https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday, 8 August 2025

فاریکس ٹریڈنگ

 فاریکس  ٹریڈنگ کے نام سے بین الاقوامی سطح پرجوکاروبار رائج ہے،اس کاروبار میں سونا، چاندی، کرنسی، کپاس، گندم، گیس، خام تیل، جانور اور دیگر بہت سی اشیاء کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔

ہمارے علم کے مطابق "فاریکس ٹریڈنگ" کے اس وقت جتنے طریقے رائج ہیں  وہ  شرعی اصولوں کی مکمل رعایت نہ ہونے اور شرعی سقم پائے جانے کی وجہ سے ناجائز ہیں،  وہ شرعی خرابیاں درج ذیل ہیں:

(1)  کرنسی کی بیع شرعاً "بیعِ صرف" ہے، جس  میں بدلین پر مجلس میں قبضہ ضروری ہے جب کہ دونوں جانب سے یا کسی ایک جانب سے ادھار ناجائز ہے،لہذا اسپاٹ ٹریڈ ہو یا فیوچر ٹریڈ ،ایسے تمام سودے ناجائز ہیں  جن میں کرنسی کی خریدوفروخت ادھار ہوتی ہے،  یا نقد ہوتی ہے،  مگر عقد کے دونوں فریق  یا کوئی ایک فریق اپنے حق پر قبضہ نہیں کرتا ۔الحاصل تقابض (جانبین سے قبضہ) نہ پائےجانے کی وجہ سے ایسے سودے شرعاً فاسد ہوں گے اور نفع حلال نہ ہوگا۔

(2)   اصول ہے کہ بیع شرطِ  فاسد   سے  فاسد ہو جاتی ہے، "فاریکس"  کے کاروبار میں شروطِ فاسدہ بھی لگائی جاتی ہیں، مثلاً swaps (بیع بشرط الاقالہ) میں یہ شرط لگانا کہ ایک مقررہ مدت کے بعد بیع کو  ختم کیا جائے گا حال آں کہ بیع تام ہو جانے کے بعد لازم ہوجاتی ہے اور جانبین کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔

(3) نیز Options میں خریدار کو یہ حق دینا کہ وہ اپنی بیع کو فریقِ مخالف کی رضا مندی کے بغیر بھی "اقالہ" کرسکتا ہے۔ یہ بھی شرطِ فاسد ہے، کیوں کہ "اقالہ" میں جانبین کی رضامندی شرط  ہوتی ہے۔

(4) اس میں  "فیوچر سیل " بھی  ہوتی ہے اور وہ  ناجائز ہے؛ کیوں کہ  بیع  کا فوری ہوناضروری ہے،مستقبل کی تاریخ پر خرید و فروخت ناجائز ہے۔

(5) اس طریقہ کاروبار میں ایک قباحت "بیع قبل القبض" کی بھی ہے؛ کیوں کہ ستر ،اسی فی صد  لوگ اس مارکیٹ میں خریداری محض کرنسی ریٹ کے اتار چڑہاؤ  کے ذریعہ نفع حاصل کرنے کےلیے کرتے ہیں، ان کا مقصد کرنسی حاصل کرنا نہیں ہوتا؛ لہذا اکثر خریدارکرنسی کا قبضہ حاصل نہیں کرتے اور آگے بیچ دیتے ہیں۔

کرنسی کے علاوہ دھاتوں اور اجناس کی بیع اگر چہ بیعِ صرف  نہیں ہوتی اور اس وجہ سے  اس میں تقابض بھی شرط نہیں، لیکن   اس میں "بیع قبل القبض" (قبضہ سے پہلے فروخت کرنا)، "بیع مضاف الی المستقبل" (مستقبل کی بیع)  اوردیگر وہ شروطِ فاسدہ پائی جاتی ہیں جن کا اوپر بیان ہوا۔ نیز  اس بیع میں  بروکر کی  جانب سے یہ دھوکا بھی ہے کہ صارف جس مبیع کو محض بیعانہ دے کر اپنی ملکیت سمجھتا ہے اور اس کی قیمت بڑھ جانے سے نفع بھی کماتا ہے  اگر اس میں نقصان ہو جائے  تو  بروکر کو   اس پورے سودے کو ختم کرنے کا اختیار ہوتا ہے جب کہ شرعاً بروکر  کو اپنے عمل کی اجرت وصول کر لینے کے  بعد سودے میں کوئی حق اور اختیار نہیں ہوتا اور اگر کسی شخص نے کوئی چیز خریدی ہے تو اب اس کانفع و نقصان اس کے ذمہ ہے، نقصان دیکھ کر وہ سودے کو منسوخ  نہیں کرسکتا جب تک کہ دوسرے فریق کی رضامندی نہ ہو۔ 

خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ خرابیوں کی بنیاد پر فاریکس ٹریڈنگ کے ذریعہ پیسہ کمانا جائز نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے :

حدیث شریف میں ہے :

"وعن ابن عباس قال: أما الذي نهى عنه النبي صلى الله عليه وسلم فهو الطعام أن يباع حتى يقبض. قال ابن عباس: ولا أحسب كل شيء إلا مثله."

(کتاب البیوع ، باب المنهی عنها من البیوع  ج ۲ ص : ۸۶۳ ط : المکتب الاسلامي)

ترجمہ:" اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو منع کیا ہے وہ غلہ ہے کہ اس کو قبٖے میں لانے سے پلے فروخت کرنا ممنوع ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ میرا گمان ہے کہ اس بارے میں ہر چیز غلہ کی مانند ہے ۔"

وفيه أيضاّ:

"وعن عبادة بن الصامت قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الذهب بالذهب والفضة بالفضة والبر بالبر والشعير بالشعير والتمر بالتمر والملح بالملح مثلا بمثل سواء بسواء يدا بيد فإذا اختلفت هذه الأصناف فبيعوا كيف شئتم إذا كان يدا بيد» . "

(کتاب البیوع ، باب الربا ج ۲ ص : ۸۵۵ ط : المکتب الاسلامي)

ترجمہ:"اور حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سونا ، سونے کے بدلے اور چاندی ، چاندی کے بدلے اور گیہوں ، گیہوں کے بدلے اور جو، جو کے بدلے اور نمک ، نمک کے بدلے اگر لیا دیا جائے تو ان کا لین دین (مقدار) میں مثل بمثل یعنی برابر سرابر و دست بدست ہونا چاہیے ، اگر یہ قسمیں مختلف ہوں (مثلا گیہوں کا تبادلہ جو  کے ساتھ یا جو کا تبادلہ کھجور کے ساتھ ہو) تو پھر اجازت ہے کہ جس طرح چاہو خرید و فروخت کرو (یعنی برابر سرابر ہونا ضروری نہیں) البتہ لین دین کا دست بدست ہونا(اس صورت میں بھی) ضروری ہے۔"

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"والمعنى أنه إذا بيع شيء منها ليس من جنسه، لكن يشاركه في العلة كبيع الحنطة بالشعير، فيجوز التفاضل فيه، وهذا معنى قوله: (فبيعوا كيف شئتم) : لكن بشرط وجود الشرطين الآخرين من الشروط المتقدمة لقوله: (" إذا كان ") ، أي: البيع (يدا بيد) ، أي: حالا مقبوضا في المجلس قبل افتراق أحدهما عن الآخر."

(کتاب البیوع ، باب الربا ج ۵ ص : ۱۹۱۷ط : دارالفکر)


مجمع الأنہر  میں ہے :

"(ولو) كان البيع (‌بشرط ‌لا ‌يقتضيه ‌العقد وفي نفع لأحد المتعاقدين) أي البائع والمشتري (أو لمبيع يستحق) النفع بأن يكون آدميا (فهو) أي هذا البيع (فاسد) لما فيه من زيادة عرية عن العوض فيكون ربا وكل عقد شرط فيه الربا يكون فاسدا."

(کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد ج ۲ ص : ۶۲ ط : داراحیاء التراث العربي)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وشرط صحة الإقالة رضا المتقائلين والمجلس وتقابض بدل الصرف في إقالته."

(کتاب البیوع ، الباب الثالث عشر فی الاقالة ج ۳ ص : ۱۵۷ ط : دارالفکر)

وفيه أيضاّ:

"ومنها أن لا يكون مؤقتا فإن أقته لم يصح."

(کتاب البیوع ج ۳ ص : ۳ ط : دارالفکر)

درالمختار  میں ہے :

"(وما لا تصح) ‌إضافته (‌إلى ‌المستقبل) عشرة (البيع، وإجازته، وفسخه، والقسمة والشركة والهبة والنكاح والرجعة والصلح عن مال والإبراء عن الدين) لأنها تمليكات للحال فلا تضاف للاستقبال."

(کتاب البیوع ، باب المتفرقات ج ۵ ص : ۲۵۶ ط : دارالفكر)


بیع عینہ

 ضرورت مند شخص اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کسی سے قرض طلب کرے تو اس کا سب سے بہتر اور افضل طریقہ یہ ہے کہ بغیر کسی معاوضہ اور لین دین کے اسے قرضِ حسنہ دیا جائے ،البتہ اگر کوئی شحص قرضِ حسنہ دینے کے بجائے کوئی چیز مثلاً ٹائر وغیرہ مارکیٹ سے خرید کر اس طور پر اپنے قبضہ میں لائے کہ اس چیز کا رسک اور ضمان خریدار کی طرف منتقل ہوجائے ، پھر وہ چیز موجودہ مارکیٹ ریٹ سے زیادہ پر ایک متعین مدت کے لئے ضرورت مند شخص کوادھار فروخت کردے اور پھر وہ ضرورت مند شخص اس چیز کو مارکیٹ میں کسی اور شحص کے ہاتھ فروخت کرکے نقد رقم حاصل کرکے اپنی ضرورت پوری کرلے اور بعد میں مقررہ وقت آنے پر وہ ادھار پر خریدی ہوئی چیز کی طے شدہ قیمت ،فروخت کرنے والے کے حوالے کردے تو یہ صورت جائز ہے ، کیونکہ اس صورت میں جس شخص نے قرض طلب کرنے پر قرض دینے کے بجائے کوئی چیز ادھار پر فروخت کردی تھی تو وہ فروختگی درست تھی ، نیز وہ چیز فروخت کرنے والے کی طرف کسی حیلے کی بنیاد پر واپس بھی نہیں لوٹی ،نہ ہی اس نے خود خریدی اور نہ کوئی تیسرا شحص درمیان میں ایسا آیا جس نے یہ چیز خرید کر دوبارہ پہلے والے شخص کو بیچ دی ہو ، لہذا یہ صورت جائز ہے ، البتہ ضرورت مند شخص کو جو چیز فروخت کی گئی تھی اگر اس نے وہ چیز مارکیٹ میں کسی اور شخص کو فروخت نہیں کی ، بلکہ اس نے وہ چیز کم قیمت پر دوبارہ بیجنے والے کو فروخت کردی یا اس نے کسی طرح حیلہ کرکے تیسرے شخص کو درمیان میں لاکر وہ چیز واپس حاصل کرلی تو یہ صورت شرعاً ناجائز ہے ، جس سے احتراز لازم ہے ۔

کما فى الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار): (قوله: في بيع العينة) اختلف المشايخ في تفسير العينة التي ورد النهي عنها . قال بعضهم : تفسيرها أن يأتي الرجل المحتاج إلى آخر و يستقرضه عشرة دراهم و لا يرغب المقرض في الإقراض طمعا في فضل لا يناله بالقرض فيقول لا أقرضك ، و لكن أبيعك هذا الثوب إن شئت باثني عشر درهما و قيمته في السوق عشرة ليبيعه في السوق بعشرة فيرضى به المستقرض فيبيعه كذلك ، فيحصل لرب الثوب درهما و للمشتري قرض عشرة . و قال بعضهم : هي أن يدخلا بينهما ثالثا فيبيع المقرض ثوبه من المستقرض باثني عشر درهما و يسلمه إليه ثم يبيعه المستقرض من الثالث بعشرة و يسلمه إليه ثم يبيعه الثالث من صاحبه و هو المقرض بعشرة و يسلمه إليه ، و يأخذ منه العشرة و يدفعها للمستقرض فيحصل للمستقرض عشرة و لصاحب الثوب عليه اثنا عشر درهما ، كذا في المحيط ، و عن أبي يوسف : العينة جائزة مأجور من عمل بها ، كذا في مختار الفتاوى هندية . و قال محمد : هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا . و قال - عليه الصلاة و السلام - «إذا تبايعتم بالعينة و اتبعتم أذناب البقر ذللتم و ظهر عليكم عدوكم» قال في الفتح : و لا كراهة فيه إلا خلاف الأولى لما فيه من الإعراض عن مبرة القرض اهـ ط ملخصا . (5/ 273)۔
و فی فقہ البیوع : و من البیوع المؤجلۃ مایسمی"عینۃ" و ھی علی اختلاف اصطلاح الفقہاء علی قسمیں : الأول : ما عرفہ النووی رحمہ اللہ تعالی بقولہ"و ھو أن یبیع غیرہ شیئاً بثمن مؤجل و یسلمہ الیہ ، ثم یشتریہ قبل قبض الثمن بأقل من ذلک الثمن نقداً ، فإن كان البيع الثاني مشروطاً في البيع الأول ، فهو بيع فاسد بالإجماع . أما إذا كان البيع الثاني غير مشروط في البيع الأول ، فهو جائز عند الشافعية . و قد أيد الإمام الشافعي رحمه الله تعالى جوازه بقوة ، و أطال في التدليل عليه في كتابه "الأم"":(۱/ ۵۴۷)۔
و فیہ ایضاً : و لکن منع العینۃ انما یتجہ اذابقی المبیع فی البیع الأول علی حالہ عندالبیع الثانی فان تغیرالمبیع بما أثر علی قیمتہ ، جاز البیع الثانی ، و لوکان الی البائع الأول . (۱/۵۵۰)۔
و فی درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام : "إذا عقد البيع على تأجيل الثمن إلى كذا يوما أو شهرا أو سنة أو إلى وقت معلوم عند العاقدين كيوم قاسم أو النيروز صح البيع . يعني أن التأجيل إذا كان بالأيام أو الشهور أو السنين أو بطريق آخر فهو صحيح ما دام الأجل معلوما۔( 1 /228)۔


Tuesday, 5 August 2025

امام کے پیچھے مقتدی کا ایک سجدہ چھوٹ جائے تو کیا کرے

 مقتدی کو جب علم ہوا کہ امام دوسرا سجدہ بھی کرچکا ہے تو اسے چاہیے تھا کہ دوسرا سجدہ کرکے امام کی متابعت جاری رکھتا، اگر سجدہ کیے بغیر اس نے دیگر ارکان میں امام کی متابعت کی ہے (اور چھوٹا ہوا سجدہ نماز کے اندر نہیں کیا) تو اس کی نماز باطل ہوگئی ہے، اس کا اعادہ لازم ہے۔اگر مقتدی نے چھوٹا ہوا سجدہ کرلیا اپنی بقیہ نماز پورا کرتے ہوئے اور سجدۂ سہو بھی کرلیا تو نماز ہوجائے گی ۔

حاشية رد المحتار على الدر المختار (1 / 471):

"نعم تكون المتابعة فرضًا بمعنى أن يأتي بالفرض مع إمامه أو بعده، كما لو ركع إمامه فركع معه مقارنًا أو معاقبًا وشاركه فيه أو بعد ما رفع منه فلو لم يركع أصلاً أو ركع و رفع قبل أن يركع إمامه ولم يعده معه أو بعده بطلت صلاته". (کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، مطلب مهم تحقيق متابعة الامام،ط:سعيد)