہ کا (بھی) قصد نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے بہت دیر ان کی دل لگی سے فائدہ اٹھایا۔ (بیضہء خدر سے حسین عورتیں مراد ہیں)۔ تَجَاوَزْتُ أحْرَاساً إِلَيْهَا وَمَعْشَـراً عَلَّي حِرَاصاً لَوْ يُسِرُّوْنَ مَقْتَلِـي ایسے نگہبانوں اور قبیلہ سے بچ کر اس تک جا پہنچا جو میرے متعلق اس کے خواہشمند تھے کہ کاش وہ پوشیدہ طور سے مجھ کو قتل کر ڈالیں۔ إِذَا مَا الثُّرَيَّا فِي السَّمَاءِ تَعَرَّضَتْ تَعَـرُّضَ أَثْنَاءَ الوِشَاحِ المُفَصَّـلِ )میں اس کے پاس ایسے وقت جا پہنچا) جب کہ ثریا کے کنارے آسمان پر اس طرح ظاہر ہو گئے تھے جیسے کہ (تھوڑے تھوڑے) فصل سے پروئے ہوئے موتیوں کے ہار کے کنارے۔ فَجِئْتُ وَقَدْ نَضَّتْ لِنَوْمٍ ثِيَابَهَـا لَـدَى السِّتْرِ إلاَّ لِبْسَةَ المُتَفَضِّـلِ میں اس کے پاس ایسے وقت میں پہنچا، جبکہ وہ چلمن کے پاس جامہء خواب کے علاوہ سونے کے لیے (سب) کپڑے نکال چکی تھی۔ فَقَالـَتْ : يَمِيْنَ اللهِ مَا لَكَ حِيْلَةٌ وَمَا إِنْ أَرَى عَنْكَ الغَوَايَةَ تَنْجَلِـي (جب میں اس کے پاس پہنچا) تو وہ بولی، خدا کی قسم تیرے لیے اب کوئی عذر نہیں اور میں نہیں خیال کرتی کہ تجھ سے یہ (عشق کی) گمراہی زائل ہو جائے گی۔ خَرَجْتُ بِهَا أَمْشِي تَجُرُّ وَرَاءَنَـا عَلَـى أَثَرَيْنا ذَيْلَ مِرْطٍ مُرَحَّـلِ میں اس کو ایسے حال میں لے کر نکلا کہ وہ چل رہی تھی اور ہم دونوں کے نشاناتِ (قدم) پر ہمارے پیچھے منقش چادر کے دامن کو کھینچ رہی تھی۔ فَلَمَّا أجَزْنَا سَاحَةَ الحَيِّ وانْتَحَـى بِنَا بَطْنُ خَبْتٍ ذِي حِقَافٍ عَقَنْقَلِ پس جب ہم قوم کی آبادی سے نکل گئے اور ایک وسیع ریگستان کے درمیان جو ٹیلوں والا تھا، پہنچے (لَمَّا کا جواب اگلے شعر میں ہے)۔ هَصَرْتُ بِفَوْدَي رَأْسِهَا فَتَمَايَلَـتْ عَليَّ هَضِيْمَ الكَشْحِ رَيَّا المُخَلْخَـلِ تو میں نے اس کی دو زلفوں کے ذریعہ (اس کو اپنی طرف) جھکایا۔ چنانچہ وہ باریک کمر، گداز پنڈلی والی (معشوقہ) میری طرف جھک آئی۔ مُهَفْهَفَـةٌ بَيْضَـاءُ غَيْرُ مُفَاضَــةٍ تَرَائِبُهَـا مَصْقُولَةٌ كَالسَّجَنْجَــلِ وہ معشوقہ نازک کمر، خوبرو، سُتے ہوئے بدن کی ہے۔ اس کا سینہ آئینے کی طرح درخشاں ہے۔ كَبِكْرِ المُقَـانَاةِ البَيَاضَ بِصُفْــرَةٍ غَـذَاهَا نَمِيْرُ المَاءِ غَيْرُ المُحَلَّــلِ (وہ محبوبہ) اس موتی کی طرح ہے جس میں زردی اور سفیدی ملی ہوئی ہو، جس کو (ایسے) صاف پانی سے سیراب کیا ہو جس پر لوگ نہ اترے ہوں۔ تَـصُدُّ وتُبْدِي عَنْ أسِيْلٍ وَتَتَّقــِي بِـنَاظِرَةٍ مِنْ وَحْشِ وَجْرَةَ مُطْفِـلِ وہ اعراض کرتی ہے اور ایک دراز رخسار ظاہر کرتی ہے اور مقام وجرہ کے بچہ والے وحشی (ہرن) کی آنکھ کے ذریعہ بچتی ہے۔ وجِـيْدٍ كَجِيْدِ الرِّئْمِ لَيْسَ بِفَاحِـشٍ إِذَا هِـيَ نَصَّتْـهُ وَلاَ بِمُعَطَّــلِ اور ایک ایسی گردن (کو ظاہر کرتی ہے) جو گردنِ آہو کی مثل ہے جبکہ وہ اس کو بلند کرے تو لمبی (بے ڈول) اور بے زیور نہیں ہے۔ وفَـرْعٍ يَزِيْنُ المَتْنَ أسْوَدَ فَاحِــمٍ أثِيْـثٍ كَقِـنْوِ النَّخْلَةِ المُتَعَثْكِــلِ اور ایسے بال (دکھاتی ہے) جو کمر کو زینت دیتے ہیں، سخت سیاہ ہیں۔ اتنے گھنے ہیں جیسے پھلدار کھجور کا خوشہ۔ غَـدَائِرُهُ مُسْتَشْزِرَاتٌ إلَى العُــلاَ تَضِلُّ العِقَاصُ فِي مُثَنَّى وَمُرْسَــلِ اس (محبوبہ) کی مینڈھیاں اوپر کو چڑھی ہوئی ہیں، جُوڑا گندھے ہوئے اور چھوٹے بالوں میں غائب ہو جاتا ہے۔ وكَشْحٍ لَطِيفٍ كَالجَدِيْلِ مُخَصَّــرٍ وسَـاقٍ كَأُنْبُوبِ السَّقِيِّ المُذَلَّــلِ اور ایسی نازک کمر جو مہارِ (شتر) کی طرح ہے اور پنڈلی جو نرم اور تربانسی کی پوری کی طرح ہے (دکھاتی ہے)۔ وتُضْحِي فَتِيْتُ المِسْكِ فَوْقَ فِراشِهَـا نَئُوْمُ الضَّحَى لَمْ تَنْتَطِقْ عَنْ تَفَضُّـلِ وہ (سوتے سوتے) دن چڑھا دیتی ہے، درانحالیکہ مشک کے ٹکڑے اس کے بستر پر پڑے ہوتے ہیں۔ چاشت کے وقت تک خوب سونے والی ہے اور اس نے (کام دھندے کے لیے) معمولی کپڑے پہننے کے بعد پٹکا نہیں باندھا۔ وتَعْطُـو بِرَخْصٍ غَيْرَ شَثْنٍ كَأَنَّــهُ أَسَارِيْعُ ظَبْيٍ أَوْ مَسَاويْكُ إِسْحِـلِ وہ ایسی نرم و نازک (انگلیوں) سے (چیزیں) پکڑتی ہے گویا کہ وہ (انگلیاں) )مقامِ) ظبی کے کینچوے یا اسحل (درخت) کی مسواکیں ہیں۔ تُضِـيءُ الظَّلامَ بِالعِشَاءِ كَأَنَّهَــا مَنَـارَةُ مُمْسَى رَاهِـبٍ مُتَبَتِّــلِ (حسین چہرہ کے ذریعہ) شام کے وقت تاریکی کو روشن کر دیتی ہے گویا کہ وہ تارک الدنیا راہب کا شام کا چراغ ہے۔ إِلَى مِثْلِهَـا يَرْنُو الحَلِيْمُ صَبَابَــةً إِذَا مَا اسْبَكَرَّتْ بَيْنَ دِرْعٍ ومِجْـوَلِ اس جیسی محبوبہ کی طرف بردبار (انسان بھی) عشق کی وجہ سے نظر جما کر دیکھتا ہے جب کہ وہ قمیص پہننے والی (عورتوں) اور کُرتی پہننے والی (بچیوں) کے درمیان کھڑی ہو۔ تَسَلَّتْ عَمَايَاتُ الرِّجَالِ عَنْ الصِّبَـا ولَيْـسَ فُؤَادِي عَنْ هَوَاكِ بِمُنْسَـلِ لوگوں کی نوخیز عمر کی (عاشقانہ) گمراہیاں زائل ہو گئیں (مگر اے محبوبہ) میرا دل تیری محبت سے جدا ہونے والا نہیں۔ ألاَّ رُبَّ خَصْمٍ فِيْكِ أَلْوَى رَدَدْتُـهُ نَصِيْـحٍ عَلَى تَعْذَالِهِ غَيْرِ مُؤْتَــلِ سن! تیرے (عشق کے) معاملہ میں بہت سے مخالف سخت جھگڑالو اپنی ملامت گری میں خیرخواہ (بننے والے) اور کوتاہی نہ کرنے والے (ایسے ہیں کہ) میں نے ان کو (ناکام) واپس لوٹا دیا (اور ان کی ایک نہ سنی)۔ ولَيْلٍ كَمَوْجِ البَحْرِ أَرْخَى سُدُوْلَــهُ عَلَيَّ بِأَنْـوَاعِ الهُـمُوْمِ لِيَبْتَلِــي اور بہت سی موجِ دریا کی طرح (خوفناک) راتیں ہیں جنہوں نے اپنے پردے طرح طرح کے غموں سمیت میرے اوپر چھوڑ دیے تاکہ (وہ مجھے) آزمائیں۔ فَقُلْـتُ لَهُ لَمَّا تَمَطَّـى بِصُلْبِــهِ وأَرْدَفَ أَعْجَـازاً وَنَاءَ بِكَلْكَــلِ تو میں نے اس (رات) سے اس وقت کہا جب کہ اس نے اپنی کمر دراز کی اور سُرین پیچھے کو نکالے اور سینہ کو اُبھارا )قُلتُ کا مقولہ اگلے شعر میں ہے)، ألاَ أَيُّهَا اللَّيْلُ الطَّوِيْلُ ألاَ انْجَلِــي بِصُبْحٍ وَمَا الإصْبَاحُ منِكَ بِأَمْثَــلِ (میں نے اس شب سے کہا، اے ہجر کی) شبِ دراز صبح بن کر روشن ہو جا (پھر ہوش میں آ کر کہتا ہے) اور صبح بھی تجھ سے کچھ بہتر نہیں ہے۔ فَيَــا لَكَ مَنْ لَيْلٍ كَأنَّ نُجُومَـهُ بِـأَمْرَاسِ كَتَّانٍ إِلَى صُمِّ جَنْــدَلِ اے رات تجھ پر تعجب ہے، گویا کہ اس کے ستارے نسر کے رسوں کے ذریعہ ٹھوس پتھروں سے باندھ دیے گئے ہیں۔ وقِـرْبَةِ أَقْـوَامٍ جَعَلْتُ عِصَامَهَــا عَلَى كَاهِـلٍ مِنِّي ذَلُوْلٍ مُرَحَّــلِ قوموں کے بہت سے ایسے مشکیزے ہیں جن کی جوتی کو میں نے اپنے مطیع اور بارکش کاندھے پر اٹھایا ہے۔ وَوَادٍ كَجَـوْفِ العَيْرِ قَفْرٍ قَطَعْتُــهُ بِـهِ الذِّئْبُ يَعْوِي كَالخَلِيْعِ المُعَيَّــلِ میں نے بہت سے ایسے جنگلوں کو (سفر میں) قطع کیا جو گدھے کے پیٹ کی طرح یا حمار بن مویلع کے جنگل کی طرح خالی تھے۔ ان میں بھیڑیا ہارے ہوئے کثیرالعیال جواری کی طرح رو رہا تھا (اپنی جفاکشی کی تعریف کرتا ہے)۔ فَقُلْـتُ لَهُ لَمَّا عَوَى : إِنَّ شَأْنَنَــا قَلِيْلُ الغِنَى إِنْ كُنْتَ لَمَّا تَمَــوَّلِ جب وہ بھیڑیا چلایا تو میں نے اس سے کہا ہم دونوں کی شان بے مائگی ہے، بشرطیکہ تو (اب تک کبھی) توانگر نہ ہوا ہو (بھیڑیے کے چلانے کو کم مائگی پر محمول کر کے اپنی بے مائگی دکھلا کر اس کو دلاسا دیتا ہے)۔ كِــلاَنَا إِذَا مَا نَالَ شَيْئَـاً أَفَاتَـهُ ومَنْ يَحْتَرِثْ حَرْثِي وحَرْثَكَ يَهْـزَلِ ہم دونوں میں سے جب کسی کے کوئی چیز ہاتھ لگتی ہے تو وہ کھو بیٹھتا ہے جو شخص میری سی اور تیری سی کمائی کرے گا (ضرور) لاغر ہو جائے گا۔ وَقَـدْ أغْتَدِي والطَّيْرُ فِي وُكُنَاتِهَـا بِمُنْجَـرِدٍ قَيْـدِ الأَوَابِدِ هَيْكَــلِ میں اتنے سویرے اٹھ کر کہ پرندے اس وقت اپنے گھونسلوں میں ہوتے ہیں ایک ایسے کم بال والے گھوڑے کو لے کر سفر کرتا ہوں جو وحشی جانور کی قید اور نہایت قوی ہے۔ مِكَـرٍّ مِفَـرٍّ مُقْبِلٍ مُدْبِـرٍ مَعــاً كَجُلْمُوْدِ صَخْرٍ حَطَّهُ السَّيْلُ مِنْ عَلِ بیک وقت بڑا حملہ آور، تیزی سے پیچھے ہٹنے والا، آگے بڑھنے والا، پشت پھیرنے والا ہے اس پتھر کی طرح جس کو سیلاب (کے بہاو) نے اوپر سے گرایا ہو۔ كَمَيْتٍ يَزِلُّ اللَّبْـدُ عَنْ حَالِ مَتْنِـهِ كَمَا زَلَّـتِ الصَّفْـوَاءُ بِالمُتَنَـزَّلِ کمیت (رنگ کا اور ایسی چکنی کمر والا) ہے کہ نمدہ کو کمر سے اس طرح پھسلا دیتا ہے جیسے چکنا سخت پتھر بارش کو۔ عَلَى الذَّبْلِ جَيَّاشٍ كأنَّ اهْتِـزَامَهُ إِذَا جَاشَ فِيْهِ حَمْيُهُ غَلْيُ مِرْجَـلِ باوجود چھریرے پن کے نہایت گرم رو ہے جب اس میں اس کی گرمی (رفتار) جوش مارتی ہے تو اس کی آواز ہانڈی کے اُبال کی طرح (سنائی دیتی) ہے۔ مَسْحٍ إِذَا مَا السَّابِحَاتُ عَلَى الوَنَى أَثَرْنَ الغُبَـارَ بِالكَـدِيْدِ المُرَكَّـلِ جب تیز رو گھوڑیاں تھکن کی وجہ سے سخت روندی ہوئی زمین میں غبار اڑانے لگیں )تب بھی وہ) باراں رفتار ہے۔ (یعنی پے در پے مختلف چالیں دکھاتا ہے)۔ يُزِلُّ الغُـلاَمُ الخِفَّ عَنْ صَهَـوَاتِهِ وَيُلْوِي بِأَثْوَابِ العَنِيْـفِ المُثَقَّـلِ سُبک تن لڑکے کو اپنی کمر سے پھسلا دیتا ہے اور بھاری کڑیل سوار کے کپڑے پھینک دیتا ہے۔ دَرِيْرٍ كَخُـذْرُوفِ الوَلِيْـدِ أمَرَّهُ تَتَابُعُ كَفَّيْـهِ بِخَيْـطٍ مُوَصَّـلِ اس قدر تیز (کاویے کاٹتا) ہے جیسے بچے کی پھرکی، جس کو اس بچہ کی پے در پے ہاتھوں کی حرکت نے بھنوا دھاگے کے ذریعے گھمایا ہو۔ لَهُ أيْطَـلا ظَبْـيٍ وَسَاقَا نَعَـامَةٍ وإِرْخَاءُ سَرْحَانٍ وَتَقْرِيْبُ تَتْفُـلِ اس کی کوکھیں ہرن کی سی ہیں اور پنڈلیاں شترمرغ کی سی۔ بھیڑیے کا سا دوڑنا ہے اور لومڑی کے بچہ کا سا پویا۔ ضَلِيْعٍ إِذَا اسْتَـدْبَرْتَهُ سَدَّ فَرْجَـهُ بِضَافٍ فُوَيْقَ الأَرْضِ لَيْسَ بِأَعْزَلِ (وہ گھوڑا) چوڑے سینے والا ہے۔ جب تم اسے پیچھے سے دیکھو تو وہ اپنی ٹانگوں کے درمیان کی کشادگی کو ایسی دُم سے پُر کر دیتا ہے جو گھنی اور زمین سے تھوڑی اونچی ہے (اور وہ) کج دُم نہیں ہے۔ كَأَنَّ عَلَى المَتْنَيْنِ مِنْهُ إِذَا انْتَحَـى مَدَاكَ عَرُوسٍ أَوْ صَلايَةَ حَنْظَـلِ جب وہ گھر کے پاس کھڑا ہوا ہوتا ہے تو اس کی کمر دلہن کی خوشبو پیسنے کے پتھر یا حنظل توڑنے کی سِل (کی طرح معلوم ہوتی) ہے۔ كَأَنَّ دِمَاءَ الهَـادِيَاتِ بِنَحْـرِهِ عُصَارَةُ حِنَّاءٍ بِشَيْـبٍ مُرَجَّـلِ (گلے کے) اگلے وحشی جانوروں کا خون جو اس کے سینے پر لگ گیا ہے، کنگھی کیے ہوئے سفید بالوں میں مہندی کے عرق کی طرح معلوم ہوتا ہے۔ فَعَـنَّ لَنَا سِـرْبٌ كَأَنَّ نِعَاجَـهُ عَـذَارَى دَوَارٍ فِي مُلاءٍ مُذَبَّـلِ ہمارے سامنے ایک ایسا ریوڑ آیا جس کی گاوانِ وحشی گویا دراز دامن چادروں میں )ملبوس) دُوار (بُت) کی دوشیزہ عورتیں ہیں (جو اس کے گرد گھومتی ہیں)۔ فَأَدْبَرْنَ كَالجِزْعِ المُفَصَّـلِ بَيْنَـهُ بِجِيْدٍ مُعَمٍّ فِي العَشِيْرَةِ مُخْـوَلِ سو وہ گاوانِ دشتی ایسے حال میں پلٹ کر بھاگیں گویا وہ خرمُہروں کا ایسا ہار ہیں جس کے درمیان اور موتیوں سے فصل کیا گیا ہے اور جو کنبہ میں سے ایسے بچہ کے گلے میں پڑا ہے جو نانہال اور دادھیال کے اعتبار سے شریف ہے۔ فَأَلْحَقَنَـا بِالهَـادِيَاتِ ودُوْنَـهُ جَوَاحِـرُهَا فِي صَرَّةٍ لَمْ تُزَيَّـلِ تو اس (گھوڑے) نے ہمیں گلہ کے گاوانِ پیش رَو سے اتنی جلد ملا دیا کہ پچھلی گائیں ایسی جماعت میں تھیں جو متفرق نہ ہونے پائی تھی۔ فَعَـادَى عِدَاءً بَيْنَ ثَوْرٍ ونَعْجَـةٍ دِرَاكاً وَلَمْ يَنْضَحْ بِمَاءٍ فَيُغْسَـلِ اس نے پے در پے ایک ہی جھپٹ میں ایک نرگاو اور ایک مادہ گاو کو دبا لیا اور اتنا پسینہ نہ لایا کہ نہا جاتا۔ فَظَلَّ طُهَاةُ اللَّحْمِ مِن بَيْنِ مُنْضِجٍ صَفِيـفَ شِوَاءٍ أَوْ قَدِيْرٍ مُعَجَّـلِ قوم کے گوشت پکانے والے یا گرم پتھروں پر پھیلائے گوشت کو کباب کرنے والوں یا ہانڈی کے جلد پکائے ہوئے گوشت کے پکانے والوں میں منقسم ہو گئے۔ ورُحْنَا يَكَادُ الطَّرْفُ يَقْصُرُ دُوْنَـهُ مَتَى تَـرَقَّ العَيْـنُ فِيْهِ تَسَفَّـلِ اور (کھا پی کر) ہم شام کو لَوٹے، درانحالیکہ ہماری نگاہ اس پر نہیں جمتی تھی۔ جب نظر اوپر کو جاتی تھی تو فورا نیچے اتر آتی تھی۔ فَبَـاتَ عَلَيْـهِ سَرْجُهُ ولِجَامُـهُ وَبَاتَ بِعَيْنِـي قَائِماً غَيْرَ مُرْسَـلِ سو وہ گھوڑا رات بھر اس حالت میں رہا کہ اس کا لگام اور زین اسی پر (کسا ہوا) تھا اور وہ تمام شب میرے سامنے ایسے حال میں کھڑا رہا کہ (اس کو چراگاہ میں) نہیں چھوڑا گیا تھا۔ أصَاحِ تَرَى بَرْقاً أُرِيْكَ وَمِيْضَـهُ كَلَمْـعِ اليَدَيْنِ فِي حَبِيٍّ مُكَلَّـلِ اے یار (کیا) تو بجلی کو دیکھ رہا ہے (آ) تجھے میں اس بجلی کی تہہ بہ تہہ ابر میں دونوں ہاتھوں کی حرکت کی طرح چمک دکھاوں۔ يُضِيءُ سَنَاهُ أَوْ مَصَابِيْحُ رَاهِـبٍ أَمَالَ السَّلِيْـطَ بِالذُّبَالِ المُفَتَّـلِ (کیا یہ) بجلی کی روشنی چمک رہی ہے یا اس راہب کا چراغ جس نے بٹی ہوئی بتیوں پر تیل جُھکا دیا ہے۔ قَعَدْتُ لَهُ وصُحْبَتِي بَيْنَ ضَـارِجٍ وبَيْنَ العـُذَيْبِ بُعْدَمَا مُتَأَمَّـلِ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ ضارج اور عُذیب کے درمیان غور کرنے کے بعد (بجلی کا نظارہ کرنے کے لیے) بیٹھ گیا۔ عَلَى قَطَنٍ بِالشَّيْمِ أَيْمَنُ صَوْبِـهِ وَأَيْسَـرُهُ عَلَى السِّتَارِ فَيَذْبُـلِ دیکھنے سے اس ابر کی بارش کی دائیں جانب کوہِ قطن اور بائیں جانب کوہِ سِتار اور یذبُل پر معلوم ہوتی تھی۔ فَأَضْحَى يَسُحُّ المَاءَ حَوْلَ كُتَيْفَةٍ يَكُبُّ عَلَى الأذْقَانِ دَوْحَ الكَنَهْبَلِ تو وہ ابر اور پانی کو مقامِ کُتیفہ پر اس زور شور سے برسانے لگا کہ کنہیل کے درختوں کو اوندھا گرا دیا۔ ومَـرَّ عَلَى القَنَـانِ مِنْ نَفَيَانِـهِ فَأَنْزَلَ مِنْهُ العُصْمَ مِنْ كُلِّ مَنْـزِلِ اس ابر کے کچھ چھینٹے کوہِ قنان پر بھی پڑے تو اس نے کوہِ قنان کی ہر جگہ سے بکروں کو نیچے اتار دیا (اس خوف سے کہ کہیں مینہہ زور کا نہ برسنے لگے) وتَيْمَاءَ لَمْ يَتْرُكْ بِهَا جِذْعَ نَخْلَـةٍ وَلاَ أُطُمـاً إِلاَّ مَشِيْداً بِجِنْـدَلِ قریہء تیماء میں اس ابر نے کسی کھجور کے تنے اور عمارت کو (سالم) نہ چھوڑا مگر (صرف وہ عمارت) جس کو پتھر اور چونے سے مضبوط چنا گیا ہو۔ (یعنی صرف چونے اور پتھر کی بنی ہوئی عمارتیں سالم رہ گئیں۔ خام عمارتیں سب منہدم ہو گئیں)۔ كَأَنَّ ثَبِيْـراً فِي عَرَانِيْـنِ وَبْلِـهِ كَبِيْـرُ أُنَاسٍ فِي بِجَـادٍ مُزَمَّـلِ کوہِ ثبیر اس ابر کی ابتدائی موٹی موٹی بوندوں والی بارش میں گویاں انسانوں کا بڑا سردار ہے جو دھاری دار کملی میں لپٹا ہوا ہے۔ كَأَنَّ ذُرَى رَأْسِ المُجَيْمِرِ غُـدْوَةً مِنَ السَّيْلِ وَالأَغثَاءِ فَلْكَةُ مِغْـزَلِ ٹیلہ مجیمر کے سر کی چوٹیاں، بہاو اور جھاگ (وغیرہ) کی وجہ سے صبح کے وقت گویا تکلے کا دمڑکا تھیں۔ وأَلْقَى بِصَحْـرَاءِ الغَبيْطِ بَعَاعَـهُ نُزُوْلَ اليَمَانِي ذِي العِيَابِ المُحَمَّلِ دشتِ غبیط میں اس ابر نے اپنا تمام بوجھ لا ڈالا جس طرح کہ یمنی تاجر بھاریوں گٹھریوں والا آ اترتا ہے۔ كَأَنَّ مَكَـاكِيَّ الجِـوَاءِ غُدَّبَـةً صُبِحْنَ سُلافاً مِنْ رَحيقٍ مُفَلْفَـلِ گویا کہ مقامِ جواء کی چہچہانے والی سفید چڑیاں صبح کے وقت صاف شرابِ فلفل آمیز پلا دی گئی تھیں۔ كَأَنَّ السِّبَـاعَ فِيْهِ غَرْقَى عَشِيَّـةً بِأَرْجَائِهِ القُصْوَى أَنَابِيْشُ عُنْصُـلِ پانی میں ڈوبے ہوئے درندے شام کے وقت جواء کے اطرافِ بعیدہ میں ایسے

Thursday 5 May 2022

مسجد قباء میں نماز پڑھنے کی فضیلت

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے: ’’مسجدِ قبا میں دو رکعت پڑھنے کا ثواب ایک عمرہ کے ثواب کے برابر ہے‘‘۔ ایک اور حدیث مبارک میں ہے : جو شخص گھر میں وضو کرکے مسجدِ قبا آئے اور دو رکعت نماز ادا کرے تو اس کو عمرہ جتنا ثواب ملے گا۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خصوصاً ہفتہ کے دن مسجدِ قبا تشریف لاکر نفل نماز پڑھتے تھے، یہ تشریف آوری کبھی پیدل ہوتی اور کبھی سواری پر ہوتی تھی؛ اس لیے زائرین کو مسجدِ قبا میں حاضر ہوکر نماز پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے، اور بہتر یہی ہے کہ مدینہ میں جہاں قیام ہو وہیں سے باوضو ہوکر مسجدِ قبا جائیں اور وہاں جاکر نماز پڑھنے کا اہتمام کریں ۔ صحيح البخاري (2/ 61) '' عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: «كان النبي صلى الله عليه وسلم يأتي مسجد قباء كل سبت، ماشياً وراكباً»۔ وكان عبد الله بن عمر رضي الله عنهما «يفعله»''۔ سنن الترمذي(2/ 145) '' قال: حدثنا أبو الأبرد، مولى بني خطمة، أنه سمع أسيد بن ظهير الأنصاري، وكان من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يحدث، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الصلاة في مسجد قباء كعمرة»''۔ سنن ابن ماجه (1/ 453) ''حدثنا محمد بن سليمان الكرماني، قال: سمعت أبا أمامة بن سهل بن حنيف، يقول: قال سهل بن حنيف: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من تطهر في بيته ثم أتى مسجد قباء، فصلى فيه صلاة، كان له كأجر عمرة»''

Tuesday 3 May 2022

عورت کوچھونے سے وضوٹوٹ جاتا ہے کہ نہیں

شہوت کے ساتھ بیوی کو چھونے یا بوس و کنار کرنے سے اگر شرم گاہ سے مذی وغیرہ نکل جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا، لیکن اگر مذی وغیرہ کوئی چیز نہ نکلے تو صرف چھونے یا بوس و کنار کرنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، چاہے شہوت سے ہی کیوں نہ ہو۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 134): "(وينقضه) خروج منه كل خارج (نجس) بالفتح ويكسر (منه) أي من المتوضئ الحي معتاداً أو لا، من السبيلين أو لا". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 165): "(لا) عند (مذي أو ودي) بل الوضوء منه ومن البول جميعا على الظاهر. (قوله: لا عند مذي) أي لايفرض الغسل عند خروج مذي كظبي بمعجمة ساكنة وياء مخففة على الأفصح، وفيه الكسر مع التخفيف والتشديد، وقيل: هما لحن ماء رقيق أبيض يخرج عند الشهوة لا بها، وهو في النساء أغلب، قيل هو منهن يسمى القذى بمفتوحتين نهر

شوال کے چھ روزوں کی فضیلت

شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہے، احادیثِ مبارکہ میں اس کی فضیلت وارد ہوئی ہے، چناں چہ رسول ﷲصلی ﷲعلیہ وسلم کاارشادِ گرامی صحیح سندکے ساتھ حدیث کی مستندکتابوں میں موجودہے: ’’عن أبي أیوب عن رسول اﷲﷺ قال: من صام رمضان ثم أتبعه ستًّا من شوال فذاک صیام الدهر‘‘. رواه الجماعة إلا البخاري والنسائي‘‘. ( اعلاء السنن لظفر احمد العثمانی -کتاب الصوم - باب استحباب صیام ستۃ من شوال وصوم عرفۃ -رقم الحدیث ۲۵۴۱- ط: ادارۃ القرآن کراچی ) ترجمہ:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے اورپھرشوال کے چھ روزے رکھے تویہ ہمیشہ (یعنی پورے سال)کے روزے شمارہوں گے‘‘۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم کے وعدہ کے مطابق ہر نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا ملتا ہے، گویا رمضان المبارک کے ایک ماہ کے روزے دس ماہ کے روزوں کے برابر ہوئے، اور شوال کےچھ روزے ساٹھ روزوں کے برابر ہوئے، جو دو ماہ کے مساوی ہیں، اس طرح رمضان کے ساتھ شوال کے روزے رکھنے والاگویا پورے سال روزہ رکھنے والا ہوجاتا ہے۔ شوال کے چھ روزے یکم شوال یعنی عید کے دن کو چھوڑ کر شوال کی دوسری تاریخ سے لے کر مہینہ کے آخر تک الگ الگ کرکے اور اکٹھے دونوں طرح رکھے جاسکتے ہیں۔ لہذا ان روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ البتہ اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو اسے طعن و تشنیع کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے؛ کیوں کہ یہ مستحب روزہ ہے، جسے رکھنے پر ثواب ہے اور نہ رکھنے پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 435): "(وندب تفريق صوم الست من شوال) ولا يكره التتابع على المختار خلافاً للثاني حاوي. والإتباع المكروه أن يصوم الفطر وخمسة بعده فلو أفطر