https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday, 14 June 2025

نوکوسٹ ای ایم آیی پر خریدنا

 واضح رہے کہ ” ای ایم آئی (EMI)   یہ ( Equated Monthly Installment) کا مخفف ہے،اس کا  مطلب یہ  ہے کہ کسی چیز کو خریدتے ہوئے اس کی مکمل قیمت یک مشت ادا کرنے کے بجائے ماہانہ قسطوں کی صورت میں ادا کرنا،  اس کی ایک صورت  (No Cost EMI) ہے ،  اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز   کو نقد  رقم میں  خرید تے  ہوئے   جتنی قیمت ادا کرنی ہوتی ، اسی چیز  کو قسطوں  پر خریدنے میں بھی خریدار کو  اتنی  ہی قیمت ادا کرنی ہوگی، اور قسطوں پر خریداری کی صورت میں   کسی قسم کی اضافی رقم نہیں دینی ہوگی، اکثر آن لائن تجارتی پلیٹ فارم اس آپشن کو رکھتے ہیں۔

اس کے شرعی حکم سے پہلے یہ ملحوظ رہے کہ :

1۔یہ معاملہ بینک کے ذریعہ ہوتا ہے، قیمت کی ادائیگی بھی   خریدار بینک کے  کارڈ کے ذریعے کرتا ہے۔

2۔ماہانہ قسط کی ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ  (penalty)  بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔

3۔قسطوں پر خریدنے کی صورت میں  قیمت اصل رقم سے زیادہ ہی  ہوتی ہے، لیکن  یہ زائد رقم  انٹرسٹ  (سود) کے نام پر بینک ادا کرتا ہے، اور   خریدار کو ڈسکاؤنٹ کے نام  وہ رقم معاف کی جاتی ہے۔ اس خریداری کی انوائس  مثلا ًاس طرح ہوتی ہے:

:Price details

Price (1 item): 10000

  Delivery charges: Free

Interest (charged by bank):600

No cost EMI Discount: 600

Amount payable: 10000

شرعی حکم:

یہ معاملہ کئی وجوہات کی بنا پر شرعا جائز نہیں ہے:

1: اس معاملہ میں قسطوں پر خریداری کی صورت میں جو  اضافی رقم  دی جاتی ہے، وہ   اصل قیمت میں اضافہ  نہیں ہے، بلکہ وہ  ”سود “ کے نام پر  دی جاتی ہے، اور مدّت  کے بدلے میں جو قیمت میں اضافہ  ہو شرعاً وہ سود ہے ، جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔

2: خریدار کو اگر چہ  وہ رقم ڈسکاؤنٹ کے نام سے معاف کردی جاتی ہے، لیکن خریدار ہی کی طرف سے بینک یہ سود ادا کرتا ہے، اور  خریدار بینک کا اکاؤنٹ ہولڈر ہوتا ہے،    اور اکاؤنٹ ہولڈر کی جو رقم بینک میں رکھی ہوتی ہے، شرعا  وہ ” قرض“ کے حکم میں ہے، اور قرض پر کسی قسم کا مشروط نفع لینا شرعاً”سود“ ہے۔

3:  ماہانہ قسط کی ادائیگی میں  تاخیر کی صورت میں جرمانہ کی شرط ہوتی ہے،  اگرچہ وقت پر قسط کی ادائیگی ہو تب بھی  اس شرطِ فاسد کی وجہ سے پورا معاملہ فاسد ہوگا، الغرض یہ شرط فاسد ہےاور جرمانہ لینا شرعاً جائز نہیں ہے۔ 

4: عام طور پر یہ معاملہ ”کریڈٹ کارڈ“ کے ذریعے ہوتا ہے، اور ”کریڈٹ کارڈ“کا استعمال فی نفسہ بھی ناجائز ہے۔

لہذا    نو کوسٹ ای ایم آئی(NO COST EMI)  کے ذریعے   سامان خریدنا جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

موطأ مالك ميں هے:

" وحدثني عن مالك عن زيد بن أسلم أنه قال: " كان الربا في الجاهلية، أن يكون للرجل على الرجل الحق إلى أجل، فإذا حل الأجل، قال: أتقضي أم تربي؟ فإن قضى أخذ، وإلا  زاده في حقه، وأخر عنه في الأجل."

(2 / 672، باب ما جاء في الربا في الدين، ط:  دار إحياء التراث العربي، بيروت - لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.

و في الرد :  (قوله: كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر."

(5/166، مطلب کل قرض جر نفعا، ط: سعید)

      البحر الرائق میں ہے:

"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".

(5/ 41، فصل فی التعزیر، ط:  سعید)

Tuesday, 10 June 2025

عیدالاضحی کے چوتھے دن قربانی

 ایامِ اضحیہ (یعنی قربانی کے ایام) تین ہیں:  دس، گیارہ  اور  بارہ  ذی الحجہ (یعنی عید کا پہلا، دوسرا اور تیسرا دن)، لہٰذا  عید  کے چوتھے دن (یعنی ۱۳ ذی الحجہ کے دن)  قربانی کرنا معتبر نہیں ہے؛  اس لیے  کہ  حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابنِ عمر اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابۂ کرام سے مروی ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں اور پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ عبادات کے مخصوص اوقات صحابہ کرام خود سے نہیں، بلکہ نبی کریم ﷺ  کے بیان کی روشنی میں بتاتے تھے۔ اگر کوئی شخص قربانی کے ایّام میں جانور ذبح نہیں کرسکا، تو اس کے بعد صدقہ کرنا ضروری ہے۔

2: امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ  عید کے چوتھے دن (یعنی تیرہ ذوالحجہ) بھی  قربانی کے درست ہونے کے قائل  ہیں، ان کی دلیل حضرت علی  و عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی روایت ہے :

" کُلُّ اَیَّامِ التَّشرِیقِ ذِبح.

(موارد الظمآن ، ص:249، ط:المکتبة السلفیة)

یعنی ایامِ  تشریق سب قربانی کے دن ہیں ،  جب کہ احناف  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ  صحیح قول وہی ہے جو   حضرت  علی، عمر، ابوہریرہ، انس ، ابن عباس ، ابن عمر رضوان اللہ علیہم اجمعین  سے مروی ہے کہ" أيام النحر ثلاثة، أولها أفضلها"،  (قربانی کےدن تین ہیں، اور ان میں پہلا افضل ہے) اور  اسی قول کو جمہور  نے  قبول کیا ہے؛کیوں کہ قربانی ایک  عبادت ہے اور عبادات کے لیے اوقات کی پہچان سماع  سے ہوتی ہے،باقی  جو  دلیل حضرت عباس وعلی رضی اللہ عنہما کے حوالے سے مذکور ہے، تو ان کا یہ قول مجمل ہے، جس کی  تشریح  خود ان ہی کے قول : "أيام النحر ثلاثة، أولها أفضلها" سے ہورہی  ہے، یعنی حضرت علی  اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے ہی تمام ایامِ تشریق میں ذبح کی روایت موجود ہے، جب کہ آپ  دونوں رضی اللہ عنہما  ہی سے ایامِ نحر کی تحدید تین دن منقول ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ  ان دونوں صحابہ رضی اللہ عنہما کے ہاں بھی قربانی کے تین دن ہیں، البتہ ایامِ تشریق میں چوں کہ حجاجِ کرام منٰی اور حدودِ حرم میں ہی ہوتے ہیں تو  عرب اس میں جانور ذبح کرنے کا اہتمام کرتے تھے، اس کی اجازت اس روایت میں منقول ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأيام النحر ثلاثة: يوم الأضحى - وهو اليوم العاشر من ذي الحجة - والحادي عشر، والثاني عشر وذلك بعد طلوع الفجر من اليوم الأول إلى غروب الشمس من الثاني عشر، وقال الشافعي - رحمه الله تعالى -: أيام النحر أربعة أيام؛ العاشر من ذي الحجة والحادي عشر، والثاني عشر، والثالث عشر، والصحيح قولنا؛ لما روي عن سيدنا عمر وسيدنا علي وابن عباس وابن سيدنا عمر وأنس بن مالك - رضي الله تعالى عنهم - أنهم قالوا: أيام النحر ثلاثة أولها أفضلها، والظاهر أنهم سمعوا ذلك من رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لأن أوقات العبادات والقربات لا تعرف إلا بالسمع".

(کتاب التضحیة، فصل في وقت وجوب الأضحية، ج:5، ص:65، ط:دارالکتب العلمیة)