فتوی نویسی کے آداب میں سے ہے کہ فتوی لکھنے والے کی نظر اپنی کم علمی اور کوتاہی کے امکان پر ہو چنانچہ صحابۂ کرام کے دور سے سلف صالحین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ دینی مسئلہ بتانے کے بعد اپنے علم کی کمی اور اپنے بتائے ہوئے مسئلے میں خطا کے امکان کا اظہار فرمایا کرتے تھے، کیوں کہ انسانوں میں سےانبیاء علیہم السلام کے علاوہ کوئی غلطی سے خالی اور مبرا نہیں۔
صفة الفتوى" میں ہے :
"وأكثر من يفتي يقول الجواب وبالله التوفيق وحذف ذلك آخرون والأولى أن يكتب فيما طال من المسائل ويحذف فيما سوى ذلك ويختم الجواب بقوله وبالله التوفيق أو والله الموفق أو والله أعلم وكان بعض السلف يقول إذا أفتى إن كان صوابا فمن الله وإن كان خطأ فمني
وقد قال أبو بكر الصديق رضي الله عنه في الكلالة أقول فيها برأيي فإن كان صوابا فمن الله وإن كان خطأ فمني ومن الشيطان والله ورسوله بريئان منه الكلالة من لا ولد له ولا والد."
(ص 59، المكتب الإسلامي - بيروت)
No comments:
Post a Comment