https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday, 19 June 2025

مذی سے غسل واجب ہوتا ہے کہ نہیں

 میاں بیوی کے باہم بوس و کنار کے دوران عورت کی شرم گاہ سے جو پانی نکلتا ہے ، وہ عموماً مذی ہوتی ہے،  اور مذی کا حکم یہ ہے کہ اُس کے نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا، صرف وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

مذی کی تعریف یہ  ہے کہ  مذی ، پتلی سفیدی مائل (پانی کی رنگت کی طرح) ہوتی ہے اور  بعض اوقات اس کے نکلنے کا احساس بھی نہیں ہوتا، اس کے نکلنے پر شہوت قائم رہتی ہے اور جوش کم نہیں ہوتا، بلکہ شہوت میں  مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔  اور یہ مردوں سے زیادہ عورتوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کے خروج سے غسل فرض نہیں ہوتا، البتہ اس کے خروج سے وضو ٹوٹ جاتاہے، اور  نماز و دیگر عبادات، جیسے قرآن مجید کی تلاوت وغیرہ کے لیے وضو کرنا ضروری ہوتا ہے۔ 

اور اگر مذی کپڑے پر لگ جائے تو اس کا  حکم یہ ہے کہ اگر یہ ایک درہم (5.94 مربع سینٹی میٹر پھیلاؤ)سے کم مقدارمیں کپڑے پرلگی ہو تو  (اگرچہ اس مقدار کو بھی دھولیناچاہیے  تاہم ) وہ معاف ہے، یعنی  ایسے کپڑے میں نمازکراہت کے ساتھ ہوجائے گی، اوراگرایک درہم کی مقدارسےزائد لگی ہو  تو ایسے کپڑے میں نمازنہیں ہوگی۔

اور  مذی کپڑے کے جس حصے میں لگی ہو، اُس حصے کو پاک کرنے کے لیے بہتے پانی یا زیادہ پانی سے اتنا دھولیا جائے کہ تسلی ہوجائے کہ اس نجاست کا اثر زائل ہوگیا ہے۔ اگر کسی کو  اطمینان نہ ہو تو اُسے چاہیے کہ ناپاک کپڑے کو تین مرتبہ اچھی طرح دھوئے اور ہر مرتبہ دھونے کے بعد اچھی طرح نچوڑ دے کہ پانی کے قطرے ٹپکنا بند ہوجائیں، اس طرح تین مرتبہ دھونے سے وہ پاک ہوجائے گا۔

البحر الرائق میں ہے:

"وهو ماء أبيض رقيق يخرج عند شهوة لا بشهوة ولا دفق ولا يعقبه فتور وربما ‌لا ‌يحس ‌بخروجه، وهو أغلب في النساء من الرجال ... وأجمع العلماء أنه لا يجب الغسل بخروج المذي والودي كذا في شرح المهذب. وإذا لم يجب بهما الغسل وجب بهما الوضوء وفي المذي حديث علي المشهور الصحيح الثابت في البخاري ومسلم وغيرهما."

(باب موجبات الغسل، ١ / ٦٥ . ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وعفا) الشارع (عن قدر درهم) وإن كره تحريما، فيجب غسله، وما دونه تنزيها فيسن، وفوقه مبطل ... (وهو مثقال) عشرون قيراطا (في) نجس (كثيف) له جرم (وعرض مقعر الكف) وهو داخل مفاصل أصابع اليد (في رقيق من مغلظة كعذرة) آدمي، وكذا كل ما خرج منه موجبا لوضوء أو غسل مغلظ."

(كتاب الطهارة، ‌‌باب الأنجاس، ١ / ١٣٦ ط: سعيد)

No comments:

Post a Comment