https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 5 January 2024

فقہ اسلامی

 فقہ کی اہمیت کااندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ اس کی ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے خود قرآن کریم نے اس عظیم مقصدکے لیے ایک مستقل جماعت کی تشکیل کو ناگزیر قراردیا ہے، چنانچہ سورۃ التوبہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: 

’’وَمَاکَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَافَّۃً ط فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَائِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی   الدِّیْنِ   وَ لِیُنْذِرُوْا  قَوْمَھُمْ   اِذَا  رَجَعُوْٓا   اِلَیْھِمْ   لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ۔‘‘ 
’’اور مومنین کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ سب کے سب (جہاد کے لیے)نکل پڑیں، ایسا کیوں نہ ہوکہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے، تاکہ وہ (ادھر رہنے والے) دین میں سمجھ بوجھ حاصل کریں اور جب وہ (جہاد کے لیے جانے والے) ان کی طرف واپس لوٹ آئیں تو انہیں ڈرائیں،تاکہ وہ بچتے رہیں۔‘‘
اس کامنشا یہ ہے کہ دین کی دو بنیادی ضروریات ہیں: ایک غلبۂ دین اور دوسری فہم دین،اور یہ طے شدہ امر ہے کہ غلبۂ دین کا مدار فہمِ دین پر ہے، اس لیے باری تعالی نے تاکیدفرمائی کہ ایک جماعت غلبۂ دین کے سلسلہ میںجہاد کے لیے نکل پڑے اور دوسری فہمِ قرآن وسنت کے لیے اپنے مقام پر ہی رہے، تاکہ دین کے دونوں شعبے جاری رہیں۔

فقیہ کا مقام ومرتبہ

علم فقہ کی افادیت کے پیش نظراس محبوب مشغلہ کے لیے اپنی حیاتِ مستعار کے قیمتی لمحات وقف کرنے والے خوش نصیب افراد کو بہت سے فضائل ومناقب سے نوازا گیا ہے۔ سورۃ البقرہ میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ أُوْتِیَ خَیْرًاکَثِیْرًا‘‘        (البقرۃ:۲۶۹)
’’جس شخص کو حکمت عطا کی گئی اس کو بہت زیادہ بھلائی عطا کی گئی۔‘‘ 
حکمت کی تفسیر میں مفسرین کے متعدداقوال ہیں: ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ: اس سے فقہ مراد ہے۔ گویاکہ باری تعالیٰ کی نظر میں سب سے زیادہ اس کی بھلائیوں اورخوبیوں کو سمیٹنے والاشخص فقیہ ہے۔ صحیح بخاری ، کتاب العلم میں حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ  کی روایت سے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: ’’مَنْ یُّرِدِ اللہُ بِہٖ خَیْرًا یُّفَقِّہْہُ فِيْ الدِّیْنِ‘‘ ... ’’جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں، اسے دین کی سمجھ عطا فرمادیتے ہیں۔‘‘اس کے علاوہ کتب احادیث میں ’’أبواب العلم‘‘ کے تحت محدثین نے فقہاء کرام اوراہلِ علم کے فضائل ومناقب میں سینکڑوں احادیث نقل کی ہیں۔ 

حاصل کلام

ان تمام تر تفصیلات کی روشنی میںیہ بات واضح ہوگئی کہ فروعی مسائل کی تحقیق وتخریج کوئی معمولی اور آسان کام نہیںکہ ہر کس ونا کس اس مشغلے میں لگ جائے اور جمہور کے متفقہ مسائل سے انحراف کرکے اُمت کو نئی راہ پرلگادے ۔اجتہاد کی صلاحیت اوراستنباط کے ملکہ سے محروم شخص کے بس کایہ کام ہے اور نہ اسے اس لق ودق صحراء میں قدم رکھناچاہیے۔’’جس کاکام اسی کوساجھے‘‘ کے قاعدے پرعمل کرتے ہوئے یہ کام فقہاء کرام کے سپردکرناچاہیے، جو اس فن کے ماہر اور رموزِ شریعت کے شناور ہیں، ورنہ شریعت کے معاملے میںخودرائی سے ہدایت کی بجائے گمراہی پھیلنے کااندیشہ بلکہ یقین کامل ہے۔ ابن جوزی ؒنے ’’تلبیس ابلیس‘‘میںایک عامل بالحدیث کا واقعہ تحریر کیا ہے کہ وہ جب بھی استنجے سے فارغ ہوکر آتا بغیر وضوکیے وتر کی نیت باندھ لیتا۔ اس کی وجہ پوچھی گئی توکہنے لگا کہ میںنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث ’’مَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْیُوْتِرْ‘‘ (جوشخص استنجا کرے اس کوچاہیے کہ وترپڑھے) پر عمل کرتا ہوں، حالانکہ اس حدیث میں ’’فَلْیُوْتِرْ‘‘ سے مرادوتر پڑھنا نہیں، بلکہ طاق عدد میں ڈھیلے استعمال کرنا ہے۔ایک اورشخص کاواقعہ لکھاکہ وہ اپنے کنویں سے کسی دوسرے کو کھیت میں پانی نہیں لگانے دیتا تھا،وجہ پوچھنے پر اس نے بتایاکہ میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث ’’لَایَسْقِیْ أحَدُکُمْ مَاءَہٗ زَرْعَ غَیْرِہٖ‘‘ (کوئی شخص اپنے پانی سے کسی دوسرے کی کھیتی کوسیراب نہ کرے) پر عمل کرتا ہوں، حالانکہ اس حدیث میں ’’مَاء‘‘ سے مراد منی اور ’’زَرْع‘‘ سے مراد شرمگاہ ہے، مطلب حدیث پاک کا یہ ہے کوئی شخص دوسرے کی باندی سے صحبت نہ کرے۔ یقیناً یہ غلطی اس کوخودرائی کی وجہ سے لگی، اگر کسی ماہرِشریعت سے راہنمائی حاصل کرلیتاتوحدیث کے اصل مرجع اور مقصد تک پہنچ جاتا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کواکابر واسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے اور ان کے فہم کے مطابق قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

No comments:

Post a Comment