الفطر لم يكره بل يستحب ويسن ابن كمال" . (قوله: على المختار) قال صاحب الهداية في كتابه التجنيس: إن صوم الستة بعد الفطر متتابعةً منهم من كرهه، والمختار أنه لا بأس به؛ لأن الكراهة إنما كانت؛ لأنه لايؤمن من أن يعد ذلك من رمضان فيكون تشبهاً بالنصارى والآن زال ذلك المعنى اهـ ومثله في كتاب النوازل لأبي الليث، والواقعات للحسام الشهيد، والمحيط البرهاني، والذخيرة. وفي الغاية عن الحسن بن زياد: أنه كان لايرى بصومها بأس،اً ويقول: كفى بيوم الفطر مفرقاً بينهن وبين رمضان اهـ وفيها أيضاً عامة المتأخرين لم يروا به بأساً. واختلفوا هل الأفضل التفريق أو التتابع اهـ. وفي الحقائق: صومها متصلاً بيوم الفطر يكره عند مالك، وعندنا لايكره وإن اختلف مشايخنا في الأفضل. وعن أبي يوسف أنه كرهه متتابعاً والمختار لا بأس به اهـ وفي الوافي والكافي والمصفى يكره عند مالك، وعندنا لايكره، وتمام ذلك في رسالة تحرير الأقوال في صوم الست من شوال للعلامة قاسم، وقد رد فيها على ما في منظومة التباني وشرحها من عزوه الكراهة مطلقاً إلى أبي حنيفة وأنه الأصح بأنه على غير رواية الأصول وأنه صحح ما لم يسبقه أحد إلى تصحيحه وأنه صحح الضعيف وعمد إلى تعطيل ما فيه الثواب الجزيل بدعوى كاذبة بلا دليل، ثم ساق كثيراً من نصوص كتب المذهب، فراجعها، فافهم. (قوله: والإتباع المكروه إلخ) العبارة لصاحب البدائع، وهذا تأويل لما روي عن أبي يوسف على خلاف ما فهمه صاحب الحقائق كما في رسالة العلامة قاسم، لكن ما مر عن الحسن بن زياد يشير إلى أن المكروه عند أبي يوسف تتابعها وإن فصل بيوم الفطر فهو مؤيد لما فهمه في الحقائق، تأمل.

Sunday 1 May 2022

اگرمیری مرضی کے بغیرگھرسے باہرگئ توطلاق ہے. اس سے طلاق ہوئی کہ نہیں

جب سائل نے اپنی بیوی کو یہ کہا تھا کہ:"اگر میری مرضی کے بغیر گھر سے باہر گئی تو طلاق ہے"،تو ان الفاظ سے سائل نے ایک طلاق رجعی کو بیوی کے گھر سے باہر جانے پر معلق کر دیا تھا،تاہم جب سائل نے اسے یہ الفاظ کہہ دیا کہ:" میری اجازت ہے،تم جب بھی گھر سے باہر جانا چاہو تو جاسکتی ہو"،مطلق اجازت دے دی تو اب بیوی کے باہر جانے سے معلق طلاق واقع نہیں ہوگی۔ الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے: "(لا تخرجي) بغير إذني أو (إلا بإذني) أو بأمري أو بعلمي أو برضاي(شرط) للبر (لكل خروج إذن) إلا لغرق أو حرق أو فرقة ولو نوى الإذن مرةدين وتنحل يمينه بخروجها مرة بلا إذن ولو قال: كلما خرجت فقد أذنت لك سقط إذنه ولو نهاها بعد ذلك صح عند محمد وعليه الفتوى والولوالجية (قوله ولو نهاها بعد ذلك صح) أي بعد قوله كلما خرجت إلخ قال في الخانية وبه أخذ الشيخ الإمام ابن الفضل، حتى لو خرجت بعد ذلك حنث ولو أذن لها بالخروج ثم قال لها كلما نهيتك فقد أذنت لك فنهاها لا يصح نهيه." (کتاب الایمان،مطلب لا تخرجی الا باذنی،ج:3،ص:759،ط:سعید)