https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 28 March 2022

ناخن کاٹنے کا مستحب طریقہ

صحیح یہی ہے کہ ناخن کاٹنے کا کوئی طریقہ سنت سے ثابت نہیں ہے۔ البتہ مستحب یہ ہے کہ پہلے دائیں ہاتھ کے ناخن کاٹے جائیں پھر بائیں ہاتھ کے۔اور دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے شروع کرنا چاہیے۔ جہاں تک بات ہے کہ دائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر ختم کرنے کی، تو علامہ نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ دائیں ہاتھ کے مکمل ناخن پہلے کاٹنے چاہییں، پھر بائیں ہاتھ کے مکمل ناخن۔ حافظ ابن حجر، ابن دقیق العید، علامہ سیوطی اور علامہ ابن عابدین رحمہم اللہ جیسے محققین نے یہی لکھا ہے کہ ناخن کاٹنے کا سنت طریقہ ثابت نہیں ہے، لہٰذا کسی طریقے سے بھی کاٹ سکتے ہیں، تاہم بہتر طریقہ وہ ہے جو اوپر لکھا گیا۔ قال الحصکفي: "وفي شرح الغزاویة: روي أنه صلی اللّٰة علیه وسلم بدأ بمسبحته الیمنی إلی الخنصر، ثم بخنصر الیسری إلی الإبهام، وختم بإبهام الیمنی. و ذکر له الغزالي في الإحیاء وجهاً وجیهاً ... قلتُ: وفي المواهب اللدنیة: قال الحافظ ابن حجر: إنه یستحب کیفما احتاج إلیه، ولم یثبت في کیفیته شيء، ولا في تعیین یوم له عن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم". قال ابن عابدین: "(قوله: قلتُ الخ) وکذا قال السیوطي، وقد أنکر الإمام ابن دقیق العید جمیع هذه الأبیات، وقال: لا تعتبر هیئة مخصوصة، وهذا لا أصل له في الشریعة، ولایجوز اعتقاد استحبابه؛ لأن الاستحباب حکم شرعي لا بد له من دلیل". (الدر المختار مع رد المحتار: ۶/۴۰۶، کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، ط: دار الفکر، بیروت) "قال النووي: ویستحب أن یبدأ بالید الیمنی، ثم الیسری، ثم الرجل الیمنی، ثم الیسری. قال الغزالی في الإحیاء: یبدأ بمسبحة الیمنی، ثم الوسطی، ثم البنصر، ثم الخنصر، ثم خنصر الیسری إلی إبهام الیمنی، وذکر فیه حدیثاً وکلاماً لا أوثر ذکره، والمقصود أن الذي ذکره الغزالي لابأس به إلا في تاخیر إبهام الیمنی، فلا یقبل قوله فیه؛ بل یقدم الیمنی بکمالها، ثم یشرع في الیسری، وأما الحدیث الذي ذکره، فباطل لا أصل له". (المجموع شرح المهذب: ۱/۲۸۳، ط: دار الفکر، بیروت)

1 comment: