https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 11 October 2021

زبردستی کی وجہ سے طلاق نامہ پر دستخط کرنا

 اگر زور زبردستی سے مراد  ماں یا بھائی  وغیرہ کی طرف سے اخلاقی دباؤ  یا بہت زیادہ اصرار اور بار بار مطالبہ ہے، (جیساکہ سوال کے ظاہر سے معلوم ہورہاہے) اس کی وجہ سے تنگ آکر ، نہ چاہتے ہوئے طلاق دے دی تو اس صورت میں طلاق نامے پر دستخط کرنے یا طلاق کے الفاظ لکھنے سے بھی طلاق واقع ہوجائے گی، چاہے زبان سے طلاق کے الفاظ نہ کہے ہوں۔

البتہ اگر زور زبردستی سے مراد یہ ہے کہ طلاق نہ دینے کی صورت میں جان سے مارنے یا کسی عضو کے تلف کرنے کی دھمکی دی ہو اور غالب گمان یہ ہو کہ طلاق نہ دینے کی صورت میں دھمکی دینے والا واقعۃً ایسا کرگزرے گا، اس صورت میں اگر اس نے زبان سے طلاق کے الفاظ کہہ دیے تو طلاق واقع ہوجائے گی

لمافی الدر المختار:

(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل)ولو تقديرابدائع ليدخل السكران ( ولو عبدا أو مكرها ) فإن طلاقه صحيح لا إقراره بالطلاق...
ولو استکتب من آخر کتابًا بطلاقہا الخ، وقع إن أقر الزوج أنہ کتابہ۔

(کتاب الطلاق)

، لیکن اگر زبان سے طلاق کے الفاظ نہیں کہے،بلکہ صرف طلاق کے الفاظ لکھے یا لکھے ہوئے طلاق نامہ پر دستخط کیے تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی

الدر المختار (6/ 129):
(وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني 
(خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آخر) كإتلاف مال الغير(أو لحق الشرع) كشرب الخمر والزنا.
حاشية ابن عابدين (3/ 236):
في البحر …… لو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لا طلاق ولا عتاق فی اغلاق.

’’جبر واکرہ سے نہ طلاق ہوتی ہے نہ مملوک کی آزادی‘‘

  1. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2 : 217، رقم : 2803، دارالکتب العلمية بيروت، سن اشاعت 1990ء
  2. ابن ماجه، السنن، 1 : 660، رقم : 2046، دارالفکر بيروت
  3. بيهقي، السنن الکبری، 7 : 357، رقم : 14874، مکتبة دارالباز مکة المکرمة، سن اشاعت 1994ء
  4. دارقطني، السنن، 4 : 36، رقم : 99، دارالمعرفة. بيروت، سن اشاعت 1966ء
  5. ابن ابي شيبة، المصنف، 4 : 83، رقم : 18038، مکتبة الرشد الرياض، سن اشاعت 1409ه

رجل اکره بالضرب والحبس علی أن يکتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان ابن فلان فکتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق.

’’کسی شخص کو مارپیٹ اور حبس (قید) کے ذریعہ، اپنی بیوی کو تحریری طلاق پر مجبور کیا گیا، کہ فلاں دختر فلاں ابن فلاں کو طلاق اس نے لکھ دیا کہ فلاں عورت فلاں بن فلاں کی بیوی کو طلاق اس کی بیوی کو طلاق نہ ہو گی‘‘

  1. فتاوی قاضی خان علی هامش عالمگيري، 1 : 472، طبع بلوچستان بکدپو، کوئته
  2. زين الدين ابن نجيم الحنفي، غمز عيون البصائر، 3 : 447، دار الکتب العلمية لبنان، بيروت، سن اشاعت1985ء

لو أکره علی أن يکتب طلاق امرأته فکتب لا تطلق.

’’اگر کسی کو مجبور کیا گیا کہ طلاق لکھے اور اس نے لکھ دی تو طلاق نہیں ہو گی‘‘

  1. زين الدين ابن نجيم الحنفي، البحرالرائق، 3 : 264، دارالمعرفة بيروت
  2. شامي، حاشية ابن عابدين، 3 : 236، دارالفکر للطباعة والنشر، بيروت

علامہ شامی فرماتے ہیں :

کل کتاب لم يکتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقرّانّه کتابه.

’’ہر تحریر جو خاوندنے نہ اپنے ہاتھ سے لکھی، نہ خود لکھوائی، اس سے طلاق واقع نہ ہوگی جب تک اقرار نہ کرے کہ یہ تحریر اسی کی ہے‘‘

ابن عابدين، ردالمحتار شامي، 3 : 247

No comments:

Post a Comment