https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday, 15 November 2024

اسلام میں لڑکی کی شادی کی عمر کیا ہے

  اسلام میں لڑکے یا لڑکی کے لیے شادی کی کوئی خاص عمر متعین و مقرر  نہیں کی گئی ہے، کسی بھی عمر میں شادی کرائی جاسکتی ہے، البتہ بلوغت سے پہلے لڑکے/ لڑکی خود سے شادی نہیں کرسکتے،  بلکہ  ولی  کو ان کی شادی کرانے کا حق ہوتا ہے، چناں چہ  قرآن پاک میں ہے: 

{وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ}

 اس آیت میں ان لڑکیوں کی عدت طلاق تین ماہ بیان  کی  گئی  ہے، جن کو ابھی تک حیض نہیں  آیا، ظاہر ہے کہ  عدت کا سوال طلاق کے بعد ہی  ہوسکتا ہے، اور   جب تک  نکاح  صحیح  نہ  ہو  طلاق کا کوئی احتمال ہی نہیں، اس لیے اس آیت  نے نابالغ لڑکیوں کے نکاح کو واضح طور پر جائز قرار دیا ہے، اسی طرح حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی(نکاح) چھ سال کی عمر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوئی، ہاں  مباشرت کے حوالے سے اسلام میں یہ قید لگائی گئی ہے اگر لڑکی جماع کی متحمل نہ ہو تو شوہر کو اس سے صحبت کرنے کی اجازت نہیں ہوگی،  اور اگر وہ جماع کی متحمل ہو نیز کسی مرض کا اندیشہ بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں شوہر کو اس سے صحبت کرنے  کی اجازت  ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں لڑکی کی شادی اٹھارہ سال سے کم عمر میں کرانا جائز ہے، البتہ صحبت کے حوالے سے دیکھا جائے  گا کہ اگر وہ جماع کی متحمل ہے تو پھر اس سے جسمانی صحبت  بھی جائز ہوگی۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن عائشة، قالت: تزوجني النبي صلى الله عليه و سلم و أنا بنت ست سنين، و بنى بي و أنا بنت تسع سنين."

(کتاب النکاح، ص:456، ج:1، ط:قدیمی)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و اختلفوا في وقت الدخول بالصغيرة فقيل: لايدخل بها ما لم تبلغ، و قيل: يدخل بها إذا بلغت تسع سنين، كذا في البحر الرائق. و أكثر المشايخ على أنه لا عبرة للسن في هذا الباب وإنما العبرة للطاقة إن كانت ضخمة سمينة تطيق الرجال و لايخاف عليها المرض من ذلك؛ كان للزوج أن يدخل بها، و إن لم تبلغ تسع سنين، و إن كانت نحيفةً مهزولةً لاتطيق الجماع و يخاف عليها المرض لايحلّ للزوج أن يدخل بها، و إن كبر سنّها و هو الصحيح."

(کتاب النکاح، الباب الرابع فی الأولیاء فی النکاح، ص:287، ج:1، ط:رشیدیه)

4 comments:

  1. تناسخ ارواح یا آواگون کے قائل کا کیا حکم ہے؟
    عیسائیت پر مبنی کتابوں کو فروخت کرنے کا حکم؟
    دیگر مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کرنا اور اپنے کفر کا خود اقرار کرنا؟
    بیوی کو برہنہ بے لباس رقص کرانا؟
    اپنے آپ کو غیر مسلم کہہ کر غیر مسلم خاتون سے غیر مسلم ہندوانہ طریقے پر شادی کرنا،

    ReplyDelete
  2. اگر غیر مسلموں کی کتاب پڑھنے والا اسلامی تعلیمات کو صحیح طور پر جانتاہو،اپنے
    ایمان اور عقائد پر پختہ ہو ،اور وہ ان کتب کا مطالعہ اس لیے کرے تاکہ مخالفین کے اسلام اور مسلمانوں پر کیے گئے اعتراضات کا جواب دے سکے ،تو اس کے لیے ان کتب کو پڑھنا جائز ہے ،بغیر کسی غرض صحیح کے شوقیہ مطالعہ کرنے کی اجازت نہیں ۔اسی طرح عام لوگوں کی بھی اس کی اجازت نہیں ہے۔

    مشکاۃ المصابیح میں ہے:

    "عن جابر: (أن عمر بن الخطاب رضي الله عنهما أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم بنسخة من التوراة فقال يا رسول الله هذه نسخة من التوراة فسكت فجعل يقرأ ووجه رسول الله يتغير فقال أبو بكر ثكلتك الثواكل ما ترى ما بوجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فنظر عمر إلى وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أعوذ بالله من غضب الله وغضب رسوله صلى الله عليه وسلم رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " والذي نفس محمد بيده لو بدا لكم موسى فاتبعتموه وتركتموني لضللتم عن سواء السبيل ولو كان حيا وأدرك نبوتي لاتبعني)رواه الدارمی."

    (‌‌باب الاعتصام بالكتاب والسنة، الفصل الثالث، ج:1، ص:51، ط:المكتب الإسلامي)

    فتاوی شامی میں ہے:

    "واختار سيدي عبد الغني ما في الخلاصة، وأطال في تقريره، ثم قال: وقد نهينا عن النظر في شيء منها سواء نقلها إلينا الكفار أو من أسلم منهم."

    (كتاب الطهارة، سنن الغسل، ج:1، ص:175، ط:سعید)

    ReplyDelete
  3. کسی مسلمان کا دیدہ و دانستہ اپنے آپ کو کافر کہنا یا یہ کہنا کہ ”میں مسلمان نہیں ہوں“، کفر کا اقرار ہے، جو کفر ہے، اگر کوئی ایسا کر لے تو ایسے شخص پر واجب ہے کہ فوراً صدق دل سے توبہ کرلے اور تجدید ایمان کرے ، اور آیندہ ایسا کرنے سے مکمل پرہیز کرے۔ نیز اگر شادی شدہ ہو تو گواہوں کی موجودگی میں مہر مقرر کرکے تجدیدِ نکاح بھی کرے۔

    الفتاوى الهندية (2/ 279):
    "مسلم قال: أنا ملحد يكفر، ولو قال: ما علمت أنه كفر لايعذر بهذا ... وفي اليتيمة: سألت والدي عن رجل قال: أنا فرعون، أو إبليس فحينئذ يكفر، كذا في التتارخانية

    ReplyDelete
  4. تناسخ ارواح سے مقصود یہ ہے کہ جب جسم فوت ہو جائے تو روح کسی اور جسم میں منتقل ہو کر ان اعمال کے نتیجہ میں جو اس نے پہلے کۓ ہیں سعادت یا بدبختی کا شکار ہوتی اور اسی طرح ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتی رہتی ہے –

    یہ قول ( عقیدہ ) سب سے زیادہ باطل اور اللہ تعالی اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں کے ساتھ کفر ہے کیونکہ آخرت اور حساب وکتاب اور جنت اور جہنم پر ایمان رکھنا یہ ایسی چیز ہے جو کہ ضروری ہے اسی وجہ سے تو رسول آۓ اور نازل کی کتابیں اسی پر مشتمل ہیں اور تناسخ ارواح کا عقیدہ رکھنا ان سب کی تکذیب ہے –

    دوبارہ اٹھنے کی اسلامی تفسیر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں واضح ہے اللہ تعالی کا یہ فرمان اسی کے متعلق ہے :

    " ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے اورتم سب ہماری ہی طرف لوٹاۓ جا‎ؤ گے " العنکبوت / 57

    ارشاد باری تعالی ہے :

    " تم سب کو اللہ ہی کے پاس جانا ہے اللہ نے سچا وعدہ کر رکھا ہے بیشک وہی پہلی بار بھی پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ بھی پیدا کرے گا تا کہ ایسے لوگوں کو جو کہ ایمان لاۓ اور انہوں نے نیک کام کۓ انصاف کے ساتھ بدلہ دے اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے واسطے کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا اور ان کے کفر کی وجہ سے درد ناک عذاب ہو گا " یونس /4-

    فرمان باری تعالی ہے :

    اور جس دن ہم متقی اور پرہیزگار کو اللہ رحمان کی طرف سے بطور مہمان جمع کریں گے اور گنہگاروں کو سخت پیاس کی حالت میں جہنم کی طرف ہانک کر لے جائیں گے " مریم / 85- 86-

    اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

    " ان سب کو اللہ تعالی نے گھیر رکھا اور سب کو پوری طرح شمار بھی کر رکھا ہے " مریم / 94 95 –

    اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :

    " اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود (برحق ) نہیں وہ تم سب کو یقینا قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے (آنے) میں کوئی شک نہیں " النساء / 87-

    رب ذوالجلال کا فرمان ہے :

    " ان کافروں نے خیال کر رکھا ہے کہ وہ دوبارہ زندہ نہ کۓ جائیں گے آپ کہہ دیجۓ کہ کیوں نہیں اللہ کی قسم تم ضرور دوبارہ اٹھاۓ جاؤ گے پھر جو تم نے کیا ہے اس کی خبر دئیے جاؤ گے اور یہ تو اللہ پر بالکل آسان ہے " التغابن / 7-

    اس کے علاوہ بہت سی محکم آیات ہیں --

    اور سنت نبوی میں دوبارہ اٹھنے کا ذکر اور اس کی تفصیل وتقریر اتنی ہے کہ جس کا شمار ہی ممکن نہیں اور اسی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے :

    ( بیشک تم ننگے پاؤں ننگے جسم اور غیر ختنے کۓ ہوئے اکٹھے کۓ جاؤ گے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی < جیسے کہ ہم نے پہلی دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ بھی پیدا کریں گے یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے اور ہم اسے ضرور پورا کر کے ہی رہیں گے > اور قیامت کے دن سب سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کو کپڑے پہناۓ جائیں گے –

    صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3100) صحیح مسلم حدیث نمبر (5104)

    فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

    " بے شک انسان میں ایسی ہڈی ہے جسے زمین کبھی بھی نہیں کھائے گی قیامت کے دن اسی سے ترکیب ہو گی ( اسے جوڑا جائے گا ) صحابہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون سی ہڈی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ریڑھ کی ہڈی میں سب سے نچلی ہڈی ہے " صحیح مسلم حدیث نمبر ( 5255)

    ReplyDelete