https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 29 June 2024

عورت ک مایک پر تقریر کرنا

 ضرورت کے وقت عورت کے لیے اجنبی مرد سے بات کرنا، اسی طرح کوئی دینی مسئلہ یا حدیث وغیرہ بیان کرنا اگرچہ جائز ہے، جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وغیرہا سے ثابت ہے؛ لیکن شرط یہ ہے کہ ضرورت واقعی ہو یعنی کوئی دوسرا مرد مسئلہ بتلانے والا نہ ہو  اور نہ اپنی کسی محرم خاتون کے توسط سے معلوم کیا جاسکتا ہو، اور اس مسئلہ کی دینی اعتبار سے فوری ضرورت وغیرہ بھی ہو، لیکن عورتوں کا جلسوں وغیرہ محافل میں اتنی بلند آواز سے بیان کرنا کہ آواز باہر مردوں تک بھی پہنچتی ہو جائز نہیں ہے ، کیوں کہ عورتوں کا جلسوں میں بلند آواز سے بیان کرنا ضرورت میں داخل نہیں ہے،لہٰذا اجنبی مردوں کے سامنے عورتوں کا اپنی آواز ظاہر کرنے میں بہرحال خوفِ فتنہ ہے، اس لیے شرعًا اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی، یہی وجہ ہے کہ شریعتِ مطہرہ میں  عورتوں کے لیے اذان دینا ممنوع ہے، اسی طرح عورتوں کو بلند آواز سے تلبیہ پڑھنے کی بھی اجازت نہیں ہے، بلکہ جماعت کی نماز میں شریک ہونے کی صورت سے امام کو آواز سے تسبیح پڑھ کر لقمہ دینے کی بھی اجازت نہیں ہے، نیز دیگر تسبیحات و تذکیر و تہلیل وغیرہ  بھی  پست آواز سے کہنے کا حکم ہے؛ لہٰذا عورتوں  کے لیے جلسوں وغیرہ  میں ساؤنڈ  سسٹم کے ذریعہ بلند آواز سے بیان کرنا جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے، بلکہ جلسوں وغیرہ میں شرکت کے  لیے عورتوں کا گھر سے باہر نکلنا ہی شرعًا درست نہیں ہے۔

احکام القرآن میں ہے:

وقَوْله تَعَالَى: { وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ } رَوَى أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : ( هُوَ الْخَلْخَالُ ) ، وَكَذَلِكَ قَالَ مُجَاهِدٌ : ( إنَّمَا نُهِيت أَنْ تَضْرِبَ بِرِجْلَيْهَا لِيُسْمَعَ صَوْتُ الْخَلْخَالِ ) وَذَلِكَ قَوْلُهُ : { لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ } .
قَالَ أَبُو بَكْرٍ : قَدْ عُقِلَ مِنْ مَعْنَى اللَّفْظِ النَّهْيُ عَنْ إبْدَاءِ الزِّينَةِ وَإِظْهَارِهَا لِوُرُودِ النَّصِّ فِي النَّهْيِ عَنْ إسْمَاعِ صَوْتِهَا ؛ إذْ كَانَ إظْهَارُ الزِّينَةِ أَوْلَى بِالنَّهْيِ مِمَّا يُعْلَمُ بِهِ الزِّينَةُ ، فَإِذَا لَمْ يَجُزْ بِأَخْفَى الْوَجْهَيْنِ لَمْ يَجُزْ بِأَظْهَرِهِمَا ؛ وَهَذَا يَدُلُّ عَلَى صِحَّةِ الْقَوْلِ بِالْقِيَاسِ عَلَى الْمَعَانِي الَّتِي قَدْ عَلَّقَ الْأَحْكَامَ بِهَا ، وَقَدْ تَكُونُ تِلْكَ الْمَعَانِي تَارَةً جَلِيَّةً بِدَلَالَةِ فَحْوَى الْخِطَابِ عَلَيْهَا وَتَارَةً خَفِيَّةً يُحْتَاجُ إلَى الِاسْتِدْلَالِ عَلَيْهَا بِأُصُولٍ أُخَرَ سِوَاهَا .
وَفِيهِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ مَنْهِيَّةٌ عَنْ رَفْعِ صَوْتِهَا بِالْكَلَامِ بِحَيْثُ يَسْمَعُ ذَلِكَ الْأَجَانِبُ ؛ إذْ كَانَ صَوْتُهَا أَقْرَبَ إلَى الْفِتْنَةِ مِنْ صَوْتِ خَلْخَالِهَا ؛ وَلِذَلِكَ كَرِهَ أَصْحَابُنَا أَذَانَ النِّسَاءِ ؛ لِأَنَّهُ يُحْتَاجُ فِيهِ إلَى رَفْعِ الصَّوْتِ وَالْمَرْأَةُ مَنْهِيَّةٌ عَنْ ذَلِكَ ، وَهُوَ يَدُلُّ أَيْضًا عَلَى حَظْرِ النَّظَرِ إلَى وَجْهِهَا لِلشَّهْوَةِ ؛ إذْ كَانَ ذَلِكَ أَقْرَبَ إلَى الرِّيبَةِ وَأَوْلَى بِالْفِتْنَةِ."

 (احکام القرآن للجصاص، ج:3، ص:465، ط:مکتبة رشیدیة


فتاوی شامی میں ہے:

"وصوتها على الراجح وذراعيها على المرجوح.

(قوله: وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة ح (قوله: على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر وهو الذي ينبغي اعتماده. ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال عليه الصلاة والسلام: «التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء» فلايحسن أن يسمعها الرجل. اهـ. وفي الكافي: ولاتلبي جهرًا لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان بحر. قال في الفتح: وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجها، ولهذا منعها عليه الصلاة والسلام من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام بسهوه إلى التصفيق اهـ وأقره البرهان الحلبي في شرح المنية الكبير، وكذا في الإمداد؛ ثم نقل عن خط العلامة المقدسي: ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اهـ. قلت: ويشير إلى هذا تعبير النوازل بالنغمة." (1 / 406)


No comments:

Post a Comment