https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 3 January 2022

مساجدکی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں


ارشاد باری تعالی ہے :

إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّهِ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ {التوبہ18}

خدا کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا پر اور روز قیامت پر ایمان لاتے ہیں اور نماز پڑھتے

1 : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ آنے کے بعد سب سے پہلئے مسجد کا کام شروع کیا ہے:

قبامیں آپ چنددن ٹھرے اور وہاں مسجد کی بنیاد رکھی ۔

پھر جب مدینہ منورہ منتقل ہوئے تو اپنے لئے گھر کی تعمیر سے قبل مسجد کی بنیاد رکھی ۔

اور صحابہ کے ساتھ آپ خود بھی اسکی تعمیر میں شریک رہے ۔

2 : مسجد کو شریعت میں اللہ تعالی کا گھر کہا گیا اور اسکی نسبت اللہ کی طرف کی گئی :

وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا{الجن18}

اور یہ کہ مسجدیں (خاص) خدا کی ہیں تو خدا کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کرو

ومااجتمع قوم فی بیت من بیوت اللہ یتلون کتاب اللہ ۔۔۔۔ الحدیث

{ مسلم عن ابی ھریرۃ}

اس حدیث میں مسجد کو اللہ کے گھر سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

3 : آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو مساجد بنانے کا حکم دیتے :

امرنا رسول ببناء المساجد فی الدور وان تنظف وتطیب

{ احمد ابوداود عن عائشہ}

“ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم محلات میں مسجد تعمیر کریں اور اسے پاک وصاف اور معطر رکھیں ” ۔

آپ کے پاس وفود آتے تو آپ انہیں بھی مساجد کی بناء کا حکم دیتے ۔

حضرت طلق بن علی بیان کرتے ہیں کہ

4 : کسی علاقے میں مسجد کا نہ ہونا اور وہاں سے آذان کی آواز کا نہ آنا اس بات کی دلیل تھی کہ یہ بستی مسلمانوں کی نہیں ہے :

ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذاغزا بنا قوم لم یکن یغزو بنا حتی یصبح وینظر الیھم فان سمع الآذان کف عنہم وان لم یسمع اغار علیہم الحدیث

{ متفق علیہ عن انس}

5 : مساجد کا تاکیدی حکم :

مامن ثلاثۃ فی ضربۃ ولاتقام فیہم الصلاۃ الا قد استحوذ علیہم الشیطان فعلیکم با لجماعۃ فان الذئب یاکل من الغنم الفاصبۃ

{احمد ابوداود عن ابی الدرداء}

مسجد کی فضیلت :

۱- مسجد بنانے کی فضیلت :

من بنا للہ مسجدا یبتغی بہ وجہ اللہ بنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ

“جس نے اللہ تعالی کی رضا مندی چاہتے ہوئے مسجد کی تعمیر کی اللہ تعالی اس کے لئے جنت میں گھر کی تعمیر فرماتا ہے ”

{متفق علیہ عن عثمان}

۲- مسجد صدقہ جاریہ ہے :

ان مما یلحق المئومن من عملہ وحسناتہ بعد موتہ علما علم ونشرہ او ولد ا صالحا ترکہ اومصحفا ورثہ اومسجدا بناہ اوبیتالابن السبیل بناہ اونہر ا اجراہاوصدقۃ اخرجہا من مالہ فی صحتہ وحیاتہ تلحق من بعد موتہ ۔

{ابن ماجہ ۔ ابن خزیمہ عن ابی ھریرۃ}

++ مذکورہ حدیث میں وجہ استشہاد ہے کہ مسجد کی تعمیر صدقہ جاریہ میں سے ہے ۔

۳- مسجد کی محبت عظیم نیکی ہے :

کیونکہ مسجد سے محبت اللہ سے محبت کی دلیل ہے اور اللہ سے محبت لاالہ الاللہ کے شرائط میں سے ہے ،

سبعۃ یظلہم اللہ فی ظلہ یو م لاظل الاظلہ ، الامام العادل ، وشاب نشا فی عبادۃ اللہ عزوجل ،ورجل قلبہ معلق بالمساجد۔۔۔ الحدیث

{ البخاری مسلم عن ابی ھریرۃ}

+++ اس حدیث سے مطلوب یہ کہ مسجد کی محبت دل میں بسانے والے کے لئے قیامت والے دن عرش کا سایہ نصیب ہوگا ۔

۴- مسجد کی طرف جانا گویا اللہ کی ضیافت میں جانا ہے :

من غدا الی المسجد اوراح اعد اللہ لہ نزلا من الجنۃ کلماغدا اوراح

” جو کوئی صبح یا شام میں مسجد کی طرف جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کے لئے جنت کی مہمانی تیار فرماتا ہے ”

{ متفق علیہ عن ابی ھریرۃ}

۵- مسجد کا قصد کرنے والوں کی قیامت کے نرالی شان :

بشر المشائین فی الظلم الی المساجد بالنور التام یوم القیامۃ

“خوشخبری ہو تاریکی میں مسجد کی جانب چلنے والوں کے لئے قیامت کے دن مکمل روشنی کی ”

{ ابوداود، الترمذی عن بریدۃ}

۶- مسجد کی طرف جانا گناہ کاکفارہ اور درجات کی بلندی ہے:

صلاۃ الرجل فی الجماعۃ تضعف علی صلاتہ فی بیتہ وفی سوقہ خمساوعشرون درجۃ وذلک انہ اذا توضا فاحسن الوضوء ، ثم خرج الی المسجد لایخرجہ الا الصلاۃ لم یحط خطوۃ الا رفعت لہ درجۃ وحط عنہ بہا خطیئۃ ۔۔۔۔الحدیث

{البخاری ، مسلم عن ابی ھریرۃ}

++ اس حدیث کا وجہ ذکر یہ کہ مسجد کی طرف قدم بڑھانے والے کے گناہ معاف اور درجات بلند ہوتے ہیں ۔

۷-مسجد میں جانے والوں کی ایک اہم فضیلت :

بما تو طن رجل المساجد للصلاۃ والذکر الاتبشبش اللہ تعالی الیہ کمایتبشبش اھل الغائب بغائبہم اذا قدم علیہم ۔

” جو شخص بھی مسجدمیں نماز اور ذکر کیلئے کوئی جگہ بنالیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالی اسکی آمد پر اسی طرح خشی اور استقبال کا اظہار کرتا ہے جس طرح کسی کا عزیز ایک مدت غائب رہنے کے بعد اسکے پاس آئے۔”

{ ابن ماجہ ، ابن خزیمہ عن ابی ھریرۃ}

۸- مسجدمیں چھاڑو دینے کی فضیلت :

ان امرۃ سوداء ۔۔۔۔۔۔ {متفق علیہ عن عائشہ}

مذکور ہ حدیث میں اس عورت کا ذکر ہے جو غریب اور کالی کلوٹی تھی اور مسجد نبوی کی صفائی کا اہتمام کرتی تھی ، اس کی وفات ہوجاتی ہے اور لوگ اس کی تدفین کا انتظام فرمادیتے ہیں اور اس عورت کوغیر اہم جانتے ہوئے اس کی اطلاع بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پہنچاتے ، بعدمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر اس عورت کی وفات کا علم ہوتا ہے ، آپ افسوس ظاہر کرتے ہوئے عدم اطلاع کی شکایت کرتے ہیں اور قبرستان پہنچ کر اس گمنام عورت کی نماز جنازہ ادا فرماتے ہیں ۔

اس واقعہ سے اس بات کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسجد نبوی کی صفائی کرنے والی ایک گمنام عورت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر اہمیت دی اور اہمیت کی اہم وجہ یہی تھی کہ وہ عورت مسجدکی صفائی کا خیال رکھتی تھی ۔

1 comment: