https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 29 March 2022

فضائل میں ضعیف حدیث قبول کرنے کے شرائط

فضائل میں بعض محدثین نے ضعیف روایات کو قبول کیا ہے۔ ان میں حافظ ابن حجر، امام نووی وغیرہ قابل ذکر ہیں اور جن محدثین نے فضائل میں ضعیف احادیث کو قبول کیا ہے انہوں نے بھی اس کی چند شرائط مرتب کی ہیں۔ اگر ضعیف حدیث ان شرائط پر پوری اترے گی تو وہ ضعیف حدیث فضائل میں قابل قبول ہوگی ورنہ اسے رد کر دیا جائے گا۔ وہ شرائط ملاحظہ ہوں: 1 ﴿ان یکون الضعف غیر شدید فیخرج من الفرد من الکذابین، ولمھمین بالکذب،، ومن فحش غلطہ (وقد نقل السخاوی الاتفاق علی ھذا الشرط) ﴾ ترجمہ: (اس کا ضعف شدید نہ ہو، یعنی اس میں منفرد کاذبین، متھم بالکذب اور فحش غلطیاں کرنے والے نہ ہوں ( امام سخاوی نے اس شرط پر محدثیں کا اتفاق لکھا ہے۔)) 2 ﴿ان یکون الضعیف مردجا تحت اصل عام فیخرج ما یخترع بحیث لا یکون لہ اصل معمول بہ اصلاً﴾ ترجمہ: (وہ حدیث کسی معمول بہ اور ثابت شدہ اصل کے ضمن میں آتی ہو اس سے اختراع خارج ہو جائی گی جن کی کوئی اصل نہیں۔) 3 ﴿ان لا یعتقد عند العمل بہ ثبوتہ لئلا ینسب الی النبی ﷺ بل یعتقد الاحتیاط﴾ ترجمہ: (عمل کرتے ہوئے اس پر نبی ﷺ کی سنت ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے بلکہ احتیاط کی نیت سے عمل کیا جائے۔) (تیسر مصطلح الحدیث ص۸۱) 4 ﴿ان لا یعارض حدیثا صحیحا﴾ ترجمہ: (کسی صحیح حدیث کی متعرض نہ ہو۔) اس کے علاوہ حافظ ابن حجر a نے ایک اور شرط بیان کی ہے: 5 ﴿ان لا یشنھر ذلک لئلا یعمل المرء بحدیث ضعیف فیرع ما لیس یشرع، او یراہ بعض الجھال فظن انہ سنة صحیحة﴾(الحدیث الضعیف، وحکم الاحتجاج ص۲۷۳،۲۷۴) ترجمہ: (اس کو مشہور نہ کیا جائے یہاں تک کہ لوگ اس کو شریعت سمجھ کر اس پر عمل کریں ، حالانکہ وہ شریعت نہیں ہے اور بعض جاہل یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ یہ سنت صحیح ہے۔ ) ان شرائط میں سے پہلی شرط پر محدثین کا اتفاق ہے کہ اس میں ضعف شدید نہ ہو، اور دوسری شرط یہ ہے کہ وہ ضعیف حدیث کسی ایسی صحیح حدیث کے تحت آتی ہو یعنی کوئی ایسا عمل جو صحیح حدیث سے ثابت ہو اور اس عمل کی ترغیب دینے کے لیے اس بارے میں ضعیف حدیث کو بیان کیا جائے مگر بعض لوگوں نے اس ضعیف حدیث میں اس عمل کے بارے میں جو تفصیلی حکم موجود ہے اس کو بھی بیان کرنا شروع کر دیا اور اس کی مثال امام شاطبی نے اعتصام میں بیان کی کہ: ﴿اذا جاء ترغیب فی صلاة لیلة النصف من شعبان فقد عضدہ اصل الترغیب فی صلاة النافلة وما اثبہ تلک ولیس کما توھموا لان الاصل اذا ثبت لا یلزم اثباتہ فی التفصیل حتی یثبت التفصیل بلیل صحیح ثم ینظر بعد ذلک فی احادیث الترغیب الترھیب بالنسبة الی ذلک العمل الخاص بالدلیل الصحیح﴾ (اعتصام ، جلد۱، ص ۱۸۱) ترجمہ: (پندرھویں شعبان کی رات میں نماز کی ترغیب کے بارے میں جو موجود ہے اس میں شک نہیں کہ اس کی اصل بنیاد نوافل کی ترغیب کے بارے میں ہے اور اس کی اصل بنیاد (نوافل کی ترغیب) تو ثابت ہے۔ مگر یہ لازم نہیں ہے کہ اس میں جو تفصیل (شعبان کی رات میں شب بیداری ) بیان ہوئی ہے وہ بھی ثابت ہو جیسا کہ بعض کو اس سے وہم ہوا ہے۔ کیونکہ تفصیل دلیل صحیح سے ثابت ہوتی ہے ، پھر یہی دیکھا جاتا ہے کہ احادیث ترغیب و ترھیب میں جو خاص عمل بیان کیا گیا ہے اس پر کوئی دلیل صحیح موجود ہے۔) امام شاطبی کے قول سے یہی بات واضح ہے کہ فضائل میں فقط ان احادیث کا بیان کرنا صحیح ہے جس میں کسی ایسے عمل کی ترغیب ہو جو صحیح حدیث سے ثابت ہو مگر اس ضعیف حدیث میں جو تفصیل بیان ہوئی ہے اس کو بیان نہ کیا جائے۔ کیونکہ ضعیف حدیث میں جو تفصیل بیان ہوئی ہے وہ اگر دلیل صحیح سے ثابت ہوگی تو اس کو قبول کیا جائے گا۔ اس کے بعد اگر ہم تیسری شرط پر غور کریں تو اس میں یہ موجود ہے کہ اس پر عمل سنت سمجھ کے نہ کیا جائے۔

1 comment: