https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 6 August 2021

پروین کمار سے عبدالصمد تک کاسفر

 تقریباً 32 سالہ شخص ہائی وے پر پیدل چل رہا تھا۔۔۔ اس کے ہاتھ میں انڈیا کا پرچم اور ساتھ میں ایک ٹرالی بیگ بھی تھا۔ کبھی ہلکی پھُہار تو کبھی تیز بارش کے درمیان بھی اس کے قدم رک نہیں رہے تھے۔

گذشتہ دنوں یہ مناظر انڈین ریاست اترپردیش کے شہر میرٹھ اور انڈین دارالحکومت دلی کے درمیان کئی لوگوں نے جگہ جگہ دیکھے۔ لوگ تجسس میں تھے کہ آخر اس شخص کا مقصد کیا ہے؟

بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سماجی سطح پر زیادتی کا شکار ایک شخص ہے، جس کا نام ہے پروین کمار۔ پروین سے کچھ عرصہ قبل اترپردیش پولیس کے انسداد دہشت گردی کے محکمے کے اہلکاروں نے مذہب تبدیل کرنے کے معاملے میں پوچھ گچھ کی تھی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ پروین کا نام دلی میں واقع اسلامک دعویٰ سینٹر نامی ادارے میں مذہب تبدیل کرنے والے ایک شخص کے طور پر درج تھا، جس نے اسلام قبول کر کے اپنا نام پروین کمار سے بدل کر عبد الصمد رکھ لیا ہے۔

حالانکہ اہلکاروں نے ایک ہفتہ پوچھ گچھ کے بعد پروین کو کلین چٹ دے دی تھی اور انھیں گھر واپس بھیج دیا تھا لیکن اس کے بعد پروین کے ساتھ جو ہوا وہ حیران کن ہے۔

پروین کمار نے بتایا 'انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں نے مجھے کلین چٹ دے دی تھی اور میں 30 جون کو اپنے گھر واپس آ گیا تھا، لیکن گاؤں میں کئی لوگ میرے ساتھ عجیب سلوک کرنے لگے۔ میرے گھر کی دیوار پر دہشت گرد لکھ دیا گیا۔ ایک بار ایک کاغذ میرے گھر میں پھینکا گیا جس پر لکھا تھا کہ تم پاکستانی دہشتگرد ہو، پاکستان واپس چلے جاؤ۔'

سہارن پور پولیس نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پروین کو کلین چٹ دے دی گئی تھی۔

بی بی سی سے گفتگو میں سہارن پور ضلعے کے پولیس اہلکار بینو سنگھ نے بتایا 'انسداد دہشت گردی کے اہلکار پروین کو پوچھ تاچھ کے لیے لے گئے تھے۔ وہاں سے انھیں کلین چٹ دی گئی ہے۔ باقی تفصیلات اہلکاروں کے پاس ہیں۔ میری معلومات بس اتنی ہیں کہ انھیں کلین چٹ دے دی گئی ہے۔'

Shahbaz Anwar/BBC پروین کے بقول ان کی گھر کی دیوار پر دہشت گرد لکھ دیا گیا

انسداد دہشت گردی کی جانچ کی تفصیل

دراصل دلی میں واقع اسلامک دعویٰ سینٹر سے وابستہ عمر گوتم اور جہانگیر عالم پر جبری طور پر مذہب تبدیل کرانے کا الزام تھا۔ اہلکاروں کے مطابق جانچ میں معلوم ہوا کہ مذہب بدلنے والے افراد میں پروین کمار کا نام بھی شامل تھا۔

انھیں پروین کے نام کے ساتھ ایک سرٹیفیکیٹ بھی موصول ہوا جس پر ان کی تصویر بھی تھی۔ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس سرٹیفکیٹ میں درج تھا کہ پروین کمار نے مذہب تبدیل کر کے اپنا نام عبد الصمد رکھ لیا ہے۔

پروین کمار سے عبد الصمد بننے کا سفر

اس بارے میں پروین کہتے ہیں 'یہ سرٹیفیکیٹ میرا ہی تھا۔ میں ان دنوں ڈپریشن کا شکار تھا اور مجھے سکون چاہیے تھا۔ اس لیے میں 19 نومبر 2019 کو گھر چھوڑ کر نکل گیا تھا۔۔۔ میں نے اس بارے میں اپنے والدین کو بتایا نہ ہی اپنی اہلیہ کو۔۔۔ اور اپنا موبائل فون بھی بند کر دیا تھا۔'

انھوں نے بتایا 'مجھے انٹرنیٹ سے اسلامک دعویٰ سینٹر کا پتا ملا تھا اور میں دلی پہنچا تو ابتدائی چند روز وہیں رہا۔ وہاں قرآن سے لے کر ہندو وید کی کتابیں بھی رکھی ہوئی تھیں اور میں اپنی مرضی سے وہاں گیا تھا۔ دو روز بعد میری ملاقات عمر گوتم اور جہانگیر عالم سے ہوئی۔ میں نے کچھ کتابوں پر غور کیا اور پھر پروین کمار سے عبد الصمد بن گیا۔'

اس گفتگو کے دوران پروین کمار اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے وہاں گئے تھے، کسی نے انھیں وہاں بلایا نہیں تھا۔

اس درمیان وہ بار بار یہ بھی دہراتے ہیں کہ ان دنوں وہ ڈپریشن کا شکار تھے اور انھوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا تھا کسی نے انھیں کوئی لالچ دیا تھا نہ ہی ان کے ساتھ کسی قسم کی زبردستی کی گئی تھی۔

Shahbaz Anwar/BBC میرٹھ سے دو سو کلومیٹر دور عدالت عظمیٰ تک کا سفر پروین نے پیدل طے کیا

'مجھے انصاف چاہیے'

پروین کمار پیشے سے ٹیچر ہیں۔ انھوں نے انصاف کے مطالبے کے ساتھ سہارنپور سے 27 جولائی کو یہ سفر شروع کیا تھا جو گذشتہ اتوار یعنی ایک اگست کو ختم ہوا۔

اس پیدل سفر کو پروین نے 'سماجی انصاف کے سفر' کا نام دیا ہے۔ لیکن آخر ان کے ساتھ ناانصافی کیا ہوئی؟

اس بارے میں وہ کہتے ہیں 'انسداد دہشت گردی کے اہل کاروں نے پہلی مرتبہ مجھ سے 21 جون کو میرے گھر پر پوچھ تاچھ کی تھی۔ یہ اہلکار 24 جون تک میرے گھر پر ہی پوچھ تاچھ کرتے رہے۔ اس کے بعد مجھے لکھنؤ لے جایا گیا جہاں مجھ سے 29 جون تک پوچھ تاچھ ہوئی۔'

پروین نے آگے بتایا 'اہلکاروں نے مجھ سے بیرون ممالک سے آنے والی معاشی مدد اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے سے متعلق سوالات کیے، مجھ سے کئی گھنٹے تک پوچھ تاچھ کی جاتی تھی، لیکن بعد میں مجھے کلین چٹ دے کر واپس گھر بھیج دیا گیا۔'

گا ؤ ں میں پروین کے بارے میں افواہی ں پھیلنے لگیں

پروین کمار گھر تو لوٹ آئے لیکن یہاں سے ان کی مزید پریشانیاں شروع ہوئیں۔ بقول پروین کمار جس دن ان سے سوال جواب شروع ہوئے تھے، یعنی 21 جون، اسی دن سے گاؤں میں ان کے بارے میں افواہیں پھیلنے لگیں۔

پروین نے بتایا 'میں ایک قوم پرست شخص ہوں، شاعر ہوں، ٹیچر ہوں، مصنف بھی ہوں۔ لیکن 12 جولائی کی رات کو جب میرے گھر کی دیواروں پر دہشت گرد لکھ دیا گیا، پاکستان چلے جانے کی باتیں لکھ کر پرچہ میرے گھر میں پھینکا گیا تو میں بہت رویا۔ دل میں خیال آیا کہ خودکشی کر لوں۔'

ان کا کہنا تھا 'لیکن پھر میں نے سوچا کہ میں انصاف حاصل کروں گا۔۔۔ سماجی زیادتی کے خلاف انصاف۔ یہی سوچ کر میں نے 27 جولائی سے سماجی انصاف کا سفر شروع کیا تھا۔ ضلعی مجسڑیٹ کے دفتر میں اپنا خط سونپنے کے بعد میں 200 کلومیٹر دور واقع دلی کی سپریم کورٹ پہنچنے کے لیے وہاں سے پیدل ہی نکل پڑا اور اتوار کو میں دلی پہنچا۔'

'میں ان دنوں ڈپریشن کا شکار تھا'

