https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 6 August 2024

شرط فاسد کے ساتھ بیع

 خرید و فروخت کا معاملہ کرتے وقت ایسی شرط لگانا جس شرط کا یہ عقد نہ تقاضا  کرتا ہو  اور نہ ہی یہ شرط اس معاملہ کے مناسبات میں سے ہو  اور اس شرط میں بیچنے والے یا خریدنے والے کا کوئی فائدہ ہو (یا مبیع کا فائدہ ہو، بشرطیکہ مبیع اس کا اہل ہو، مثلاً: غلام ہو) تو یہ شرط خرید و فروخت کے معاملہ کو فاسد کردیتی ہے، شرعی اعتبار سے  شرطِ فاسد کی صورت میں  فروخت کنندہ اور خریدار کے لیے حکم یہ ہے کہ اس معاملہ کو ختم  کر کے نئے سرے سے معاملہ کریں۔ شرطِ فاسد کی موجودگی میں مشتری کے لیے مبیع سے استفادہ جائز نہیں ہوتا، فقہاءِ کرام نے بیوعِ فاسدہ کو سود کے حکم میں شامل کیا ہے۔

شروطِ فاسدہ کی بنا پر شریعت نے جب بیع کو فاسد قرار دیا ہے تو اس میں عاقدین کی رضا وعدم رضا کا اعتبار نہیں، بلکہ اس عقد میں موجود اس خرابی (شرط فاسد) کو جب تک دور نہ کیاجائے اس وقت تک شریعت کی نگاہ میں وہ بیع درست نہیں ہے، ایسی بیع کو ختم کرکے شرطِ فاسد کے بغیر بیع کرنا لازم ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (5 / 32(

"فالحاصل أن كل جهالة تفضي إلى المنازعة مبطلة فليس يلزم أن ما لايفضي إليها يصح معها بل لا بد مع عدم الإفضاء إليها في الصحة من كون المبيع على حدود الشرع ألا ترى أن المتبايعين قد يتراضيا على شرط لا يقتضيه العقد وعلى البيع بأجل مجهول كقدوم الحاج ونحوه ولايعتبر ذلك مصحّحًا، كذا في فتح القدير."

الهداية شرح البداية - (3 / 48):

"وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده كشرط أن لا يبيع المشتري العبد المبيع لأن فيه زيادة عارية عن العوض فيؤدي إلى الربا أو لأنه يقع بسببه المنازعة فيعري العقد عن مقصوده."

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر - (3 / 90):

"ولو كان البيع بشرط لايقتضيه العقد وفي نفع لأحد المتعاقدين أي البائع والمشتري أو  لمبيع يستحق النفع بأن يكون آدميًّا فهو أي هذا البيع فاسد لما فيه من زيادة عرية عن العوض فيكون ربا وكل عقد شرط فيه الربا يكون فاسدًا."

No comments:

Post a Comment