سودی رقم کو اپنے بیٹے کے لیے کاروبار میں لگانا جائز نہیں ، اگر چہ وہ مفلس ہو بلکہ اسے جلد از جلد ثواب کی نیت کے بغیر مستحق زکوٰۃ افراد کو دینا ضروری ہے۔ جس طرح سائل اپنی زکوٰۃ اپنے مفلس اور مستحق بیٹے کو نہیں دے سکتا ، اسی طرح مذکورہ حرام رقم بھی اپنے بیٹے کو دینا جائز نہیں۔
ارشادِ باری تعالی ہے :
﴿ أَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ (البقرة:275)
ترجمہ:” حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کردیا ہے ۔“
﴿فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ﴾ (البقرة:278)
ترجمہ:”پھر اگر تم نہ کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے ۔“
﴿يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ﴾ (البقرة:276)
ترجمہ: ” اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔“
صحیح مسلم میں ہے:
"عن جابر بن عبدالله رضی الله تعالیٰ عنه قال: لعن رسول الله صلی الله علیه وسلم آکل الرّبا وموکله وکاتبه وشاهدیه، وقال: هم سواء."
(كتاب البیوع، باب لعن آکل الرّبا وموکله، رقم الحدیث:1598، ج:5، ص:50، ط:دارالمنھاج)
"عمدة القاري شرح صحيح البخاري" میں ہے:
"مطابقته للآية التي هي مثل الترجمة من حيث إن آيات الربا التي في آخر سورة البقرة مبينة لأحكامه وذامة لآكليه، فإن قلت: ليس في الحديث شيء يدل على كاتب الربا وشاهده؟ قلت: لما كانا معاونين على الأكل صارا كأنهما قائلان أيضا: إنما البيع مثل الربا، أو كانا راضيين بفعله، والرضى بالحرام حرام."
(كتاب البيوع، باب آكل الربا وشاهده وكاتبه، رقم الحديث:4802، ج:11، ص:200، ط:دار إحياء التراث العربي)
فتاوی شامیٰ میں ہے:
"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه."
(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج:5، ص:99، ط:سعید)
"الفتاوى الهندية" میں ہے:
"ولايدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي."
(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ج:1، ص:188، ط:رشيدية)
فتاوی شامیٰ میں ہے:
"(قوله: وإلى من بينهما ولاد) أي بينه وبين المدفوع إليه؛ لأن منافع الأملاك بينهم متصلة فلايتحقق التمليك على الكمال هداية والولاد بالكسر مصدر ولدت المرأة ولادةً وولادًا مغرب أي أصله وإن علا كأبويه وأجداده وجداته من قبلهما وفرعه وإن سفل بفتح الفاء من باب طلب والضم خطأ؛ لأنه من السفالة وهي الخساسة مغرب كأولاد الأولاد."
(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:346، ط:سعید)
وفيه أيضا:
"مطلب فيمن ورث مالا حراما ... لكن إذا علم المالك بعينه فلا شك في حرمته ووجوب رده عليه."
(کتاب البیوع، مطلب فيمن ورث مالا حراما، ج:5، ص:99، ط:سعید)
وفيه أيضا:
"في المجتبى: مات وكسبه حرام فالميراث حلال، ثم رمز وقال: لا نأخذ بهذه الرواية، وهو حرام مطلقا على الورثة فتنبه. اهـ. ح، ومفاده الحرمة وإن لم يعلم أربابه وينبغي تقييده بما إذا كان عين الحرام ليوافق ما نقلناه، إذ لو اختلط بحيث لا يتميز يملكه ملكا خبيثا، لكن لا يحل له التصرف فيه ما لم يؤد بدله كما حققناه قبيل باب زكاة المال فتأمل."
(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب رد المشترى فاسدا إلى بائعه فلم يقبله، ج:5، ص:99، ط:سعيد)
ماخوذ فتاویٰ جامعہ العلوم) الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی)
١)اسلام کی حقانیت وحقیقت کیا ہے ؟ کیا اسلام وایمان کے عقیدے لازمی ہیں ؟
ReplyDeleteباہمی اختلافات کے باوجود کیا مسلمان مسلمان رہتے ہیں؟. ایمان کی بنیادیں اور تقاضے کیا ہیں؟. کیا ایمان میں کمی زیادتی ممکن ہے؟فرائض میں ایمان باللہ مقدم ہے یہ نماز اور دوسرے ارکان؟
اسلام کی حقانیت اور جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت کے بے شمار اور لا تعداد دلائل ہیں؛ تاہم درج ذیل دلائل کسی منصف ، عاقل اور مکمل دل جمعی و اخلاص کے ساتھ تلاش حق میں مگن شخص کو قائل کرنے کیلیے کافی ہیں، ان دلائل کو درج ذیل اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
ReplyDeleteاول:
فطری دلائل:
اسلام فطرت سلیمہ سے مکمل مطابقت رکھتا ہے، اسی کی جانب اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ )
ترجمہ: لہذا یکسو ہو کر اپنا رخ دین پر مرتکز کر دو۔ یہی فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی اس خلقت میں کوئی رد و بدل نہیں ہو سکتا یہی درست دین ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ [الروم:30 ]
اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (کوئی بھی نومولود [دینِ ]فطرت پر پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے کہ جانور سے صحیح سالم جانور پیدا ہوتا ہے ،کیا ان میں سے کوئی کان کٹا بھی ہوتا ہے؟!)
اس روایت کو بخاری: (1358) اور مسلم: (2658) نے روایت کیا ہے۔
حدیث کے عربی الفاظ: " تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ " کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح جانور سلیم الاعضاء اور مکمل پیدا ہوتا ہے اس میں کوئی عیب نہیں ہوتا ، اور کان وغیرہ کاٹنے کے مراحل اس کی پیدائش کے بعد ہوتے ہیں۔
بالکل اسی طرح ہر انسان فطری طور پر مسلمان پیدا ہوتا ہے، اس کا اسلام سے کسی بھی قسم کا انحراف درحقیقت فطرت سے انحراف پیدا کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات میں ایسی کوئی بھی چیز نہیں پاتے جو کہ فطرت سے متصادم ہو، بلکہ اسلام کے عقائد، عملی عبادات سب کچھ فطرتِ سلیمہ سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں، جبکہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں ایسے نظریات اور عقائد موجود ہیں جو کہ فطرت سے یکسر متصادم ہیں، یہ چیز غور و فکر کرنے والوں کیلیے بالکل عیاں ہے۔
دوم:
سوم:
ReplyDeleteمعجزے اور نبوت کی نشانیاں:
اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو متعدد معجزے عطا کر کے ، خرق عادت امور، اور حسی نشانیاں عطا فرمائی تھیں، جو صداقتِ نبوت اور رسالت کی دلیل ہیں، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کو دو ٹکڑے فرمایا، کھانے اور کنکریوں نے آپ کے سامنے تسبیح پڑھی، آپ کی انگلیوں سے پانی بہنے لگا، کھانے میں برکت ہو گئی اور دیگر ایسے معجزے اور نشانیاں ہیں جنہیں بہت بڑی تعداد نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ہم تک یہ واقعات صحیح سند کے ساتھ پہنچے جو کہ معنوی اعتبار سے تواتر کی حد تک پہنچتے ہیں اور ان سے یقین حاصل ہو جاتا ہے۔
جیسے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو پانی کم ہو گیا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جتنا پانی بچا ہوا ہے وہ لے آؤ) تو صحابہ کرام ایک برتن لے کر آئے جس میں معمولی سا پانی تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ پانی میں ڈالا اور پھر فرمایا: (آ جاؤ با برکت اور پاک پانی کی جانب ، یہ برکت اللہ تعالی کی طرف سے ہے) تو میں نے دیکھا کہ پانی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے پھوٹ رہا تھا، اور ہم کھانے کی تسبیحات سنتے تھے حالانکہ اسے کھایا جا رہا ہوتا تھا" بخاری: (3579)
چہارم:
پیشین گوئیاں:
پیشین گوئیوں سے یہاں وہ خبریں مراد ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی بتلائی گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ خبریں لوگوں کو بتلا دیں، چاہے یہ خبریں آپ کی زندگی میں پوری ہوئیں یا وفات کے بعد ۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقبل کے بارے میں جو بھی پیشین گوئی فرمائی وہ مستقبل میں بالکل اسی طرح رونما ہو ئی، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو وحی کے ذریعے بتا دیتے تھے اور آپ کو ایسے غیبی امور دکھا دیتے تھے جن تک وحی کے بغیر پہنچنا ممکن نہیں، مثال کے طور پر: حدیث ہے کہ: (اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک حجاز سے ایک آگ نمودار نہ ہو جو بصری میں اونٹوں کی گردنوں کو روشن کر دے گی)
یہ حدیث صحیح بخاری: (7118) اور مسلم: (2902) میں موجود ہے۔