پروین کمار نے اس روز کے بارے میں بتایا جب وہ نومبر 2019 میں اپنے گھر سے نکل پڑے تھے، 'میں جب گھر سے نکلا تو کافی پریشان تھا، مجھے سکون چاہیے تھا، اس کے بعد میں اسلامک دعویٰ سینٹر پہنچا۔ میں کچھ دن کاشی جا کر بھی رہا۔ میں اپنی مرضی سے عبدالصمد بنا۔'

ان کا کہنا تھا 'چند لوگوں نے میرا علاج کرایا تو میں ٹھیک بھی ہو گیا۔ جنوری 2020 کو جب میں گھر واپس آیا تو گھر والے مجھے دیکھ کر خوش ہو گئے۔ انھوں نے مجھ سے میرے لاپتہ ہونے کے بارے میں ہوچھا تو میں نے انھیں سچ بتا دیا۔'

پروین کمار کے عبد الصمد بننے کے بارے میں رشتہ داروں کو پتا چلا تو انھوں نے ناراضی کا اظہار کیا۔ پروین سے جب پوچھا جاتا ہے کہ اب وہ پروین کمار ہیں یا عبد الصمد تو وہ کہتے ہیں 'میں ان دنوں ڈپریشن میں تھا اور اب بھی جب بھی مجھے موقع ملتا ہے میں مراقبے میں جاتا ہوں۔ بس اب میں اور کیا کہہ سکتا ہوں۔'

جب انھیں کچھ واضح جواب دینے کے لیے کہا جاتا ہے تو پروین اس سے گریز کرتے ہیں۔

وہ بار بار دہراتے ہیں کہ وہ ان دنوں ڈپریشن میں تھے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اس ڈپریشن کی وجہ کیا تھی۔

گاؤں میں ان کے بھائی کی راشن کی دکان تھی۔ گاؤں والوں کو شک ہوا کہ ان کی وجہ سے کچھ لوگوں کے راشن کارڈ مسترد ہو گئے ہیں۔ یہیں سے رنجش شروع ہوئی اور پروین سمیت ان کے بھائی اور خاندان کے چند دیگر افراد کے خلاف پولیس رپورٹ درج کرا دی گئی۔

پروین نے بتایا 'ان لوگوں نے میرے بھائی پر جھوٹا الزام لگایا تھا۔ جس دوران جھگڑا ہوا، میں ہریدوار میں مقابلے کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ میں اس پورے معاملے میں سازش کا شکار ہو گیا۔'

پروین نے مقابلے کا امتحان تو پاس کر لیا لیکن انھیں بتایا گیا کہ پولیس رپورٹ میں ان کا نام درج ہونے کے سبب انھیں سرکاری نوکری تب تک نہیں مل پائے گی جب تک اس معاملے سے ان کا نام صاف نہیں ہو جاتا۔

پروین نے کہا 'میں نے 2020 میں مقابلے کا امتحان پاس کیا تھا۔ بہت طویل عرصے کی سخت محنت کے بعد مجھے یہ کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ لیکن اتنی محنت کے باوجود میں کامیاب نہیں ہو سکا کیوں کہ میرے خلاف مقدمہ چل رہا تھا۔'

پروین گاؤں کے کچھ لوگوں کو لے کر ان افراد کے پاس گئے جنھوں نے ان کے خلاف یہ معاملہ درج کرایا تھا۔ لیکن ان لوگوں نے معاملہ ختم کرنے سے انکار کر دیا۔

پروین اور ان کے خاندان کے خلاف معاملہ درج کروانے والوں میں گاؤں کے نریندر تاراچند بھی شامل ہیں۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ابھی تک اس کیس کو لڑ رہے ہیں۔

پروین نے بتایا 'میں اسی دن سے ڈپریشن کی زد میں آگیا۔ مجھے لگنے لگا کہ میں جتنی بھی محنت کر لوں، کامیاب نہیں ہو سکوں گا۔ تبھی سے مجھے سکون کی تلاش رہنے لگی تھی۔'

پروین 'یوگی' اور 'مودی' پر کتابیں بھی لکھ چکے ہیں

پروین کہتے ہیں 'میرے اندر قوم پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ میں جس وقت مقابلے کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا، انھی دنوں چوہدری کلیرام کالج میں پڑھا بھی رہا تھا۔ میں مصنف ہوں، میں نے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے 2016 میں 'نمو گاتھا' اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر مختلف کتتابیں شائع کروائیں ہیں۔ دو مزید کتابیں لکھی ہیں، لیکن ابھی ان کا نام نہیں بتا سکتا۔'

ان دنوں پروین ایک شوگر مل میں کین ڈیولیپمنٹ سُپروائزر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

گاؤں کے لوگوں کے پروین کے بارے میں خیالات

پروین کے بارے میں ان کے گاؤں کے دوست اور ساتھ میں کالج میں پڑھانے والے دیگر ٹیچرز اچھے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

ان کے ایک ساتھی ہیمانشو نے بی بی سی کو بتایا 'پروین اور میں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کا مزاج بہت اچھا ہے۔ ہم دونوں نے مقابلے کا امتحان ساتھ دیا تھا، پروین پاس ہو گیا اور میں رہ گیا۔ پروین کچھ عرصے کے لیے گھر سے لاپتہ ہو گیا تھا۔ جب انسداد دہشت گردی کی ٹیم اس کے گھر تفتیش کے لیے پہنچی تو ہمیں بہت حیرانی ہوئی۔ پروین مجھ سے ہمیشہ اپنی پڑھائی لکھائی کے بارے میں ہی بات کرتا تھا۔'

ایک اور دوست جانی نے بھی بتایا کہ پروین سماجی زیادتیوں کی وجہ سے بہت پریشان ہے۔

انھوں نے کہا 'گذشتہ کچھ عرصے میں میری پروین سے زیادہ ملاقات نہیں ہو سکی۔ ہم دونوں نے ساتھ بی اے کیا تھا۔ پروین نے ہمیشہ گاؤں کا نام روشن کیا ہے۔ میں ان کا ہمسایہ بھی ہوں۔'

جانی کے خیال میں پروین کا انصاف کے لیے کیا جانے والا پیدل سفر صحیح قدم ہے۔

پروین کے ایک اور ساتھی پورن سنگھ نے بتایا 'ہم نے پروین کے اس سفر کے بارے میں خبروں میں ہی دیکھا ہے۔ قریب دو برس قبل پروین ہمارے ساتھ پڑھاتے تھے۔ انھوں نے امتحان پاس کیا تھا۔ وہ ایک مختلف شخصیت کے مالک اور بہت ہونہار شخص ہیں۔ ان کے ذاتی معاملات کے بارے میں میری ان سے کبھی بات نہیں ہوئی۔ ان کا ایک ہی خواب تھا کہ انھیں مقابلے کا امتحان پاس کرنا ہے۔'

پروین کے گاؤں کے پردھان کا کہنا ہے کہ گاؤں میں کسی کو پروین سے کوئی شکایت نہیں۔ اس کے علاوہ ان کا دعویٰ ہے کہ انھیں پروین کے گھر کی دیوار پر دہشت گرد لکھے جانے یا ان کے گھر میں کچھ لکھ کر پھینکے جانے کے بارے میں کوئی علم نہیں۔

انھوں نے کہا 'گاؤں میں کسی کی پروین سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ ویسے اگر اس کے ساتھ کچھ ہوا، اس بارے میں انھیں پہلے گاؤں کے چند ذمہ دار لوگوں کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کرنا چاہیے تھا۔'

پروین کمار کا خاندان میڈیا کے سوالات سے پریشان ہے اور کچھ کہنا نہیں چاہتا۔

پروین کے مطابق انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں کی پوچھ گچھ کے بعد سے آئے دن ان کے گاؤں میں میڈیا کے آنے اور ان کے سوالات سے ان کا خاندان بہت پریشان ہو چکا ہے۔ ان کے والد کاشتکار ہیں۔ ان کے علاوہ پروین کی اہلیہ اور دو بچے بھی ہیں۔ ایک بھائی اور بہن بھی ہیں جن کی شادی ہو چکی ہے۔

ان کے والد گاؤں کے پردھان رہ چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔ جب دیوار پر دہشت گرد لکھا گیا تو اسے صاف کرانے والے وہی تھے۔

پروین کمار کا انصاف کے لیے پیدل سفر یکم اگست کو دلی میں واقع عدالت عظمیٰ پہنچ کر ختم ہو گیا۔

وہ کہتے ہیں 'میں نے سماجی زیادتی سے تنگ آ کر یہ پیدل سفر شروع کیا تھا۔ میں جلد ہی سپریم کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کروں گا تاکہ کوئی اور اس قسم کی زیادتی کا شکار نہ ہو۔ ان کے ساتھ ناانصافی یا زیادتی نہ ہو۔'

(بی بی سی سے ماخوذ)

2 comments: