https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 1 January 2022

شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی نصیرالدین قاسمی کی رحلت

 مفتی نصیرالدین سرولی رحمہ اللہ کے انتقال کی خبرسن کر سخت صدمہ پہنچامرحوم کی پوری عمردرس وتدریس ,قال اللہ وقال الرسول میں گذری مدرسہ حسین بخش مٹیامحل جامع مسجددہلی میں شیخ الحدیث تھے. اس سے پہلے مدرسہ عبدالرب دہلی میں بھی آپ اسی منصب جلیل پرفائز رہ چکے تھے .اس سے پہلے میوات کے مدارس میں آپ نے تدریسی خدمات انجام دیں . مرحوم کی شخصیت نہاں خانۂ دل میں جب آپ دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا میں مدرس تھے اور راقم الحروف  درجۂ حفظ کامبتدی طالب علم  تھاکچھ اس طرح نقش ہیکہ ایک سانولے رنگ کا چالیس پینتالیس سالہ  عالم میانہ قد,مائل بہ فربہی  ,موسم سرماکی دھوپ میں سرمیں تیل بسائے تپائی پر کوئی ضخیم کتاب رکھے مصروف مطالعہ ہے.

ان دنوں ان کی خدمت میں موضع کارینڈامیوات کےدولڑکے رہتے تھے میں سمجھتاتھاکہ ان کے بیٹے ہوں گےبعد میں پتہ چلا کہ وہ آپ کے برادرنسبتی تھے.حضرت مہتمم صاحب مولانامحمدقاسم رحمہ اللہ اکثر ان دنوں عصرکے بعد ہم عمرطلباء کے مابین کشتی کامقابلہ کراتے تھے. مفتی صاحب کے برادر نسبتی کشتی میں اپنے ہم عمر طلباءکے سینے پر اپنی ٹھوڑی کچھ اس اندازمیں گاڑتے کہ مقابل طالب علم چت جاگرتا.اس وقت مفتی صاحب دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا کے ان کچے قطار در قطار حجروں میں سے ایک حجرے میں رہتے تھے جوروڈ سے مدرسہ کی طرف جانے والے راستے پر واقع تھے. وہاں آئے دن کیڑے مکوڑے نکلتے رہتے تھے .چوہے بھی طلباء کے ساتھ غالباً  اتنی ہی مقدار میں چھپر کے ان حجروں میں بسیراکیے ہوئے تھے جتنی طلباء کی تعداد ہوگی.جن کے سامنے شاہوں کے محل ہیچ بلکہ احترام وعقیدت میں آج بھی جھک جاتے ہیں .

آپ  کاحجرہ حافظ منشی صاحب کےحجرے کےبرابرتھا. اسی کے برابر ہماراحجرہ تھاوہی درجۂ حفظ کی درسگاہ بھی تھی. کبھی کبھی مجھے مفتی صاحب کی خدمت کاموقع ملتاتھامفتی صاحب آواز دیکر بلا لیتے تھے اگرچہ میرے بچکانہ ذہن کواس وقت اساتذہ کی خدمت ناپسند تھی .پہلی بار مجھے کسی کام کیلئے  بلایااورنام دریافت کیاتوفرمایاتمہارانام توبہت شاندار ہے اس کامطلب تومیواتی نہیں ہے ؟حافظ منشی صاحب مدظلہ نے انہیں بتایاکہ ان کے والدعالم ہیں میرے ساتھی ہیں اسی لئے ان کانام اتنااچھاہے.  دوسری مرتبہ جب دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا میں ہدایۃ النحو کافیہ وغیرہ میں میراداخلہ ہواتومفتی صاحب مدرسہ میں مدرس نہیں تھے, کسی دیگر مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے تھے. مدرسہ عبدالرب میں بھی آپ نے تدریسی فرائض انجام دیئے. شاید مدرسہ رحیمیہ مہندیان دہلی میں میری آپ سے ملاقات ہوئی تھی  انہیں دنوں میں نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیاتھا .

مدرسہ حسین بخش دہلی میں جب آپ نئے نئے مدرس ہوئے تو میرے والد مرحوم کبھی کبھی ان سے ملاقات کرنے جاتے تھے .کیونکہ والد مرحوم دریاگنج کوچہ ناہر خاں میں رہتے تھے .ایک مرتبہ مفتی نصیر الدین قاسمی صاحب رحمہ اللہ کی مجلس میں  دوران گفتگو ایک دیگر مفتی صاحب سے والد  صاحب کسی مسئلہ میں بات ہوئی, انہوں نے کہا:میں مفتی ہوں والد صاحب نے اس پرفرمایا :میں مفتی کاباپ ہوں, اس پروہ صاحب ناراض ہو گئے .مفتی نصیرالدین قاسمی صاحب رحمہ اللہ نے پھرانہیں سمجھایاکہ یہ جملہ مولانانے غصہ میں نہیں کہا بلکہ اظہارواقعہ ہے .ان کے بیٹے عامر دارالعلوم دیوبند سے افتاء کئے ہوئے ہیں اب علی گڑھ میں زیر تعلیم ہیں .

مفتی صاحب مرحوم سے مجھے باقاعدہ شرف تلمذ حاصل نہ ہو سکا .تاہم بچپن میں ان کی خدمت وہم سائیگی  کاشرف میرے لئے مایہ افتخار ہے .ابھی چند سالوں میں میوات ہی نہیں بلکہ ہندوستان بھر کی کئ عظیم شخصیات ہمارے بیچ سے  چلی گئیں :

اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں

روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجئے

No comments:

Post a Comment