Authentic Islamic authority, seek here knowledge in the light of the Holy Quran and Sunnah, moreover, free PDFs of Fiqh, Hadith, Indo_Islamic topics, facts about NRC, CAA, NPR, other current topics By الدکتور المفتی القاضی محمد عامر الصمدانی القاسمی الحنفی السنجاری بن مولانا رحیم خان المعروف بر حیم بخش بن الحاج چندر خان بن شیر خان بن گل خان بن بیرم خان المعروف بیر خان بن فتح خان بن عبدالصمد المعروف بصمدخان
https://follow.it/amir-samdani?action=followPub
Saturday, 10 June 2023
قیمت سے زیادہ کابل بنانا
کسی کمپنی یا شخص کا ملازم جو کمپنی یا شخص کے لیے کوئی چیز خریدتا ہے تو اس ملازم کی حیثیت وکیل کی ہوتی ہے، اور وکالت کی بنیاد امانت پر ہوتی ہے، چنانچہ وکیل اپنے موکل کے لیے جو چیز جتنے روپے کی خریدے گا اتنے ہی پیسے اپنے موکل سے لے سکتا ہے، اس سے زیادہ پیسے بتاکر لینا جھوٹ اور خیانت پر مبنی ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، ملازم کو تو اپنے کام کی تنخواہ ملتی ہے، اس لیے اس کا تو ویسے بھی کمیشن یا اجرت لینے کا کوئی حق نہیں بنتا ہے، لیکن اگر اسے اپنی تنخواہ کم لگتی ہو تو وہ مالک سے پہلے سے طے کرلے کہ میں اگر باہر سے یہ سامان لینے جاؤں گا تو اتنا کرایہ یا اجرت لوں گا، ایسا کرنا جائز ہے، لیکن بغیر کچھ طے کیے زیادہ بل بنواکر دھوکے اور جھوٹ کے ذریعہ سے زیادہ پیسے وصول کرنا جائز نہیں ہے اوردوکان دار کا زیادہ کا بل بناکر دینا بھی ناجائز ہے۔
چوں کہ ملازم کا زیادہ بل بنواکر زیادہ پیسے لینا ناجائز اور گناہ کا کام ہے، اس لیے دکان دار کا اس کے لیے اصل بل سے زیادہ کا بل بناکر اس کو دینا بھی ناجائز اور گناہ کا کام ہے، کیوں کہ یہ گناہ کے کام میں معاونت ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ اگر دکان دار اصل مقدار سے زیادہ پیسوں کا بل بناکر ملازم کو دیتا ہے تو اس سے اس کی کمائی تو حرام نہیں ہوگی، لیکن چوں کہ یہ گناہ کے کام میں معاونت ہے، اس لیے ایسا کرنے سے دکان دار گناہ گار بھی ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے یہاں جواب دہ بھی ہوگا، لہٰذا اسے اس طرح کے کاموں سے بچنا چاہیے۔
درر الحکام في شرح مجلة الأحکاممیں ہے:
"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ... لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة". (الکتاب الحادي عشر: الوکالة، الباب الثالث، الفصل الأول، المادة:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment