https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday, 19 May 2025

سورہ فاتحہ کی تکرار سے سجدۂ سہو نہیں

 سورۃ فاتحہ کی کسی ایک آیت کا مکرر  پڑھنا ،خواہ  فرائض میں ہو یا نوافل میں  ،خواہ چار رکعتی فرائض کی ابتدائی دو رکعتوں میں ہو یا بعد کی دو رکعتوں میں ہو،بہر صورت اس سےسجدہ سہو واجب نہیں ہوتا ہے،اسی طرح اگر کوئی شخص  چار رکعتی  فرض  کی آخری دو رکعتوں میں پوری سور فاتحہ یا اس کا اکثر حصہ مکرر پڑھ لے تو اس سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا،البتہ چار رکعتی فرض کی آخری دو رکعتوں کے علاوہ رکعتوں میں اگر   کوئی سورۃ فاتحہ کی کوئی آیت تین یا اس سے زائد مرتبہ دُوھراتا ہے یا تین آیات مکررپڑھتا ہے تو بعض فقہاء کرام  کی تصریحات کی رو سے ضمِ سورۃ میں بقدر تین تسبیح تاخیر ہونے کی بناء پر سجدہ سہو لازم ہے،اور اگر پوری سورۃ فاتحہ  یا اکثر سورۃ فاتحہ کا تکرار کرتا ہے تو اس صورت میں بالاتفاق سجدہ سہو لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وكذا ترك تكريرها إلخ) فلو قرأها في ركعة من الأوليين مرتين وجب سجود السهو لتأخير الواجب وهو السورة كما في الذخيرة وغيرها، وكذا لو قرأ أكثرها ثم أعادها كما في الظهيرية".

(كتاب الصلاة،باب صفة الصلاة،فرائض الصلاة،واجبات الصلاة،ج:1،ص:460،ط: سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو كررها في الأوليين يجب عليه سجود السهو بخلاف ما لو أعادها بعد السورة أو كررها في الأخريين، كذا في التبيين. ولو قرأ الفاتحة إلا حرفا أو قرأ أكثرها ثم أعادها ساهيا فهو بمنزلة ما لو قرأها مرتين، كذا في الظهيرية".

(كتاب الصلاة،الباب الثاني عشر في سجود السهو،ج:1،ص:126،ط: رشيدية)

منھ دکھائی میں دی گئی انگوٹھی طلاق یا خلع کے موقع پر واپس ہوگی کہ نہیں

 سائل کی بیٹی کو جو لڑکے کی طرف سے منہ دکھائی ملی تھی، اور جو دیگر رشتہ داروں نے لڑکی کو تحائف دیے تھے، وہ سب سائل کی بیٹی کی ملکیت ہے، اور اس کی سابقہ ساس کا طلاق کے بعد ان چیزوں کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے، تاہم زیورات کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ جو زیورات لڑکی کو اُس کے میکے سے  ملتے ہیں وہ اُس کی ملکیت ہوتے ہیں ، اور جو زیورات لڑکی کو اُس کے سسرال والوں کی طرف سے دیے جاتے ہیں اُن کا حکم یہ ہے کہ اگر دیتے وقت مالک بنانے کی صراحت کردی تھی تو لڑکی مالک ہوگی اور اگر صرف استعمال کی صراحت کرکے دیے تھے تو لڑکے والے مالک ہوں گے اور اگر کچھ صراحت نہیں کی تھی تو اس صورت میں لڑکے والوں کے عرف ورواج کا اعتبار ہوتا ہے، یعنی اگر سسرال والوں کا عرف لڑکی کو بطور عاریت کے زیورات دینے کا ہو تو وہ لڑکی کی ملکیت نہیں ہوتے اور دینے والوں کو واپس طلب کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے، اور اگر سسرال والوں کا رواج بطور ملکیت کے دینے کا ہو یا کوئی رواج نہ ہو، تو وہ زیورات لڑکی کی ملکیت ہوتے ہیں، اور ان کا واپس طلب کرنا درست نہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

 "قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضا."

(كتاب النكاح، باب المهر، ٣ /١٥٣، ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"(‌جهز ابنته بجهاز وسلمها ذلك ليس له الاسترداد منها ولا لورثته بعد أن سلمها ذلك  في صحته) بل تختص به (وبه يفتى) وكذا لو اشتراه لها في صغرها ولوالجية."

(كتاب النكاح، باب المهر، ٣ /١٥٥، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"والمعتمد البناء على العرف كما علمت."

(كتاب النكاح، باب المهر، ٣ /١٥٧، ط: سعید) 


واضح رہے کہ میاں بیوی میں سے جب ایک دوسرے کو کوئی چیز بطور ہدیہ دے دے ، اور اس پر قبضہ بھی کرے تو اس کو واپس لینے کا مطالبہ نہیں کرسکتا، لہٰذا مذکورہ صورت میں شوہر نے بیوی کو منہ دکھائی کے موقع پر جو سونے کے بُندے دیے تھے یا لڑکی والوں نے شادی سے پہلے لڑکے کو جو پہناؤنی دی ہے ، ان میں سے ہر ایک دوسرے سے واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا، اور جہاں تک مہر کی بات ہے وہ تو خالص بیوی کا حق ہے اس میں بھی شوہر بیوی سے واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا، نیز اس کے علاوہ جہیز کا سامان کپڑے وغیرہ بھی بیوی کی ملکیت ہے۔
لما في التنوير مع الدر:
’’(والزاي الزوجية وقت الهبة، فلو وهب لامرأة ثم نكحها رجع، ولو وهب لا مرأته لا) كعكسه‘‘.
’’قوله:(فلو وهب لامرأة الخ) الأصل الزوجية نظير القرابة حتى يجري التوارث بينهما بلا حاجب وترد شهادة كل واحد للآخر فيكون المقصود من هبة كل منهما للآخر الصلة والتوادد، دون العوض بخلاف الهبة للأجنبي فإن المقصود منها العوض، ثم المعتبر في ذلك حالة الهبة فإن كانت أجنبية كان مقصوده العوض فثبت له الرجوع فيها فلا يسقط بالتزويج، وإن كانت حليلته كان مقصوده الصلة دون العوض وقد حصل فسقط الرجوع فلا يعود بالإبانة.١ه.
قوله:(لا) أي لا يرجع ولو فارقها بعد ذلك لا يملك الرجوع لقيام الزوجية وقت الهبة.
قوله:(كعكسه) أي لو وهبته لرجل ثم نكحها رجعت ولو لزوجها لا وإن فارقها والأولى أن يقول كما إذا كانت هي الواهبة فيهما‘‘.(كتاب الهبة، باب الرجوع في الهبة، 12/611:رشيدية)