https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 19 July 2024

قسطوں پر مکان یا پلاٹ خریدنا

 قسطوں پر اشیاء کی خرید و فروخت  کے صحیح ہونے کے لیے درج ذیل شرائط کا لحاظ اور رعایت کرنا ضروری ہے :

قسط کی رقم متعین ہو، مدت متعین ہو، معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار، اور ایک شرط یہ بھی ہے کہ کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں کسی بھی عنوان سے اس میں اضافہ وصول نہ کیا جائے ، اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر قسطوں پر پلاٹ ، فلیٹ ، مکان یا دیگر اشیاء کی خریدو فروخت میں  مذکورہ شرائط کا لحاظ رکھا جائے تو یہ بیع درست ہو گی ،اور اگر ان شرائط کی رعایت نہ رکھی جائے، تو  اس طرح خرید وفروخت  کرنا درست نہیں ہو گا۔

"مجمع الأنهر شرح ملتقي الأبهر "میں ہے :

"ویصح البیع بثمن مال مؤجل لإطلاق قوله تعالیٰ: ﴿وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾."

(كتاب البيوع ،ج:3 ،ص:13، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)

مجلۃ  الأحكام العدليه ميں هے :

"البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطه صحیح…… یلزم أن تکون المدة معلومة في البیع بالتأجیل والتقسیط."

(كتاب البيوع،ج:1،ص:127، رقم المادة: ۲۴۵، ط: مکتبة الإتحاد دیوبند)

مبسوط للسرخسی میں ہے :

"وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا، وبالنقدکذا، أو قال إلی شھر بکذا أو إلی شھرین بکذا فہو فاسدٌ … وہٰذا إذا افترقا علی ہٰذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرّقا حتّٰی قاطعہ علیٰ ثمن معلوم وأتما العقد علیہ فہو جائز الخ."

(كتاب البيوع،۱۳:۷، ۸، ط: دار المعرفة بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے :

"أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيعين في بيع» وكذا إذا قال: بعتك هذا العبد بألف درهم إلى سنة أو بألف وخمسمائة إلى سنتين؛ لأن الثمن مجهول،.....وجهالة الثمن تمنع صحة البيع فإذا علم ورضي به جاز البيع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد وقد ‌زالت في المجلس وله حكم حالة العقد فصار كأنه كان معلوما عند العقد وإن لم يعلم به حتى إذا افترقا تقرر الفساد."

(كتاب البيوع ،باب شرائط الصحة في البيوع ،ج:5 ،ص:158 ،ط:رشيدية)

No comments:

Post a Comment