https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 7 January 2022

دواوقات کی نماز جمع کرکے پڑھنے کی اجازت کب ہے

 ہر نماز کو اپنے اپنے وقت میں پڑهنا فرض ہے، نمازوں کے اوقات قرآن وحدیث میں وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں، ان میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے۔

قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے فرمایاہے :
﴿اِنَّ الصَّلوٰةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا ﴾ 
(النساء:۱۰۳)
ترجمہ: بے شک نماز مسلمانوں پروقتِ مقررہ کے ساتھ فرض ہے۔

ہرنماز کی ابتدا کا وقت بھی مقرر ہے، اور اس کے ختم ہونے کا بھی وقت مقرر ہے، بلکہ ایک حدیث میں نبی صلی الله عليه وسلم نے دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں بلا عذر پڑھنے کو گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے، ظاہر ہے کہ جو عمل گناہِ کبیرہ ہو، وہ کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ 

لما فی الترمذی:
مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ اَتٰى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ.‘‘
(سنن الترمذي، باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین في الحضر:۱۸۸)
ترجمہ: جس آدمی نے بغیر عذر کے دو نمازوں کو (ایک ہی وقت میں )جمع کیا(پڑھا) وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ چکا۔

لہذا معلوم ہوا کہ دو وقتوں کی نماز کو ایک ہی وقت میں ادا کرنا جائز نہیں ہے، البتہ سفر وغیرہ میں ایک نماز اپنے وقت کے آخر میں اور دوسری نماز اپنے وقت کے شروع میں پڑهی جائے، تو اس کی گنجائش ہے۔
اب رہی وہ احادیث جن میں سفر یا کسی اور عذر کی بنا پر دو نمازوں کو جمع کرنے کا ذکر ہے، تو اس کے دو جواب ہیں:

ایک جواب یہ ہے کہ جن روایات میں صراحتاً وقت سے پہلے یا وقت کے بعد نماز ادا کرنے کا ذکر ہے، وہ قرآن مجید اور ان احادیث سے متعارض ہیں، جن میں نمازوں کے اوقات مقرر کیے گئے ہیں، کیونکہ قرآن مجید میں نماز کو اس کے وقتِ مقررہ پر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور اس حدیث میں وقت سے پہلے یا وقت کے بعد دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے، اور ظاہر ہے کہ قرآن اور حدیث میں ٹکراؤ ہو، تو قرآن کو ترجیح دی جاتی ہے، نیز دیگر احادیث جو نمازوں کو اوقات کے علاوہ اد اکرنے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہیں، ان سے بھی ٹکراؤ کی صورت میں ان کثیر وصحیح روایات کو ترجیح دی جائے گی، اس لیے ظہر اور عصرکی نماز کا جو وقت مقرر ہے، اور مغرب و عشاء کی نماز کا جو وقت مقرر ہے، اسی پر عمل کیاجائے گا، اور نمازیں اسی وقت میں ادا کرنا ضروری ہوگا، اور دو نمازوں کو جمع کرنے والی روایات کو ترک کردیا جائے گا۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ ان روایات میں جمع کرنے سے صورتاً جمع کرنا مراد ہے، حقیقتاً نہیں، اس کی وضاحت یہ ہے کہ ظہر کی نماز اتنی دیر سے پڑھی جائے کہ اس کاوقت ختم ہونے لگے، جیسے ہی ظہر کی نماز سے فراغت ہو، کچھ دیر انتظار کیا جائے، پھرجب عصر کا وقت شروع ہوجائے، تو عصر بھی پڑھ لی جائے، اسی طرح مغرب اور عشاء میں کیا جائے، اس صورت میں ظہر اپنے وقت میں پڑھی جائے گی، اور عصر اپنے وقت میں پڑھی جائےگی، لیکن بظاہر ایسا محسوس ہوگا کہ دونوں ایک ہی ساتھ پڑھی گئیں ہیں۔ آپ صلی الله عليه وسلم نے دونمازوں کو اس طرح جمع فرمایا تو راویوں نے کہہ دیا کہ آپ نے دونمازوں کو جمع فرمایا ہے، جب کہ اس کی حقیقت کچھ اور ہی تھی، جیسا کہ مندرجہ ذیل تفصیلی روایات میں اس کی وضاحت ملتی ہے:

عبد اللہ ابن عمر فرماتے ہیں:
’’رَاَيْتُ رَسُوْلَ الله ﷺ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ يُؤَخِّرُ صَلاَةَ الْمَغْرِبِ حَتّٰى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ صَلاَةِ الْعِشَاءِ.‘‘ قال سالم وکان عبداللہ بن عمر یفعلہ اذا اعجلہ السیر یقیم المغرب فیصلیھم ثلاثا ثم یسلم ثم قلما یلبث حتی یقیم العشاء۔
(صحیح بخاری، باب ہل یوذن او یقیم اذا جمع الخ، ج1، ص149)

اس میں صراحت ہے کہ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما نمازِ مغرب سے فارغ ہونے کے بعد کچھ دیر ٹھہر جاتے تھے، پھر اس کے بعد عشاء پڑھتے تھے، تو حضرت ابن عمر کا مغرب پڑھ کر ٹھہرنا صرف اس لیے تھا کہ عشاء کے وقت کے داخل ہونے کا یقین ہوجائے۔

عن ابن مسعود مارایت النبی صلی الله عليه وسلم صلی صلوۃ لغیر میقاتھا الا صلوتین جمع بین المغرب والعشاء ای فی المزدلفۃ و صلی الفجر قبل میقاتھا( المعتاد) 
(صحیح بخاری، ج1، ص228، باب متی یصلی الفجر بجمع) 

ابن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے وقت کے علاوہ نماز پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا، سوائے مزدلفہ میں آپ نے مغرب اور عشاء کو جمع فرمایا اور فجر کی نماز اپنے (مقررہ) وقت سے پہلے ادا فرمائی۔

ان روایات سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ کا دونمازوں کو جمع فرمانا صورتاً تھا، حقیقتاً نہیں، چنانچہ اگر ہم ان روایات کو جمع صوری پر محمول کرتے ہیں، تو تمام آیات اور روایات میں کوئی تعارض نہیں ہوتا ہے، اور اگر حقیقت پر محمول کرتے ہیں، تو پھر آیاتِ مبارکہ اور احادیث مبارکہ کو ترک کرنا لازم آتا ہے، اس لئے اس کو جمع صوری پر محمول کیا جائے گا، تاکہ قرآن اور حدیث پر مکمل طور پر عمل ہو، اور ان میں باہم تضاد اور ٹکراؤ نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

کذا فی الدر مع الرد: 

''(ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر) سفر ومطر خلافاً للشافعي، وما رواه محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض على وقته (وحرم لو عكس) أي أخره عنه (وإن صح) بطريق القضاء (إلا لحاج بعرفة ومزدلفة)۔

(قوله: وما رواه) أي من الأحاديث الدالة على التأخير كحديث أنس «أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل السير يؤخر الظهر إلى وقت العصر فيجمع بينهما، ويؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء»۔ وعن ابن مسعود مثله''.

'' ومن الأحاديث الدالة على التقديم وليس فيها صريح سوى حديث أبي الطفيل عن معاذ «أنه عليه الصلاة والسلام كان في غزوة تبوك إذا ارتحل قبل زيغ الشمس أخر الظهر إلى العصر فيصليهما جميعاً، وإذا ارتحل قبل زيغ الشمس صلى الظهر والعصر ثم سار، وكان إذا ارتحل قبل المغرب أخر المغرب حتى يصليها مع العشاء، وإذا ارتحل بعد المغرب عجل العشاء فصلاها مع المغرب» .

(قوله: محمول إلخ) أي ما رواه مما يدل على التأخير محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً: أي فعل الأولى في آخر وقتها والثانية في أول وقتها، ويحمل تصريح الراوي بخروج وقت الأولى على التجوز كقوله تعالى :﴿ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ ﴾ [البقرة: 234] أي قاربن بلوغ الأجل أو على أنه ظن، ويدل على هذا التأويل ما صح عن ابن عمر: « أنه نزل في آخر الشفق فصلى المغرب ثم أقام العشاء وقد توارى الشفق، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل به السير صنع هكذا.» " وفي رواية ": ثم انتظر حتى غاب الشفق وصلى العشاء "، كيف وقد قال صلى الله عليه وسلم: «ليس في النوم تفريط، إنما التفريط في اليقظة، بأن تؤخر صلاة إلى وقت الأخرى». رواه مسلم، وهذا قاله وهو في السفر. وروى مسلم أيضاً عن ابن عباس «أنه صلى الله عليه وسلم جمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء بالمدينة من غير خوف ولا مطر، لئلا تحرج أمته». وفي رواية: «ولا سفر». والشافعي لا يرى الجمع بلا عذر، فما كان جوابه عن هذا الحديث فهو جوابنا. وأما حديث أبي الطفيل الدال على التقديم فقال الترمذي فيه: إنه غريب، وقال الحاكم: إنه موضوع، وقال أبو داود: ليس في تقديم الوقت حديث قائم، وقد أنكرت عائشة على من يقول بالجمع في وقت واحد. وفي الصحيحين عن ابن مسعود : « والذي لا إله غيره ما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة قط إلا لوقتها إلا صلاتين جمع بين الظهر والعصر بعرفة، وبين المغرب والعشاء بجمع». " ويكفي في ذلك النصوص الواردة بتعيين الأوقات من الآيات والأخبار، وتمام ذلك في المطولات، كالزيلعي وشرح المنية. وقال سلطان العارفين سيدي محيي الدين نفعنا الله به: والذي أذهب إليه أنه لا يجوز الجمع في غير عرفة ومزدلفة؛ لأن أوقات الصلاة قد ثبتت بلا خلاف، ولا يجوز إخراج صلاة عن وقتها إلا بنص غير محتمل؛ إذ لاينبغي أن يخرج عن أمر ثابت بأمر محتمل، هذا لا يقول به من شم رائحة العلم، وكل حديث ورد في ذلك فمحتمل أنه يتكلم فيه مع احتمال أنه صحيح، لكنه ليس بنص اهـكذا نقله عنه سيدي عبد الوهاب الشعراني في كتابه الكبريت الأحمر في بيان علوم الشيخ الأكبر''.

(ج:1،ص:382-381،ط:سعید،کراچی)

No comments:

Post a Comment