دوسروں کے قصور اور ان کی غلطیاں معاف کر دینا یہ خدا کی صفت ہے۔ یہی صفت خدا اپنے بندوں میں بھی پسندکرتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اہلِ ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے یوں ذکر کیا ہے کہ ’’پس معاف کردو اور درگزر کرو کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے، اور اللہ تو بخشنے والا رحم کرنے والا ہے‘‘۔ (النور:22)، آیت مبارکہ میں اللہ نے دوسروں کے قصور معاف کر دینے پر ابھارا ہے اور اس کیلئے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ معاف کر دینے والے کو اللہ بھی معاف کر دیتا ہے۔ اس کی مزید وضاحت نبی کریمﷺ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے کہ’’تم مخلوق پر رحم کرو تو تم پر رحم کیا جائے گا اور تم لوگوں کو معاف کر دو اللہ تمہیں معاف کر دے گا‘‘۔ (مسند احمد:7041)، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ قرآنِ مجید میں مومنوں کو انفاق پر ابھارا گیا ہے اور انفاق کرنے والوں سے کئی گنا کرکے واپس لوٹانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اب جو جتنا لوگوں کو معاف کرے گا اتنا ہی اللہ تعالیٰ اسے بھی معاف کریں گے۔
اللہ تعالیٰ کے اسما الحسنی میں سے ایک نام ’’العفو‘‘ ہے، اس کا مطلب ہے درگزر کرنے والا اور یہ صفت خدا کی مخلوق میں سے جس میں بھی ہوگی اللہ تعالیٰ اسے پسند کرتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’(وہ) لوگوں کو معاف کردینے والے (ہوتے ہیں۔) اور اللہ محسنین کو پسند کرتا ہے‘‘۔ (آلِ عمران: 134)۔اوپر خدا کی جس صفت العفو کا ذکر ہوا وہی الفاظ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہلِ ایمان کیلئے ذکر کیے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو دوسروں کے قصور اور غلطیاں معاف کر دینے والے بہت پسند ہیں۔ جب خدا اپنی تمام تر عظمت و جلال کے باوجود انسانوں کو معاف کر دیتا ہے۔ ہر وہ شخص جو خدا سے اپنے گناہوں کی معافی کا طلب گار ہے اُسے چاہیے کہ پہلے خود دسروں کو معاف کرے کہ جو معاف کرے گا، وہ معاف کر دیا جائے گا۔
معاف کرنا سنت ِ رسول ﷺ
نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی عفو و درگزر، رحم و کرم، محبت و شفقت سے عبارت ہے اور اس کی گواہی خود قرآن نے اور آپ ﷺ کے ساتھیوں نے دی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر آپ ﷺ کے اخلاق کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کی عنایت اور رحمت سے آپﷺ ان کے لیے نرم خو ہیں، اگر آپﷺ کج خلق اور سخت مزاج ہوتے تو یہ (لوگ جو آپ کے گرد جمع ہوئے ہیں) آپﷺ کے پاس سے ہٹ جاتے۔ (آلِ عمران: 159)، ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا ’’تم میں سے ایک رسول آیا ہے جس پر تمہاری تکلیف بہت شاق گزرتی ہے، وہ تمہاری بھلائی کا خواہاں ہے اور ایمان والوں پر نہایت شفیق اور مہربان ہے۔ (التوبہ:128)
اُم المومنین حضرت عا ئشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ ’’آپ ﷺ نے کبھی کسی غلام، لونڈی، عورت، بچہ یا خادم کو نہیں مارا، سوائے جہاد فی سبیل اللہ کے اور کبھی آپﷺ نے اپنی ذات کیلئے کسی سے انتقام نہیں لیا لیکن اگر کوئی حدود اللہ کی بے حرمتی کرتا تو نبی کریم ﷺاسے برداشت نہیں کرتے اور اللہ کے لیے اس کا انتقام لیتے۔ (مسلم: 2328)
آپ ﷺ نے مکہ والوں کو معاف کردیا، طائف والوں کو معاف کردیا، حضرت عائشہ صدیقہؓ پر جھوٹا الزام لگانے والوں کو معاف کردیا۔ ’’بلاشبہ رسول اللہﷺ کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے‘‘۔ (الاحزاب)
اگر کوئی اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور زیادتی کا بدلہ لینا چاہے تو شریعت نے اس کی بھی اجازت دی ہے۔ لیکن وہ بدلہ بھی اتنا ہی ہونا چاہے جتنا ظلم کیا گیا ہو۔ البتہ اس بدلے کو بھی قرآن نے ایک طرح سے برائی ہی کہا ہے۔ اس کے برعکس جو معاف کردینے کو ترجیح دیتا ہے اسے اللہ تعالیٰ نے اصلاح کرنے والا قرار دیا ہے اور اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’برائی کا اسی مقدار میں برائی سے بدلہ دیا جائے لیکن جو معاف کر دے اور اصلاح کر لے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے‘‘ (الشوری:40)۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا ’’جب بندہ حساب کیلئے میدان حشر میں کھڑا ہوگا تو ایک منادی آواز دے گا جس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے وہ کھڑا ہو جائے اور جنت میں داخل ہو جائے، کوئی کھڑا نہ ہوگا پھر دوبارہ اعلان کیا جائے گا،فرشتہ کہے گا یہ وہ افراد ہیں جو لوگوں کو معاف کرتے تھے پس ایسے ہزاروں لوگ کھڑے ہو جائیں گے اوربغیر حساب کے جنت میں داخل ہو جائیں گے‘‘ (طبرانی:55)۔
ابو ہریرہؓ ایک حدیث روایت کرتے ہیں جس میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایاکہ ’’حضرت موسیؑ نے رب سے پوچھا آپ کے بندوں میں سے آپ کے نزدیک سب سے معزز کون ہیں تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا جو بدلے کی طاقت رکھنے کے باوجود معاف کر دے‘‘۔ (شعب الایمان: 7974)
معاف کرنا عزت میں اضافے کا باعث
اگر کوئی کسی کو معاف کر دیتا ہے تو یقینا ً اس سے ضائع شدہ حقوق واپس نہیں آتے لیکن دلوں سے نفرت، کینہ، بغض اور دشمنی کے جذبات ختم ہو جاتے ہیں۔ انتقام لینے کا جذبہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے، باہمی تعلقات میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔
ایک دوسرے کو معاف کر دینے کا عمل ہی دراصل تمام افرادِ معاشرہ کو درپیش انفرادی و اجتماعی مسائل کے حل کا واحد راستہ ہے۔معافی کی صفت اپنانے سے انسان خود بھی پرسکون، چین و اطمینان میں رہتا ہے اور معاشرے میں بھی ایک دوسرے کو معاف کر دینے کا رجحان پروان چڑھتا ہے۔ جو طاقت رکھنے کے باوجود لوگوں کی زیادتیوں و مظالم کو معاف کر دے تو اللہ تعالی اس کی عزت میں اضافہ کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’معاف کرنے والے کی اللہ عزت بڑھا دیتے ہیں۔ (مسلم:2588)،
No comments:
Post a Comment