https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 5 August 2021

کیاہرشخص درس قرآن دے سکتا ہے

 قرآنِ کریم کا درس دینے کا مطلب قرآن کریم کا ترجمہ اور اس کی تفسیر کرنا، اور علمِ تفسیر اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآن کریم کے معانی کو بیان کیا جائے،  اس کے احکام کی حکمتوں کو کھول کر واضح کیا جائے،  نیز مرادِ خداوندی کو متعین کیا جائے۔اس کی ترجمانی اور تفصیل وتوضیح کے لیے ایسی لیاقت اور اہلیت درکار ہے جو اس کلام کی عظمت کے شایانِ شان ہو، ورنہ معمولی لغزش غلط ترجمانی کا مرتکب بناکر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والوں میں شمار کروا دے گی اور اس میں رائے زنی کرنے والا احادیث میں وارد وعیدوں کا مستحق ہو گا۔

حدیث شریف میں آتا ہے:

مشكاة المصابيح (1/ 79):
"وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قال في القرآن برأيه فليتبوأ مقعده من النار».

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنی رائے سے قرآن میں کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنائے۔

لہذا قرآن کریم کے درس کو اتنا آسان اور سہل قرار دینا کہ ہر کس و نا کس اس کو بیان کرنا شروع کر دے، درست نہیں، بلکہ اس کے لیے علوم کا ذخیرہ حاصل کرنا اور اس پر پوری دسترس کا ہونا ضروری ہے۔جمہور علماءِ امت کی رائے کے مطابق تفسیرِ قرآن بیان کرنا صرف مطلوبہ استعداد اور صلاحیت کے حامل شخص کے لیے ہی جائز ہے اور یہ صلاحیت تقریباً پندرہ علوم حاصل کرنے کے بعد ہی حاصل ہو سکتی ہے، جن میں لغت، صرف، نحو، اشتقاق،  معانی، بیان، بدیع، قراء ات، اصول الدین، اصول فقہ، فقہ، حدیث، علمِ اسبابِ نزول، علمِ ناسخ ومنسوخ اور نورِ بصیرت ووہبی علم وغیرہ شامل ہیں۔

حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ  نے ”الاتقان فی علوم القرآن“ میں امام ابوطالب الطبری کے حوالہ سے مفسر کے آداب کے ضمن میں مفسر کے لیے ضروری شرائط کا تذکرہ یوں فرمایا ہے:

الإتقان في علوم القرآن (4/ 200):
"وقال الإمام أبو طالب الطبري في أوائل تفسيره: القول في أدوات المفسر: اعلم أن من شرطه صحة الاعتقاد أولاً، ولزوم سنة الدين، فإن من كان مغموصاً عليه في دينه لا يؤتمن على الدنيا فكيف على الدين، ثم لا يؤتمن من الدين على الإخبار عن عالم، فكيف يؤتمن في الإخبار عن أسرار الله تعالى؛ ولأنه لا يؤمن إن كان متهماً بالإلحاد أن يبغي الفتنة ويغر الناس بليه وخداعه".

یعنی جاننا چاہیے  کہ مفسر کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پہلے تو اس کا عقیدہ صحیح ہو، دوسرے وہ سنتِ دین کا پابند ہو، کیوں کہ جو شخص دین میں مخدوش ہو، کسی دنیوی معاملہ میں بھی اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا تو دین کے معاملے میں اس پر کیا اعتماد کیا جائے گا، پھر ایسا شخص اگر کسی عالم سے دین کے بارے میں کوئی بات نقل کرے، اس میں بھی وہ لائق اعتماد نہیں تو اسرارِ الٰہی کی خبر دینے میں کس طرح لائق اعتماد ہوگا، نیز ایسے شخص پر اگر الحاد کی تہمت ہو تو اس کے بارے میں یہ اندیشہ ہے کہ وہ تفسیر بیانی کے ذریعہ فتنہ کھڑا کردے اور لوگوں کو اپنی چرب زبانی ومکاری سے گم راہ کرے۔

مذکورہ تفصیل سے یہ بات بخوبی واضح ہو گئی کہ درسِ قرآن کا اہل ہر شخص نہیں ہے، بلکہ مطلوبہ استعداد کا حامل شخص ہی درسِ قرآن  اور قرآن کی تفسیر بیان کر سکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment