خلع کے علاوہ بعض مخصوص حالات میں قاضی شرعی کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر بھی میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے، اس لیے کہ نکاح کے بعض حقوق ایسے ہوتے ہیں جو نکاح کے مصالح اور مقاصد میں سے ہیں اور قضاءً اس کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوتی ہے ، اگر شوہر ان کی ادائیگی نہ کرے تو بزورِ عدالت انہیں وصول کیا جاسکتا ہے، مثلًا بیوی کا نان ونفقہ اور حقوقِ زوجیت ادا کرنا وغیرہ، اگر شوہر ان کی ادائیگی سے عاجز ہو تو عورت کو طلاق دے دے ایسی صورت میں اگر وہ طلاق دینے سے انکار کرتا ہے یا شوہر طلاق دینے کے قابل نہیں ہے تو قاضی اس کا قائم مقام بن کر میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے، کیوں کہ اس کو ولایت حاصل ہوتی ہے، بیوی خود تفریق نہیں کرسکتی۔
جن اسباب کی بنا پر قاضی شرعی، میاں بیوی کا نکاح فسخ کرسکتا ہے وہ درج ذیل ہیں:
1۔شوہر پاگل یا مجنون ہو۔
2۔ شوہر نان و نفقہ ادا نہ کرتا ہو۔
3۔ شوہر نامرد ہو۔
4۔ شوہر مفقود الخبر یعنی بالکل لاپتہ ہو۔
5۔ شوہر غائب غیر مفقود ہو اور عورت کے لیے خرچ وغیرہ کی کفالت کا انتظام نہ ہو یا عورت کے معصیت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو۔
6۔ضربِ مبرّح یعنی شوہر بیوی کو سخت مار پیٹ کرتا ہو۔
ان اسباب میں سےکسی کی موجودگی میں اگر عورت مسلمان جج کی عدالت میں دعویٰ دائر کرکے گواہوں سے اپنے مدعی کو ثابت کردیتی ہے اورقاضی حسبِ شرائط نکاح فسخ کردیتا ہے تو اس کا یہ فیصلہ معتبر ہوگا اور اس میں شوہر کی اجازت ضروری نہیں ہوگی ، اسی طرح اگر شوہر عدالت میں حاضر نہ ہو تو عدالت شوہر کی غیر موجودگی میں بھی نکاح ختم کرانے کا اختیار رکھتی ہے، نکاح فسخ ہوجانے کے بعد عورت عدت گزار کر دوسری جگہ شادی کرنے میں آزاد ہوگی۔ (تفصیل کے لیے الحیلۃ الناجزہ للحلیلۃ العاجزہ،(مؤلف:حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی) ؒ کا مطالعہ کریں )
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"(قال) : والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد."
(المبسوط للسرخسي (6 / 173) باب الخلع، ط: دارالمعرفة، بیروت)
No comments:
Post a Comment